4/11/2025         ویزیٹ:39       کا کوڈ:۹۴۰۳۳۵          ارسال این مطلب به دیگران

نماز جمعہ » نماز جمعہ
  ،   12شوال 1446ھ،ق (خطبہ 1-2)

 

11 اپریل 2025 / 22 فروردین 1404 کونماز جمعہ کے خطبے 

 

گزشتہ ہفتوں میں، ہم نے امتِ اسلامیہ کے درمیان وحدت کی اہمیت،اور  دیگر ادیان سے دشمنی سے پرہیز، اور وہ دس بنیادی عوامل بیان کیے تھے جو پیغمبر اسلام صلی‌الله‌علیه‌وآله‌ وسلم  نے وحدت کے لیے بیان فرمائے۔ ان سابقہ بیانات کو مسجد امام حسین علیہ السلام دبئی کے ٹیلیگرام چینل پر فارسی میں اور اردو ویب سائٹ پر اردو ترجمے کے ساتھ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

🔰 @ihm3_dubai

www.3rdimam.com

وحدت کو توڑنے والے اسباب:

مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر معاشرے میں وحدت برقرار نہیں رہتی۔

 

1. چغلی کرنا

 

2. لوگوں کے راز تلاش کرنا اور عیب جوئی کرنا۔

 

3. بے جا تعصب کرنا۔

 

4. غیر ضروری جھگڑے اور مناظرے کرنا۔

 

5. ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور تحقیر کرنا

(جن کی تفصیل پچھلے خطبہ میں دی گئی تھی)

 

 

 

اس ہفتے میں ہم مزید چند اسبابِ اختلاف کا ذکر کریں گے:

 

6. تکفیر اور تفسیق(کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا)

آج کے اسلامی معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان فرقے ایک دوسرے کو کافر اور فاسق قرار دیتے ہیں، جبکہ اس کا فائدہ صرف دشمنانِ اسلام کو ہوتا ہے۔

 

قرآنِ کریم نے ایسے افراد کو کافر کہنے سے منع کیا ہے جو خدا کی وحدانیت اور پیغمبرِ اسلام صلی‌الله‌علیه‌وآله‌ کی رسالت کا اقرار کریں:

 

**﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ کَثِيرَةٌ ۚ کَذَٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْکُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

(النساء: 94)

 

ترجمہ:

اے ایمان والو! جب تم راہِ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تحقیق کیا کرو، اور جو شخص تمہیں سلام کرے، اسے یہ نہ کہو: "تو مؤمن نہیں ہے" تاکہ تم دنیاوی زندگی کا فائدہ حاصل کرو، حالانکہ اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں۔ تم بھی پہلے ایسے ہی تھے، پھر اللہ نے تم پر احسان فرمایا، پس تحقیق کیا کرو۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

 

شانِ نزول:

یہ آیت خیبر کے ایک یہودی کے بارے میں نازل ہوئی، جس نے جب اسلامی لشکر کو آتا دیکھا، تو اپنا مال سمیٹ کر اسلام قبول کر لیا، لیکن حضرت اسامہ بن زید نے اس کا قول تسلیم نہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔

 

جب رسول اللہ صلی‌الله‌عليه‌وآله‌ وسلم کو اس کی خبر ملی، تو آپ نے فرمایا:

 

"قتلت رجلاً شهد ان لا اله الا الله و انی رسول الله؟"

کیا تم نے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے "لا اله الا الله" اور "میں اللہ کا رسول ہوں" کی گواہی دی تھی؟

 

اسامہ نے کہا: یا رسول اللہ! اس نے یہ سب صرف جان بچانے کے لیے کہا تھا!

رسول اللہ نے فرمایا:

"هل شققت عن قلبه؟"

کیا تم نے اس کا دل چاک کر کے دیکھا کہ اس کے قول کی صداقت کا علم ہو؟

 

اسامہ کہتے ہیں: اس واقعہ کے بعد میں نے قسم کھائی کہ جو شخص بھی وحدانیت اور رسالت کی گواہی دے، میں اسے ہرگز قتل نہ کروں گا۔

 

(بحار الانوار، جلد 21، صفحہ 11)

 

رسولِ اکرم صلی‌الله‌عليه‌وآله‌ نے فرمایا:

 

"بُنيَ الإسلامُ علی خِصالٍ:

شهادةُ أن لا إلهَ إلاّ اللهُ، وأنَّ محمدًا رسولُ اللهِ، والإقرارُ بما جاءَ مِن عندِ اللهِ...

فلا تُکفِّروهم بذنبٍ، ولا تَشهَدوا عليهم بشِرکٍ"

اسلام چند اصولوں پر قائم ہے:

اللہ کی وحدانیت کی گواہی، محمد صلی‌الله‌عليه‌وآله‌ وسلم کی رسالت، اور جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا، اس کا اقرار

لہٰذا جو ان باتوں کو مانے، اسے کسی گناہ کی بنیاد پر کافر قرار نہ دو، اور نہ ہی اس پر شرک کی گواہی دو۔

 

(کنزالعمال، جلد 1، صفحہ 29)

 

ایک اور حدیث میں ہے:

 

"لا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلاً بِالفِسْقِ أَوِ الکُفْرِ، إِلاَّ ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إنْ لَمْ يَکُنْ صَاحِبُهُ کذَلِکَ"

کوئی شخص کسی دوسرے کو فاسق یا کافر کہے، تو اگر وہ شخص ایسا نہ ہو تو یہ تہمت خود اسی پر لوٹ آتی ہے۔

 

(ریاض الصالحین، صفحہ 618، یحییٰ بن شرف النووی)

 

اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے:

 

"إذا کفّر الرجلُ أخاه، فقد باء بها أحدُهما"

اگر کوئی مسلمان اپنے دینی بھائی کو کافر کہے، تو یہ گناہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور عائد ہوگا۔

 

(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 79)

 

 

---

 

ذاتی مشاہدہ:

میری نظر میں امارات متحدہ عربی ایک خوبصورت مثال ہے، جہاں تمام مذاہب اور ادیان کے عقائد کا احترام کیا جاتا ہے، جو واقعی تحسین کے قابل ہے۔

 

دعا:

🤲 ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام، مسلمانوں، اور تمام انسانوں کو دنیا بھر میں عزت، امن، اور سکون عطا فرمائے۔

🤲 اور تمام لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے، باہمی محبت اور خالص عبادت کی توفیق عطا فرمائے۔

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(1)مَلِکِ النَّاسِ(2)اِلٰهِ النَّاسِ(3)مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ(4)الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ(5)مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ(6)

ترجمہ:

تم کہو: میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔کہ جو تمام لوگوں کا بادشاہ اور مالک ہے۔اور وہ تمام لوگوں کا معبود ہے۔میں خناس کی شر سے اللہ کی حضور میں پناہ لیتا ہو، وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ (وہ خناس) جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

 

 

---

 

خطبہ دوم

تاریخ: 11 اپریل 2025 / 22 شعبان 1446 / 22 فروردین 1404

اختلاف کے اسباب (تسلسل)

7۔ اذیت و آزار (بہتان لگانا اور بہتان کے ذریعے لوگوں کو آذیت کرنا)

قرآن کریم نے دوسروں، خصوصاً مؤمنین کو ایذا دینے سے منع فرمایا ہے اور ایذا کی ایک واضح مثال بہتان کو قرار دیا ہے:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (سورہ احزاب، آیت 58)

ترجمہ: جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی (قصور کے) ایذا دیتے ہیں، (آذیت کرتے ہیں ) انہوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔ مطلب وہ واضح گناہ کے مرتکب ہو چکے ہیں۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

فَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسانِهِ وَ يَدِهِ اِلاّ بِالْحَقِّ (شرح نہج البلاغہ، ج9، ص 288؛ ابن ابی الحدید)

ترجمہ:

"سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، سوائے حق کے معاملے میں۔"

مطلب یہ کہ:

"حقیقی مسلمان وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت زبان و ہاتھ کے ذریعے محفوظ رہے، الا یہ کہ حق کی خاطر کچھ کہا یا کیا جائے

 

8۔ باطنی آلودگیاں

دینی بھائیوں میں جدائی اور اسلامی اتحاد کے فقدان کی ایک بنیادی وجہ انسان کی باطنی آلودگیاں اور دل کی کدورتیں ہیں، جو انسان کو حقیقتِ اسلام کو قبول کرنے سے روک دیتی ہیں۔

اگر ہم اپنے دلوں کو پاک کریں اور غلط فہمیوں کی دیواریں گرا دیں، تو یہ تفرقہ اتفاق میں، اور دشمنی محبت و بھائی چارے میں بدل سکتی ہے۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إنَّما أنتُم إخوانٌ عَلی‌دينِ‌اللّه، ما فَرَّقَ بَينَکُم إلاّ خُبثُ‌السَّرائِرِ وسوءُ الضَّمائِرِ، فَلاتَوازَرونَ، ولا تَناصَحونَ، ولا تَباذَلونَ، ولا تَوادّونَ (نہج البلاغہ، خطبہ 113؛ شرح نہج البلاغہ، ج1، ص222؛ میزان الحکمة، ج1، ص766)

ترجمہ:

تم سب دینِ خدا کی بنیاد پر بھائی بھائی ہو۔ تمہارے درمیان فرق اور جدائی صرف باطنی خباثت اور دل کی خرابی کی وجہ سے ہے۔ نتیجتاً نہ تم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو، نہ خیرخواہی، نہ بخشش اور نہ ہی محبت و دوستی کرتے ہو۔

 

 

---

 

وحدت اور انسجام کے اثرات (آئندہ ہفتے بیان ہوں گے)

 

یہ موضوع بہت اہم اور خوبصورت ہے، جس پر ان شاء اللہ اگلے جمعے تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔  لیکن میں چند نکات کی طرف فہرست وار اشارہ کرتا چلوں تاکہ آیندہ ہفتے ہونے والے اہم گفتگو کی سرخی آپ حضرات کو معلوم ہو۔

اور وہ اثرات ہے ہے۔

 

1. ہلاکت سے نجات

 

2. عزت، طاقت اور برکت

 

3. رحمتِ الٰہی کا نزول اور عذاب الہی سے رہائی

 

4. جنت میں داخلہ

 

 

دعا

 

اے اللہ!

تو اس ملک (امارات) اور تمام اسلامی ممالک کو اس کے عوام کو امن، سکون اور برکت عطا فرما۔

 

اے پروردگار!

تمام لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور مہربان بنا،

اور سب کو اپنی خالص بندگی کی توفیق عطا فرما۔

آمین، یا رب العالمین۔

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

 

ترجمہ:

زمانے کی قسم!

بے شک انسان خسارے میں ہے،

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی وصیت کی، اور صبر کی تلقین کی۔



فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک