اول خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اصیکم و نفسی بتقوی اللہ
سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
الذین یبلغون رسالتہ ( سورۃ الاحزاب آیت 39 )
وہ (پہلے) لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے تھے
ہم رسول اکرم کی ولادت اور رحلت کے ایام میں ہیں ، آپ ﷺ نے پوری کوشش کی کہ :
ایک وہ اللہ کے پیغام کو پہنچا دیں ۔
دوم ، اپنی امت کو نصیحت کی اور ان کے لیے خیر خواہ بنے ۔
سوم ، اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔
چہارم ، لوگوں کے ساتھ مہربانی کی ۔
پنجم ، کافروں پر بہت سخت اور ( اشدا علی الکفار) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ سورہ فتح آیت 29
ششم ، خدا کی عبادت کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی کثر نہیں چھوڑا حتی کہ ہم بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
ہفتم ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے ہمیں شرک اور جہالت سے نجات دی ۔
خدایا اپنے درود اور سلام اور ملائک و انبیائ و مرسلین اپنے صالح بندوں اور زمین و آسمان اور جو بھی آپ کی تسبیح کرتے ہیں
اولین و آخرین سب کا درود و سلام ہو آپ (ص) پر کہ جو آپ کا بندہ ہے ۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد آپ کا بندہ اور رسول ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے( سورۃ الاحزاب آیت 40 )
وہ امین ہے یعنی امانت رکھنے والا ہے کہ جو بعثت سے پہلے بھی امین تھا اور بعثت کے بعد بھی امین ہے ۔ یہ وہ ہے جو اللہ نے چنا ہے ۔ بہت خوش اخلاق و پاکدامن ہے ۔ اللہ کا حبیب ہے ۔ اللہ نے اسے پسند کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی ہر کسی کو پسند یا اس کا انتخاب نہیں کرتا ، بلکہ اسے پہلے دیکھتا اور تولتا ہے کہ اگر اللہ کے معیار پر صحیح اتر سکتا ہو تو اسے انتخاب کر لیتا ہے ۔
یہ آپ کا خاص اور مخلص بندہ ہے ، اخلاص میں پیغمبر اکرم جیسا کوئی مخلص نہیں تھا ۔
اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد
اللھم رب ھٰذا
اللھم اغفرلی ذنوبنا
ہماری نمازوں کو ان کے ذریعے قبول فرما اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور حاجتوں کو برلا . ہمارے رزق میں ان کے ذریعے فراوانی فرما ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خطبہ دوم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (119)
ای وہ لوگوں جو ایمان لائیں ہو اللہ سے ڈرو او ر ہوجاو صادقین کے ساتھ۔
ہم مسلسل تقوٰی کے بارے میں بات کر رہے ہیں ، ہمیں تقوٰی اجتماعی کو رائج کرنے میں بہت کوشش کرنا چاہیے ۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے معاشرے کے بارے میں فکر کریں ، ہم سب کچھ الگ نہ کھائیں بلکہ دوسروں کی فکر بھی کریں ۔ ہمیں اپنے معاشرے کے حالات کو دیکھنا چاہیے ۔ آج کل کے معاشرتی مسائل میں سے ایک شادی بیاہ کا مسئلہ ہے کیونکہ بچے ناں صرف سن ازدواج میں پہنچ گئے ہیں بلکہ سن ازدواج سے گذر چکے ہیں ۔ شادیوں کا ناں کرنا ایک معاشرے کی بربادی کے لیے بڑا بحران ہوتا ہے ۔ ہم شادی بیاہ کے مسائل کو ایک یا دو خطبوں میں حل نہیں کر سکتے ۔
قرآن فرما رہا ہے ۔
وَأَنکِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنکُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ ۚ إِن يَکُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (32)
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے (سورۃ نور آیت 32 )
شادی کرانے والے ادارے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہو تو کرے ۔ ہم نے یہ ادارہ بنا دیا اور اس کی ایک تقریب ملاقات بھی کر لی ۔ اس کے بارے میں دوستوں نے بہت اچھے مشورے دیے ،
اس بارے میں ہمیں مسلسل کوشش میں لگے رہنا چاہیے ۔ ہم دفتر مسجد امام حسین علیہ السلام کو اس مسئلے کے حل کے لیے آپ لوگوں کے سامنے معرفی کرتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ بااثر لوگ یہاں کے رہنے والوں کے ازدواجی او ر شادی بیاہ کے مسائل کو حل کریں ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
جس نے شادی کی اس نے آدھے ایمان کو محفوظ کیا ، دوسرے آدھے ایمان کو کوشش کر کے محفوظ کر لیں ۔ پہلے زمانے کے حوالے سے شادیوں کا طور طریقہ بہتر تھے ۔
لیکن اب ہمیں چاہئے کہ ہم اس سلسلے میں ایک تو یہ کہ : کسی بہترین آدمی سے مشاورت کریں ۔ دوسری بات یہ کہ شادی بیاہ میں ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ خدا آپ سب کی مدد کریں ۔
شادی میں حائل رکاوٹیں
1- کام کاج یا روزگار میں زیادہ مشغول ہونا اس حد تک شادی بیاہ کرنے یا کروانے کے لیئے بھی وقت نہ ہو۔
2- اخراجات: شادی بیاہ کرنے کی اخراجات اتنی ہے کہ اکثر جوانان اسی وجہ سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔
3- دو خاندانوں کا آپس میں جان پہچاننا کا نہ ہونا۔
4- شادی سے ڈرنا: مختلف مسائل کی وجہ سے شادی سے ڈرنا۔
5- واسطے کا نہ ہونا:ہمارے معاشرے میں واسطوا کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جو شادی بیاہ کرانے کے لیئے دو خاندانوں کو آپس میں معرفی کریں۔
6- سب کا اس مسئلے کی حل کے لیئے احساس رکھنا ۔
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (24)
سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتاج ہوں خدایا مجھ پر اپنی طرف سے خیر نازل فرما جس کا میں ماننے والا ہوں ۔
اس آیت میں خیر سے مراد یہ ہے کہ اسے اچھا کام ملے ، اچھا ازدواج ہو ، اچھی امنیت اور اچھی رہنے کی جگہ ملے ۔
ہفتہ وحدت
ہفتہ وحدت کے حوالے سے جو 12 ربیع الاول کو شروع اور 17 کو ختم ہوتا ہے ۔ اس ہفتے کا نام حضرت آیت اللہ امام خمینی قدس سرہ نے ہفتہ وحدت رکھا ہے ۔
قرآن کریم نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (102)
. اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَکُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْهَا ۗ کَذَٰلِکَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَکُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ (103)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ
سورۃ آل عمران آیت 102 اور 103
وَلَا تَکُونُواْ کَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَٱخْتَلَفُواْ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ ۚ وَأُوْلَٰٓئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے
وحدت کے بارے میں کچھ نکات پیش خدمت ہے۔
سب سے پہلا نقطہ اس بارے میں یہ ہے کہ وحدت یہ نہیں کہ سب سنی، شیعہ ہو جائیں یا سب شیعہ سنی ہو جائیں ، بلکہ وحدت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کی وحدانیت اور قرآن پر ایک ہو جائیں
تاکہ ہم اس آیت کا مصداق بنیں کہ وہ کفار پر بہت سخت ہیں اور آپس میں بہت رحم کرنے والے ہیں ۔
وحدت کے بارے میں مراجع تقلید کا نظریہ
سب سے پہلے آیت اللہ امام خامنہ ای مدظلہ نے فرمایا کہ اہلسنت کی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے ۔
آقا بہجت نے فرمایا ، جو مسلمانوں کی وحدت کا خواہاں نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ۔
وحید خراسانی نے فرمایا ، دوسرے مذاہب کے سربراہوں کو گالی گلوچ دینا جائز نہیں ہے ۔
ناصر مکارم شیرازی نے فرمایا ، دوسروں کے مقدسات کی توہیں کرنا شرعا جائز نہیں ہے ۔
فائل اٹیچمنٹ: