اول خطبہ
اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گزاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
ہم مسلسل تقوٰی پر گفتگو کرتے آ رہے ہیں ۔ تقوٰی یعنی یہ کہ ہم دشمن کو پہچان لیں اور وہ بھی ایسا دشمن جس نے انسان دشمنی کی قسم اٹھا رکھی ہو ۔ یہ بہت عجیب قسم ہے اور سورۃ ص کی آیت 82 اس بارے میں واضح دلیل ہے :
شیطان نے خداوند متعٰال سے مخاطب ہو کر کہا :
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ خدایا تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا ( بہکاتا رہوں گا ) ، ان میں سے کسی کو نہ چھوڑوں گا اور دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہر طرف سے حملہ کروں گا ۔
لہٰذا شیطان رجیم جو ہمارا قسم کہلا دشمن ہے ، اس سے مقابلہ کرنے کے لیے علم کا حصول اور سیکھنا بہت ضروری ہے ، کیونکہ جب تک انسان یہ نہ جان لے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں ، اس وقت تک نادان رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں کر پاتا۔
سوال ! اب جبکہ ہم اپنے دشمن کو جان چکے ہیں پہچان گئے ہیں کہ یہی شیطان رجیم ( ابلیس ) خطرناک دشمن ہے تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
جواب ! فقط علم حاصل کرنا یا اصلیت کا جان لینا ہی ہماری مشکلات کو حل نہیں کرتا بلکہ ان سب کے حصول کے بعد ان پر عمل کرنا لازمی ہو جاتا ہے ۔
عزیزان گرامی ! حقیقت میں ہم اپنے علم کو بڑھانے یا کچھ نیا سیکھنے میں ہی لگے رہتے ہیں ۔ دراصل فقط یہی کافی نہیں بلکہ عمل کی بھی ضرورت ہے اور یہ اس حد تک اہم ہے کہ کئی دعاؤں و مناجات میں باقاعدہ ذکر ہوا ہے ،
جیسے ( اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ )
خدایا ہمیں اس علم سے بھی بچائے رکھ کہ جو ہمیں فائدہ نہیں دیتا ہے ۔ اب وہ علم جو انسان کو فائدہ نہ دے حقیقت میں جہل ہوتا ہے ۔ علم کے ساتھ تہذیب اور ادب و آداب کا ہونا بہت ضروری ہے
اور اس کے لئے ہمیں کسی مکتب کے ساتھ مربوط رہنا چاہیے تا کہ وہ ہمیں اس کے صحیح استعمال کی طرف راہنمائی کرتا رہے ۔ انسان نے جب بھی نقصان اٹھایا ہے وہ اُسی علم سے ہے جو انسان بغیر تہذیب اور ادب و آداب کے سیکھتا یا حاصل کرتا ہے ۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان نے تو قسم کھا لی کہ وہ اشرف المخلوقات (انسان) کو خدا سے دور کرے گا ، لیکن اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
تو قرآن کریم نے اس کا جواب سورۃ ص آیت 83 میں اس طرح دیا
کہ : إِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں
یعنی شیطان ابلیس نے خود کہا کہ میں تیرے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کر پاؤں گا ۔
بہترین تہذیب اور اچھا اخلاق ہمیشہ انسان کو نجات دیتے رہتے ہیں ۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف خدا کے قرب کے حصول کے لیے کام کریں ۔ کسی بھی کام کو خدا کے قرب کی خاطر انجام دینے کے علاوہ ہمارا کوئی اور مقصد نہ ہو، تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ خداوند متعٰال سورۃ الانعام آیت 162 میں اپنے حبیب سے ارشاد فرما رہا ہے کہ ان سے کہ دیجیے
: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہہ دو کہ میری نماز ، میری عبادت ، میرا جینا اور میرا مرنا ( میری زندگی کے طور طریقے ) یہ سب خدائے رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔
پس اگر جو نفس یا انسان اس حد پر پہنچ جائے وہی کامیاب ہو جاتا ہے ۔
خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
خطبہ دوم
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت تقوٰی بہترین اور ضروری امر ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ خداوند متعٰال قرآن کریم سورۃ التوبۃ آیت 108 میں ارشاد فرما رہا ہے کہ :
لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ
البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ اس بات کا قابل ہے کہ اس میں جایا کرو (نماز پڑھایا) ۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو کہ پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں ۔ اور خدا پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے ۔
بہشت بھی متقین ہی کے لئے مزین و معین کی گئی ہے ۔
جیسے کہ سورۃ النباء کی آیات میں ارشاد باری تعٰالی ہے :
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (31) بے شک پرہیز گاروں کے لیے کامیابی ہے
حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا (32) وَکَوَاعِبَ أَتْرَابًا (33)
(یعنی) باغ اور انگور اور ہم عمر نوجوان عورتیں
اسی طرح متعدد سورۃ جات میں آخرت و بہشت کا ذکر آیا ہے :
وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ۚ
عاقبت متقین کے لئے ہے
وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ
آخرت تقوٰی کے ساتھ بہترین ہے
وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِکَ خَيْرٌ ۚ
خوبصورت اور بہترین لباس تقوٰی ہے
فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ
بہترین زاد راہ بھی تقویٰ ہے
متّقین کی کچھ نشانیاں ہیں جن کے ذریعے خداوند متعٰال مشکلات سے نجات کی راہیں سہل یا ہموار کر دیتا ہے :
- ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔
- اچھے امور انجام دیتے ہیں ۔
- امانت دار ہوتے ہیں ۔
- وعدہ کرنے پہ وعدہ وفا کرتے ہیں ۔
اسی حوالے سے سورۃ الطلاق آیات 2 اور 3 میں خداوند متعٰال فرما رہا ہے : وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ (3)
اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کرے گا (2) اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم) گمان بھی نہ ہو (3)
اگر واقعی ایسا ہے تو وہ لوگ بہت کم عقل ہوں گے جو تقوٰی اختیار نہ کریں یعنی دراصل یہ تو بہت ہی فائدہ مند سودا ہے ۔
سورۃ الروم آیت 21 میں خداوند متعٰال فرما رہا ہے :
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَکُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِکَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَکَّرُونَ
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی ، اور جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں ۔
شادی بیاہ کا ادارہ
ہم نے شادی بیاہ کی راہ میں حائل یا اس دوران ہونے والی مشکلات کے حل لیے ایک ادارہ بنایا تھا اور چاہتا ہوں اس موضوع پر کچھ نکات عرض کروں ۔
- جوانان کو چاہیے کہ جلدی شادیاں نکاح کریں ۔
- خواہران بھی اللہ تبارک و تعٰالی پر توکل کریں اور شرم و حیاء کا لحاظ کرتے ہوئے شادی بیاہ کرنے سے منع نہ کریں ۔
جیسا کہ سورۃ الطلاق آیت 3 میں واضح اشارہ ہے :
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِکُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو ۔ اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا ۔ خدا اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے ۔ خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔
اور اسی حوالے سے سورۃ النور آیت 32 میں بھی ارشاد ہوا :
وَأَنکِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنکُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ ۚ إِن يَکُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوش حال کردے گا ۔ اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے ۔
- اہل خانہ خصوصا ماؤں کو اس معاملے میں اپنے نوجوانوں کی مدد کرنی چاہیے ۔
- مسجد امام حسین کے بزرگان ، حکومت امارات اور حاکم دبئی سے درخواست ہے کہ آپ معززین اس معاملے میں اپنی کاوشوں سے مستفید فرمائیں ۔
معصوم علیہم السلام نے فرمایا کہ :
میرا عزیز ترین بھائی وہ ہے جو مجھ پر میرے عیوب کو آشکار کرے ۔
ایک زمانہ تھا جب نوجوان بیس سال سے قبل ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جایا کرتے تھے لیکن اب یہ حال ہے کہ تقریباَ تیس سال یا اس کے بعد ہی ازدواج کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خواہران 15 سال کی عمر میں ازدواج کر لیا کرتی تھیں لیکن آج کل کے زمانے میں 20 سے 30 سال کے درمیان ہی کرتی ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس معاملے پر غور کرنا چاہیے اور جو غیر شادی شدہ نوجوانان ہیں ، ان کی شناخت کر کے یہ سب معاملات سمجھانا چاہئے ۔ امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں
فائل اٹیچمنٹ: