بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں
آپ سب مومنین اور مومنات کو عید الاضحی کی موقع پر اور عشرہ عبادت کی اختتام پر مبارکباد دیتے ہوئے تقویٰ اور پرہیزگاری کی دعوت دیتا ہوں۔
اس خطبہ کا نام ’’غراء‘‘ ہے جو امیر المومنین علیہ السلام کے عجیب و غریب خطبوں میں شمار ہوتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ عَلَا بِحَوْلِهٖ، وَ دَنَا بِطَوْلِهٖ، مَانِحِ کُلِّ غَنِیْمَةٍ وَّ فَضْلٍ، وَ کَاشِفِ کُلِّ عَظِیْمَةٍ وَ اَزْلٍ. اَحْمَدُهٗ عَلٰی عَوَاطِفِ کَرَمِهِ، وَ سَوَابِـغِ نِعَمِهٖ، وَ اُوْمِنُ بِهٖ اَوَّلًۢا بَادِیًا، وَ اَسْتَهْدِیْهِ قَرِیْبًا هَادِیًا، وَ اَسْتَعِیْنُهٗ قَادِرًا قَاهِرًا، وَ اَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ کَافِیًا نَاصِرًا. وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ لِاِنْفَاذِ اَمْرِهٖ، وَ اِنْهَآءِ عُذْرِهٖ وَ تَقْدِیْمِ نُذُرِهٖ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اپنی طاقت کے اعتبار سے بلند، اپنی بخشش کے لحاظ سے قریب ہے۔ ہر نفع و زیادتی کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت و ابتلا کا دور کرنے والا ہے۔ میں اس کے کرم کی نوازشوں اور نعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ میں اس پر ایمان رکھتا ہوں، چونکہ وہ اوّل و ظاہر ہے اور اس سے ہدایت چاہتا ہوں، چونکہ وہ قریب تر اور ہادی ہے اور اس سے مدد چاہتا ہوں، چونکہ وہ قادر و توانا ہے اور اس پر بھروسا کرتا ہوں، چونکہ وہ ہر طرح کی کفایت و اعانت کرنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد و رسول ہیں، جنہیں احکام کے نفاذ اور حجت کے اتمام اور عبرتناک واقعات پیش کر کے پہلے سے متنبہ کر دینے کیلئے بھیجا۔
اُوصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْ ضَرَبَ لَکُمُ الْاَمْثَالَ، وَ وَقَّتَ لَکُمُ الْاٰجَالَ، وَ اَلْبَسَکُمُ الرِّیَاشَ، وَ اَرْفَغَ لَکُمُ الْمَعَاشَ، وَ اَحَاطَ بِکُمُ الْاِحْصَآءَ، وَ اَرْصَدَ لَکُمُ الْجَزَآءَ، وَ اٰثَرَکُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِـغِ، وَ الرِّفَدِ الرَّوَافِغِ، وَ اَنْذَرَکُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ، فَاَحْصَاکُمْ عَدَدًا، وَ وَظَّفَ لَکُمْ مُدَدًا، فِیْ قَرَارِ خِبْرَةٍ، وَ دَارِ عِبْرَةٍ، اَنْتُمْ مُّخْتَبَرُوْنَ فِیْهَا، وَ مُحَاسَبُوْنَ عَلَیْهَا.
خدا کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تمہارے (سمجھانے کے) لئے مثالیں پیش کیں اور تمہاری زندگی کے اوقات مقرر کئے،تمہیں (مختلف) لباسوں سے ڈھانپا اور تمہارے رزق کا سامان فراواں کیا۔ اس نے تمہارا پورا جائزہ لے رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا مقرر کی ہے اور تمہیں اپنی وسیع نعمتوں اور فراخ عطیوں سے نوازا اور مؤثر دلیلوں سے تمہیں متنبہ کر دیا ہے۔ وہ ایک ایک کر کے تمہیں گِن چکا ہے اور اس مقامِ آزمائش و محل عبرت میں اس نے تمہاری عمریں مقرر کر دی ہیں۔ اس میں تمہاری آزمائش ہے اور اس کی درآمد و برآمد پر تمہارا حساب ہو گا۔
فَاِنَّ الدُّنْیَا رَنِقٌ مَّشْرَبُهَا، رَدِغٌ مَّشْرَعُهَا، یُوْنِقُ مَنْظَرُهَا، وَ یُوْبِقُ مَخْبَرُهَا، غُرُوْرٌ حَآئِلٌ، وَ ضَوْءٌ اٰفِلٌ، وَ ظِلٌّ زآئِلٌ، وَ سِنَادٌ مَّآئِلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اَنِسَ نَافِرُهَا، وَ اطْمَاَنَّ نَاکِرُهَا، قَمَصَتْ بِاَرْجُلِهَا، وَ قَنَصَتْ بِاَحْبُلِهَا، وَ اَقْصَدَتْ بِاَسْهُمِهَا، وَ اَعْلَقَتِ الْمَرْءَ اَوْهَاقَ الْمَنِیَّةِ قَآئِدَةً لَّهٗۤ اِلٰی ضَنْکِ الْمَضْجَعِ، وَ وَحْشَةِ الْمَرْجِـعِ، وَ مُعَایَنَةِ الْمَحَلِّ، وَ ثَوَابِ الْعَمَلِ، وَ کَذٰلِکَ الْخَلَفُ یَعْقُبُ السَّلَفَ، لَا تُقْلِعُ الْمَنِیَّةُ اخْتِرَامًا، وَ لَایَرْعَوِی الْبَاقُوْنَ اجْتِرَامًا، یَحْتَذُوْنَ مِثَالًا، وَ یَمْضُوْنَ اَرْسَالًا، اِلٰی غَایَةِ الْاِنْتِهَآءِ، وَ صَیُّوْرِ الْفَنَآءِ.
اس دنیا کا گھاٹ گدلا اور سیراب ہونے کی جگہ کیچڑ سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا ظاہر خوشنما اور باطن تباہ کن ہے۔ یہ ایک مٹ جانے والا دھوکا، غروب ہو جانے والی روشنی، ڈھل جانے والا سایہ اور جھکا ہوا ستون ہے۔ جب اس سے نفرت کرنے والا اس سے دل لگا لیتا ہے اور اجنبی اس سے مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ اپنے پیروں کو اُٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیتی ہے اور اس کے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تار قبر اور وحشت ناک منزل تک لے جاتی ہے کہ جہاں سے وہ اپنا ٹھکانا (جنت یا دوزخ) دیکھ لے اور اپنے کئے کا نتیجہ پالے۔ بعد میں آنے والوں کی حالت بھی اَگلوں کی سی ہے۔ نہ موت کانٹ چھانٹ سے منہ موڑتی ہے اور نہ باقی رہنے والے گناہ سے باز آتے ہیں۔ باہم ایک دوسرے کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے منزلِ منتہا و مقامِ فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
عِبَادَ اللهِ! اَیْنَ الَّذِیْنَ عُمِّرُوْا فَنَعِمُوْا، وَ عُلِّمُوْا فَفَهِمُوْا، وَ اُنْظِرُوْا فَلَهُوْا، وَ سَلِمُوْا فَنَسُوْا؟ اُمْهِلُوْا طَوِیْلًا، وَ مُنِحُوْا جَمِیْلًا، وَ حُذِّرُوْا اَلِیْمًا، وَ وُعِدُوْا جَسِیْمًا! احْذَرُوا الذُّنُوْبَ الْمُوَرِّطَةَ، وَ الْعُیُوْبَ الْمُسْخِطَةَ.
اللہ کے بندو! وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں عمریں دی گئیں تو وہ نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور انہیں بتایا گیا تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور وقت دیا گیا تو انہوں نے وقت غفلت میں گزار دیا اور صحیح و سالم رکھے گئے تو اس نعمت کو بھول گئے۔ انہیں لمبی مہلت دی گئی تھی، اچھی اچھی چیزیں بھی انہیں بخشی گئی تھیں، درد ناک عذاب سے انہیں ڈرایا بھی گیا تھا اور بڑی چیزوں کے ان سے وعدے بھی کئے گئے تھے۔ (تو اب تم ہی) ورطۂ ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی خطاؤں سے بچتے رہو۔
اُولِی الْاَبْصَارِ وَ الْاَسْمَاعِ، وَ الْعَافِیَةِ وَ الْمَتَاعِ! هَلْ مِنْ مَّنَاصٍ اَوْ خَلَاصٍ، اَوْ مَعَاذٍ اَوْ مَلَاذٍ، اَوْ فِرَارٍ اَوْ مَحَارٍ! اَمْ لَا؟ ﴿فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ﴾! اَمْ اَیْنَ تُصْرَفُوْنَ! اَمْ بِمَاذَا تَغْتَرُّوْنَ؟ وَ اِنَّمَا حَظُّ اَحَدِکُمْ مِنَ الْاَرْضِ، ذَاتِ الطُّوْلِ وَ الْعَرْضِ، قِیْدُ قَدِّهٖ، مُتَعَفِّرًا عَلٰی خَدِّهٖ!.
اے چشم و گوش رکھنے والو! اے صحت و ثروت والو! کیا بچاؤ کی کوئی جگہ یا چھٹکارے کی کوئی گنجائش ہے؟ یا کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانا ہے؟ بھاگ نکلنے کا موقع یا پھر دنیا میں پلٹ کر آنے کی کوئی صورت ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر کہاں بھٹک رہے ہو؟ اور کدھر کا رخ کئے ہوئے ہو؟ یا کن چیزوں کے فریب میں آ گئے ہو؟ حالانکہ اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم میں سے ہر ایک کا حصہ اپنے قد بھر کا ٹکڑا ہی تو ہے کہ جس میں وہ مٹی سے اٹا ہوا رخسار کے بَل پڑا ہو گا۔
اَلْاٰنَ عِبَادَ اللهِ! وَ الْخِنَاقُ مُهْمَلٌ، وَ الرُّوْحُ مُرْسَلٌ، فِیْ فَیْنَةِ الْاِرْشَادِ، وَ رَاحَةِ الْاَجْسَادِ، وَ بَاحَةِ الْاِحْتِشَادِ، وَ مَهَلِ الْبَقِیَّةِ، وَ اُنُفِ الْمَشِیَّةِ، وَ اِنْظَارِ التَّوْبَةِ، وَ انْفِسَاحِ الْحَوْبَةِ قَبْلَ الضَّنْکِ وَ الْمَضِیْقِ، وَ الرَّوْعِ وَ الزُّهُوْقِ، وَ قَبْلَ قُدُوْمِ الْغَآئِبِ الْمُنتَظَرِ، وَ اِخْذَةِ الْعَزِیْزِ الْمُقْتَدِرِ.
یہ ابھی غنیمت ہے خدا کے بندو، جبکہ گردن میں پھندا نہیں پڑا ہوا ہے اور روح بھی آزاد ہے۔ ہدایت حاصل کرنے کی فرصت اور جسموں کی راحت اور مجلسوں کے اجتماع اور زندگی کی بقایا مہلت اور از سر نو اختیار سے کام لینے کے مواقع اور توبہ کی گنجائش اور اطمینان کی حالت میں، قبل اس کے کہ تنگی و ضیق میں پڑ جائے اور خوف و اضمحلال اس پر چھا جائے اور قبل اس کے کہ موت آ جائے اور قادر و غالب کی گرفت اسے جکڑ لے۔
دوسرا خطبہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ محرم الحرام کے ایام ہیں یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں سب لوگ اور خاص کر عالم اسلام میں غم منایا جاتا ہے یہ مہینہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے متعلق ہے ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کو پہچانے اور پھر دل کی گہرائیوں سے امام پر گریہ اور زاری کریں ایک روایت جو کہ امام احمد بن حنبل نے اپنے مسند جلد 4 صفحہ نمبر 58 امام المحدثین ترمذی نے اپنے کتاب سنن جلد 5 صفحہ نمبر 314 حاکم نشاپوری نے مستدرک جلد 3 صفحہ نمبر 177 شمس الدین ذھبی نے تاریخ اسلام جلد 5 صفحہ نمبر 97 اور بہت سارے حوالوں کے ساتھ یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔ کہ یہ حدیث صحیح ہے
حدثني محمد بن عبد الله بن جعفر الحميري، عن أبي سعيد الحسن بن علي بن زکريا العدوي البصري، قال: حدثنا عبد الاعلى بن حماد البرسي، قال: حدثنا وهب، عن عبد الله بن عثمان، عن سعيد بن أبي راشد، عن يعلي العامري انه خرج من عند رسول الله (صلى الله عليه وآله) إلى طعام دعي إليه، فإذا هو بحسين (عليه السلام) يلعب مع الصبيان، فاستقبل النبي (صلى الله عليه وآله) امام القوم ثم بسط يديه فطفر الصبي هاهنا مرة وهاهنا مرة، وجعل رسول الله (صلى الله عليه وآله) يضاحکه حتى اخذه، فجعل إحدى يديه تحت ذقنه والأخرى تحت قفائه، ووضع فاه على فيه وقبله، ثم قال: حسين مني وانا من حسين، أحب الله من أحب حسينا،حسین سبط من الاسباط، اللھم احب من احب الحسین (1).
۔۔۔ یعلی عامری نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔خدایا تم بھی اس محبت کر جو حسین سے محبت کریں، یہ حديث حسن ہے۔
قاضی عیاض نے کہا کہ اس روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حسین علیہ السلام سے محبت کرنا ایسا ہے جیسا رسول اللہ صلى الله عليه وآله سے محبت کی ہو اور رسول اللہ صلى الله عليه وآله سے محبت کرنا ایسا کہ جیسا اللہ تعالی سے محبت کی ہو۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سب عالم بشریت کے لیے نمونہ عمل ہے سب صاحب نظر لوگ امام حسین علیہ السلام کی ثناء خوان ہے اور آپ علیہ السلام کو آپنا نمونہ عمل مانتے ہیں۔
ایسا نمونہ عمل ہے کہ جس میں سب کمالات کے صفات جمع ہو گئے ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ وہ ھستیاں جن کی ذکر آیت مباھلہ میں ہوئی ہے ان میں سے ایک حضرت امام حسین علیہ السلام ہے ۔
جبکہ امام حسین علیہ السلام بچپن کی حالت میں تھے رسول اللہ صلى الله عليه وآله نے انہں اپنے گود میں اٹھایا اور (ابنائنا و ابنائکم) کی مصدان کے طور پر لوگوں کو معارفی کروایا۔
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے بارے میں یہ احادیث متواتر بھی موجود ہے۔ الحسن و الحسین امامان قاما او قعد۔ حضرت حسین اور حسین علیہما سلام دونوں امام ہے چاہے قیام کریں یا بیٹے،۔
الحسن و الحسین سید شباب اھل جنت ۔ حسن اور جنت کے جوانوں کے سردار ہے۔
اسی طرح قرآن میں آیت تطہیر اور سورت مبارک ھل اتی بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی فضائل پر دلیل ہے۔
ہم سب مسلمان محرم الحرام کے دہانے پر ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں سب مسلمان مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاندان پر ماتم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے کی فضیلت کو سمجھیں اور اس مہینے کی احترام کریں و من یعظم شعایراللہ فانھا من تقوی القلوب ۔ وہ جو شعائراللہ کی تعظیم کرتے ہے یہ وہ لوگ ہے کہ جن کی دل اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
محرم وہ مہینہ ہے کہ اس کی سنگینی سب عالم اسلام پر ہے۔ وَ جَلَّتْ وَ عَظُمَتِ الْمُصیبَةُ بِکَ (بِکُمْ) عَلَیْنا وَ عَلی جَمیعِ اَهْل ِالاِْسْلامِ
ایک اور حدیث جو کہ بہت سارے کتابوں میں آیا ہے کہ جن میں مسند احمد بن حنبل اور ابن سعد نے طبقات میں اور معجم الکبیر الطبرانی میں ۔۔۔
سب ائمہ تفاسیر نے اپنے تفسیروں میں لکھا ہے کہ ابن عباس نے کہا:
رائیت رسول النبی اللیلہ التی قتل فیہما الحسین علیہ السلام رائتہ اشعث اغبر و بیدہ قارورہ فیہا دم و ھو یجمع فیہمادماء فقلت یا رسول اللہ ما ھذا؟ قال ھذا دماء الحسین و اصحابہ ارفعھا الی اللہ تعالی۔
جس دن امام حسین علیہ السلام شہید کیا گیا اس رات میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ نے اپنے بال کھولے ہے اور اس پر گرد اور غبار پڑھا ہے
میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں ایک شیشے کا برتن ہے کہ جس میں وہ امام حسین علیہ السلام کی خون کو جمع کر رہے تھے میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ خون حسین ہے کہ میں اس کو جمع کرکے اللہ تعالی کی خضور میں پیش کروں گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت رسول گرامی اسلام نہ فقط خون حسین بلکہ خون اصحاب حسین علیہ السلام کو بھی جمع کرکے عرش الہی پر لے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اللہ ایک باغبان تھا کہ جس نے بشریت کا ایک بہتریں باغ اگھایا اور جب وہ فصل اور میوہ دے گیا اور آپ نے یہ سب پھول اور میوہ جمع کرکے اس مقام پر پہنچا دیا کہ جو اللہ کے نزدیک مقام صدق ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین علیہ السلام کی غم میں غمگین اور پریشان حال ہے تو کیوں نا؟ ہم مسلمان بھی ان آیام میں امام حسین علیہ السلام کی عزاء منائیں اور امام حسین علیہ السلام کی کمالات فضائل اور صفات کی پیروی کریں۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: