پہلا خطبہ
عبادَالله اوصیکم و نفسی بتقوی الله؛
اے بندگان خدا سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی تاکید کرتا ہوں
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کَثِيرًا وَنِسَاءًوَاتَّقُوا اللَّـه" اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو" گزشتہ خطبوں میں خاندان اور گھروالوں کی نسبت تقوی اورپرھیزگاری پر بات ہوئی۔ ہم اس نکتے پر پہنچے تھے کہ مرد اور عورت کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں اور ان ہی کی وجہ سے دونوں میں کچھ کمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کمیوں کو پورا کرنے کیلئے مرد اور عورت ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں میں نے مرد کی جملہ خصوصیات میں سے ایک یہ بیان کی تھی کہ مرد چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت پر اعتماد کیا جائے اور یہ کہ عورت اپنے رویے اور باتوں سے شوہر کو یقین دلاے کہ وہ ایک ہر طرح سے ایک باصلاحیت آدمی ہے اور بیوی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہے کہ جس نے ایسا شوہر دیا۔ یہ روش ایک گھرانے کی بنیادیں محکم کر دیتی ہے۔
اور عورت کی خصوصیات میں سے ایک یہ کہ اس سے محبت کی جائے، اس پر توجہ دی جائے اور شوہر اس کی عاطفی ضرورتوں کو پورا کرے کیونکہ جب عورت کی عاطفی ضروریات کو پورا کیا جائے تو اس میں تربیت کرنے کے جذبے کو تقویت ملتی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے مرد کی اس خاصیت کا ذکر ہوا کہ عورت بحیثیت زوجہ اپنے شوہر کے اقتدار کو مانے اور اس کو گھر کا رھبر اور سربراہ تسلیم کرے۔ عورت کے اس رویے کے سبب اولاد بھی اپنے باپ کی سربراہی اور سرپرستی کو مکمل طور پر قبول کرتی ہے۔ زوجہ کو چند اہم باتوں کا خیال رکھنا چاہئے مثلاً یہ کہ مرد کی اجازت کے بغیر وہ کام کہ جس میں اجازت کی ضرورت ہو نہ کرے، شوہر کی طرف لاپرواہی نا کرے، شوہر کی بات پر توجہ دے، باتوں نا چھپائے، شوہر سے تکرار نا کرے یا اپنے فیصلے خود نا کرے کیونکہ ان سب باتوں سے مرد کا اقتدار ٹوٹ جاتا ہے اور جس آدمی کی اقتدار ٹوٹ جائے اس میں احساس مسؤلیت کم ہو جاتا ہے۔ وہ احساس کہ جس کی بنا پر وہ اپنے اہل و عیال کی مادی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اور اس کے بر عکس مرد کو اس اقتدار کا ناجائز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی بیوی کو گھر کی چاردیواری تک محدود کردے اور اسے ایک کنیز بنادے، بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ مرد کی ولایت محفوظ رہے جس کے نتیجے میں ایک بہترین خاندان وجود میں آئے۔
جیسا کہ حضرت محمد مصطفی (ص) نے ارشاد فرمایا کہ : خَيْرُ الرِّجَالِ مِنْ أُمَّتِي الَّذِينَ لَا يَتَطَاوَلُونَ عَلَى أَهْلِيهِمْ وَ يَحِنُّونَ عَلَيْهِمْ وَ لَا يَظْلِمُونَهُم
ترجمہ: امت میں بہترین مرد وہ ہیں ہے کہ جو اپنے اہل و عیال پر سختیاں نہ کرتے ہوں بلکہ ان کے ساتھ رحم دلی سے پیش آتے ہوں اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوں۔
اور اسی حکمت کی وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ وَ بِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِم
ترجمہ: مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔
البتہ اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ(فَالصَّالِحاتُ قانِتات ) "پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں" ۔
آپ سب بہت نصیب والے ہے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ سب کو خالص اور فرمانبردار بیویاں عطا فرمائ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ "مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الزَّوْجَةُ الصَّالِحَةُ" ترجمہ: وہ آدمی بہت خوش نصیب ہوتا ہے کہ جس کو صالح بیوی ملے۔
مردوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ بحیثیت شوہر وہ عورتوں کی حمایت کریں اور انکو صحیح طرح سمجھیں۔
عورت چاہتی ہے کہ شوہر ان کو انکی نگاہ سے بھی دیکھے، اسکی مدد اور حمایت کرے اور اس پر سختی نہ کرے۔ وہ چاہتی ہے کہ قبل اس کے کہ وہ کچھ بولے شوہر اس کو درک کرکے اسکی بات کو سمجھے۔
مرد کی تیسری خصوصیت: مرد چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کیلئے جتنی زحمات اٹھارہا ہے اس کی قدر دانی کی جائے اور اس کی بیوی اس کی زحمات کو اس کا فریضہ نہ سمجھے۔
یہ توقع اسلیے ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی مادی ضروریات کو پورا کرتا ہے لہذا وہ اپنے گھر میں اپنی حاکمیت دیکھنا چاہتا ہے جو اس کو گھر کی ان ضروریات پورا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ایسا مرد نصبتاََ کامیاب رہتا ہے اور اپنے گھر کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کی سختی اٹھا لیتا ہے۔ اور دوسری طرف سے اسکو بیوی سے یہ توقع رہتی ہے کہ وہ اسکی زخمتوں کی قدر جانے۔ اس قدر دانی کی مرد کے ہاں بہت قیمت ہوتی ہے اور اس مرد میں اپنے فرائض کو انجام دینے کیلئے جذبہ اور توانمندی بڑھ جاتی ہے۔ کچھ عورتیں یہ کہتی ہیں کہ یہ سب تو مرد کا فریضہ ہے؛ یہ ٹھیک ہے لیکن یہ شرعی وظیفہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے دوش پر رکھا ہے لیکن عورت کا بھی یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ شوہر کا شکریہ اداء کرتی رہے اور اسکی قدردانی کرے ۔نہ کہ شوہر سے مقروض جیسا سلوک کریے۔ اگر ایسا نا ہو تو عورت کی امنیت کم ہوجاتی ہے۔ جیسا وہ چاہتی ہے کہ وہ امنیت میں رہے تو اسکے لئے شوہر کی قدردانی کرنی ہوگی تاکہ اس کی امنیت خطرے میں نہ پڑے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ: "خَيْرُ نِسَائِکُمُ الَّتِي إِنْ أُعْطِيَتْ شَکَرَتْ" ترجمہ: اچھی عورتیں وہ ہیں کہ اگر ان کو کچھ دیا جائے تو اس کی شکر بجا لائیں۔
وہ عورت آپکی بیوی بن سکتی ہے کہ جسکو کچھ دو تو وہ آپکا شکریہ ادا کرے۔ وصیت کی گئی ہے کہ اللہ سے ایسی بیوی کی طلب کرو کہ جو قدردان ہو۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آپ کسی سے شادی کرنے کا ارادہ کریں تو دو رکعت نماز پڑھیں اور پھر حمد و ثنائے الہی بجالانے بعد اس طرح دعا کریں اللَّهُمَ ارْزُقْنِي زَوْجَةً صَالِحَةً وَدُوداً وَلُوداً شَکُوراً قَنُوعاً غَيُوراً إِنْ أَحْسَنْتُ شَکَرَت ) خدایا مجھے صالح، مھربان اور غیرت مند بیوی عنایت فرما کہ جب میں اسکے ساتھ نیکی کروں تو شکریہ ادا کرے ۔
خوش نصیب ہیں وہ عورتیں جو اپنے شوہر کی قدردانی کرتی ہیں۔ انکا اس آیت پر ایمان ہے کہ: "لَئِن شَکَرتُم لَأزِيدَنَّکُم وَ لَئِن کَفَرتُم إِنَّ عَذابِي لَشَدِيدٌ" ترجمہ: اگر شکر کرو گے تو میں اپنے رحمت سے مزید دونگا لیکں اگر کفر اختیار کی تو میرا عذاب شدید ہے۔ اور اس سے بڑھ کر اور کونسا عذاب ہوگا کہ انسان کے اپنے گھر میں حالات خراب ہوں اور سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں۔ قرآن بشارت دیتا ہے انکے لئے جن کی ازواج ناشکری ہیں کہ اللہ تعالی اور طریقوں سے ان پر رحمت فرمائے گا۔
لَا يُزَهِّدَنَّکَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لَا يَشْکُرُهُ لَکَ فَقَدْ يَشْکُرُکَ عَلَيْهِ مَنْ لَا يَسْتَمْتِعُ بِشَيْءٍ مِنْهُ وَ قَدْ تُدْرِکُ [يُدْرَکُ] مِنْ شُکْرِ الشَّاکِرِ أَکْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْکَافِرُ- وَ اللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِين
ترجمہ: کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزار نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بدل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
پیارے بھائیوں اللہ تعالی نے بچوں کی تربیت کرنے کیلئے عورت بنائی ہے جسکا وجود بہت نازک اور لطیف ہے تو کوشش کریں کہ آپکی وجہ سے اسکے وجود کو ٹھیس نا پہنچے۔ اور دوسروں کی سامنے اسکی عزت اور آبرو برقرار رہے ۔کیونکہ آپ (ص) نے فرمایا کہ "مَنِ اتَّخَذَ زَوْجَةً فَلْيُکْرِمْهَا" ترجمہ: جس نے کسی عورت سے شادی کی وہ اسکی تکریم کرے۔
جس نے عورت کا احترام نہیں رکھا حقیقت میں اسکے حق کو ضائع کیا۔ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ: "أَخْبَرَنِي أَخِي جَبْرَئِيلُ وَ لَمْ يَزَلْ يُوصِينِي بِالنِّسَاءِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ لَا يَحِلَّ لِزَوْجِهَا أَنْ يَقُولَ لَهَا أُفٍّ" ترجمہ: جبرائیل امین ھمیشہ مجھے عورت کے بارے میں تاکید کرتے تھے اس حد تک کہ مجھے یہ گمان ہو گیا کہ شاید مرد کے ليئے جائز نہیں ہے کہ وہ عورت کو اف تک بولے۔
جبرائیل امین مجھے اس طرح وصیت کرتے تھے کہ"يَا مُحَمَّدُ اتَّقُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِي النِّسَاءِ"
ای محمد (ص)،عورتوں کی معاملے میں اللہ سے ڈرو
فَأَشْفِقُوا عَلَيْهِنَ
ان پر شفقت کرو
طَيِّبُوا قُلُوبَهُنَّ
اور کوشش کرو کہ انکے دل آپ لوگوں کے ليئے پاک رہیں
حَتَّى يَقِفْنَ مَعَکُمْ
تا کہ وہ آپ کا ساتھ کھڑی ہو جائیں
وَ لَا تَکْرَهُوا النِّسَاءَ
ان کو ناراض مت کریں
وَ لَا تَسْخَطُوا بِهِنَّ
اور ان پر غضہ بھی مت کریں
عورتیں چونکہ بہت نرم مزاج ہوتی ہے اس ليئے کبھی میاں کو حتی لڑائی کے درمیان بیوی کو مارنا نہیں چاہیے کیونکہ ان میں جب کوئی سخت بات برداشت کرنے کی طاقت نہیں تو وہ پھر کیسے آپکی مار کو برداشت کرپائیگی۔ لہذا جو اپنی بیوی کو مارے خدا کی نفرت کا مستحق ہے۔
آپ (ص) نے فرمایا: "إِنِّي أَتَعَجَّبُ مِمَّنْ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ وَ هُوَ بِالضَّرْبِ أَوْلَى مِنْهَا" ترجمہ: مجھے اس آدمی پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ جو اپنی بیوی کو مارتا ہو درحالیکہ اس طرح کا آدمی مار کھانے کا زیادہ سزاوار ہے۔
اکثر خواتین سے اپنے شوہر کے لئے انکے دل میں بغض و نفرت کے شروع ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ جب سے شوہر نے ان پر ہاتھ اٹھانا کیا۔ اور یہ بات کبھی بھی اسکے دل سے نکلنے والی نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی ساری زندگی برباد کر دیتی ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ لوگ ایسا نہیں کرتے ہے کیونکہ رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ "ما اکرم النساء الّاکریم و لااهانهن الّا لئیم"
ترجمہ: عورت کی تکریم نہیں کریگا سواے کریم شخص کے اور توہین نہیں کریگا سواے گھٹیا شخص کے"
آپکی خدمت میں چند نکات بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ کون سے بنیادی کام ہیں جو ایک زوجہ کیلئے باعث تکریم ثابت ہو سکتے ہیں۔
1: جب بھی اپنے سسرال جانا ہو تو اچھے لباس اور اچھے مزاج کے ساتھ جائیں، اس سے آپ کا ان کے لئے احترام کا اظہارِ ہوتا ہے۔
2: زوجہ کو تحفہ یا پھول ضرور دیں۔
3: اپنے والدین اور خاندان کے سامنے بیوی سے احترم اور اچھے انداز میں پیش آئیں۔
4: اگر آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے تو فوراً اس کی خبر انکے والدین کو نا دیں۔
5: اسکی اچھی صفات ہمیشہ بیان کریں۔ مثلاً اسکے سلیقے کی یا اسکی دینداری کی تعریف کریں۔
6: بیوی کے والدین کا اپنے والدین سے مقایسہ نہ کریں اور اسکے سامنے فقط اپنے والدین کی تعریف بھی نا کریں۔
7: اسکے یوم تولد کو یاد رکھییں۔
8: اکثر عورتوں کے ليئے شادی کی سالگرہ منانا بھی وہ اپنا احترام سمجھتی ہیں۔
9: بچوں کے سامنے اسکو احترام سے پکاریں۔
10: اگر بیوی سے اظہارِ محبت کریں تو اسکی وجہ بھی بتائيں کہ کیوں اسکو چاہتے ہیں۔
مثلاً اسکو کہیں کہ تم ایک دیندار اور با ایمان عورت ہو اور میں تم پر فخر کرتا ہوں۔
یہاں میں چاہتا ہو مولا علی علیہ السلام کے ایک قول کے ساتھ اس خطبے کو تمام کروں ۔ وہ یہ کہ (فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ وَ لَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ فَدَارِهَا عَلَى کُلِّ حَالٍ وَ أَحْسِنِ الصُّحْبَةَ لَهَا لِيَصْفُوَ عَيْشُکَ)
عورت ایک پھول کی مانند ہے نہ کہ ایک پہلوان کی طرح، ہر حال میں اس کے ساتھ گزارا کریں کیونکہ زندگی گزارنے کے لئے وہ بہترین ساتھی ہے۔
خطبہ 2
خطبہ شعبانیہ
رمضان المبارک کے فضائل
حضرت امیرالمومنین (ع)سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ ﷺنے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدا ئے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرواور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ کہ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ انکو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھارکھی ہے کہ ا س مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔آنحضرت کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے تب آپ نے فرمایا کہ تم افطار میں آ دھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو۔ کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزاردے گا۔ جب کہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوں گے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جوشخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدا ئے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا۔ اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے توحق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کردے گا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا، اے لوگو! بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے۔
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ : میں کھڑا ہوکر آپ ص کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے اچھا عمل کیا ہے تو آپ(ص) نے فرمایا کہ اس ماہ میں کوشش کریں کہ محرمات سے اپنے آپ کو بچائیں رکھیں۔
آج کل دو موضوع کے بارے میں بہت پوچھا جاتا ہے
1: گذشتہ سالوں کے قضا روزے اگر اس رمضان تک نہ رکھے تو روزے کی قضا کے ساتھ ساتھ ہر روزے کے بدلے ایک مد یعنی (750) 'گرام گندم یا جَو یا روٹی وغیرہ فقیر کو دے دیں۔
2: یوم شک کا روزہ۔
شک ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ!
1: رمضان کی نیت سے اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن اگر ظہر سے پہلے پتہ چلے کہ اول رمضان ہے اور اس وقت تک کچھ ایسا کام نہ کیا ہو کہ جو روزے کو باطل کرتا ہو تو اسی وقت اول رمضان کے روزے کی نیت کریں اور بعد میں اس روزے کی قضا بھی بجا لائيں۔ لیکن اگر کچھ ایسا کام کیا ہو کہ جس سے روزہ باطل ہو تو تب بھی رمضان کے احترام کے لیئے امساک کریں یعنی شام تک کچھ نا کھائيں اور بعد میں پھر قضا روزہ بھی رکھیں۔
آج ہم سب مل کر مسجد کو صاف کریں گے۔
حضرت امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام سے منقول ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ قَمَّ مَسْجِداً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ عِتْقَ رَقَبَةٍ وَ مَنْ أَخْرَجَ مِنْهُ مَا يُقَذِّي عَيْناً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ کِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِه"
ترجمہ: "جس کسی نے اگر مسجد میں جھاڑو لگائی تو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اگر کسی نے آنکھ میں جانے والے تنکے کی مقدار میں مسجد سے غبار صاف کیا تو اللہ تعالی اپنی رحمت کے دو حصے اس کو عطا فرمائے گا"
اسی وجہ سے میں سب نمازیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ نماز جمعہ کے بعد مسجد میں رہیں تاکہ اس معنوی پروگرام میں شامل ہوکر ثواب دارین حاصل کریں۔
اج آیت اللہ استاد مطہری کی شہادت کا دن ہے اس ہفتے کو ٹیچر ویک کے نام سے منایا جاتا ہے ہم آج کی مناسبت سے سب اساتید کو مبارک عرض کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں ہمارے معلمین اور اساتید کو اجر پیغمبران نصیب فرمائے۔
فائل اٹیچمنٹ: