حضرت علی اکبر(ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں مختصر تحقیق
الف: آپ کی ولادت اور عمر با برکتحضرت علی اکبر علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے فرزند ارجمند ہیں آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی وجہ سے آپ کی عمر شریف بھی معلوم نہیں ہے۔ اکثر مورخین نے صرف کربلا کے مصائب بیان کرتے ہوئے آپ کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور فقط آپ کی شہادت کے واقعہ کو بیان کیا ہے(1)۔ آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر کے بارے میں معتدد اقوال و نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ کربلا میں آپ کی عمر 19 سال تھی بعض نے 20 سال اور بعض نے 33 سال بیان کی ہے حتی بعض مورخین نے بیان کیا ہے کہ آپ کربلا میں سن بلوغ کو نہیں پہنچے تھے جبکہ ایک گروہ نے آپ کی عمر 38 سال بھی ذکر کی ہے۔مورخین کے درمیان اس سلسلے میں پائے جانے والے کثرت اختلاف اور تعدد آراء کی بنا پر جناب علی اکبر علیہ السلام کی عمر کا دقیق طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آپ کی عمر کے سلسلے میں پائے جانے والے اختلاف کے ساتھ ساتھ آپ کے لقب’’اکبر‘‘ کے سلسلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض علماء اور بزرگان نے لقب’’ اکبر‘‘ کو امام سجاد علیہ السلام کے لیے بیان کیا ہے جبکہ بعض نے اس سلسلے میں سکوت اختیار کیا ہے کہ آیا لقب ’’اکبر‘‘ امام سجاد علیہ السلام کا لقب تھا یا آپ کے بھائی علی کا جو کربلا میں شہید ہوئے؟ (2)جن علماء نے لقب’’ اکبر‘‘ کو امام سجاد علیہ السلام کی طرف نسبت دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ امام سجاد(ع) امام حسین علیہ السلام کے سب سے بڑے بیٹے تھے لہذا اکبر ان کا لقب تھا۔(3)بہرحال جناب علی اکبر علیہ السلام کی تاریخ ولادت اور آپ کی عمر کے بارے میں جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہم اس سلسلے میں مورخین کے نظریات کو تحلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:مورخین کے نظریات اور آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے قوی دلائل اور شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کی تاریخ ولادت اور عمر کا تقریبا دقیق طریقے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔پہلی دلیل: بعض محققین نے تمام مورخین کے نظریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جناب علی اکبر علیہ السلام کی تاریخ ولادت کو 11 شعبان سن 33 ہجری قمری قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر آيت الله عبدالرزاق الموسوي المقرم نے کتاب انيس الشيعه تأليف محمد عبدالحسين کربلائي اور کتاب حدائق الورديه في مناقب ائمه الزيديه تأليف حسام الدين محلي سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: علی اکبر علیہ السلام 11 شعبان سن 33 ہجری قمری کو خلیفہ سوم کے قتل سے دو سال پہلے پیدا ہوئے (4) خلیفہ سوم سن 35 ہجری قمری کو قتل کئے گئے۔(5)اس کے بعد لکھتے ہیں: مرحوم ابن ادریس حلّی کتاب سرائر کے حصے زیارات میں لکھتے ہیں:’’ علی اکبر علیہ السلام خلیفہ سوم کے دور خلافت میں پیدا ہوئے‘‘ اس اعتبار سے جو تاریخ ہم نے بیان کی ہے زیادہ واقعیت کے قیرب ہے۔اس قول کی بنا پر کربلا میں آپ کی عمر 27 سال رہی ہو گی(6)دوسری دلیل: بہت سارے مورخین جناب علی اکبر علیہ السلام کو حضرت امام سجاد علیہ السلام سے بڑا قرار دیتے ہیں اس اعتبار سے ثابت ہو جاتا ہے کہ لقب ’’اکبر‘‘ آپ ہی کا لقب تھا۔تیسری دلیل: جب امام مظلوم علیہ السلام کے اہلبیت(ع) کو اسیر کر کےشام دربار یزید میں لے جایا گیا تو یزید ملعون نے امام سجاد علیہ السلام سے کہا: تمہارا نام کیا ہے؟ امام نے فرمایا: علی بن حسین۔ یزید نے کہا: مگر خدا نے علی بن حسین کو قتل نہیں کیا؟ امام نے فرمایا: «کان لي اخ اکبر مني يسمي عليا فقتلتموه(7)» وہ علی نام کے میرے بڑے بھائی تھے جنہیں تو نے قتل کیا ہے۔ممکن ہے ابن کثیر کا کتاب البدایہ و النہایہ میں کلام امام علیہ السلام کے اسی کلام سے ماخوذ ہو جووہ لکھتے ہیں: «و کان له اخ اکبر منه يقال له علياً ايضاً(8)» امام سجاد علیہ السلام کے ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام بھی علی تھا۔ چوتھی دلیل: امام سجاد علیہ السلام کی تاریخ ولادت 36 یا 38 ہجری قمری بیان ہوئی ہے(9) اور آپ کے فرزند امام باقر علیہ السلام 4 سال کی عمر میں کربلا میں موجود تھے (10) نیز آپ کے مذکورہ بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام جو آپ سے بڑے تھے کی تاریخ ولادت 33 ہجری قمری ہے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر27 یا 28 سال تھی۔
ب: حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شادی:
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے سلسلے میں ایک اختلافی مسئلہ آپ کی شادی کا مسئلہ بھی ہے کہ کیا جناب علی اکبر نے شادی کی تھی یا نہیں؟ اگر شادی کی تھی تو یقینا آپ کی اولاد بھی رہی ہو گی۔ اس سلسلے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جہاں تک ہم نے تحقیق کی ہے تو قرآئن و شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ آپ شادی شدہ تھے۔ان قرآن و شواہد میں سے ایک قرینہ جو آپ کے شادی شدہ ہونے پر دلالت کرتا ہے یہ ہے کہ مرحوم قولویہ قمی نے کتاب’’ کامل الزایارات‘‘ میں جناب علی اکبر علیہ السلام کے لیے جو زیارت نامہ ذکر کیا ہے اس میں آپ کے فرزند کا تذکرہ کرتے ہوئے ان پر بھی سلام بھیجا ہے۔ یہ زیارت نامہ ابو حمزہ ثمالی کی روایت سے امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ اس زیارت نامہ میں آیا ہے:«صلي اللّه عليک و علي عترتک و اهل بيتک و آبائک و ابنائک و امهاتک الاخيار الذين اذهب الله عنهم الرجس و طهّرهم تطهيراً» یعنی اللہ کا درود ہو آپ پر، اور آپ کی عترت اور آپ کے اہلبیت، آپ کے آباو و اجدا اور آپ کی اولاد اور آپ کی مادران گرامی پر جن سے اللہ نے پلیدگی کو دور کیا اور انہیں ایسا پاک کیا جیسا پاک کرنے کا حق تھا۔جسیا کہ محقق ربانی آیت اللہ موسوی مقرّم نے کہا: اس زیارت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام کے یہاں اولاد تھی چونکہ لفظ ابنا واضح طور پر اولاد پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ لفظ عترت سے بھی یہی معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی شخص کی عترت اس کی اولاد ہی ہوتی ہے (11) اسی زیارت نامہ میں دوسری جگہ بیان ہوا ہے: «ضع خدک علي القبر و قل صلي اللّه عليک يا ابا الحسن ثلاثاً(12)» ( یعنی زیارت پڑھنے والے سے کہا گیا ہے کہ) اپنے چہرے کو قبر پر رکھ کر تین مرتبہ کہو اے ابا الحسن آپ پر اللہ کا درود و سلام ہو۔واضح ہے کہ ابا الحسن کنیت ہے یعنی حسن کے بابا، زیارت میں جناب علی اکبر علیہ السلام کو اس کنیت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے یہاں حسن نام کا بیٹا تھا جس کی وجہ سے آپ کی یہ کنیت تھی۔ ممکن ہے یہاں پر کوئی یہ اشکال کرے کہ عربوں کے یہاں یہ مرسوم تھا کہ وہ بیٹوں کے پیدا ہوتے ہی ان کے لیے ایک کنیت کا انتخاب کر لیتے تھے چاہے انہوں نے شادی نہ بھی کر رکھی ہو۔ جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ چیز عمومیت نہیں رکھتی۔ عام طور پر عرب اسی وقت کنیت سے معروف ہوتے تھے جب ان کے یہاں اولاد ہوتی تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ مرحوم کلینی نے فروع کافی میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت علی اکبر (ع) کی کنیز کا تذکرہ کیا ہے اور اس کنیز سے اولاد ہونے کا ذکر بھی کیا ہے(13) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیارت میں جو آپ کی اولاد پر سلام کیا گیا ہے وہ حقیقت ہے چونکہ آپ شادی شدہ تھے اور آپ کے یہاں اولاد تھی۔ حوالہ جات[1]- محمد بن جرير طبرى، تاريخ الملوک و الامم، ج 5، ص 446. شيخ مفيد ارشاد، ج 2، ص 135. [2]- ميرزا ابوالفضل تهرانى، شفاء الصدور فى زيارت العاشورا (انتشارات سيدالشهداء (عليه السلام) ايران) ج 2، ص 446. [3]- حضرت آية الله خوئى، مجمع الرجال الحديث، مدينة العلم قم، ج1، 358. [4]- شيخ مفيد، ارشاد، حر المؤتمر العالمى، ج 2، ص 135. [5]- حسام الدين المحلّى، حدائق الورديه فى مناقب ائمه الزيديه (طبع قديم، دمشق، غير هاتف، ص 116. [6]- وہی حوالہ، ص 16. [7]- ابوالفرج اصفهانى، مقاتل الطالبين، ص 120، مؤسسه اسماعيليان. [8]- ابن کثير، البدايه، ج 9، ص 103. [9]- شيخ عباس قمى، منتهى الامال، ص 557، مطبوعاتى حسينى، 1372 هـ ش. [10]- وہی حوالہ، ج 2، ص 671. [11]- على اکبر عبدالرزاق الموسوى، ص 15، المقرّم کتبة الحيدريه فى النجف. [12]- ابن قولويه، کامل الزيارات، ص 253، کتبته الصدوق، چاب اوّل. [13]- کلينى، فروع کافى، ج 5، ص 363. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔242
فائل اٹیچمنٹ: