خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ربِّ العالمين نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين سيّما بقيّة الله في الأرضين وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين
اما بعد اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
و بعد از این
گذشتہ جمعے ہم نے " دنیا کی صفات " کے موضوع پر بحث کی تھی ۔ لیکن چاہتا ہوں کہ آج یہ بیان کروں کہ مومن دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں یعنی مومن دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟
اگر میں ایک مومن ہو کر دنیا کی طرف نگاہ کروں تو اس نگاہ میں دنیا کو کیسا ہونا چاہیے ؟ کیونکہ کہتے ہیں کہ جاہل افراد یا تو افراط (حد اعتدال سے بڑھ جانا) کرتے ہیں یا تفریط (غفلت کرنا) ۔ اسی لیے ہماری دنیا پر نگاہ جاہلانہ نہ ہو بلکہ اگر عالم اور مومن کی نگاہ ہو تو اس کے لیئے کوئی ملاک (ایسی شے جس پر کوئی چیز قائم ہو) ہونا چاہیے اور ہمارے لئے معیار اور نمونہ تو خود حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔
سورۃ الاحزاب ، آیت 21 میں ارشاد فرماتے ہیں :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
آپ لوگوں کے لیے رسول اللہ (ص) کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں دنیا کیا ہے اور آپ دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے ؟
1 : مومن دنیا کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر نگاہ کرتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کچھ چیزوں سے غافل ہو ۔
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ ، حکمت 119 میں فرماتے ہیں :
مَثَلُ الدُّنْيَا کَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا - والسَّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا - يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ ويَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ
دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اس کے اندر زہر قاتل ہوتا ہے ۔ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور صاحب عقل و ہوش اس سے ہوشیار رہتا ہے ۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
إنما ينظر المؤمن إلى الدنيا بعين الاعتبار
ایک مومن کی دنیا کی طرف نگاہ اعتباری ہونا چاہئے یعنی کوئی ثابت اور مستقل نگاہ نہ ہو یعنی جہات (وہ حقائق یا عوامل جو پرکھنے کے لائق ہوں) کو دیکھ کر صحیح موازنہ کر کے دیکھے ۔
2 : مومن دنیا کو تاجر کی نگاہ سے دیکھتا ہے یعنی جو کچھ اس کے لیئے مفید ہے وہ لیتا ہے لیکن جو اس کے لیئے مضر ہو اسے چھوڑ دیتا ہے ، یعنی دنیا خرید اور فروخت کی جگہ ہے ۔ کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ دنیا کے پیروکار بن جائیں یا دنیا آپ کی پیروکار ہو ۔
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ ، حکمت 130 میں فرماتے ہیں :
اﻟدﱡﻧْﯾَﺎ دَارُ ﻣَﻣَرﱟ. ﻻ دَارُ ﻣَﻘَرﱟ وَ اﻟﻧﱠﺎسُ. ﻓِﯾﮭَﺎ رَﺟُﻼنِ رَﺟُلٌ ﺑَﺎعَ. ﻓِﯾﮭَﺎ ﻧَﻔْﺳَﮫُ ﻓَﺄَوْ ﺑَﻘَﮭَﺎ وَ . رَﺟُلٌ . اﺑْﺗَﺎعَ . ﻧَﻔْﺳَﮫُ . ﻓَﺄَﻋْﺗَﻘَﮭَﺎ
دنیا ایک گذر گاہ ہے ، رہنے کی منزل نہیں ، یہاں دو طرح کے لوگ ہیں ، ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو بیچ ڈالا اور ہلاک کر دیا ، اور دوسرے وہ جنہوں نے خود ہی کو خرید لیا اور پھر آزاد کر دیا ۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْکُمُ - اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ - وأَمَّا طُولُ الأَمَلِ - فَيُنْسِي الآخِرَةَ
اے لوگوں میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف رکھتا ہوں ۔ ایک اتباع خواہشات اور دوسری درازی امید ۔ یہ کہ اتباع خواہشات انسان کو راہ حق سے روک دیتی ہے اور طول امل (حرص دنیا ، درازئے امید) آخرت کو بھلا دیتی ہے ۔
پھر فرماتے ہیں :
من أبصر بھا بصّرتہ ، و من أبصر الیھا أعمتہ
جو اس (دنیا) کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتا رہے اسے بینا بنا دیتی ہے اور جو اسے منظور نظر بنا لیتا ہے اسے اندھا کر دیتی ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ :
اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اس دنیا کی مذمت کرتے ہیں اور طلب دنیا کو پسند نہیں کرتے جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ ہم دنیا کو پانے کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ : تم کیوں دنیا کو چاہتے ہو ؟
اس شخص نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے مال و دولت کو پا کر اسے اپنی ضروریات زندگی میں صرف کریں ، اپنی آل اولاد کی پرورش کریں ، حج کے لئے جائیں ، صدقہ دیں ، راہ خدا میں خرچ کریں ، اپنوں کے ساتھ صلہ رحمی کریں اور ان کی ضروریات کو پورا کریں ۔
تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم دنیا کو ان مقاصد کی تکمیل کے لئے چاہتے ہو تو یہ باتیں طلب دنیا میں نہیں آتیں بلکہ طلب آخرت میں آتی ہیں ۔
خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت فقیہ کے پیروکاران و محافظین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خطبہ دوم
الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّد بن علىّ و جعفر بن محمّد و موسى بن جعفر و علىّ بن موسى و محمّد بن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین
اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
حدیث شریف میں ہے کہ رجب بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھی ، اگر کسی نے رجب کو پا لیا تو وہ اس مہر سے سراب ہو جائے گا ۔ ہمیں چاہیے کہ جب اس مہینے سے نکلیں یا جب اس کا اختتام ہو تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بے پناہ محبت کے ساتھ نکلیں ، ہماری دعائیں قبول ہوں کیونکہ اسلام سے قبل جاہلین بھی انتظار یا صبر کرتے تھے تا کہ رجب کا مہینہ شروع ہو اور جب رجب کا مہینہ شروع ہو جاتا تھا تو یہ لوگ اپنے اعمال ، دعاؤں کی قبولیت کے لئے دعا کرتے تھے ۔
ماہ رجب کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اسی ماہ ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا دیتا ہے :
طُوبَى لِلذَّاکِرِينَ طُوبَى لِلطَّائِعِينَ
جنت طوبی ہو ان لوگوں کے لئے کہ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں
پیغمبر اکرم سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعٰالی فرماتے ہیں :
انا جلیس من جالسنی و مطیع من اطاعنی و غافر من استغفرنی، الشهر شهری و العبد عبدی و الرحمه رحمتی فمن دعانی فی هذا الشهر اجبته و من سالنی اعطیته و من استهدانی هدیته و جعلت هذا الشهر حبلاً بینی و بین عبادی فمن اعتصم به وصل الی
میں اس کا ہم نشین ہوں جو میرا ہم نشین ہوتا ہے اور میں ان کی بات مانتا ہوں جو میری اطاعت کرتے ہیں اور میں ان لوگوں کو بخشتا ہوں جو مجھ سے بخشش کی دعا مانگتے ہیں ۔ جس نے اس (ماہ رجب) میں مجھے مضبوطی سے پکڑا وہ مجھ تک پہنچ گیا ۔
پیغمبر اکرم سے ایک اور روایت کہ اللہ تبارک و تعٰالی فرماتے ہیں
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آَمَنُوا وَکَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جو ایمان لائے ہیں تو اللہ ان سے تمام سختیاں دفع کر دیتا ہے اور اللہ پر مومنین کی مدد کرنا حق ہے ۔
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں (ماننے والوں) کی مدد کی اور دریا میں راستہ بنا دیا اور پھر اسی دریا میں فرعون اور اس کے حواریوں (ماننے والوں) کو غرق کر دیا ۔
- مجھے تعجب ہے ایسے لوگوں پر کہ جو اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں سے ڈرتے ہیں جبکہ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَکِيلُ یعنی ہمارے پاس اللہ ہے اور وہ بہترین وکیل ہے یعنی اللہ ہماری مدد فرماتا ہے تو لہٰذا ہم آرام و سکون سے رہیں ۔
- مجھے تعجب ہے ایسے لوگوں پر کہ جب وہ کسی مشکل میں پھنسے ہوئے ہوں اور لَا إِلَهَ إِلا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّي کُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ کے ذکر کو اپنا ورد اور اپنی پناہ گاہ نہیں بناتے ۔
اللہ تبارک و تعٰالی فرماتے ہیں کہ اگر میں حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نہ نکالتا تو وہ قیامت تک وہیں رہتے لیکن انہوں نے بھی یہ ذکر فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَکَذَٰلِکَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ پڑھا تو میں نے ان کی دعا قبول کی ، انہیں غم سے نجات دی اور انہیں مچھلی کے پیٹ سے نکالا ۔ پس ہم (اللہ تعٰالی) اسی طرح مومنین کو نجات دیتے ہیں ۔
- مجھے تعجب ہے ایسے لوگوں پر کہ جو دوسروں کے لیے تو پریشان ہوتے ہیں لیکن خود کبھی یہ ذکر نہیں پڑھتے :
وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، بے شک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے
- مجھے تعجب ہے ایسے لوگوں پر کہ جن کی دنیا میں کوئی حاجت ہو اور اس ذکر کو نہیں پڑھتے :
مَا شَاء اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ
و اللہ چاہے تو ہوتا ہے اور اللہ کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں
زندگی میں مختلف امتحانات آتے ہیں اور جو آج کل مختلف طرح کے وائرس نمودار ہو چکے ہیں ، یہ بھی انہی امتحانات میں سے ہی ہیں ۔ یہاں ہم ایک عقلی موازنہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس مجمع میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو مسجد کو ذکر اللہ کے لیے انتخاب کرتے ہیں اور اسی کو شفا سمجھتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ غیر علمی دعوٰی ہے اور دراصل ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ مسجدوں کو خالی کر دیں و لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ خدایا ہماری موت بھی مسجد میں ہی ہو ۔
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعٰالی ہمیں تمام امتحانات ، میدانوں اور اجتماعی زندگی میں کامیاب کریں ۔ آمین ۔
خداوند متعٰال ہم تمام مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق ، خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری ، مصائب و آلام پر صبر جمیل اور صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
فائل اٹیچمنٹ: