میلاد مطہر حضرت امام ھادی علیہ السلام مبارکباد
*خطبہ اول *
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا الذی سمی فی السما باحمد و فی الارضین بابی القاسم مصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین و لعنت الله علی اعدائهم اجمعین
اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
موضوع : نسل فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ سے ایک فرزندمناسبت : عید غدیر و ولادات آقا امام ہادی علیہ السلام محترم نماز گذاران ( برادران و خواہران )
سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور بعد میں تمام نماز گذاران کو خدا کی بندگی اور تقویٰ الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ جن چیزوں کی اسلام میں تاکید کی گئی ہے اِن میں سب سے اہم تقویٰ ہے دوسری الفاظ میں یہ کہ اسلام میں حقیقی معنوں میں داخل ہونا تقویٰ اور خدا و محمد و اہل بیت اطہار علیہ السلام کو اپنائے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اگر تقویٰ ہے تو اسلام عاقبت با خیری یعنی آخروی کامیابی کا سبب بنتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں مسلسل تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید ذکر ہوئی ہے ۔ قرآن کریم میں 2436 مرتبہ تقویٰ کا ذکر آیا ہے اور زیادہ تر( اِتقُوا اللہ) کا لفظ استعمال ہو ا ہے ۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا کثرت سے ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ پروردگار عالم تقویٰ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور یہ ہم انسان ہیں کہ اس سے کتنا غافل رہتے ہیں ۔ قرآن کے تقویٰ کے بارے جملہ احکامات میں سے ایک اس طرح ہے کہ :
فَاتَّقُوا اللّه َ یأُولی الأَلباب لَعلکم تُفلحون
یعنی ۔ اے صاحب علم و فہم لوگوں ! تقویٰ اختیار کرو تاکہ کامیاب ہو جاؤ ۔
دوستوں اسلام لانا الگ بات ہے اور ایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنا الگ بات ہے ۔ اسلام لانا مقدمہ ہے لیکن ایمان قائم رکھنا وظیفہ ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
یا ایها الذین آمنوا آمنو
اے وہ لوگو ! کہ جنہوں نے شہادتین پڑھ کر اسلام اختیار کیا ہے وہ مومن ہو کر متقی بنیں ۔
تقویٰ کے بغیر انسان مومن نہیں بن سکتا اسی لیے آقا امام ہادی علیہ السلام کہ کل ان کا یوم ولادت ہے، فرماتے ہیں :
عَلَیکُم بِالوَرَعِ فَاِنَّهُ الدّینُ الَّذی نَلازِمُهُ وَ نُدینُ اللهَ تَعالیَ بِهِ وَ نُریدُهُ مِمَّن یُوالینا لاتَتعَبُونا بِالشَّفاعَةِ
آپ لوگوں پر ہے کہ تقویٰ اختیار کریں کیونکہ دین فقط تقویٰ الہٰی ہے کہ جس کی ہم پیروی کر رہے ہیں اور یہی ہم اپنے ماننے والوں سے چاہتے ہیں کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور یہ کہ بغیر تقویٰ کے ہم سے شفاعت کی امید نہ رکھیں ۔(وسائل الشیعه ، ج 15، ص 248)
اس نورانی حدیث کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ کے بغیر شفاعت بھی ممکن نہیں ہے ۔ پس زندگی کی جتنے بھی لمحات باقی ہوں اس دوران بھی تقویٰ کو اپنانا چاہیے کیوں کہ کامیابی تقویٰ کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
یہ حضرت امام ہادی علیہ السلام کی ولادت کے ایام ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اسی مناسبت سے آپ علیہ السلام کی ایک یا دو نصیحت و وصیت آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کروں کہ جن پر عمل کیا جائے تو انسان متقی و پرہیز گار بن جاتا ہے اور خدا و محمد و اہل بیت اطہار علیہ السلام کے نزدیک تر ہو جاتا ہے ۔
*نصیحت : *
مَن تَواضَعَ فِی الدُّنیا لِاخوانِهِ فَهُوَ عِندَ اللهِ مِنَ الصِّدّیقینَ وَ مِن شیعَةِ عَلِیِّ بنِ أَبِی طالبٍ حَقّاً
جن لوگوں نے اس دنیا میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ملنساری و عاجزی اختیار کی وہ خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سچوں اور آقا امام علی علیہ السلام کے شیعوں میں شمار ہو گا ۔
برادارن و خواہران ایمانی ! متقی بننے کے لئے صرف ایک چیز یعنی عاجزی و خاکساری و ملنساری لازمی ہونا چاہیے ۔
دنیا میں خوبصورتی یا مال و دولت کے لحاظ سےاختلافات کا پایا جانا فطری بات ہے اور زندگی میں ان خصوصیات اور فرق کا ہونا یہ اس فانی دنیا کے ساتھ مختص باتیں ہیں ۔
لیکن جونہی موت طاری ہوتی ہے تو حتماّ یہ سب چیزیں منقطع ہو جاتی ہیں ۔ ہم بھلے کتنے ہی اعلیٰ مقام پر فائز ہوں،
خوبصورت ہوں یا مال و دولت کی کثرت ہو پھر بھی خالی ہاتھ جائیں گے ۔ فقط ایک کفن اور دو میٹر زمین مل جائے گی اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے صرف ہمارے اعمال ساتھ جائیں گے ۔
پھر اُس جہان میں امیر و غریب میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا لیکن تقویٰ اور عمل صالح کے لحاظ سے ضرور ہوتا ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ متّقی بنیں تو اس دنیا میں ان سب اختلافات اور فرقوں کو مٹا کر خاکساری و عاجزی و ملنساری کے ساتھ دوسرے لوگوں سے ملنا ہو گا ۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا اونچا مقام بلکہ معنوی لحاظ سے بھی اونچا مقام ہمیں مغرور نہ کر دے ۔ اگر ہم صاحب جمال ہیں تو خوبصورتی پر فخر ناں کریں اور اگر مال دار ہیں تو اپنی ثروت پر فخر ناں کریں ۔ فقراء کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ذلت محسوس نہ کریں اور فقط یہ ہی نہیں بلکہ ان کے سامنے عاجز و ملنسار بھی رہنا چاہئے ۔ ہمیشہ اپنا سر نیچے رکھنا چاہیے اور یہ خیال کرنا چاہئے کہ کوئی ایسا کام سرانجام نہ دیں کہ جس سے وہ لوگ حسرت و یاس و احساس کمتری کریں ۔ قبل اس کے کہ وہ لوگ ہم سے کچھ سوال کریں ،
ہم پہلے ہی ان کی ضروریات پورا کر دیں حتی کہ سلام کرنے میں بھی پہل کریں ۔
تقویٰ کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ ناراضگی سے پیش آئے تو اس کو راضی کرنے کے لیے پہل کریں ۔ آقا امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اگر دو لوگ آپس میں غصہ ہوں تو ان میں سے جس نے دوسرے کو راضی کرنے میں پہل کی وہ پہلے جنت میں داخل ہو گا ۔ پس جس طرح میں نے کل بھی آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہمیں تقویٰ کی رعایت کرتے ہوئے پہل کرنا چاہیے اور اپنی اعمال کی اصلاح کرنا چاہئے ۔ بدی کو اپنے سے دور کرنا چاہئے تاکہ ہم خداوند متعال کے نزدیک ہو جائیں ،
یعنی اللہ عزوجل و اہل بیت اطہار علیہ السلام کی قربت و شفاعت حاصل ہو جائے اور سعادت مند بنیں ۔ آیات قرآنی کے مطابق تقویٰ اختیار کرنا رزق اور روزی کی بڑھنے کا بھی سبب بنتا ہے ۔
پروردگار قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :
*من یتَّق اللّه َ یجعل لَّه مخرجا و یرزقه من حیثُ لا یحتسب *
جس نے تقویٰ اختیار کیا اللہ تعالی اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور ایسے رزق دے گا جس کا گمان نہیں کیا جا سکتا ۔
پھر فرماتا ہے :
وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ ۔
مومنوں کی برائیوں کو معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہئے ، کیا آپ یہ پسند نہیں کریں گے کہ خدا آپ پر رحم کرے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
بس ہمیں تقویٰ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالی اپنی رحمت کے دروازے دنیا اور آخرت میں ہم پر کھولے رکھے ۔
محترم برادران و خواہران عزیز !
کبھی بھی اپنی زندگیوں میں کدورتوں کو جگہ مت بنانے دیجئے کیونکہ تقویٰ کا معنیٰ ایک دوسرے کی غلطیوں کو فراموش کرنا بھی ہے ۔
دعا کرتے ہیں کہ خداوند عز و جل آقا امام زمان علیہ السلام کے صدقے اپنی رحمتوں و مغفرت سے نوازے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں کو قرآن کریم اور خدا و رسول و اہلبیت رسول ﷺ کے بابرکت وجود کے وسیلے برکات عطا فرمائے ۔
خود مجھے ، ہمارے اہل و عیال ، ہماری اولادوں اور اگلی نسلوں کو علوی اور زہرائی قرار دے ۔ انشاء اللہ العزیز
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
والعصر . ان الانسان لفی خسر . الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات . و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم
رب الشہداء و الصا لحین
الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین لا سیّما علىّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّد بن علىّ و جعفر بن محمّد و موسی بن جعفر و علىّ بن موسی و محمّد بن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الخلف الهادی المهدىّ حججک علی عبادک
و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین
اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
عزیزان گرامی و نماز گذاران !
خدا کے لطف و کرم کی بدولت ہمارا مجالس میں آنا ، دعائے ندبہ ، دعائے کمیل اور دعائے توسل اور اسی طرح نماز جمعہ اور نماز جماعت پنجگانہ میں کثرت سے شرکت ہمارے لیے روز بروز اللہ عزوجل کے نزدیک ہونے کے اسباب و ذرائع ہیں تاکہ ہم تقویٰ الہی اختیار کریں ۔ آپ لوگوں کی اجازت سے میں چاہتا ہوں کے اس خطبے میں اس ہفتے کی مناسبات کی طرف اشارہ کروں ۔
کل ہفتے کا دن آقا امام ہادی علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے ۔ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ علماء کے نزدیک سب سے مستند زیارت ، زیارت جامعہ کبیرہ ہے کہ جو ہمیں آقا امام ہادی علیہ السلام سے ملی ہے اور آپ علیہ السلام کی ایک بہترین یادگار ہے ۔
آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کہ اس زیارت کو ہفتے میں ایک بار ضرور پڑہیں ۔ علماء و بزرگان دین نے بھی اس زیارت کو پڑھنے کی زیادہ تاکید کی ہے ۔
کہتے ہیں کہ آغا امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نجف اشرف میں 15 سال تک مسلسل ہر رات ایک گھنٹہ قبر مطہر مولائے متقیان آغا امیر المومنین علیہ السلام کے سرہانے بیٹھ کر زیارت جامعہ کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ اسی طرح آیت اللہ قاضی کہ جو ان علماء میں سے ہیں کہ جو ہمیشہ حضرت امام زمان علیہ السلام کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شب جمعہ زیارت جامعہ کبیرہ ضرور پڑھیں ۔ حضرت آیت اللہ مظاہری کہ جو علماء شیعہ کے نزدیک تقویٰ اور اخلاق کا نمونہ ہیں ، نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ ہفتے میں ایک بار مقید ہو کر زیارت جامعہ پڑھی جائے ۔
منگل کے دن سب سے بڑی عید ، عید غدیر ہے کہ جو اہلبیت اطہار علیہ السلام اور شیعیان آل اطہار کے لیے سب سے بڑا دن ہے
اور جتنا ہو سکے ہمیں اس دن کی قدر کرنی چاہیے ۔ یہ وہ دن ہے کہ پروردگار عالم اپنی رحمت کی دروازے اپنے بندوں پر کھولتا ہے ۔ مولا امام صادق علیہ السلام اس دن گناہوں کی بخشش کیے جانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خداوند عالم عید غدیر کے دن رمضان ، شب قدر و عید الفطر میں جہنم سے آزاد کیے جانے والے لوگوں کی دو برابر تعداد جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ان کے ساٹھ سال کے گناہ بخش دیتا ہے ۔ (بحار الانوار ، ج 94 ، ص 119)
اس عید کو ضرور منائیں حتیٰ اپنے بچوں کے لئے مٹھائی خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کے ساتھ بہترین پروگرامات ترتیب دیں اور احسن طریقے سے منائیں تا کہ ان کے ذہنوں میں اس دن کی بہترین تصویر رہ جائے ۔ اس دن مومنین کی تواضع کے بارے میں بہت تاکید ہے ۔ اسی مناسبت سے کچھ روایات آپ لوگوں کے پیش خدمت ہیں ۔مولا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عید غدیر کے دن ایک مومن کو کھانا کھلانے کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ گویا اس نے دس لاکھ پیغمبران کرام اور ان کے اوصیاء کہ جن میں چہاردہ معصومین علیہ السلام بھی شامل ہیں اور دس لاکھ شہداء کہ جن میں اول آقا عباس علمدار علیہ السلام اور تمام شہدائے کربلا ہیں اور ایک ملین صالح لوگوں کو بیت اللہ شریف میں کھانا کھلایا ہو ۔ (بحار الانوار ج 6 ، ص 303)
دوسری روایات میں پایا جاتا ہے کہ عید غدیر کو کھانا کھلانا تمام پیغمبران کرام اور اوصیاء کو کھانا کھلانے کے برابر ہے ۔ (مفاتیح الجنان ، ص500)
عید غدیر کے دن کھانا کھلانے کی اہمیت اس حد تک ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس دن کو نیاز و خیرات کھلانے کا نام دیا ہے ۔ اس مد میں روایات کثرت سے بیان ہو چکی ہیں اور میں اس حد تک کہنا چاہوں گا کہ اگر کوئی فرد اس دن کسی دوسرے فرد کو کھانا کھلا سکتا ہے تو یہ بہت افضل کام ہے کیونکہ کسی دوسرے دن کے لئے اتنی تاکید و روایات موجود نہیں ہیں ۔ لیکن اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک پلیٹ کھانا بھرکر فقراء کو کھلانا چاہیے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکے تو کسی فقیر کو ایک درہم یا مقامی نقدی دینا چاہیے تا کہ ہمیں عید غدیر میں کھانا کھلانے والوں کا ثواب مل جائے اور مطمئن رہیں کہ اللہ تعالی ہماری یہ کاوش و جہد ضرور قبول فرمائے گا ۔
اسی ہفتے میں بدھ کا دن پوری دنیا میں " یوم مسجد " "MOSQUE DAY" کے نام سے منایا جاتا ہے اور مساجد کی اہمیت کے بارے میں اتنا بیان کرنا چاہوں گا کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
" مجھے بہشت میں بیٹھنے سے مسجد میں بیٹھنا عزیز ہے کیونکہ بہشت میں قیام کرنے سے مجھے خوشی ملتی ہے لیکن مسجد میں بیٹھنے سے اللہ تعالی راضی ہو جاتا ہے اور اس کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے" (وسائل الشیعہ ، ج 3 ، ص 482 )
لہذا مساجد کو اہمیت دینی چاہیے ۔
ایک روایت میں آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
" جو لوگ مساجد میں نماز نہیں پڑہتے وہ روز قیامت غرباء و مساکین ہوں گے اور پروردگار عالم ان سے اپنی نظر رحمت ہٹائے رکھے گا "
دوسری طرف مساجد میں آنے جانے کی مناسبت سے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ " جو بھی مساجد کی طرف قدم رکھے گا ، انہیں ہر قدم کے بدلے دس حسنات مل جائیں گے ، دس گناہان بخش دیے جائیں گے اور بہشت میں ان کا مقام دس درجے بلند ہو گا ۔
(وسائل الشیعہ ، ج 3، ص 483)
انسان جب تک مساجد میں قیام کیے رہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس کے درجات کو ہر سانس کے بدل بلند فرماتا ہے ، فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں ، 10 حسنات لکھتے ہیں اور اس کے دس گناہان بخش دیے جاتے ہیں ۔ (بحارالانوار ، ج 83 ، ص 370)
اسی طرح مساجد کو بنانے (یعنی تعمیرات) اور آباد رکھنے کے بارے میں کثیر روایات موجود ہیں ۔
آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جو چاہتا ہو کہ اس کی قبر تاریک نہ ہو وہ مساجد کو روشن رکھیں ۔
جو چاہتا ہو کہ اس کا بدن قبر میں صحیح و سالم و تروتازہ رہے تو وہ مساجد کے لئے چٹائی و مصلیٰ وغیرہ فراہم کرے ۔ (مستدرک ، ج 3، ص 385)
عزیزان و خواہران نماز گذاران !
ایک جملے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر آپ پیسوں کے ذریعے کسی بھی چیز کی خریداری کریں اور پھر کسی مسجد میں استعمال کریں تو اس مسجد میں جتنے لوگ اعمال بجا لائیں گے آپ اس میں شریک ہوں گے ۔
اسی ہفتے میں جمعرات کا دن آقا امام کاظم علیہ سلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے ۔ انشاء اللہ جمعرات کو آپ علیہ السلام کی زندگی اور سیرت پر گفتگو کریں گے ۔
دعا کرتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر و خدائے پیغمر و آل پیغمر ہمیں صحیح معنوں میں اہل بیت اطہار علیہ السلام کے پیروکار بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
خداوند عز و جل ہم سبھی کو اس مبارک مہینے اور بابرکت گھڑیوں میں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے ۔
خدا ہم سبھی کو بوسیلہ آقا امام علی و امام کاظم علیہ السلام و دیگر معصومین علیہ السلام کی شفاعت سے نوازے ۔
خداوند کریم ہم سمیت اپنے اہل وعیال کو عذاب جہنم سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کہ قرآن میں کئی مقامات پر حکم ہے ۔
خدا تعالیٰ ہمیں ان پاک و نیک مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور اپنا قرب عطا فرمائے ۔
ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد علیہ السلام کے لیے مفید قرار دے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر
صدق الله العلی العظیم
فائل اٹیچمنٹ: