خطبه اول
السلام علیکم و رحمه الله و برکاته
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله نَحْمَدُهُ و نَسْتَعينُهُ و نَسْتَغْفِرُهُ و نَسْتَهْديهِ و نُؤمِنُ بِهِ و نَتَوَکَّلُ عليه و نعوذ بالله مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا و نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريک له و نُصَلّي و نُسَلِّمُ علي حبيبه و نجيبه و خيرته في خلقه، حافظِ سِرِّهِ و مُبَلِّغِ رسالاته، بشير نِعمَتِهِ و نذير نِقمَتِه، سيِّدِنا و نبيِنا حبيب إله العالمين أبا القاسم محمد و علي آله الطيبين الطاهرين المعصومين المُکَرَّمين الهدات المهديين ورحمه الله و برکاته
عبادَالله اوصیکم و نفسی بتقوی الله؛
اے بندگان خدا! میں اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقویٰ الٰہی اپنانے کی وصیت کرتا ہوں
مومنین کرام۔۔۔ گزشتہ جمعے کے خطبے میں ہم نے انسان کے گھریلو اور خاندانی روابط میں تقوی کی اہمیت پر گفتگو کی تھی۔ آپکی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ایک انسان مؤمن کے اہم ترین وظائف میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور کنبے کی نسبت تقوی اپنائے اور اس کے ذریعے اپنے ہدف تک پہنچے،
وہ ہدف کہ جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ حقیقت میں تقوی ایک روحانی طاقت ہے بلکہ اللہ کی جانب سے انسانی زندگی کا حفاظتی اور دفاعی نظام ہے,
جسکے ذریعے انسان برائیوں، غلط اعمال، گناہوں اور حرام لذتوں سے بچ سکتا ہے
اور تقوی الہی وہ صفت ہے کہ جسے اپنانے کی تاکید تمام انبیاء نے اپنے امتوں کو کی ہے۔
زیر بحث موضوع کی سند کے لئے ہم نے مختلف آیات اور روایات سے استفادہ کیا جو اس بات پر تاکید کرتی ہیں
کہ اگر انسان کامیاب، پر سکون اور محفوظ زندگی گزارنا چاہتا ہے کہ جس میں میاں بیوی کی باہمی زندگی میں ایک دوسرے کیلئے محبت اور احترام ہو، جسکے نتیجے میں یہ آیندہ نسل کی بہترین تربیت کر سکیں تو اس کے لیے تقوی الہی اپنانے کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اس ضمن میں ہم نے خواتین اور مرد حضرات دونوں کے لئے دینی روایات میں موجود کچھ نصیحتیں بیان کی تھی اور اب اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے ہم مرد اور عورت کے درمیان فطری فرق کو سمجھتے ہوئے دینی ھدایات سے مستفید ہونگیں۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے مرد اور عورت کو ایک نفس سے پیدا کیا لیکن ان دونوں کے درمیان ہم نے کچھ فرق رکھ دیا۔ اسی کی بنیاد پر انکے بیچ ازدواجی تعلق بنتا ہے اور اسی رشتہ کے ذریعے مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور اسی رشتے کی بدولت ایک مشترکہ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ارشاد گرامی ہے کہ:
(وَ مِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْواجاً لِتَسْکُنُوا إِلَيْها وَ جَعَلَ بَيْنَکُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً إِنَّ في ذلِکَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَکَّرُون.21 روم/ )
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں
اب سوال یہ ہے کہ انسانی خلقت میں اللہ تعالی نے یہ فرق کیوں رکھا۔ کیا اللہ مرد اور عورت دونوں کو ایک جیسا پیدا کرسکتا تھا اور ایک جیسی صفات کا مالک بنا دیتا تاکہ بعد میں ان دونوں کے درمیان اختلافات ہی نہ ہوتے؟
اسکا منطقی جواب ہم نے بیان کیا کے ان دو اجناس کا فرق ان کی تکمیل، سکون اور لذت کیلئے ہے۔
عام طور پر ہم سنتے ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی زندگی میں شریک ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آیا میاں بیوی کی شراکت دنیاوی شراکت جیسی ہو یا دونوں اللہ کی بندگی کے لیے ایک دوسرے کے مددگار ہے؟ ان دونوں شراکتوں میں کیا فرق ہے؟
فرق یہ کہ اگر شراکت دنیاوی یا کاروباری انداز کی ہو تو ایک شریک دوسرے کی غلطی یا پیمان شکنی کو اپنے لئے دلیل قرار دیتا ہے اور اس شراکت میں اختلافات کا آغاز ہو جاتا ہے اسکے برعکس اگر رشتہ ازدواج الہیٰ شراکت کی بنیاد پر ہو تو دونوں انسان ایک دوسرے کے مقصد خلقت کے حصول کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرتے ہیں، یقین رکھتے ہیں دوسرا بھی انسان ہے بلا آخر کبھی تو غلطی کر ہی سکتا ہے،
اس طرح اختلافات کے راستے کو بند کرتے ہیں اور اصلاح کرتے ہیں، اور ہم نے یہ سب اپنے آئمہ سے سیکھا ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام سے شادی کے بعد پوچھا کہ آپ نے زہرا کو اپنی بیوی کے طور پر کیسا پایا؟
تو حضرت امام علی علیہ السلام نےفرمایا کہ(نعم العون علی طاعة اللہ) کہ میں نے اپنی بیوی کو اللہ کی اطاعت کے لئے بہترین مددگار پایا۔
بس اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فرق اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ انسان ترقی کر سکے اور یہ کہ اس کے ذریعے انسان اپنی نسل کی تربیت کر سکے۔
انسان کی ضرورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی مادی اور معنوی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے زمینہ چاہتا ہے جسکو کسی اور نے اسکے لیئے بنانا ہوتا ہے۔
لہذا اس کے لیئے اللہ تعالی نے اپنے دو سفیروں کو معین وظیفوں کے ساتھ ہر انسان کے ساتھ بھیجا ہے جن کے نام ہے ماں اور باپ۔
باپ انسان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور ماں کو انسان کی بہترین تربیت کرنے کے لیے بھیجا ہے
اللہ تعالی نے ان دونوں کی فطرت میں کچھ ایسی مختلف صفات کو قرار دیا ہیں کہ انکے ذریعے یہ دونوں اپنے وظیفوں پر اچھی طرح عمل کر سکتے ہیں۔
تو یہاں تک ہم متوجہ ہوگئے کہ اس فرق کی بنیادی وجہ اور اس کی حکمت کیا ہے۔
تو اب ہم فرق اور صفات کو الگ الگ بیان کرتے ہیں۔
خواتین کی صفات:
1۔ نازک لطیف اور خوبصورت
2۔ عطوفت اور مہربانی
3۔ بیان کرنے کی قدرت اور حوصلہ سے بھرپور
4۔ ان کی دید نزدیک حد تک ہوتی ہے اور وہ جزوی سوچتی ہیں (نزدیک بینی و جزئی نگری)
5۔ پناہ لینے والی اور دوسروں پر تکیہ کرتی ہیں ان کو پسند ہوتا ہے کہ کوئی اور ان کی مدیریت کرے۔
6۔ اچھے دل کی مالک اور جلد یقین کرنے والی اور زیادہ حق کو قبول کرنے والی ہوتی ہے۔
7۔ ان کی زندگی میں نظم ہوتا ہے اور ہمیشہ خوبصورتی چاہتی ہیں۔
8۔ ان کا حافظہ اور یادداشت مضبوط ہوتی ہے
9۔ کاموں کی محافظ اور اپنوں کو بنائے رکھتی ہیں
10۔ دوسروں کے احساسات کی قدر کرتی ہیں
11۔ دین کی طرف ان کی شدید رغبت ہوتی ہے
12۔ سادگی کے ساتھ لطیف احساسات کو اپنی زبان پر لاتی ہیں
13۔ عورت میں حیا بہت زیادہ ہوتی ہے۔
14۔ اور اپنے شوہر کی نسبت ملکیت کا شدید احساس رکھتی ہے۔
مردوں کی صفات:
1۔ سخت اور طاقتور
2۔ غصه کرنے والا اور قدرت طلب۔
3۔ خاموش اور اپنے پر تکیہ کرنے والا۔
4. دور کی نگاہ رکھتا ہے
5. لجوج اور جلد یقین نہیں کرنے والا ہوتا ہے.
6. بے صبر اور جلدی کرنے والا ہوتا ہے.
7. بہت مستقل مزاج ہوتا ہے
8. اتنی آسانی سے ماننے والا نہیں ہوتا ہے
9۔ جارحانہ اور اورقبضہ کرنے کا طالب ہوتا ہے۔
10۔ سختی کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہے
11۔ مقابلہ کرنے کی شدید اور عمیق صلاحیت رکھتا ہے۔
12۔ تقریبا رہبر جیسا عمل کرتا ہے۔
13۔ جاہ طلب ہوتا ہے۔
میاں بیوں کے درمیاں اکثر اختلافات کی اصل وجہ ایک دوسرے کی ان صفات کو نہ جاننا ہوتا ہے
اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ یہ فرق ان دونوں کیلئے کچھ کمیاں(ضروریات) بنا دیتی ہے
کہ جس کے بارے میں آئندہ ہفتے گفتگو کریں گے۔ کیوں کہ ان کمیوں اور حاجتوں کی طرف عورت کا متوجہ رہنا یا مرد کا متوجہ رہنا ایک دوسرے کے لئے آرام اور صمییمیت سے بھری ہوئی زندگی تشکیل دے سکتا ہے۔
حقیقت میں یہ سب بخشش، چشم پوشی، مقابل کو درک کرنا اور ایک دوسرے سے راضی رہنا دوسرے الفاظ میں یہ سب زندگی میں تقوی کی علامت ہوتا ہے ارشاد ہوا کہ
يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناکُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبير (الحجرات 13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
خدایا ہمیں اپنے خاندان کی نسبت تقوی اختیار کرنےکی توفیق عطا فرما۔ خدایا ظہور حضرت امام زمان علیہ السلام میں تعجیل فرما خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے اسلام اور مسلمین کو عزت عطا فرما
ہم سب کو عاقبت بخیر بنا دے اور ہمیں حلال رزق کمانے کی توفیق عطا فرما
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ * إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الأبْتَرُ.
صدق الله علی العظیم
دوسرا خطبہ
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین ثم الصلاةُ و السلامُ علی سیدنا و نبینا حبیب اله العالمین، ابی القاسم محمد(ص) و علی آله الطیبین الطاهرین،
اللهم صلّ و سلِّم علی مولانا امیرِالمؤمنین علیِّ بن ابی طالب و علی فاطمة الزهراء سیدةِ نساء العالمین و علی الحسنِ و الحسین سیدی الشباب اهل الجنة و علی علی بن الحسین زین العابدین و امامِ العارفین و علی محمد بن علیٍّ الباقر و علی جعفر بن محمد و علی موسی بن جعفر و علی علیٍّ ابن موسی الرضا المرتضی و علی محمد بن علی و علی علی بن محمد و علی الحسن بن علی الزکیّ العسکری و علی الحجة القائم المهدی. حُجَجِکَ علی عبادک، و اُمنائکَ فی بلادک، بهم نتولی و من اعدائهم نَتَبَرَّئُ الی یوم القیامة.
عباد الله اوصیکم و نفسی بتقوی الله؛
سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اور پرہیزگاری کی تاکید کرتا ہوں
ماہ مبارک شعبان المعظم کے آنے پر آپ سب خواتین و حضرات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں گزرا ہوا ہفتہ بہت ہی مبارک نورانی ہفتہ تھا کیونکہ اس ہفتے میں ایک تو میلاد با سعادت سید و سالار شہیدان حضرت امام حسین علیہ السلام تھا کہ جو آزادی، غیرت اور مردانگی میں ایک اعلیٰ مثالی شخصیت ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سب مسلمانوں کے لئے ایک ایسے امام ہیں کہ جن کی پیروی میں ہر دور کا مسلمان اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اپنی مخالفت کی سمت کا تعین کرسکتا ہے اور اسی طرح ان ظالمین کے خلاف بھی کہ جو جارحیت اور وحشت و دہشت سے مظلوموں کی املاک اور اموال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے ظلم سے نجات کا راستہ بھی امام حسین علیہ السلام کی اطاعت میں مل سکتا ہے۔
اسی طرح اس ہفتے میں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی بھی ولادت باسعادت گزری ہے۔
حضرت ابوالفضل العباس کی من جملہ صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ ان میں اپنے رہبر اور امام حضرت امام حسین علیہ السلام، کہ جو اس کے بھائی بھی تھے کیلئے بے پناہ ادب تھا۔ حضرت عباس کی زندگی سے مومنین آئمہ کیلئے ادب اور اطاعت سیکھ سکھتے ہے۔
اور ولادت با سعادت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی ہمارے لئے ایک بہترین موقع ہے کے ہم ان کی شخصیت سے آشنا ہو جائیں اور آپ کی بہترین میراث "کتاب صحیفہ سجادیہ" سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں
صحیفہ سجادیہ وہ کتاب ہے کہ جس میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے 54 دعائیں نقل ہوئی ہیں
صحیفہ سجادیہ کہ جو قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد ایک اہم ترین کتاب ہے جس کو خواہر قرآن یعنی قرآن کی بہن اور( انجیل اہل بیت) بھی کہا جاتا ہے
اسی طرح قرآن اور نہج البلاغہ کی مانند صحیفہ سجادیہ بھی فصاحت اور بلاغت کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بنی ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ان دعاؤں کے اندر بہت سارے معارف دینی بیان کردیے ہیں۔
صحیفہ سجادیہ میں ذیل موضوعات موجود ہیں۔
خدا کی پہچان، جہان کی پہچان، اور انسان کی پہچان، اسی طرح عالم غیب کے بارے میں بحث اور فرشتگان کے بارے میں، انبیاء کی رسالت کے بارے میں، پیغمبر اور اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں، امامت، فضائل و رزائل اخلاقی، عیدوں کو منانا، اجتماعی مسائل، اسی طرح کچھ تاریخی اشارے، خدا کی مختلف نعمتیں، دعا کے آداب، تلاوت نماز وغیرہ کے آداب بیان ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کی معروف دعا، دعای مکارم الاخلاق ہے بہت سارے علمائے اسلام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کتاب کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ایک اور مناسبت کہ جو آنے والے ہفتے میں رونما ہونی ہے وہ ولادت با سعادت حضرت علی اکبر علیہ السلام ہے کہ میں اس مناسبت سے آپ سب دوستوں کو اور خاص کر جوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ اس دن کو "روز جوان" کے نام پر منایا جاتا ہے۔
ہمیں اس موقع سے یہ فائدہ اٹھانا چاہئے کہ ہم جوانوں کی ضرورتوں کے بارے میں زیادہ جان سکے اور جوانوں کا ہم سے کیا امیدیں ہیں اس کو سمجھیں اور انکا احترام بھی کریں جوانوں کے ساتھ رابطے کو مستحکم کریں اور اسی طرح جوانوں کی مشکلات کو حل کرنے کو ہم اپنا وظیفہ قرار دیں،
خاص کر شادی کا مسئلہ اور شادی کے متعلق سب مسائل کا حل کرنا سب والدین اور ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح یہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنے جوانوں کو جان سکیں کہ وہ جوانی کی اس بہترین فرصت سے کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کا معنویت کے ساتھ کتنا رابطہ ہے ان کی بندگی کیسی ہے اور اس دنیا میں ان کا کیا کردار ہے
میں جوانوں کو یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کے اپنے اعتقادات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔
اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ خدایا تجھے تیری نورانیت کا واسطہ اور تجھے اہل البیت کا واسطہ، ہمارے جوانوں کو اپنی بندگی اختیار کرنے میں مدد فرما
اور جوانی کے دوران آنے والی بلاؤں سے محفوظ فرما اسلام اور مسلمین کو عزت عنایت فرما ہمیں توفیق دے کہ ہمارے عاقبت بخیر ہو
فائل اٹیچمنٹ: