تاریخ: 4 اپریل 2025 5 شوال 1446 ھ ق کو نماز جمعہ کے خطبے۔
خطبے کا موضوع: اختلاف اور تفرقے کے اسباب (تسلسل)
پچھلے خطبے میں ہم نے اختلاف اور تفرقے کے دو اسباب (1) سخن چینی اور (2) لوگوں کے راز تلاش کرنا اور عیب جوئی کی وضاحت کی تھی۔ آج ہم تیسرے سبب پر گفتگو کریں گے:
---
3۔ بے جا تعصب
"عصبہ" کا مطلب ہے وہ قوم اور رشتہ دار جن کی آدمی شدت سے حمایت کرتا ہے۔
"تعصب" کا مطلب ہے کسی نظریے یا عقیدے پر سختی سے جمے رہنا اور حق کے سامنے جھکنے سے انکار کرنا۔
"عصبیت" کا مطلب ہے غیر ضروری طور پر اپنی جماعت، خاندان، قوم یا فرقے کی حمایت کرنا، چاہے وہ حق پر ہوں یا نہ ہوں۔
📖 (فرہنگ جدید، محمد بندر ریگی، ص 364)
کیا اپنے اقوام و رشتہ داروں سے محبت کرنا تعصب ہے؟
کسی کو اپنے خاندان اور قوم سے محبت ہونا ایک فطری امر ہے، اور اس میں کوئی برائی نہیں، جب تک کہ یہ ناانصافی یا حق تلفی کا سبب نہ بنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:
أمن العصبیة ان یحبّ الرجل قومه؟
قال: لا وَلَکِنْ مِنَ العَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ
"یا رسول اللہ! کیا اپنے قوم سے محبت کرنا تعصب میں شمار ہوتا ہے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"نہیں! لیکن تعصب یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کی حمایت ظلم کرنے میں بھی کرے۔"
📖 (سنن ابن ماجہ، ج 2، ص 1320)
امام زین العابدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ
"تعصب کیا ہے؟"
آپؑ نے فرمایا:
العَصَبِيَّةُ الّتي يَأثَمُ عَلَيها صاحِبُها أن يَرَى الرَّجُلُ شِرارَ قَومِهِ خَيرا مِن خِيارِ قَومٍ آخَرينَ ،و لَيسَ مِنَ العَصَبِيَّةِ أن يُحِبَّ الرَّجُلُ قَومَهُ، و لکِن مِنَ العَصَبِيَّةِ أن يُعينَ قَومَهُ عَلَى الظُّلمِ
"وہ تعصب جو گناہ ہے، یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کے برے لوگوں کو کسی دوسری قوم کے اچھے لوگوں سے بہتر سمجھے۔ لیکن اگر کوئی اپنی قوم سے محبت کرے، تو یہ تعصب نہیں۔ ہاں! اگر کوئی اپنی قوم کو ظلم پر مدد دے، تو یہ تعصب ہے۔"
📖 (الکافی، ج 2، ص 308)
---
تعصب کے دو تاریخی واقعات
1۔ فارسی اور عربی تعصب کا ٹکراؤ
ابو عقبہ، جو کہ فارسی النسل تھے، جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔
جب انہوں نے ایک مشرک پر وار کیا تو فخریہ کہا:
"خذها و انا الغلام الفارسی"
"(یہ ضربت لے، میں ایک فارسی نوجوان ہوں!)"
یہ جملہ اور واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں دھرایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا:
"آپ نے اس کے بجائے اس طرح کیوں نہیں کہا: خذها منّی و انا الغلام الانصاری!"
"(یہ ضربت لے، میں ایک انصاری نوجوان ہوں!)"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً اسے تنبیہ فرمائی، کیونکہ اس طرح کی باتیں دوسروں کے تعصب کو بھڑکا سکتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تعلیم دی، کہ نسل اور قوم پرستی پر فخر کرنے کے بجائے، دین اور اخلاق پر فخر کیا جائے۔
📖 (مسند احمد، ج 5، ص 295)
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعصب کے بارے میں فرمان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:أيُّها الناسُ! إنّالعَرَبيَّةَ لَيسَت بِأبٍ والِدٍ، و إنّما هُو لِسانٌ ناطِقٌ، فمَن تَکَلَّمَ بهِ فهُو عَرَبيٌّ، ألا إنَّکُم وُلدُ آدَمَ و آدَمُ مِن تُرابٍ، و أکرَمُکُم عِندَ اللّه ِ أتقاکُم۔
"اے لوگو! عربی ہونا کسی کے ماں باپ سے وابستہ نہیں، بلکہ عربی وہی ہے جو عربی زبان بولتا ہے۔ جان لو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔ تم میں سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔"
📖 (سنن ابی داؤد، ج 2، ص 503)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا:لَيسَ مِنّا مَن دَعا إلى عَصَبِيَّةٍ و لَيسَ مِنّا مَن قاتَلَ (عَلى) عَصَبِيَّةٍ، و لَيسَ مِنّا مَن ماتَ عَلى عَصَبِيَّةٍ
"وہ شخص ہم میں سے نہیں جو تعصب کی دعوت دے، وہ ہم میں سے نہیں جو تعصب کی بنیاد پر جنگ کرے، اور وہ ہم میں سے نہیں جو تعصب کی بنیاد پر مرے۔"
📖 (سنن ابی داؤد، ج 2، ص 503)
---
نتیجہ
تعصب ایک ایسا زہر ہے جو امت میں اختلاف اور تفرقے کو جنم دیتا ہے۔ اسلام میں کسی بھی نسل، قوم یا قبیلے کی برتری نہیں، بلکہ عزت و شرف کا معیار تقویٰ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی قوم، زبان اور نسل سے محبت ضرور کریں، لیکن کبھی بھی کسی غلط چیز پر اپنی برادری یا قبیلے کی حمایت نہ کریں۔ یہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے۔
دوسرا خطبہ
تاریخ: 4 اپریل 2025
اختلاف اور تفرقے کے اسباب (تسلسل)
4۔ بے جا جھگڑا، بحث و مباحثہ اور لڑائی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الأَلَدُّ الْخَصِمُ"
"اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ آدمی وہ ہے جو جھگڑالو اور تکرار کرنے والا ہو۔"
📖 (شرح کافی، ج 5، ص 94)
جھگڑے کی تین اقسام
1. جدال: سب سے سخت اور شدت سے کی جانے والی مخالفت اور مناظرے کو کہا جاتا ہے۔
2. خصومت: کسی غلط دلیل کے ذریعے کسی چیز یا شخص کی بے جا حمایت کرنا۔
📖 (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج 1، ص 122)
3. مراء: دینی اور دنیاوی امور میں جھگڑنا، جو حرام ہے۔ اس میں اعتراض شامل ہوتا ہے، جب کہ جدال اعتراض کے ساتھ یا بغیر بھی ہو سکتا ہے۔
📖 (من لا یحضره الفقیہ، ج 2، ص 187)
امام غزالی فرماتے ہیں:
"ہر وہ بات جس میں کسی دوسرے سے اختلاف ہو، مراء (بے جا بحث) کہلاتی ہے، جیسے کوئی کہے: یہ چیز میٹھی ہے اور دوسرا کہے: نہیں، یہ کھٹی ہے۔"
📖 (شرح کافی، ج 9، ص 306)
---
بے جا جھگڑے کی مذمت
حضرت سلیمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئےفرمایا:
"یا بُنَیَّ! اِیَّاکَ وَالمِراءَ، فَاِنَّهُ لَیسَ فِیهِ مَنفَعَةٌ، وَهُوَ یُهِیجُ بَینَ الاِخوَانِ العَدَاوَةَ۔"
"اے میرے بیٹے! جھگڑے سے بچو، کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یہ بھائیوں کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے۔"
📖 (المعجم الکبیر، ج 11، ص 48)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"کَفَى بِکَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا"
"آپ کا بس یہی گناہ کافی ہے کہ آپ ہمیشہ جھگڑتے رہے۔"
📖 (مسند احمد، ج 3، ص 406)
امیرالمؤمنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
"إیَّاکُم وَالمِرَاءَ وَالخُصُومَةَ، فَإِنَّهُمَا یُمَرِّضَانِ القُلُوبَ عَلَی الإخوَانِ، وَیَنبُتُ عَلَیهِمَا النِّفَاقُ"
"جھگڑے اور بے جا بحث سے بچو، کیونکہ یہ دلوں کو بیمار کر دیتے ہیں اور نفاق پیدا کرتے ہیں۔"
📖 (الکافی، ج 2، ص 300)
---
5۔ گالی دینا اور تحقیر کرنا
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"المُسلِمُ أَخو المُسلِمِ، لا يَخُونُهُ وَلا يَکذِبُهُ وَلا يَخذُلُهُ"
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس سے خیانت کر سکتا ہے، نہ اس سے جھوٹ بول سکتا ہے۔ اور نہ اسے رسوا کر سکتا ہے۔"
📖 (المعجم الکبیر، ج 22، ص 74)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا:
"بَحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ المُسْلِمَ"
"آدمی کے لیے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔"
📖 (الامالی سید مرتضی، ج 3، ص 82)
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"سِبَابُ المُسلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ"
"مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔"
📖 (صحیح مسلم، ج 1، ص 58
"وسائل الشیعه، ج12، ص28
"وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 281
کسی مسلمان کو گالی دینا اور بدکلامی کرنا ہر حال میں قبیح (برا اور ناپسندیدہ)عمل ہے۔"
📚جامعالبیان؛ابنجریرطبری،ج2،ص 376
---
گالی دینے کی ممانعت سب مسلمانوں کی نظر میں۔
اہل سنت کے علماء حتی کہ مردے کو بھی گالی دینے کو حرام سمجھتے ہیں۔
📖 (الأذکار النوویة، یحیی بن شرف النووی، ص 166)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ"
"اور جنہیں یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں، انہیں برا نہ کہو، ورنہ وہ جہالت میں اللہ کو برا کہہ دیں گے۔"
📖 (الأنعام: 108)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں فرمایا:
"کیا ظلم و ستم اس سے بھی بڑھ کر کوئی ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے دوستوں کے لیے دشنام و گالی گلوچ گھڑ لے؟!"
(یعنی: اللہ تعالیٰ اور اس کے مقرب بندوں کو گالی دینا یا ان کے بارے میں نازیبا باتیں کرنا سب سے بڑا ظلم ہے، کیونکہ اس میں نہ صرف توہینِ الٰہی ہے بلکہ ایمان و اخلاص کے خلاف بھی ہے۔)
یہ کلام امام صادق علیہ السلام کی جانب سے سورہ انعام، آیت 108 کی تشریح کے طور پر منقول ہے۔
امام صادقؑ اسکی اور وضاحت فرماتے ہے۔
امام صادقؑ نے فرمایا:
"إِنَّ الشِّرْکَ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ عَلَى صَفَاةٍ سَوْدَاءَ فِي لَيْلَةٍ ظَلْمَاءَ"
"بے شک شرک اس قدر مخفی ہے جتنا کہ ایک سیاہ پتھر پر رات کی تاریکی میں چیونٹی کا چلنا۔"
📖 (الکافی، ج 2، ص 378)
📖 (وسائل الشیعہ، ج 16، ص 262)
مؤمنین، مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہتے تھے، جس کے نتیجے میں مشرکین اللہ کو برا کہتے، چنانچہ اللہ نے فرمایا:
"وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ"
"اور جنہیں یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، انہیں برا نہ کہو۔"
📖 (مستدرک الوسائل، ج 12، ص 306)
---
نتیجہ
جھگڑا، بے جا بحث، گالی دینا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا، یہ تمام عوامل اختلاف اور تفرقے کو جنم دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہمیں جھگڑے اور گالی گلوچ سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ نہ صرف نفاق پیدا کرتے ہیں بلکہ بھائی چارے کو ختم کر دیتے ہیں۔ اسلام ہمیں عزت، تحمل اور صبر کا درس دیتا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ہم انہی اصولوں پر عمل کریں تاکہ امت میں وحدت اور محبت برقرار رہے۔
فائل اٹیچمنٹ: