3/21/2025         ویزیٹ:50       کا کوڈ:۹۴۰۳۲۲          ارسال این مطلب به دیگران

نماز جمعہ » نماز جمعہ
  ،   20 رمضان 1446 ھ،ق (خطبہ 1-2)

رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ هَمَزاتِ‏ الشَّياطينِ

وَ أَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدللهِ و الصلاةُ عَلیٰ خَیْرِ خَلقِه و أفضلِ بَرِیَّتِه و خاتِمِ رُسُلِه، حَبیبِه و سَفیرِه و صَفیِّه و نَجیِّه، رَسولِ اللهِ و علی آله اُمَناءِ اللهِ و أوصیائه لاسیّما بقیةِ اللهِ الذي یَملَأُ الأرضَ قِسطاًوعَدلاً کما مُلِئَتْ ظُلماً و جَوراً۔

 

یا عِبَادَ اللَّهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللَّهِ

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اور خود کو تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

گزشتہ جمعے کے خطبے میں، میں نے امتِ اسلامی کے اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کے کچھ عوامل بیان کیے تھے۔ لہٰذا، میں چاہتا ہوں کہ اس خطبے میں بھی مزید عوامل پر روشنی ڈالوں۔"

پہلے خطبے کا موضوع: اسلامی وحدت و انسجام کے عوامل

 

امتِ اسلامی کے اتحاد و یکجہتی کے عوامل

پچھلے خطبات میں ہم نے اسلامی وحدت کے چند اہم اصول اور عوامل بیان کیے، ان پر فہرست وار ایک نظر ڈالتے ہیں:

1- برابری اور بھائی چارہ                               2- حسنِ اخلاق

3- نرم روی اور رواداری                                4-مل جل کر پر آمن رہنا۔

5-محبت کے ساتھ رہنا                                6- مومنین کا احترام کرنا

7-حسنِ ظن رکھنا۔                                      8 خیرخواہی اور نصیحت

9: اصلاحِ ذات البین (باہمی اصلاح)

"اصلاحِ ذات البین" کا مفہوم ہے "آپسی اختلافات کو دور کرنا اور لوگوں کے درمیان صلح قائم کرنا"۔

اس اصطلاح میں "ذات" کا مطلب ہے افراد یا لوگوں کی اپنی ذات، اور "بین" کا مطلب ہے ان کے درمیان یا آپس میں۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دو افراد یا گروہ آپس میں اختلافات یا جھگڑوں میں مبتلا ہوں، تو ان کے درمیان صلح کرنے اور مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔

اسلامی تعلیمات میں اصلاحِ ذات البین کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ اس سے معاشرتی امن و سکون قائم رہتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور تعاون بڑھتا ہے۔ یہ عمل انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہو سکتا ہے اور اس کا مقصد لوگوں کے درمیان جھگڑوں کو حل کرنا اور دلوں میں بغض یا کینہ کو ختم کرنا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:    يَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَنْفَالِ ۖ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِکُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورة الأنفال، ١)

"لوگ تم سے انفال (غنیمت) کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ انفال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں، پس اللہ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات کو درست کرو، اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔"

اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۂ حجرات میں فرماتا ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ(سورة الحجرات، ١٠)

"بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔"

رسول اللہ (ص) کی اصلاحِ ذات البین کے متعلق احادیث

1. اصلاح بہترین صدقہ:

عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ:"يَا أَبَا أَيُّوبَ! أَلَا أُخْبِرُکَ وَأَدُلُّکَ عَلَى صَدَقَةٍ يُحِبُّهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟"

فَقُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ!   فَقَالَ: "تُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا"

(المعجم الکبير، ج8، ص257)

"اے ابا ایوب! کیا میں تمہیں ایسی صدقہ کی خبر دوں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے؟"

صحابی نے عرض کیا: "جی ہاں، یا رسول اللہ!"

آپ (ص) نے فرمایا: "جب لوگوں کے درمیان فساد پیدا ہو، تو ان میں صلح کراؤ۔"

2-  اصلاحِ ذات البین کی فضیلت:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ :

"إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ(میزان الحکمة، ج2، ص1622)

"اصلاحِ ذات البین ایک سال کی نماز و روزہ سے افضل ہے۔"

 

3_ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصدِ :

قَالَ الْإِمَامُ الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلَامُ  "أَنِّي‌ لَمْ‌ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلَا بَطِرًا وَلَا مُفْسِدًا وَلَا ظَالِمًا وَإِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ‌ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ" (بحار الأنوار، ج44، ص329)

"میں نے نہ تو فتنہ و فساد کی نیت سے خروج کیا، نہ ظلم اور نہ ہی بغاوت کے لیے، بلکہ میں صرف اپنی نانا (ص) کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔

 

10: مسلمان کے جان و مال کا احترام کرنا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

(سورة النساء، ٩٣)

"جو شخص کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر غضبناک ہوگا، اس پر لعنت کرے گا، اور اس کے لیے سخت عذاب تیار رکھے گا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ارشادات

1. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ :"الْمُسْلِمُ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ"

(مجمع الزوائد، ج8، ص185)

"مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔"

2. قَالَ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ  و آلہ و سلم:  "إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ" (صحیح البخاري، 31)  "جب دو مسلمان تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔"

3. قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  "لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِکُ لِدِينِهِ، الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ"  (سنن النسائی، ج7، ص125)

"مسلمان کا خون تین صورتوں کے علاوہ حرام ہے:

(1) مرتد ہو جائے،

(2) مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو،

(3) شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔"

ایندہ ہفتے میں پہلے خطبے کا موضوع:

"ہم اسلامی وحدت و انسجام کو کمزور کرنے والے عوامل کو بیان کریں گے، جو رسول اکرم (ص) کی احادیث کے مطابق امت کے درمیان افتراق اور نفاق پیدا کرتے ہیں۔"

اللهم وفّقنا لِما تُحبّ و ترضى

 

 

خطبۂ دوم: شہادتِ امام علی (ع) اور ان کے فضائل

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

"ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔"

آج ہم سب امام علی (ع) کی شہادت کی یاد میں سوگوار ہیں۔ میں تمام مسلمانوں اور دنیا کے تمام انصاف پسندوں کو اس عظیم سانحے پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔

 

 

امام علی (ع) کے چند نمایاں فضائل

1. مولودِ کعبہ

امام علی (ع) وہ واحد شخصیت ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے۔

روایات:  اس بارے کچھ روایات ملاحظہ فرمائيں:

محمد بن جریر طبری کہتے ہے: "علی ابن ابی طالب 13 رجب، سال 30 عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔(تاریخ طبری، ج5، ص153)

 

ابن صباغ مالکی کہتے ہے: "فاطمہ بنت اسد نے علی (ع) کو کعبہ میں جنم دیا، جو ہاشمی ماں سے پیدا ہونے والے پہلے ہاشمی ہیں۔"(الفصول المهمة، ج1، ص171)

2-  سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا۔

قرآن میں اشارہ: ہوئی ہے:   وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُوْلَئِکَ الْمُقَرَّبُونَ

(سورة الواقعة، 10-11)

"اور سبقت لے جانے والے، آگے بڑھنے والے ہی مقرب بندے ہیں۔"

 

روایات:

جابر بن عبداللہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کو پیر کے دن نبوت ملی اور علی علیہ السلام  نے منگل کو ان کے ساتھ نماز پڑھی۔"(المنتظم، ج5، ص66)

ابن عباس: "علی (ع) سات سال پہلے رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ "(تاریخ طبری، ج5، ص310)

3- دامادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث:

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "لَوْ لَا عَلِيٌّ لَمَا کَانَ لِفَاطِمَةَ کُفُؤٌ"

"اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کے لیے کوئی ہمسر نہ ہوتا۔"

(مستدرک حاکم، ج3، ص129)-

امام علی (ع) کی شان میں نازل ہونے والی آیات

1. آیۂ تطہیر (سورہ احزاب، 33)

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيرًا

"اللہ چاہتا ہے کہ اے اہلِ بیت! تم سے ہر طرح کی ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک و طاہر بنا دے۔"

حدیث:

رسول اللہ (ص) نے اپنی چادر کے نیچے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (ع) کو لے کر فرمایا:"هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا"

"یہ میرے اہلِ بیت ہیں، اے اللہ! ان سے ہر قسم کے رجس کو دور فرما اور انہیں پاک کر دے۔" (سنن ترمذی، ج5، ص663)

2. آیۂ مودّت (سورہ شوری، 23)

قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ

"کہہ دو! میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریبیوں کی محبت کے۔"

روایت:   رسول اللہ (ص) نے فرمایا:"اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا"

"اے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں، انہیں ہر رجس سے پاک فرما۔"

(مسند احمد، ج4، ص367)

 

3. آیۂ مباہلہ (سورہ آل عمران، 61)

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ

"آؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو، اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو بلاتے ہیں، پھر دعا کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔"

شانِ نزول: جب نصاریٰ نجران نے رسول اللہ (ص) کو چیلنج کیا تو آپ (ص) علی، فاطمہ، حسن اور حسین (ع) کو لے کر مباہلہ کے لیے نکلے۔(تاریخ الاسلام، ذہبی، ج2، ص321)

شہادتِ امام علی علیہ السلام

واقعہ: 19 رمضان 40 ہجری کو عبدالرحمن بن ملجم نے فجر کی نماز میں مسجد کوفہ میں زہر آلود تلوار سے حملہ کیا۔

21 رمضان کو امام علی (ع) نے فرمایا:"فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ"

"ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔"

تشییع و تدفین: امام حسن، امام حسین اور عبداللہ بن جعفر نے غسل و تدفین کی۔

رات کی تاریکی میں نجف میں دفن کیا گیا تاکہ دشمن قبر کی بے حرمتی نہ کریں۔

(تاریخ طبری، ج5، ص145 | بلاذری، ج1، ص252)

نتیجہ

امام علی (ع) عدل، تقویٰ، علم اور شجاعت کا مظہر تھے۔ ان کی شہادت امتِ مسلمہ کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی سیرت پر عمل کریں اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلیں۔

اللهم اجعلنا من أتباع علي (ع) و محبيه، واحشرنا في زمرته، وارزقنا شفاعته يوم القيامة، آمين.



فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک