بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
میں یوم رحلت و وفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام حسن علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کی شہادت پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔ قرآن اور اہل بیت امت مسلمہ کے لیے اتحاد کا محور اور مرکز ہیں (حدیث ثقلین اور حدیث سیدای شباب احل جنہ کے مطابق سب اہلبیت حق پر تھے)۔
اور اس حدیث میں آئے ہوئے حکم کے مطابق کہ (مَن ماتَ ولَیسَ لَهُ إمامٌ ماتَ میتَةً جاهِلیةً) اور جو اپنے زمانے کے امام کو نہ جانتے ہوئے مر گيا تو وہ جھالت کی موت مر گیا، سب لوگوں کے لیے انکی اتبعاع کرنا واجب تھا
امام حسن علیہ السلام تیسرے ہجری میں رمضان المبارک کے وسط میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، آپ نے 48 سال عمر کی تھی، آپ نے 10 سال امامت کی اور 28 صفر 50 یا 51 کو شہید ہوئے۔ آپ نے مباہلہ میں حصہ لیا اور مختصر مدت کے لیے خلافت پر فائز رہے۔
اور صلح کرنے کا مسئلہ ان کے عہد کے اہم واقعات میں سے ایک تھا۔ امام کو پاکیزگی کی انتہاء پر ہونا چاہیے۔
اللہ تعالی نے اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں فرمایا «انما یریدالله لیذهب عنکم ...»
امامت اسلام کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک ہے جو خدا وند متعال جس کو اس کا لائق سمجھےعطا کرتا ہے اور ہر امام کو سابقہ امام کی مدد سے خدا کی طرف سے امامت کا منصب عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ «انی جاعلک للناس اماما...» ابراھیم علیہ السلام عظیم امتحان پاس کرنے کے بعد اللہ کی طرف سے منصب امامت پر فایز ہو گئے۔
امام رضا علیہ السلام 11 ذی القعدہ 148 ھ ق کو پیدا ہوئے اور ماہ صفر 203 ھ ق کے آخر میں شہید ہوئے۔
وہ پیغمبر کے 12 جانشینوں اور خلیفوں اور اماموں میں سے آٹھویں امام ہیں۔ جیسا کہ 12 خلیفوں کی طرف حدیث اثنا عشر خلیفہ، میں اشارہ ہوا ہے۔
دیگر مذاہب اور فرقوں کے بزرگوں کے ساتھ روایات اور گفتگو کا مجموعہ امام رضا علیہ السلام کی علمی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ابن حجر عسقلانی اور ابن نجار جیسے سنی علماء نے ان کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ 20 سال کی عمر میں مسجد نبوی میں لوگوں کے لیے فتویٰ جاری کرتے تھے۔
ان کا سب سے مشہور لقب "رضا" ہے، کہا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے تمام معاملات میں رضایت حاصل کیا جاتا ہے۔
حضرت تمام زبانوں اور اصطلاحات سے واقف تھے۔ اور لوگوں سے ان کی مقامی زبان میں بات چیت کیا کرتےتھے۔ اباصلت کہتے ہیں کہ میں نےامام سے کہا: اے فرزند رسول! آپ کو تمام زبانیں اور اصطلاحات کیسے معلوم ہوئے اور اتنی آسانی سے بات چیت کیسے کر سکتے ہو؟ امام (ع) نے فرمایا: اے اباصلت ! میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے حاکم اور خلیفہ ہوں اور وہ حکیم رب اس شخص کو جو اپنے بندوں کا حاکم اور رہنما بنانا چاہتا ہے ان تمام زبانوں اور اصطلاحات سے واقف کر دیتا ہے جن سے وہ لوگوں کے ساتھ گفتگو کر سکے ، اورلوگ بھی اپنے امام سے بات کر سکے ۔
امام رضا علیہ السلام نے مزید فرمایا: توجہ فرمائیں کہ امام اور ان کا علم ایک نہ ختم ہونے والے سمندر کی مانند ہے۔ جیسا کہ قرآ ن کریم نے فرمایا ؛ ومن عنده علم الکتاب . ولارطب و لا یابس الا فی کتاب مبین. یا داود اناجعلناک خلیفة فی الارض
امام وہ ہے کہ جس کے پاس پورے کتاب کا علم ہے اور خشکی اور تری میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔ اور پھر فرمایا اے داود ، ہم نےتمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔
امام رضا (ع) نے امامت کے تسلسل کے مسئلہ کو متعدد مقامات پر تاکید کرتے ہوئے ثابت کیا کہ زمین کبھی بھی حجت الٰہی اور امام حق سے خالی نہیں رہ سکتی ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: مَن ماتَ ولَیسَ لَهُ إمامٌ ماتَ میتَةً جاهِلیةً ، جو شخص بغیر امام کے مرے وہ جاہلیت کی موت مر گیا، یعنی امام کے بغیر لوگ زندہ نہیں رہ سکتے۔
قرآن میں اہل ذکر سے مراد کیا ہے ؟ امام رضا علیہ السلام نے قرآن کہ اس آیت : «فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکرِ إِنْ کنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ»: نَحنُ أهلُ الذِّکرِ، ونَحنُ المَسؤولونَ.
کے تفسیر میں فرمایا کہ ہم اہل ذکر ہیں اور ہمارے بارے میں قیامت میں سب سے پوچھا جائے گا۔
امام رضا علیہ السلا کی وصیتیں : إنَّ مِن حَقِّ المُؤمِنِ عَلَى المُؤمِنِ: المَوَدَّةَ لَهُ فی صَدرِهِ، وَالمُواساةَ لَهُ فی مالِهِ، وَالنُّصرَةَ لَهُ عَلى مَن ظَلَمَهُ، وإن کانَ فَیءٌ لِلمُسلِمینَ وکانَ غائِباً أخَذَ لَهُ بِنَصیبِهِ، وإذا ماتَ فَالزِّیارَةُ إلى قَبرِهِ، ولا یظلِمَهُ، ولا یغُشَّهُ، ولا یخونَهُ، ولا یخذُلَهُ، ولا یغتابَهُ، ولا یُکَذِّبَهُ...:
مومن پر مومن کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اس کے دل میں دوسرے مومن کے لیے محبت ہو ، اپنے مال سے اس کی مدد کرے، اس پر ظلم کرنے والے کے خلاف اس کی مدد کرے، اگر مسلمانوں کے پاس مال غنیمت موجود ہو اور وہ دوسرا مومن غائب ہو تو اس کے لیے اپنا حصہ رکھ لے۔ اگر مرے، تو اسے قبرمیں دفن کرے، اس پر ظلم نہ کرے، اس پر جھوٹ نہ بولے، اس سے خیانت نہ کرے، اسے نہ چھوڑے، اسے نظر انداز نہ کرے، اسے جھوٹا نہ کہے۔
امام کی تواضع۔ امام علیہ السلام عوامی حمام میں داخل ہوئے، حمام میں ایک شخص تھا جو امام(ع) کو نہیں جانتا تھا تو اس شخص نے امام علیہ السلام سے کہا: میرے جسم پر یہ صابون کی تھیلی مارو، امام(ع) نے اس کے جسم پر صابون کی تھیلی مارنا شروع کیا۔ اور لوگوں نے امام کو پہچان لیا اور وہ آدمی جس نے امام سے کہا تھا۔ وہ بہت شرمندہ ہوگیااور اس نے امام سے معافی مانگی لیکن امام علیہ السلام نے اسے تسلی دی اور اپنا کام جاری رکھا۔
موسیٰ بن سیار کو ایک مومن کی تدفین کے لیے امام کی سفارش: موسی ابن سیار کہتے ہیں کہ میں امام رضا علیہ السلام کے ساتھ طوس کی طرف سفر کر رہا تھا، جب ہم طوس شہر کی دیواروں پر پہنچے تو ہم نے چیخے چلانے کی آواز سنی، ہم اس کی طرف گئے تو ہم نے دیکھا کہ جنازہ لایا جا رہا ہے۔ میں نے امام رضا علیہ السلام کو دیکھا۔ کہ گھوڑے سے اتر کر لاش کے قریب گیا اور اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا، پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
اے موسیٰ بن سیار! جو شخص ہمارے کسی دوست کی لاش کو دفن کرے گا تو اسے اپنے گناہوں سے ایسے رہائی مل جائے گی جیسے وہ اپنی ماں سے پیدا ہوا ہو اور اس پر کوئی گناہ نہ ہو۔ میں نے کہا: "میں آپ پر قربان، کیا آپ اس لاش کو جانتے ہو، جب کہ خدا کی قسم تم نے کبھی اس سرزمین کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کی طرف سفر کیا؟" امام (ع) نے فرمایا: اے موسیٰ! کیا تم نہیں جانتے ہو کہ ہمارے شیعوں کے اعمال ہر صبح و شام ہمارے سامنے پیش کیے جاتے ہیں؟
خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: