حضرت علی اکبر علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی
آج کا دن خاندان رسالت اور ان کے چاہنے والوں کے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا دن ہے کیونکہ یہ دن شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر(ع) کے جشن میلاد کا دن ہے۔ روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تمام خدام اور الکفیل انٹر نیشنل نیٹ ورک کے تمام ارکان دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں اور خاص طور پر امت مسلمہ کو اس پُر مسرت مناسبت پہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
آج کے دن کی مناسبت سے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی پیش کرتے ہیں:
اسم مبارک: علی
آپ حضرت امام حسین کی اولاد میں سے منجہلے علی ہیں کہ جن کو علی اوسط کہا جاتا تھا اس طرح کہ علی اکبر امام زین العابدین علیہ السلام اور علی اصغر ششما ہے شیر خوار کا نام گرامی تھا۔ لیکن یوم عاشورا کے بعد سے یہ نام اپنی خصوصیت سے تبدیل ہوگئےچونکہ تین میں سے دو علی یوم عاشور میں شہید ہوگئے اس لیے ان ہی میں سے بڑے کو علی اکبر کا خطاب مل گیا وہ علی اوسط سے آج علی اکبر مشہور ہوئے ۔(چمنستان محمد پر خزاں)
تاریخ و مقام ولادت : اگر چہ آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن کسی حد تک معتبر روایات کے مطابق آپ 11/ شعبان المعظم 42ہ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
والدہ ماجدہ : آپ کی مادر گرامی ام لیلی بنت ابوقرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی تھیں (ارشاد شیخ مفید) جناب ام لیلی کے والد قبیلہ بنی ثقیف کی ایک بزرگ آدمی تھے۔
القاب : صدیق ، مظلوم، نجم العالمین، زکی ، سید ، ولی اللہ ، شہید، شبیہ رسول۔
کنیت: ابو الحسن، ابن رسول۔
پرورش : شہزادہ کی تربیت ان حضرات کے زیر سایہ ہوئی جو دین اسلام کے سچے فدائی تھے، حقانیت و معرفت کے پتلے ، ایمان کے مجسمےاور مواسات و ہمدردی کے مرقع تھے۔عدل و انصاف کے قالب ، شجاعت و دلیری کے محور، علم وحکمت کے خزانے اور خلوص و صداقت کے مرکز تھے۔ ایسی ہستیوں کے زیرسایہ پرورش پانے والابچہ جن کمالات و علوم اور فضائل و اخلاق کا حامل ہوسکتاہے ، وہ ظاہر ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت علی اکبر علیہ السلام سے بہت محبت کرتے تھے، صاحب ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ طاقت نسان و لطف بیان ،صباحت رخسارو ملاحت دیدار،نیکوئی خلق اور شمائل میں حضرت علی اکبر علیہ السلام سے زیادہ زمین پر کوئی بھی ہم شبیہ رسول نہ تھا ۔
اخلاق و عادات : حضرت علی اکبرعلیہ السلام اخلاق میں ظل رسول تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر شعبہ رسالت کے ایام کو یاد دلاتا تھا ، اس لیے امام حسین علیہ السلام نے جناب علی اکبرعلیہ السلام کےمتعلق ارشاد فرمایا: اللہم اشہد علی ہولاء القوم فقد برزالیہم اشبہ الناس خلقا و منطقا برسولک، کنا اذا اشفقنا الی نبیک نظرنا الی وجہہ۔ میرے معبود شاہد رہنا اس قوم پر کہ ان کی طرف وہ جوان لڑنے جارہا ہے جو سب سے زیادہ خوبصورت و سیرت و رفتار و گفتار میں تیرے رسول سے مشابہ ہے ، اور جب ہم تیرے رسول (ص)کی زیارت کے متمنی ہوتے تو اسی کا چہرہ دیکھتے تھے۔
اس کلام سے ثابت ہورہا ہے کہ جیسی صورت و سیرت رسول خدا(ص) کیتھی وہی علی اکبرعلیہ السلام کی تھی ۔
علامہ ابن شہر آشوب حضرت علی اکبرعلیہ السلام کے ذکر میں فرماتے ہیں : آپ اپنے پدر بزرگوار کے مطیع و فرمانبردار صاحبزادے تھے ،احکام شریعت سے کما حقہ واقف تھے،آپ انتہائی شجاع و متقی اور خداپر توکل رکہنے والے تھے۔
مہمان نوازی: عرب میں یہ رواج تھا کہ جسگھر میں آگ روشن دیکھتےاس کے یہاں مہمان ہوتے تھے۔ جناب علی اکبرعلیہ السلام بھی ایک بلند مقام پر آگ روشن کرتے تھےتاکہ فقراء و مساکین آئیں اور آپ کے مہمان ہوں ۔
دشمن کی نگاہ میں خصوصیات : ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے خلوت کے دربار میں اپنے اہل بزم سے کہا کہ تمہاری نظر میں آج مسند خلافت رسول(ص)کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ سب خوشامد خوروں نے دست بستہ عرض کی کہ ہرلحاظ سےہم تو تجھ ہی کو مستحق خلافت جانتے ہیں ۔معاویہ نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے انصاف سے دیکھو تو تمام عرب میں علی بن الحسینؑ سے زائد ہرگز اس مسند کے لیے کوئی اور مستحق نہیں کیونکہ ان کے جد رسول خدا(ص) ہیں ، بنی ہاشم کی شجاعت اور بنی ثقیف کا حسن ان کی ذات میں جمع ہیں اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو دیکھ کر رسول (ص) کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے ۔
جس وقت جناب علی اکبرعلیہ السلام میدان جنگ میں تشریف لے گئے تو عمر سعد نے عسکر بن سعد کو حکم دیا کہ اے عسکر بن سعد اس کا مقابلہ کرو تو عسکر نے کہا: کہ میں اس سے مقابلہ نہیں کرونگا اس لیے کہ یہ شبیہ رسول(ص) ہیں ۔
سفر کربلا: حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا سفر اختیار کیا اور آپ کا قافلہ مقام زبالہ پر پہنچا تو آپ کو غنودگی طاری ہوگئی اس وقت آپ نے کسی کی آواز سنی کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اے حسینؑ آپ عراق کی طرف جلدی فرمار ہے ہو اور موت آپ کا تعاقب کررہی ہے کہ آپ کو فردوس بریں لے جائے ،جب آپ بیدار ہوئے تو زبان پر کلمہ انا للہ و انا الیہ راجعون جاری فرمایا کڑیل جوان بیٹا فورا سامنے آتا ہے اور دست بستہ عرض کرتا ہے بابا اس وقت اس کلمہ کے زبان پر جاری کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ امام حسینؑ نے ارشاد فرمایا اے لخت جگر میں نےابھی خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ اے حسین(ع) آپ عراق کی طرف جلدی فرمار ہے ہو اور موت آپ کا تعاقب کررہی ہے کہ آپ کو فردوس بریں لے جائے۔
جناب علی اکبرؑ عرض کرتے ہیں: اے بابا اللہ آپ کو تمام مصائب سے محفوظ رکھے کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ بیٹے کا یہ کلام سن کر امام علیہ السلام فرماتے ہیں قسم بخدا ہم حق پر ہیں ۔ شہزادہ علی اکبرؑ اس جواب کو سن کر خوش ہوگئے اور عرض کیا کہ اے بابا اب ہمیں کوئی پرواہ نہیں کہ موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جاپڑیں۔ (واقعات کربلا)
صبح عاشور: صابر و شاکر امامؑ نے رفقائے باوفا اور اعزائے نامدار سمیت عبادت خدامیں رات گذاری یہاں تک روز عاشور کی سپیدی نمودار ہونے لگی انجم فلک اس منظر کی تاب نہ لاکر غروب ہونے لگے امام علیہ السلام مع جانثاروں کے مصلوں سے تجدید تیمم کے لیے اٹھے ایک بار آپ نے اپنی قلیل سی فوج پر نظر ڈالی کڑیل جوان بیٹے پر نظر امامت جمی حکم دیا بیٹا اذان کہو ہمشکل پیغمبر گلدستہ اذان پر تشریف لے گئے شبیہ پیغمبر(ص) نے لحن رسول اللہ میں اللہ اکبر کہا ادھر سیدانیاں ہمہ تن گوش ہوگئیں، عالم امکان محو ہوگیا ، وحوش وطیور جھومنے لگے ، میراخیال ہے علی اکبر سے اذان کہلواکر دشمنوں پر اتمام حجت کرنا مقصود ہو اس لیے کل کو یہ کہہ سکیں کہ پہچانا نہیں دن بھرکا موقع ہے دنیا دیکھ کر ضرور کہے گی کہ اس جوان رعنا نے صبح کو رسول(ص) کی آواز یاد دلائی تھی ادھراذان ختم ہوئی بیبیاں خیموں میں اور مرد امام کے پیچھے نماز صبح میں مشغول ہوگئے۔
اول قتیل : نماز صبح اور اس کی تعقیبات سے فارغ ہوکر امام علیہ السلام نے اپنی قلیل سی فوج کی طرف دیکھا اور دشمن کی فوج کی طرف سے تیروں کی بارش ہونی شروع ہوگئی امام علیہ السلام نے اپنے لشکر کو مرتب کیا اس طرح کہ میمنہ کا سردار زہیر قین کو اور میسرہ کا سردار اپنے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر کو اور علمدار لشکر حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کو قراردیا اور قلب لشکر میں جناب علی اکبرعلیہ السلام کوکھڑا کیا ۔ جنگ شروع ہوئی اور ایک ایک کرکے اصحاب امام شہید ہوتے ر ہے۔ یہاں تک کہ ظہر عاشورہ آگئي اور اب اقرباء کی باری آئی ۔
علامہ ابوالفرج اصفہانی نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی اسناد سے لکھاہے کہ شہید اول حضرت علی اکبر علیہ السلام ہیں اور زیارت ناحیہ میں بھی امام آخر الزمان علیہ السلام نے اول قتیل کہہ کر سلام کیا ہے : السلام علیک یا اول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالۃ ابراہیم الخلیل، میرا سلام ہو اس شہید پر جو نسل ابراہیمی میں سب سے پہلے شہید ہوا اس سے واضح ہوتا ہے کہ مظلوم کربلا نے سب سے پہلے اپنے ہی لخت جگر کو قربان کیا تا کہ دوسروں کے لیے حجت قرارپائے ۔ اگر چہ بیشتر کتابوں میں یہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی شہادت کے بعد جناب علی اکبرعلیہ السلام شہید ہوئے ۔
مزار شریف: حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کے کنارے پائین پا آپ کی قبر مطہرہے۔اور مستحب ہے حضرت علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کو اس طرح پڑھا جائے:
اَلسَّلامُ عَلَيْکَ يَا بْنَ رَسُولِ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْکَ يَا بْنَ نَبِيِّ اللهِ، اَلسَّلامُ عَلَيْکَ يَا بْنَ اَميرِ الْمُؤْمِنينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْکَ يَا بْنَ الْحُسَيْنِ الشَّهيدِ، اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا الشَّهيدُ، اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا الْمَظْلُومُ وَابْنُ الْمَظْلُومِ، لَعَنَ اللهُ اُمَّةً قَتَلَتْکَ، وَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً ظَلَمَتْکَ، وَلَعَنَ اللهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضَيِتْ بِهِ.
فائل اٹیچمنٹ: