بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
میں آپ کو اور آپ سب مومنین کو تقویٰ پرہیز گاری اور پابندی سے دین اور احکام دین پر عمل کرنے کی سفارش کرتا ہوں،
حرام چیزوں سے پرہیز کرنا اور اس سے بڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور شیطان کی حملوں سے اپنے آپ کی محافظت کرنا، تقوی دار انسان کی علامت ہے، اور اسی طرح صبر کرنا اور غصے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا، اور یاد رکھیں کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں
جو بھی خدمت یا کوئی بھی اچھا کام کرتے ہیں اس کے مقابل میں اللہ تعالیٰ انکو جزا ئ خیر اور ثواب عنایت فرماتا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہے من يصبر على الرّزيّة يعوّضه اللّٰه و من يکظم غيظه يأجره اللّٰه. جو کسی مصیبت پر صبر کرتا ہے خدا اس کو اس کا بدلہ دیتا ہے۔ اور جو اپنے غصے کو پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ انکو اس کا جزائے خیر دیتا ہے۔
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہونے کو ہے اسی مناسبت سے تسلیت پیش کرتا ہوں۔ انشالله مجالس میں اپنا شرکت یقینی بنا کر ان دنوں سے فائدہ اٹھائے۔
24 ذوالحجہ 10 ہجری خدا کے لیے مخصوص ایام میں سے ایک ہے کہ جس میں نجران کی عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ ہوئی ہے اور اسی دن کو آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے۔
مباہلہ کا مطلب ہے چھوڑ دینا۔ انہوں نے اس لفظ کی تعبیر تباہی، لعنت اور خدا سے دوری کے معنی میں کی ہے، اس کی ایک معنی یہ بھی ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور خدا کے فضل کےسایہ دور ہونے کی اللہ سے خواھش رکھنا،
یامباہلہ کرنے والوں کا ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے۔
خدا کے حکم کے مطابق، خدا کے پیغمبر نے علی اور ان کے خاندان کی ایک خاص انداز میں تعظیم کی، اور مختلف مواقع پر ان کے فضائل کا اظہار کیا۔
ان مواقع اور مناسبات میں سے ایک میدان مباہلہ ہے۔ مباہلہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے علی کو پیغمبر کا "نفس" کہا ہے، جس کا مطلب ہے پیغمبر کے بعد امت کی قیادت کے تسلسل کے لیے نفس رسول امیر المومنین علی علیہ السلام کا تعین کرنا۔
اور یہ کہ پیغمبر کے بعد علی کو پیغمبر کی جان کے طور پر متعین کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جب تک نفس رسول موجود ہوں کوئی اور جانشین نہیں بن سکتا ہے۔
ترمذی اور حاکم کی نقل کردہ حدیث کی رو سے عرض کرو کہ سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں: کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی « نَدْعُ أَبْنَاءَنَا ...» تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا
اور پھر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اھلبیت ہے۔
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ«نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ » ( آل عمران: 61) دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلی «عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا علیهم السلام،» فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
عامر بن سعد نے اپنے والد کی سند سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: "فقل تعالوا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ » ( آل عمران: 61) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم لوگ اپنے بیٹوں کو،
ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے آپ کو اور تم لوگ اپنے آپ کو حاضر کرائیں" (آل عمران۔ :61) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "علی، فاطمہ، حسن، اور حسین سلام اللہ علیہا کو پکارا" اور فرمایا: "اے خدا، یہ میرے اھلبیت ہیں۔
تفسیر کشاف میں آیت مباہلہ کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں: اصحابِ کساء کی فضیلت کے لیے بس یہی ایک فضیلت آيت مبالہ « فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا ...» ہی کافی ہے اور اصحاب کساء، علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ کیونکہ جب آیت نازل ہوئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسین کو گود میں اٹھايا اور حسن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے چل رہے تھے۔
اس اقدام سے آیت کا منشاء اور مفہوم واضح ہوگیا کہ فاطمہ کی اولاد کو پیغمبر کی اولاد سمجھا جاتا ہے اور ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔اگرچہ پیغمبر اپنی ازواج کو "عورت" کے عنوان سے لا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا
کیونکہ ایسے مھم مقام پر اگر کوئي خاتون یہ مھم کردار اداء کرسکتی تھی تو وہ واحد شخصیت ہے کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس اہم معاملے میں شرکت کرنے کا خصوصی اعزاز حاصل ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں،
اور اگرچہ "انفسنا" کے عنوان سے جو اجتماعی شکل میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے تھے۔ کہ بعض صحابہ کو لے کر آئے ہیں، لیکن وہ واحد ہستی جو رسول اللہﷺ کی نفس مانی جاتی ہے،
اس اہم معاملے میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک ہونے کا خاص مقام رکھتا ہے، صرف حضرت علی علیہ السلام ہےاور دیگر صحابہؓ کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔
حسکانی، مباہلہ آیت کی تفسیر میں ابن عباس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: کہ" انفسنا" نبی اور علی کی شان میں نازل ہوئی، "نسائنا" فاطمہ کی شان میں نازل ہوئیں۔ اور حسن و حسین کی شان میں
"ابنائنا" کا نزول ہوا ہے۔
مسلم اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ،علی کے بارے میں تین باتیں سنی ہے کہ جس کے بعد میں ہرگز علی کو سب و شتم (نازبیا) الفاظ نہیں کہ سکتا ہوں،
کہ اگر ان تینوں میں سے ایک بھی مجھے ملتی تو وہ میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بہتر ہوتا ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ تبوک کی موقع پر حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔
علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا: کیا آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں اپنا جانشین بنایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ (تم میری امت میں میرے خلیفہ ہو) اور اپکا مقام وہ مقام ہے
کہ جو ہارون کا موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں تھا ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟ اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے خیبر کے دن فرمایا تھا: کہ کل میں اس جھنڈےاس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ اور اللہ انکے ہاتھوں پر قلعہ خیبر کو فتح کریں گا۔
ہم سب اس مقام تک پہنچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نزدیک آگئے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی سے کہو کہ وہ آئیں، وہ انہیں لے آئے جب کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لعاب مبارک کو انکی آنکھوں پر لگایا (آنکھ ٹھیک ہوگئی) اور جھنڈا علی کے ہاتھ میں دے دیا اور خدا نے علی کے ہاتھ پر فتح کی ۔
اور جب مباہلہ کے وقت یہ مبارک آیت ’’فقل تعالوا ندعوا ۔۔۔‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: اے میرے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
خدایا ظہور امام زمان علیہ السلام میں تعجیل فرما۔
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: