بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
قال الحکیم فی کتاب المبین:
اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ
اہل تقویٰ یقینا امن کی جگہ میں ہوں گے(سورة الدخان، آیة 51)
یعنی بے شک جو لوگ پرہیز گار ہیں وہ امن و سکون کی جگہ پر ہوں گے (اس مشکل دن قیامت میں پرہیز گار اور متقی لوگ محفوظ مقام پائیں گے جو کہ باغات میں چشموں اور ندیوں کے کنارے ہوں گے).
مولا المواحدین امیر المومنین علی علیه السلام خطبہ متقین کے آغاز میں فرماتے ہیں: اے ہمام! خدا سے ڈرو اور نیک بنو کیونکہ خدا متقین اور نیک لوگوں کے ساتھ ہے.
ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ متقی لوگ ظاہری طور پر تو مشکلات دیکھتے ہی ہیں لیکن دین اور دنیا میں کامیاب ہیں.
محترم جناب مومن صاحب کہتے ہیں کہ ہم شیراز کے مشہور عالم سید ہاشم کے ہمراہ ایک کاروان میں بس کے ذریعے ثامن الحجج (ع) امام علی رضا علیه السلام کی زیارت کے لیے نکلے.
راستے میں قم المقدسہ سے بھی گزرے اور بی بی معصومہ سلام اللہ علیها کے حرم کی زیارت کی اور دو دن قیام بھی کیا.
وہاں سے کچھ تحفے تحائف لے کر نکلے تو راستے میں ایک بزرگ کو دیکھا جو چھوٹا سا بیگ لے کر پیدل ثامن الحجج (ع) کی زیارت کے لیے مشہد مقدس کی طرف جا رہے تھے.
ہماری گاڑی میں جگہ تھی تو میں نے سید ہاشم سے اجازت لی اور بس رکوا کر بزرگ کو دعوت دی کہ ہمارے ساتھ بس میں سفر کریں لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا.
میں نے منت سماجت کی تو انہوں نے ایک شرط پر قبول کیا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھیں گے. میں نے ان کی بات مان لی اور وہ ہمارے ساتھ سوار ہو گئے.
جناب مومن کہتے ہیں کہ دوران سفر زائرین دوپہر کے کھانے کے لیے رکے تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ جانا چاہتا تھا کہ اتنے میں اس بزرگ نے کہا کہ دوپہر کے کھانے کے لیے میرے مہمان بنو تو میں نے قبول کیا. اس بزرگ نے دو روٹیاں نکالیں اور ان پر سبز کشمش رکھی. ایک روٹی میں نے لی اور ایک انہوں نے کھا لی. پھر مجھ سے کہا کہ ایک مرتبہ اپنے دوستو ں کو دیکھ کر آؤ لیکن کچھ مت بولنا،
سو میں دوستو ں کی طرف آ گیا اور دیکھا کہ سب کے ہاتھ منہ گندے ہیں. میں بہت حیران ہوا لیکن کچھ ناں کہا اور واپس آگیا. بزرگ نے پوچھا کہ کیا تم نے دیکھا؟ میں نے کہا ہاں.
پھر بزرگ نے سمجھایا کہ آپ نے بھی اب تک اسی طرح کھانا کھایا ہے. میں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا چونکہ آپ لوگوں نے تقویٰ اور پرہیزگاری کو شعار نہیں بنایا.
پھر انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کا انتظار کرو، اب میری آخری سانسیں ہیں اور حیات ختم ہونے والی ہے لہٰذا سید ہاشم کو میرا سلام پہنچاؤ
اور کہو کہ مہربانی کر کے میرے جسد خاکی کو صحن امام رضا علیه السلام میں دفن کرنا. یہ کہ کر ایک چھوٹا سا بیگ نکالا جس میں دس تومان تھے اور کہا کہ ان سے میری تدفین کروائیں.
یہ ہیں تقویٰ اور نیک اعمال کے آثار کہ اس بندے کے پاس ماضی اور مستقبل کا علم تھا اور یہ کہ اس سفر اور صحرا میں اس کے لیئے گرم روٹیاں تیار کی گئی تھیں.
8 ربیع الاول گیارہویں امام حسن عسکری علیه السلام کی شہادت کی مناسبت سے ہدیہ تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں. آپ 8 ربیع الثانی یا ایک روایت کے مطابق 10 ربیع الثانی 232 ھجریٰ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے.
آپ چار برس کے تھے جب متوکل عباسی کے حکم پر اپنے والد بزرگوار امام علی نقی علیه السلام کے ہمراہ سامرہ منتقل ہوئے اور 260 ھجریٰ میں 28 سال کی عمر میں شہید ہو گئے اور والد بزرگوار کے مرقد کے ساتھ سپرد خاک کیے گئے.
ان دو آئمہ طاہرین کے مرقد حرم عسکرییین کے نام سے معروف ہیں.
آپ بعد شہادت آقا امام ہادی النقی علیه السلام کے امامت و ولایت کی درجے پر فائز ہوئے. آپ نے اپنی امامت کے چھ سال شہر سامرہ میں بہت زیادہ مشکلات اور سختیوں کے ساتھ گزارے یہاں تک کہ اپنے دوستوں کے ساتھ رابطہ کرنا بہت سخت اور مشکل تھا. آپ کے کچھ خاص نائبین تھے جن کے ذریعہ لوگوں سے رابطہ کرتے تھے اور بالآخر 260 ہجری میں حاکم کے حکم پر شہید کر دیئے گئے.
خداوند متعال نے اپنے پیغمبروں، اولیاء و اوصیاء کو کچھ خاص معجزوں کے ساتھ نوازا ہے جو عام لوگ نہیں کر سکتے تاکہ یہ معجزے ان کے لیے صحیح راستے پر ہونے کی دلیل ہوں
اور اس طرح وہ لوگوں کو بہترین ہدایت اور رہنمائی کر سکیں. اسی ضمن میں امام حسن عسکری علیه السلام کی کچھ کرامات آپ لوگوں سے بیان کرنا چاہتا ہوں.
ابو ہاشم جعفری نے نقل کیا کہ انہوں نے امام کو ایک خط میان اپنی سختیوں کے بارے میں آگاہ کیا. امام نے جواب میں لکھا کہ انشاء اللہ آپ آج نماز ظہر اپنے گھر میں ہی پڑہیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ نماز ظہر میں نے اپنے گھر میں ادا کی.
ابو ہاشم کہتے ہیں کہ امام ہادی علیه السلام کی شہادت کے بعد میں بہت سخت مالی مشکلات میں گرفتار تھا اور میرا ہاتھ خالی تھا. چاہتا تھا کہ امام علیه السلام سے کچھ تقاضا کروں لیکن شرم کی وجہ سے نہ کہہ پایا.
جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ امام علیه السلام نے میرے لئے 100 دینار بھیجے ہیں اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ جب بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو بلا جھجک بولا کریں اور شرم نہ کیا کریں.
ابو ہاشم جعفری ایک امین آدمی تھے. کہتے ہیں کہ میں نے ابو محمد علیه السلام سے سنا کہ بہشت میں ایک خاص دروازہ ہے جس سے صرف اچھے لوگ گزریں گے میں نے یہ سنا اور خوش ہو گیا.
اسی حالت میں امام علیه السلام میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جو کچھ تمہارے دل میں ہے میں اس سے آگاہ ہوں.
ایسا ہی ہے کہ اچھے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں اہل خیر میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہیں بھی انہی میں سے قرار دیں.
ایک دن محبین آل پیغمبر ایک محفل میں امام علیه السلام کی کرامات بیان کر رہے تھے تو وہیں ایک شخص بیٹھا تھاکہ جو ان چیزوں پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا اس نے کچھ سوالات اپنے انگلی کے ساتھ ایک صاف کاغذ پر لکھے
اور کہا کہ میرے ان سوالات کا جواب پوچھ کر بتاؤ. پس ہم نے وہ کورا صفحہ گیارہویں امام علیه السلام کی خدمت میں بھیجا. امام نے ان تمام سوالات کا جواب دیا اور اس آدمی کا نام اور اس کے والد کا نام بھی درج کیا.
جب اس نے امام کا جواب نامہ دیکھا اور پڑھا تو بے ہوش ہوگیا. جب ہوش میں آیا تو اس نے امام علیه السلام کی امامت کی تصدیق کی اور یوں راہ راست پر ہدایت ہوگیا.
امام حسن عسکری علیه السلام کے کچھ جمالات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہو۔
فرمایا کہ میں آپ سب کو وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اپنائیں اور اپنے دین میں کوشش کرتے رہیں. سچ بولنے والے بنیں اور امانت کو ادا کریں کیونکہ جب کسی نے تمہیں امین جان کر امانت دی تھی تو آپ بھی ثابت کریں کہ آپ امانت دار ہیں.
اچھے عمل کرنے والے بنے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے اخلاق اختیار کریں. اپنے قبیلے والے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑہیں اور ان کے تشیع جنازہ میں شرکت کریں.
اگر آپ کے جاننے والے بیمار ہیں تو ان کی عیادت کریں اور ان کے حقوق ادا کریں. یہ سب وہ عمل ہیں جن سے مجھےخوشی ملتی ہے. اللہ سے ڈریں، ہمارے لیے باعث عزت بنیں ناں کہ باعث ذلت.
اپنے خالق و معبود اور موت کو ہمیشہ یاد رکھا کریں. نیک سیرت بنیں اور اپنے پیغمبر و آل پیغمبر ﷺ پر کثرت سے درود پڑہیں.
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،
امام مہدی عجل الله فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔ دعا کرتے ہیں کہ ہم سبھی کو مکتبہ قرآن اور چھاردہ معصومین علیہم السلام میں سے قرار دے۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
فائل اٹیچمنٹ: