1/11/2021         ویزیٹ:952       کا کوڈ:۹۳۸۴۰۸          ارسال این مطلب به دیگران

نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو » نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو
  ،   24 جمادی الاول 1442(ھ۔ ق) مطابق با 08/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

8 جنوری 2021 بمطابق 23 جمادی الاولیٰ
خطبہ و نماز جماعت جمعۃ المبارک
خوش آمدید 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مسجد امام حسین علیہ السلام ، دبی کی جانب سے نماز جمعتہ المبارک کے منعقدہ پرنور اجتماع میں بھرپور اور منظم انداز سے شرکت پر خوش آمدید کہتے ہیں اور تہ دل سے مشکور ہیں کہ باوجود مختصر وقت و محدود وسائل کے آپ نے بھرپور تعاون کیا ۔ ہم فرداً امید کرتے ہیں کہ اس اجتماع عظیم و نماز پنجگانہ میں شرکت کے لیے وزارت صحت و متعلقہ ادارہ جات کی جانب سے جاری کردہ اصول و ضوابط کی پاسداری و انجام دہی کی جائے گی اور ایک بھرپور ، پرخلوص ، تعلیم یافتہ ، منظم اور باشعور قوم و معاشرہ ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے ۔

اما بعد ۔۔۔ عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، خوف خدا اور زندگی کے تمام لحظات میں مرضی خدا و قدرت خدا کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے کی گذارش کرتا ہوں ۔

وقت کی قلت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں چند آیات و احادیث کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔ 

وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں ۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے ؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے ۔ 
(سورۃ النور آیت 22)

ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام کی محفل میں آکر سوال کیا کہ اخلاق کے متعلق کچھ بتائیے ، آپ نے فرمایا ! بہترین اخلاق یہ کہ اگر تم پر ظلم ہو تو معاف کرو ، جس نے تم سے رابطہ منقطع کیا پس تم اس سے رابطہ بحال کرو ، جس نے تم سے ہاتھ کھینچا پس تم اسے عطا کر دو اگرچہ حق بات کہنا تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔

بخشش و درگذر کرنا ایک طرح کی فرصت کا زمانہ ہوتا ہے جس سے استفادہ حاصل کیا جائے تو معنوی کمالات تک پہنچا جا سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعٰالی نے سختی کے میدان میں تحمل کرنے کو انسانیات کے کمالات تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے یعنی وہ کمالات جنہیں حاصل کرنے کے لیے سخت ترین مراحل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ 

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ!
مت سہل جانو کہ پھرتا ہے فلک برسوں 
تب کہیں خاک کے پردے سے انساں نکلتا ہے

البتہ اگر ایسا نہ ہوا (یعنی سخت مراحل سے نہ گذرے ہوں) تو عفو و درگذر کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ بنیادی یا عام حالات میں صلح رحمی کرنا بہترین وظیفہ ہے ، لیکن جب کوئی تم سے قطع رحمی کر لے تو پھر اپنے نفس کی تربیت کرنے کے لیے یہ بہترین لمحات (مواقع) ہیں ۔ یعنی صلح رحمی کی برکات تو ملتی رہیں گی لیکن ساتھ ہی ساتھ تہذیب نفس (شخصیت کو مہذب بنانے) کا موقع بھی مل جاتا ہے ۔

اسی طرح کسی پر احسان کرنا یا عطا کرنا (امداد یا معاونت کرنا) بھی انسان کے لیے ایک کمال ہے ۔ البتہ اگر یہ احسان اور عطا کرنا ایک ایسے شخص کے لیے ہوں جس نے تم پر یہ چیزیں بند کر دی ہوں تو یہاں انسانیت کے درجے تو بے شمار ہوں گے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عظیم سعادت بھی ہو گی کہ آپ اس شخص کے ذریعے اپنا تہذیب نفس بھی کریں ۔ پس یہ سب فرصتیں ، لمحات یا مواقع دراصل سعادتیں ہیں ،  تکالیف نہیں ۔ پس جب دوسروں کے بدولت ہمیں سخت حالات و مشکلات سے گزرنا پڑ جائے تو حقیقت میں یہ الطاف الہٰی (الہٰی مہربانیوں) میں سے ہے تاکہ ان سنہرے لحظات و لمحات و ادوار سے فائدہ اٹھائیں اور بہترین روحانی کمالات پر پہنچتے رہیں ۔

آپ تمام نے سن رکھا ہوگا کہ مشرکین مکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہانت و نازیبا الفاظ کا استعمال کیا کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں ان واقعات کا یوں تذکرہ ہوا ہے 
وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ
کہنے لگے (یہ تو) پڑھایا ہوا (اور) دیوانہ ہے
(سورۃ الدخان ، آیت 14)

هَذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ
کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر ہے جھوٹا ہے
(سورۃ ص ، آیت 4)

لَسْتَ مُرْسَلً
کہتے ہیں کہ تم (خدا کے) رسول نہیں ہو
(سورۃ الرعد ، آیت 43)

یعنی وہ لوگ صریحاً کہتے تھے کہ تم دیوانے ہو ، تم جھوٹے ہو اور تم اللہ کے بھیجے ہوئے بھی نہیں ہو ۔ پھر جب مکہ فتح ہوا اور یہی تمام مشرکین قیدی بنا لیے گئے لیکن باوجودیکہ اُن تمام اہانت کے رحمت العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں آزاد کر دیا یہاں تک کہ ایک بندہ پہاڑ پر چڑھ کر چلانے پکارنے لگا کہ آج "یوم انتقام" ہے لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے تنبیہ کی کہ آج رحمت کا دن ہے ۔ لہٰذا اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اُن تمام مشرکین کو معاف کر سکتے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے عزیز و اقرباء کو کیسے معاف نہ کر دیں اگرچہ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ موقعوں پر ہم خود ہی غلط ہوں ۔

چاہیے تو یہ کہ اہل خانہ (شوہر و زوجہ) اپنے ہمسر کی نسبت بخشش اور درگذر کرنا چاہیے پر لیکن کبھی کبھی تو ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک ہمسر اپنی غلطی پر پشیمانی کا اظہار بھی نہیں کرتا یا کرتیں ، لیکن اس کے باوجود بھی ایک کو دوسرے فرد کو معاف کر دینا چاہیے ، کیونکہ خانوادوں میں ایسی مشکلات و آفات آ ہی جاتی ہیں لیکن بہترین زندگی وہ ہے جس میں موًدت و رحمت ہو ۔ پس حقیقت یہ کہ معاف کرنا اور درگذر کرنا بہترین سعادت ہوتے ہیں تاکہ اپنے نفوس کو زمین پر دے ماریں اور وہاں سے اسے کمال پر پہنچا دیں ۔

وہ افراد جو چاہتے ہوں کہ اپنے نفوس کو تہذیب و تربیت دیں تو وہ اپنے ارد گرد مواقع (سعادتوں) کے حصار میں رہتے ہیں ۔ ان مواقع میں سے ایک موقع (سعادت) یہ کہ جہاں غصہ و تلخ کلامی ہو جائے اور یہ حالت عموماً ہمارے معاشرے میں پیدا ہو ہی جاتی ہے تو ایسے افراد فوراً اپنے ارادے (کنٹرول) کے زریعے غصے و ناراضگی کو رضامندی و میل ملاپ میں بدل دے ، تھیک اسی طرح کینہ و عداوت کو بھی الفت و دوستی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ عزیزان! جدائی اور فاصلوں کو ختم کریں ، ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ رکھیں ، اپنے خانوادوں میں اختلافات رکھنے کی بجائے محبت و دوستی رکھیں ۔

ایک شخص نے ایک محفل میں امام صادق علیہ السلام کی اہانت و تذلیل کی اور وہاں سے چلا گیا ۔ آپ نے اپنے اصحاب سے اس کے گھر کا پتہ لیا اور چند محبین کے ساتھ گھر آ گئے اور تقاضہ کیا کہ وہ گھر سے باہر آ جائے ۔ اب یہ شخص ایسی حالت میں باہر آ رہا تھا کہ خوف کے مارے کانپ رہا تھا کہ اسے ضرور کوئی صدمہ پہنچنے والا ہے ، لیکن آپ نے فرمایا کہ جو کچھ تم نے میرے لیے کہا ہے اگر مجھ میں ہے تو اللہ مجھے معاف کر دے اور اگر نہیں ہے تو اللہ تمہیں معاف کر دے ۔ یہ بات سن کر وہ بہت پشیمان ہوا اور امام علیہ السلام کی پیشانی کو بوسہ دے کر کہا! جو مغلظات و نازیبا الفاظ میں نے کہے وہ آپ میں بالکل نہیں بلکہ ان کا اصل حقدار تو میں ہی ہوں ۔

ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی ناراضی و غیض و غضب کا باعث بنا ، آپ نے اس کی طرف دیکھا ۔ اس شخص نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا کہ خداوند متعٰال فرماتا ہے کہ وَالْکَاظِمِينَ الْغَيْظَ (اور جو اپنے غصے کو روکتے ہیں) تو امام علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بھی آپ سے اپنے غصے کو ہٹا لیا ۔ پھر اس شخص نے دہرایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں) تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بھی اللہ کی بخشش میں آ چکے ہو یعنی میں نے تمہیں معاف کیا ۔ پھر اس شخص نے دہرایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ نیکو کاروں (احسان کرنے والوں) کو پسند (دوست) فرماتا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جائو تم اللہ کی راہ میں آزاد ہو ۔ 
(سورۃ آل عمران ، آیت 134)

امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمیں اپنے نفوس کی بہترین اخلاق و عادات کی مشق کراتے رہنا چاہیے تاکہ اس کی عادت بنے ، کیونکہ جب انسان اچھے کام انجام دینے کو اپنی سیرت بنا لے تو اس سے اچھے کام ہی انجام پاتے ہیں ۔

پھر فرماتے ہیں کہ 
 شَرُّ النَّاسِ مَنْ لَا يَعْفُو عَنِ الزَّلَّةِ وَلَا يَسْتُرُ الْعَوْرَةَ
سب سے برے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتے ، جو کوئی تم سے پشیمان ہوتا ہے اور معافی مانگتا ہے تو اس کو اپنے سے ناراض مت کرو اور بخش دو یا ناامید مت کرو ۔ 

خدایا پروردگارا ! ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما ، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
 
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ إِنَّ الاْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍإِلاَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم


فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے

     
امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک