پہلاخطبہ
خدا کے ساتھ ارتباط کے لئے کچھ وسائل ہیں اور اس میں سے ایک عظیم وسیلہ دعا ہے۔ دعا کے بارے میں اللہ اپنے حبیب سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے۔
اے میرے حبیب!
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ
اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں، میں (ان سے) قریب ہوں ،
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ16
ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔
اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
دعا کرنے والاجب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ،
فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ
پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں
وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ 186) سورہ بقرہ
اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں ۔
دعا ایک طرح سے دل کی شناخت اور آگاہی ہے اور یہ ایک قسم کا باطنی جوڑ ہے جو انسان کا اپنے خالق کے ساتھ ہوتا ہے، ایسا خالق کہ جس سے تمام اچھائیوں اور نیکیوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ دعا خود ایک عبادت، بندگی، خضوع اور خشوع ہے ۔
دعا انسان کا اپنے اللہ کے ساتھ ایک خاص ارتباط پید ا کرتی ہے اور باقی عبادات کی طرح دعا کا بھی ایک تربیتی اثر ہے۔
حضرت امام صادق(ع) نے ارشاد فرمایا کہ
"ان عند اللہ عزو جل منزلہ لا تنا ل الا بمسالہ"
اللہ تعالی کے ہاں بندوں کے لئے ایک خاص مقام ہے کہ جو مانگے بغیر (دعا کے بغیر) نہیں حاصل ہوتا۔(برگزیدہ تفسر نمونہ ج 1 ص187)
الکسیس کارل ایک مشہور ماہر نفسیات (سائیکالوجسٹ) ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر کسی قوم میں سے دعا اور طلب ختم ہو جائے تو سمجھو کہ ایسی قوم برباد ہو چکی ہے۔ وہ قوم کہ جو طلب اور دعا کی احتیاج کو خود سے نکال دے تو ایسی قوم کبھی بھی فساد اور زوال سے نہیں بچ سکتی۔
کچھ لوگ دعا اور خدا سے طلب کو نہیں مانتے اور اس پر اعتراض کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ یہ اعتراضات کیوں کی جاتی ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو دعا کے حق میں نہیں؟
ان اعتراضات کی بنیادی وجہ لاعلمی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو دعا کے تربیتی اور نفسیاتی اثرات کے بارے میں کوئی علم نہہیں۔
دوسری طرف ایک فکر یہ ہے کہ دعا انسانی عمل کے مقابلے میں ہے،
یعنی انسان کسی کام میں کامیابی کے لئے کوشش اور محنت کرنے کے بجائے یا اس کام کے متعلقہ وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے صرف دعا کرے بلکہ ایک طبقہ انکو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اپنی کوشش اور محنت کے بجائے دعا کرتے رہو کامیاب ہو جاؤ گے۔
ایسی نظر رکھنے والے لوگ دعا کے معنی کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے، کیونکہ دعا انسانی صلاحیت اور طبیعی علل اور وسائل کے بر خلاف یا انسانی کوشش کے بغیر کوئی چیز نہیں۔ بلکہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کسی کام کے مطلوبہ نتیجے پر نہیں پہنچے تو اس کے لیے ساتھ میں دعا کرے۔ اور یقین کے ساتھ اللّٰہ پر بھروسہ کرتے ہوئے روح امید اور حرکت کو اپنے اندر زندہ رکھے، اور جہان بنانے والے سے مدد مانگے۔
لہذا دعا مخصوص ہے اس وقت کے لئے کہ جب ہم ایک عمل انجام دیں اور اسکی تکمیل کیلئے خدا سے نتیجہ مانگیں۔ پس دعاطبیعی عوامل کے مقابلے میں کوئی مخصوص عامل نہیں ہے
یاد رہے کہ اگر کسی نے کوشش اور تلاش کرنے کے بجائے صرف دعا کرنے پر انحصار شروع کر دیا تو ایسے انسان کی دعا کبھی بھی قبول نہیں ہوتی۔
حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
(اربعہ لا تستجاب لھم دعوہ)
چار قسم کے افراد کی دعا کبھی بھی قبول نہیں ہو تی۔
1: "رجل جالس فی بیتہ یقول اللھم ارزقنی فیقال لہ الم امرتک بالطلب بہ"وہ شخص جو گھر میں بیٹھ کر دعا کرتے رہے کہ خدایا مجھے رزق دے تو اسکو کہا جاتا ہےکہ کیا ہم نے تجھے کام کاج اور تلاش کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔
2: "رجل کانت لہ امراہ فدعا علیہا فیقال لہ الم اجعل امرھا الیک"وہ شخص جسکی بیوی اسکو ہمیشہ ناراض رکھتی ہو اور وہ آدمی دعا کرے کہ خدایا مجھے اس بیوی سے نجات عطاء فرما تو اسے کہا جاتاہے کہ کیا ہم نےاس امر کے لئے تمہیں طلاق کا حق نہیں دے رکھا ہے؟
3: وہ مالدار شخص جو اپنی دولت کو لاپروائی سے برباد کرے اور پھر خدا سے رزق کا سوال کرے تو اسکا جواب یہ ہے کہ کیا اللّٰہ نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ اپنی اقتصاد کو برقرار رکھنو اور اپنے مالی امور میں میانہ روی اختیار کرو، اور کیا ہم نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ اپنے مال کی اصلاح کرتے رہو ۔
4: وہ شخص جو اپنے مال سے دوسروں کو قرض دے مگر اسکو تحریری شکل میں نا لکھے اور نا کسی کو اس پر گواہ قرار دے۔ اگر کوئی مقروض اس شخص کا قرضہ لوٹانے سے انکار کردے اور قرضہ دینے والا خدا سے دعا کریں کہ پروردگار اس قرضدار کو ہدایت عطا فرما،
اور اسکے دل کو میرا قرض لوٹانے پر آمادہ کردے تو ایسی دعا کبھی قبول نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کیلئے سوال ہے کہ کیا خدا نے قرض کے احکام سے تجھے آگاہ نہیں کیا؟
۔امام کی حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ افراد جو عمل اور کوشش کے بجائے کسی نتیجے کی امید میں یا پھر کوئی عمل انجام دیتے ہوئے اللّٰہ کے بتائے ہوئے راستے اور ہدایت کو چھوڑ کر، ضروری احتیاطی تدابیر کو ترک کر کے مطلوبہ نتائج کی دعا کرتے ہیں تو ایسی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
ایک اور اعتراض یہ ہے کہ دعا یعنی اللہ کی کاموں میں دخل اندازی کرنا، ہونا وہی ہے جو اللّٰہ چاہتا ہے،
اللہ تعالی انسان سے بےپناہ محبت بھی رکھتا ہے اور انسان کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا وہ ہم سے بہتر جانتا ہے لہذا ہم کیوں بار بار اللّٰہ کے کاموں میں دخل اندازی کریں اور اپنی خواہش کے مطابق اس سے مانگتے رہیں؟
دعا اللّٰہ کے کاموں میں مداخلت کا نام نہیں، اور دعا نا صرف ایک عبادت ہے بلکہ یہ انسانی روح کی پوشیدہ رہنما بھی ہے- توانائی کا سب سے طاقتور ذریعہ جو تصور کیا جا سکتا ہو.
دعا کے اثر و رسوخ انسانی دماغ اور جسم پر صاف طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ دعا کے نتیجے میں انسان کی جسمانی بہبود، دانشورانہ طاقت، اخلاقی حاکمیت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسانی تعلقات کے بنیادوں میں چھپے حقائق کو بہترین انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ سب حتیٰ اس آدمی کے لئے بھی ممکن ہے کہ جو کم استعداد یا کم ذہنی صلاحیتوں کی بنیاد پر پیچھے رہ گیا ہو دعا کے ذریعے وہ بھی اپنی عقل اور اخلاق کی طاقت سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ دعا کی حقیقت کو پہچانتے ہے۔
(الیکسس کارل)
اس بنا پر دعا ایک ایسی عبادت اور حضوع و خشوع کا وہ عمل ہے کہ جس کے ذریعہ انسان اپنے اللّٰہ سے ہر بار ایک نیا رابطہ استوار کرتا ہے۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ، آیا دعا کرنا اللّٰہ کی ارادے کے سامنے راضی رہنے اور تسلیم ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتی ہے؟
حضرت امام صادق(ع) نے ارشاد فرمایا کہ "ان عند اللہ عزو جل منزلہ لا تنا الا بمسالہ"
اللّٰہ تعالی کے ہاں بندوں کے لئے ایک خاص مقام ہے کہ جو مانگے بغیر یعنی دعا کیے بغیر , حاصل نہیں ہو سکتا۔(برگزیدہ تفسر نمونہ ج 1 ص187)
ایک دانشمند کہتا ہے کہ جب میں دعا کرتا ہو تو خود کو ایک ایسی ھستی سے مرتبط پاتا ہو کہ جسکی طاقت بے پناہ ہے اور جس نے اس پوری کائنات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔
آج کل کے ماہرین نفسیات (سائیکالوجسٹ) وہی کچھ کہنے لگے ہیں کہ جو پیغمبران خدا کہتے تھے، کیونکہ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ انسان کے اندر دعا، نماز اور مستحکم ایمان کے ذریعے پریشانی، ھیجان اور خوف ختم ہو جاتا ہے ورنہ یہ چیزیں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ (کتاب آئین زندگی)
آئیے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دعا کا انسانی زندگی میں کیا کردار ہے؟اور بندگی کی راہ میں دعا ہمارے لئے کیاحدیں مقرر کرتی ہے؟
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہۭ (5)
پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں (5)
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہۙ (6)
ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ (6)
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ڏ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ ہۧ (7)
جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ
جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ)
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ 127
اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما،یقینا تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
اس کے بعد والی آیت میں انھوں الله سے پانج چیزیں مانگیں۔
1: "رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ"
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا
2: وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ
اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر
3: وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا
اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما
4: وَتُبْ عَلَيْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ128
اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
5: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ
اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما
يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِکَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَيُزَکِّيْہِمْ
129۔ جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،
اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ129ۧ بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ201 البقرہ
اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں : ہمارے پالنے والے! ہمیں دنیا میں بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر 250 میں ارشاد ہوا۔
وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ہۭ (250)
اور یہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا کہ خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرما (250)
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 286 میں میں ارشاد ہے
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ہۧ (286)
خدایا ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈالنا جیسا پہلے والی امتوں پر ڈالا گیا ہے۔ پروردگار! ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ ہمیں معاف کردینا، ہمیں بخش دینا، ہم پر رحم کرنا توہمارا مولا اور مالک ہے اب کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما (286)
دوسرا خطبہ
میں چاہتا ہو کہ اس خطبے میں کچھ اعتکاف کے حوالے سے بات کروں،
لغت میں اعتکاف توقف یعنی کسی جگہ میں ٹھرنے کے معنیٰ میں ہے۔
لیکن اصطلاح دینی میں اعتکاف کی تعریف حضرت امام خمینی (رہ) اس طرح کرتے ہیں کہ
(و ھو اللبث فی المسجد بقصد تعبد بہ و لا یعتبر فیہ ضم قصد عبادہ اخری خارجہ عنہ و ان کان ھو الاحوط۔)
اعتکاف: مسجد میں عبادت کی نیت سے ٹھرنے کو اعتکاف کہتے ہے، اور اعتکاف میں کسی دوسری عبادت کی نیت کرنا معتبر نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اصل عبادت (اعتکاف) کے ساتھ دوسری عبادات کی نیت کی جاۓ۔ دین اسلام میں اعتکاف خود ایک مستقل عبادت ہےاور اسکی اہمیت بھی نماز روزہ اور حج جیسی ہے۔
اللہ کے مہمان جب معتکف ہو جاتے ہیں تو اللہ کی طرف سے بیشمار نعمات اور تحائف وصول کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے ایک ایسی جگہ پر اعتکاف کرنا چاہئے کہ جہاں اس عظیم عبادت سےدوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے، نہ کہ خلوت میں کہ جہاں اس عمل کی کسی کو خبر بھی نہ ہو۔
جس ملک میں اعتکاف رائج ہو وہ ملک ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے دوسرے ممالک کو بھی فائدہ پہنچے کیونکہ اعتکاف میں لوگوں کا پیغام اللہ کو اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے۔
اعتکاف کا ایک ھدف لوگوں کی مشکلات کو حل کرنا ہے، ایسا نا ہو کہ معتکف انسان معاشرے کے دوسرے لوگوں سے بلکل جدا ہو جائيں۔ انسان تین روز درست اعتکاف کرنے کے بعد نا خود غلط راستے پر جاتا ہے اور نا کسی کا راستہ روکتا ہے۔
اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اعتکاف کی خوشبو اور اثرات معاشرے کے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچتے ہیں۔
اعتکاف آب کور جیسا ہے کہ جس سے جامعہ کو پاک کیا جاسکتا ہے۔ اعتکاف سے روح کو طہارت ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی اخلاقی امن حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم اور انکے فرزند حضرت اسماعیل کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی گھر میں آنے والے تیں گروہوں کی مہمانوازی کریں۔
* ایک حج کرنے کے لیئے آنے والے۔
* دوسرے نماز ادا کرنے کے لئے آنے والے۔
* تیسرے اعتکاف کرنے کے لیئے آنے والے۔
اعتکاف حج اور عمرے جیسی ایک الگ عبادت ہے نا کہ ان میں سے کسی کا حصہ ہو۔
بلکہ بات اس سے بڑھ کر ہے وہ اس طرح کہ نماز اور روزہ اعتکاف کا جز بن جاتے ہیں بلکہ نماز و روزہ اعتکاف کی بنیادی شرائط میں سے ہیں۔
اعتکاف ہر جگہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ انسان یا ان چار مساجد یعنی ( مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد الاقصی، مسجد کوفہ) میں معتکف ہو یا پھر کسی جامعہ مسجد یا مسجد جماعت یعنی ایسی مسجد جہاں پابندی سے نماز جماعت قائم کی جاتی ہو، اور زیادہ تعداد میں وہاں آتے ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے گذشتہ خطبے میں عرض کیا کہ بندوں کا آپنے رب کے ساتھ ارتباط قائم رکھنے کے لئے ایک وسیلہ دعا ہے۔ دعا خود ایک قسم کی عبادت، بندگی، خضوع اور خشوع ہے ۔ باقی عبادات کی طرح دعا کا بھی ایک تربیتی اثر ہوتا ہے۔
جیسا کہ دعا کی ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان میں اندرونی طور پر آرامش لاتا ہے اسی طرح روح بڑھاپن پیدا کرکے اسکی بہادرر اور دلاوری بڑھاتا ہے۔
اس حوالے سے قرآن کریم سے آیتیں بھی بیان کیے گئے ۔
دعا کی واقعی مفہہوم ۔
دعا کی واقعی مفہوم یہ کہ دعا میں ایک شئی کی ان اسباب اور عوامل کی فرھمی کے بارے درخواست کیا جاتا ہے کہ جو انسان کی دائرہ قدرت سے خارج ہو ، یہ درخواست اس ھستی سے کی جاتی ہے کہ جنکی قدرت ہر شئی ے زیادہ ہے اور جسکی قبضہ قدرت میں
سب کچھ ہے، اور اسکے لئے سب کچھ بہت آسان ہے۔
دوسری الفاظ میں دعا ایک قسم خود سے آگاہی اور دل اور فکر کی بیداری اور اسی طرح سب نیکیوں اور اچھایوں کی مالک کے ساتھ دل کی پیوند اور ملنا ہوتا ہے۔
حضرت امام علی ع نے فرمایا کہ:
(لایقبل اللہ عزوجل دعاء قلب من لاہ)
خداوند متعال کبھی بھی اس شخص کی دعا قبول نہیں کرتا کہ جو غافل ہو۔
اب سؤال یہ پوچھا جاتا ہے کہ دعا قبول کیونہیں ہوتی ہے۔
بعض روایتوں میں کچھ کا ذکر موجود ہے کہ جو دعا قبول ہونے سے مانع بنتی ہے۔کہ ان میں سے کچھ یہ ہے۔
1: بد نیت 2: حسد اور نفاق 3: نماز پڑھنے میں دیری، 4: بدزبانی ، 5: حرام کھانا۔ 6: صدقے نہ دینا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا۔
مرحوم طبرسی سے کتاب احتجاج میں حضرت امام صادق (ع) سے اس طرح نقل کیا ہے کہ امام (ع) سے پوچھا گيا( انہ سئل الیس یقول اللہ ادعونی استجب لکم؟
کہ کیا نہیں کہا گیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرو اور آپ لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہو۔
( و قد نری المضطر یدعوہ ولا یجاب لہ) اور ہم نے دیکھا کہ مجبور اور مضطر دعا کرتا لیکن انکو جواب نہیں دیا جاتا یعنی اسکی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔
(والمظلو یستنصرہ علی عدوہ فلا ینصرہ) اور مظلوم کو دیکھا کہ جو ظالم پر فتح کی دعا کرتا ہے لیکن اسکی مدد نہیں کی جاتی ہے۔
( قال ویحک! مایدعوہ احد الا استجاب لہ) آپ (ع) سے فرمایا کہ وای ہو تم کبھی بھی ایسا نہیں ہے کہ کوئی اللہ کو پکارے اور وہ جواب نہ دے۔
(اما ظالم فدعائہ مردود الی ان یتوب) اما ظالم شخص تو اسکی دعا اس وقت تک مردود ہوتی ہے کہ جب تک وہ توبہ نہ کریں۔
(اما المحق فاذا دعا استجاب لہ وصرف عنہ البلاء من حیث لایعلمہ، او ادخر لہ ثوابا جزیلا لیوم حاجتہ الیہ)
اما جو شخص دعا کی قبول ہونے کا حقدار ہے تو اسکی دعا قبول ہو جاتی ہے اور اس ایسی بلاؤ کو دور کرتی ہے کہ جس کے بارے وہ علم ہی نہ رکھتا ہو یا اسکے لئے یہ دعا اس دن کے لئے ذخیرہ کی جاتی کہ جس دن (قیامت ) کو وہ شخص اسکی طرح بہت زیادہ حاجت رکھتا ہے۔
فائل اٹیچمنٹ: