بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
متقی وہ شخص ہے جو اپنے معاملات میں غور و فکر کرتا ہے
کچھ صاحب عرفان لوگوں نے کہا ہے کہ ہم نے ایک ایسے شخص سے پوچھا کہ جس کا عمر گزر چکا تھا کہ:
کيف طلبک للدنيا؟فقال: شديد. قال: فهل أدرکت منها ما تريد؟قال: لا، قال: هذه التي صرفت عمرک في طلبها لم تحصل منها ما تريد، فکيف التي لم تطلبها؟!
اپ دنیا کو کس انداز میں چاہتے تھے تو اس نے کہا میرا دنیا سے بہت زیادہ محبت تھا بہت زیادہ چاہتا تھا تو انہوں نے پوچھا کہ جو کچھ تم چاہتے تھے کیا وہ تمہیں ملا تو جواب دیا کہ نہیں میں نے صرف اپنے طلب اور خواھش میں اپنے عمر کو ضایع کردیا اور مجھے کچھ بھی نہیں ملا میں جو مانگ رہا تھا وہ نہیں ملا تو ہمیں غور کرنا کہ جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں نہیں ملتا ہے تو جو کچھ ہم مانگتے ہی نہں ہے تو وہ ہمیں کیسے مل سکتا ہے۔
متقی اور پرہیزگار انسان وہ ہے کہ جو وہ مشکلات اور موانع کہ جو انکی ترقی سے مانع ہے کو جڑ سے نکال دیتا ہے ، کہ جس کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کر پا رہا ہے یا اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ربا ہے کچھ مشکلات ایسے ہیں کہ جس کی وجہ انسان خود، ہوتا ہے مطلب خود اپنے لیے مشکلات بناتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے قران کریم نے فرمایا
وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰکِن کَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ-نحل- 118
ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن انہوں نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے
گزشتہ خطبے میں عرض کیا تھا کہ انسان کی گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رکھتا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
: إذوجدت قساوة في قلبک، و سقما في جسمک، و نقيصة في مالک و حريمة في رزقک فاعلم أنک قد تکلّمت فيما لا يعنيک)
کہ جب تم نے دیکھا کہ تمہارا دل سخت ہو چکا ہے اور تمہارے جسم میں درد اور بیماریاں ہیں اور تمہارا مال کم ہو رہا ہے اور رزق میں کمی ارہی ہے تو تم یقین کر لو کہ تم نے ایسا کچھ کہا ہے کہ سے جس سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا تھا بلکہ نقصان مل رہا تھا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک اور جگہ پر فرمایا کہ اے معاذ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں خیر کی دروازوں کا پتہ بتاؤ
؟ ثم قال ألا أدلک على أبواب الخير؟ الصوم جنة والصدقة تطفئ الخطيئة وصلاة الرجل في جوف الليل - ثم قرأ (تتجافى جنوبهم عن المضاجع - حتى بلغ - جاء بما کانوا يعملون) ثم قال - ألا أخبرک بملاک ذلک کله؟ فقلت بلى يا نبي الله. فأخذه بلسانه ثم قال کف عليک هذا فقلت يا رسول الله وإنا لمؤاخذون مما نتکلم به؟ فقال ثکلتک أمک يا معاذ وهل يکب الناس في النار على وجوههم - أو قال على مناخرهم إلّا حَصائِدُ ألسِنَتِهم؟
روزے رکھنا سپر ہے کہ جو تمہیں دشمن کے وار سے بچاتا ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی غلطیاں معاف ہو جاتی ہیں
اور ایک مرد کے رات کی نمازیں یعنی نماز تہجد کی نمازیں
اور پھر پڑھا
(تتجافى جنوبهم عن المضاجع - حتى بلغ - جاء بما کانوا يعملون(
انکے پہلو انکے بستروں سے الگ ہو گئے۔ اور وہ لوگ وہاں پہنچ گئے کہ جہاں انہوں نے پہنچنا تھا، اور جو اعمال وہ لوگ انجام دے رہے تھے انہی اعمال کو ساتھ لے گئے،
کیا تم نہیں چاہتے ہوں کہ میں تم کو اس کی وجہ بتا دوں تو میں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! تو پھر اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا کہ اپنے زبان کو بند رکھو۔ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ تو کیا جو کچھ ہم کہیں گے اس کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا تو پھر اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ اپ کو پتہ ہے کہ کیوں لوگ جہنم کی اگ میں جلتے رہیں گے اور الٹی منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے یا انہیں گردنوں سے لٹکائے گئے ہوں گے یہ ان کی زبانوں کی وجہ سے ہونگے۔
حدیث قدسی کی ایک روایت میں ملتا ہے کہ کچھ وہ مشکلات کہ جس سے انسان روبرو ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے فرمایا کہ اے فرزند ادم ،( إذا وجدت قساوة في قلبک، و سقما في جسمک، و نقيصة في مالک و حريمة في رزقک)
اگر تم نے دیکھ لیا کہ تمہارا دل سخت ہو چکا ہے اور تمہارا بدن بیمار ہو چکا ہے اور تمہارا مال اور رزق کم ہو چکا ہے .( فاعلم أنک قد تکلّمت فيما لا يعنيک)
تو تم یقین کر لو کہ تم نے اس شئی کے بارے میں بات کی ہے کہ جس کے بارے میں تم نہیں جانتے تھے
اور جو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا تھا اے ادم کے بیٹے (أکثر من الزاد، فالطريق بعيد و خفف الحمل فالصّراط دقيق، و أخلص العمل فإنّ الناقد بصير)
اپنے زاد راہ کو زیادہ کر دو کیونکہ راستہ بہت لمبا ہے اور اپنے بوجھ کو کم کرو کیونکہ بہت سخت راستے سے گزرنا ہے۔
اور اپنے عمل کو خالص کرو، کیونکہ پرکھنے والا بہت سمجھدار ہے”۔
ناقد اسے کہا جاتا ہے جو اشرفی وغیرہ کی کھوٹ اور کھرا پن پرکھتا ہے۔
(و أخر نومک إلى القبور، و فخرک إلى الميزان، و لذّاتَک إلى الجنة)
اور اپنے نیند کو اپنے قبر کے لیے چھوڑ دو فخر اور تفاخر کو قیامت میں اعمال کی تولنے کے لیے چھوڑ دو یعنی اگر قیامت میں تمہارے اچھے اعمال زیادہ ہوں تو اس پر فخر کرو باقی اس دنیا میں فخر کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور اپنی لذتوں کو جنت کے لیے چھوڑ دو
. (و کن لي أکن لک)
تم میرا بنوا اور میں آپکا ہو جاوں گا۔ اور اس دنیا کو حقیر سمجھ کر میرے نزدیک ا جاؤ اور جہنم سے دور ہو جاؤ اے فرزند ادم تمہارے حالات بہت خراب ہے۔
تمہارے حالات اس ادمی کی طرح ہے کہ جس کی کشتی دریا کے درمیان ٹوٹ چکی ہو اور وہ ایک ہی تختے پر رہ گیا ہو کیونکہ تم اپنے گناہوں کے بارے میں یقین رکھتے ہو لیکن جو اعمال تم نے کیے ہیں وہ صحیح ہے کہ نہیں اس کے بارے میں تم بہت شدید خطرے سے روبرو ہو، کہ شاید صحیح ہو اور شاید باطل۔
لما احتضر سلمان الفارسي رضي اللّه عنه، تحسر عند موته، فقيل له: على م تأسفک يا أبا عبد اللّه؟فقال: ليس تأسفي على الدنيا، و لکن رسول اللّه «ص» عهد إلينا، و قال: ليکن بلغة أحدکم کزاد الراکب، و أخاف أن نکون قد جاوزنا أمره، حولي هذه الأشياء، و أشار إلى ما في بيته، و إذا هو سيف؛ و دست، و جفنة .
جب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو رہا تھا تو ان کی موت سے وہ پریشان تھا اور کسی شئے کا افسوس کر رہا تھا، تو ان سے پوچھا گیا: اے ابو عبداللہ کس چیز پر افسوس کر رہے ہو، تو انہوں نے کہا کہ میرا افسوس دنیا کے لیے نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا اور فرمایا تھا: کہ آپ لوگ اس دنیا کے لیئے بس اتنا کچھ اکٹھا کرو کہ جتنا ایک مسافر اپنے لیئے اکھٹا کرتا ہے کہ جو بس نہایت ہی ضرورت کی چیزیں ہوتی ہے۔ لیکن شاید ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے کو بدل دیا اور دروست عمل نہیں کیا، اور پھر اس نے اپنے گھر میں جو کچھ تھا اس کی طرف اشارہ کیا، اورہم نے دیکھا کہ وہ ایک تلوار تھی۔ اور ایک دیگچی اور جام،
مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا کے حقیر چیزوں کے جمع آوری میں مگن نہ رہے اور آخرت کے عظیم چیزوں کو چھوڑ نہ دے۔
" خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: