دعا کی اہمیت
حضرت انسان کس قدر شرف و عظمت کا مالک ہے،اس کے لئے کائنات بنی،پوری کائنات میں اسی کو عزت و تکریم کا حق دار ٹھہرایا گیا۔تمام مخلوق اس کی خدمت اور منفعت کے لئے پیدا کی گئی۔لیکن اتنی عظمتوں کے باوجود اس کی خلقت کا مقصد اللہ کی معرفت اور عبادت قرار دیا گیا۔لہذا انسان کا اہم کام خدا سے ارتباط و ربط ہے۔مگر کیسا رابطہ؟
اتنی عظمتوں کے باوجود بارگاہ خداوندی میں فقر محض اور احتیاج محض ہے جبکہ ذات پروردگار غناء ہی غناء ہے۔بلندی ہی بلندی ہے۔انسان مشکلات،مصائب اور تکالیف میں ایسی ذات کی طرف رجوع کر کے اپنے فقر اور احتیاج محض ہونے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے اپنی نفی اور بے ثباتی کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں انسان کا ایک اہم وسیلہ دعا ہے۔دعا کے ذریعے اپنی احتیاج کا اظہار بھی کرتا ہے اوراللہ سے اعانت کی التجا بھی کرتا ہے۔
واضح ہے کہ مصائب اور مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے انسان کو سہارے اور فریاد رس کی ضرورت ہے۔اگر کوئی سہارہ اور فریاد رس نہ ملے تو وہ زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے اور آخری قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ایک مشہور ماہر نفسیات کے مطابق؛ کسی قوم میں دعا اورزاری کا فقدان اس ملت کی تباہی کے برابر ہے۔جو قومیں دعا کی ضرورت سے بے نیازی ظاہر کریں وہ فساد وزوال سے محفوظ نہیں رہ سکتیں۔
ہر قوم،گروہ اور انسان کا آخری سہارہ خدا کی ذات ہے۔جب احتیاج انتہا کو پہنچ جائے اور مشکلات و مصائب سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے،تو ایسے میں دعا ہی سے دل کی تسکین ہوتی ہے۔اضطراب،بے چینی اور طے چارگی ختم ہونے لگتی ہے اور طے ساختہ دست دعا بلند کرتے ہوئے خدا کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔پروردگارا !{أمن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء}(نحل:62)کون ہے جو مضطر و پریشان کی فریاد کا جواب ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے؟لہذا بے چارگی کی اس منزل پر جہاں قدرت اور طاقت جواب دے جائے، کوئی حل نظر نہ آئے،کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہو،مایوسیوں کے اندھیرے پھیلنے لگیں تو ایسے میں دعا ہی امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے۔اور دعا کی حالت میں جب انسان سراپا التجا بن جائے اوراس کے فقر کے ثبوت میں آنسو ٹپکنے لگیں تو یہ کیفیت قبولیت دعا کے قریب ہوتی ہے۔اور اس عالم بیچارگی و بے چینی میں مضطر و پریشان انسان خود کو تمام قوتوں کی مالک ہستی کے قریب محسوس کرتا ہے۔جس سے اس کا احساس تنہائی ختم ہو جاتا ہے۔مایوسیوں کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں اور وہ اپنی نا توانیوں کوامید ورجاء کی قوتوں میں بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ اگر اس کے پاس دنیاوی عارضی سہارے نہیں تو کیا ہوا ،مجھے تو قادر مطلق ذات کا سہارا حاصل ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام قوتیں اور نعمتیں ہیں ،جو ہر مصیب اور مشکل کو دور کرنے والا ہے۔خالق سے یہ رابطہ اس جینے کی نئی امید عطا کرتا ہے۔جس کے نتیجے میں اسے سکون، اطمنان اور راحت نصیب ہوتی ہے اور وہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے۔الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔
بیشک اللہ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔
بہرحال !
آیات وروایات میں باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔ارشاد رب العزت ہے ۔اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (غافر: 60)مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا ۔قُلْ ادْ عُوْا اَلله۔ ( اسراء :110) اے رسول میرے بندوں سے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں {یَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی یَدْ عُوْنِیْ۔} اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں ){یَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ یَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں ۔حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگ ترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔پیغمبر اکرم ﷺ اور آئمہ (ع) کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں :یَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَاءِ ۔اے علی (ع)میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں ۔قال رسول اللہ ﷺ :اَلْدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَدٌ۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا ۔قال رسول اللہ ﷺ:تَرْکُ الدُّ عَاءِ مَعْصِیَةٌ :پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے ۔قال رسول اللہ ﷺ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَاءِ بِالّدُ عَاءِ :رسول اکر م ﷺ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے ۔قال علی (ع):اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی الله عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَاءُ۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے ۔ قال الامام علی (ع): اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی (ع) فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے۔قال امام علی (ع): مَنْ قَرِعَ بَابَ الله سُبْحِانَہُ فُتِح لَہ۔حضرت علی (ع) فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا۔
قال امام محمد باقر (ع):اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَاءُ ۔ امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے ۔قال الامام الصادق (ع): عَلَیْکَ بِالدُّعَاءِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے
بہرحال !انبیاء علیہم السلام جیسی عظیم المرتبت معصوم ہستیوں کو بھی جب مشکلات اور مصائب کا سامنا ہوتا تو دعا کا سہارا لیتے ہوئے مونس حقیقی سے سے اپنے غم کا مداوا کرتے۔حضرت آدم (ع) کی دعا:{ربنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ (اعراف:23)پروردگار ہم نے خود اپنا نقصان کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم یقینا گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
حضرت نوح (ع) کی دعا:رب انی مغلوب فانتصر۔
اے پالنے والے میں مغلوب ہوں پس میری مدد فرما۔(قمر:10)
حضرت ابراہیم (ع) کی دعا:رب جعلنی مقیم الصلواة ومن ذریتی ربنا و تقبل دعا ۔(ابراہیم :40) اے میرے پالنے والے مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا دے ہمارے پالنے والے (ہماری)دعا قبول فرما۔
حضرت موسیٰ (ع) کی دعا:رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر ۔(قصص:24)اے میرے پروردگار اس وقت جو نعمت تو میرے پاس بھج دے میں اس کا سخت حاجتمند ہوں۔رب الشرح لی صدری و یسرلی امری واحلل عقدة من لسانی یفقھوا قولی ۔
اے پروردگار میرے سینے کوکشادہ کر دے اور میرے کام کو آسان فرما اور میری زبان سے لکنت کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔(طہ:25تا27)
حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا:{رب انی مسنی الضر و انت ارحم الراحمین ۔(انبیاء:83)اے میرے پروردگار بیماری تو میرے پیچھے لگ گئی ہے اور تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی دعا:{لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہر عیب سے پاک ہے بیشک میں قصور وار ہوں۔(انبیاء:87)
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:{رب لا تذرنی فدا و انت خیر الوارثین ۔(انبیاء:89)اے میرے پروردگار مجھے تنہا(اور)بے اولاد نہ چھوڑاور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا:{انت ولی فی الدنیا و الاخرة توفنی مسلما والحقنی بالصالحین ۔(یوسف:101)اے میرے پروردگار تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا مالک ہے تو مجھے دنیا سے مسلمان اٹھالے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرما۔
فائل اٹیچمنٹ: