جنگوں میں پیامبراکرم(ص)کی سیرت
مقدمہ
انبیائ علیہم السلام کی بعثت کامقصدتعلیم وتربیت اور بنی نوع انسان کی سعادت کی طررف رہنماِئی کرنا ہے۔خداوندمتعال نے دین اسلام کو اپنی طرف سے واقعی دین (1) اور پیامبراعظم (ص)کو آخری پیامبر(2)اورقرآن مجید کو آخری آسمانی کتاب کے طور پر منتخب کیا(3) اور پیامبر اکرم (ص) کو تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار دیا۔
(لَقَد کَانَ لَکُم فِى رَسُولِ اللَّهِ أسوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن کَانَ یرجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّهَ کَثِيراً) (4)
اور انسانوں کو آپ (ص)کی اطاعت کا حکم دیا(5) اورقرآن و اہل بیت کے ساتھ متمسک ہونے کوانسان کی سعادت قرار دیا(6)چونکہ پیامبر اعظم(ص)،معاشرہ کے ایک فرد تھےلہذاان کی سیرت میں مختلف پہلو دیکھے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک پہلو جنگوں میں آپ(ص)کی سیرت ہےجس پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
سیرت
سیرہ لغت میں فِعلہ کا ہم وزن ہےجس کے معنی چال چلن (زندگی کے طور طریقے)ہیں(7)
جبکہ اصطلاح میں پیامبر اکرم(ص)کی زندگی کے حالات کی تفصیل اور تاریخ ہے۔شہید مطہری اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں :آپ (ص) کی سیرت ،یعنی وہ طریقہ جو پیامبر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپناتے تھے-(8)
پیامبر اکرم کی تبلیغ کی روش کیا تھی؟پیامبر (ص)نے بہت سی جنگیں لڑیں ان جنگوں میں آپ(ص)کی سیرت کیا تھی؟۔
جنگوں میں پیامبر(ص)کی سیرت
پیامبراعظم(ص)جب تک مکہ میں تھےایک الہی پیشواکی حیثیت سے تھے اور ان کی فعالیت لوگوں کی ہدایت،مشرکوں اورکافروں سےفکری اورعقیدتی جنگ تک محدودتھی۔
لیکن مدینہ میں قیام کے دوران ،تبلیغ دین اورمذہبی قیادت کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت بھی آپ(ص)کے دوش مبارک پر تھی۔کیونکہ مدینہ میں حالات نےنیارخ موڑا آپ(ص)نےمدینہ میں اسلامی تعلیمات کی بناپرنئےمعاشرہ کی بنیادرکھی۔اس حوالےسے خطروں اورآنےوالی مشکلات کوپیش نظررکھتےہوئےایک باخبر،موزوں اوردوراندیش رہبرکی حیثیت سےانکےسدباب کےلیےچارہ جوئی کی۔مسلمانوں کے دوگروہوں کےدرمیان اخوت وبھائی چارہ،عمومی پیمان نامہ اور یہودیوں کےساتھ صلح نامہ،ان اقدامات میں سےچندنمونہ ہیں۔
وہ سورتیں اور آیات(جن میں احکام اورسیاسی اور اجتماعی دستورات بیان کیے گئے ہیں)مدینہ میں نازل ہوئے کہ جو پیامبر کی سیاسی زندگی کا پیش خیمہ بنیں کیونکہ ان میں خدا کی طرف سے دفاع اور جہاد کا حکم ملا :
(الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ)(9)
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں۔
یہ آیت مومنین کے مشرکین کے ساتھ جہاد کی اجازت پر مبنی ہے۔یہ حہاد کے متعلق نازل ہونے والی پہلی آیت ہے اس کے نزول کے بعد پیامبر(ص)نےدفاعی فوج کی تشکیل کا ارادہ کیا۔پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ ہجرت کی وجہ سےاب چونکہ مشرکان مکہ مسلمانوں کو آزرواذیتیں نہیں دے سکتے تھے اس لیے مشرکان کا مدینہ (جو کہ اسلام کا مرکز تھا) پر حملہ کر سکتے تھے اس لیے بھی ایسی فوج کی تشکیل بہت اہمیت کی حامل تھی۔لہذا آپ(ص) کی سیرت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوج کی تشکیل کے بعد حکومتی دستے مدینہ کے اطراف میں حفاظت کے کیے مامور ہوتےتھے۔
اسلام ناب محّمدی (ص) میں مسلح افواج کی تشکیل اور جہاد تشدد نہیں بلکہ اس کا حقیقی ہدف امن و صلح ہے وہ صلح کہ یکتا پرستی کے قوانین کی پیروی کے ساتھ ہو-پیامبر اکرم کا ہدف آسودگی عامہ،توحیدی معاشرہ کی ترویج،اور مساوات اسلامی اور صفحہ ہستی کو شرک سے پاک کرنا اوردایرہ اسلام کو وسیع کرنا تھا۔(10)
اس موضوع کو جنگوں میں پیامبر کی سیرت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مشورت اور شوری
معاشرہ میں مشورہ کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے خصوصا رہبر کے انتخاب کے لیے مشورہ،کہ خداوندمتعال نے اپنے حبیب کو مشورہ کا حکم دیا اور فرمایا
(..فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى الأَمْرِفَإِذَاعَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِينَ )(11)
پس ان کو بخش دواور ان کےلیےبخشش طلب کرواورکاموں میں ان سے مشورہ کرو مگر جب فیصلہ کرو تو اس پر قائم رہو اور خدا پر توکل کرو کیونکہ خدا توکل کرنے والے سےمحبت کرتا ہے ۔خداوند ایک اور آیت میں مشورہ کرنے کو نیک لوگوں کی صفات میں شمار کرتا ہے۔۔.
(.. ۔... و امرهم شورى بينهم)۔[12]
البتہ پیامبر احکام الہی میں ہرگز مشورہ نہیں کرتے تھےبلکہ ان میں صرف وحی کے تابع تھے۔اسی لیے دستورات اور احکام الہی کے اجراء کے طریقوں کے لیے مشورہ کرتے تھے۔یہ کہاجاسکتا ہے کہ آپ (ص) قوانین سازی میں کبھی بھی مشورہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف قانون جاری کرنے میں کے طریقے پر مسلمانوں سے رائے لیتے تھے۔
لذا جب بھی پیامبراکرم کوئی تجویزدیتےتومسلمان سب سےپہلےیہی پوچھتے،کیایہ حکم الہی ہے؟اورایک قانون ہےجس میں اظہار خیال نہیں کیاجاسکتایا کسی قانون کےاجراءکےبارےمیں ہے؟۔
البتہ خداوند متعال نے مشورت حتمی فیصلہ کا حق رسول خدا کو دیا ہے۔چنانچہ فرمایا:
(فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَى اللّهِ ..). (13)
جب فیصلہ کرو تو اس پر قائم رہواورخدا پر توکل کرو۔پیامبر اعظم بھی اس آیت کےحکم کے مطابق
(وَشَاوِرْهُمْ فِى الأَمْرِ )(14)
لوگوں سے ضروری کاموں میں مشورہ کیا کرتے تھےاور شوری کی تشکیل سے ان کو اظہار رائے کا موقع دیتے ،جہاں خدا کا حتمی فیصلہ کا حکم نہ ہوتا۔دوسروں کی رائے کو سنتے اور بہترین رائے کے انتخاب کے بعد خدا پر توکل کرتے ہوئے عزم اور ارادہ کے ساتھ اس کام کو انجام دینے کے لیے اقدام کرتے۔لوگوں کی رائے کو کشادہ روئی سے سنتے تھے۔(15)
جن میں سے چند موارد درج ذیل ہیں۔
(الف)جنگ بدر میں مشورہ
آنحضرت(ص)نےجنگ بدرمیں تین مراحل میں اپنے اصحاب کومشورہ کے لیے بلایا:
1۔پہلا یہ کہ قریش کے ساتھ جنگ کریں یا نہیں؟سب سے پہلے ابوبکر نے کہا:کہ قریش کے بڑے اور شجاع اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے آئے ہیں اور ہم بھی مدینہ سے تیاری کے ساتھ نہیں نکلے ۔پیامبر(ص)نے فرمایا بیٹھ جائو ۔پھر عمر کھڑا ہوااورتقریبا یہی الفاظ دہرائے تو پیامبر اعظم نے حکم دیا بیٹھ جائو۔(16)
پھرمقداد کھڑے ہوئے اور کہا:اے پیامبر خدا(ص)،ہمارے دل آپ کے ساتھ ہیں آپ(ص)کو خدا نے جو حکم دیا ہے آپ اسی کو انجام دیں ہم آپ کی رکاب میں جنگ لڑیں گے۔پیامبر نے ان کے حق میں دعا کی۔(17)
آخر میں سعد بن معاذانصاری نے کہا:اے پیامبر(ص)ہم آپ پر ایمان لائے ہیں آپ(ص)جو بھی فیصلہ کریں ہم آپ کی پیروی کریں گےاورہم دشمن کے آمنے سامنے ہونے سے نہیں ڈرتے،ہمیں خداکے حکم کے مطابق جہاں چاہیں بھیجیں۔پیامبر نے فوراروانگی کا حکم دیااورفرمایا:روانہ ہوں اور آپ کو بشارت ہوکہ۔۔۔۔۔۔(18)
2لشکرکےپڑائوکی جگہ کےبارےمیں مشورہ کیااورآخرکار اصحاب کےمشورہ سےپیامبراعظم نےبدرکےکنووں کےپاس پڑائوکاحکم دیا۔
3جنگ بدرکے قیدیوں کے ساتھ برتائو کے معاملے میں لوگوں سے ان کی رائے پوچھی۔بعض نےقیدیوں کوقتل کرنے کوترجیح دی اور اکثریت نے فدیہ کا مطالبہ کیااور اسی رائے کواکثریت میں ہونے کی وجہ سےقبول کیا۔(19)
[ب]جنگ احدمیں مشورت
جنگ احد میں پیامبر اکرم نے جنگ کے انداز کے بارے میں مشورہ کیاکہ کیا شہر میں رہیں اور لوگوں کا دفاع کریں یا مدینہ سے باہر جائیں اور دشمن سے جنگ کریں ۔اور آخرکار آپ نے شہر سے نکلنے کو قلعہ میں رہنے اور مدینہ میں تن با تن جنگ کرنے پر ترجیح دی۔اور جنگی انداز فائنل کرنے کے بعد گھر تشریف لے گئےاور اپنی زرہ پہنی۔(20)
جنگ خندق میں مشورت
جب پیامبر(ص)مسلمانوں کے جاسوسی نظام کی بدولت احزاب میں اسلام مخالف حرکتوں با خبر ہوئے تو فورا آپ نے ایک دفاعی کمیٹی تشکیل دی اور جنگ کی روش کے بارے میں مشورہ کیا تو سلمان فارسی کی رائےسے خندق کھودنے کو اتفاق رائے سے قبول کیا۔(21) اور پیامبر نے بھی دوسروں کی مانند خندق کھودنے میں حصہ لیا ۔(22)
جنگ خیبرمیں مشورہ
جب پیامبر نے قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے معاملے میں مشورہ کیا اورخیبر کی زمینوں کا جائزہ لینے کے بعد اسلام کے بہادروں میں سے ایک کہ جن کا نام (حباب بن منذر) تھا کی رائے سے اتفاق کیا اور جنگی دستوں کوباغوں کے پیچھے منتقل کیا اور خیبر کی تسخیر کے دوران ہر روز فوجی افسران اور پیامبر خدا قلعوں کی طرف آتے اور فوجوں کے درمیان گشت کرتے۔اور اسلامی سپاہ کے مشورہ سے ایک کے بعد ایک قلعہ فتح کیا ۔(23)
جنگ تبوک میں مشورت
جب رومی سپاہیوں کے احتمالی حملہ کو روکنے کے لیےاسلامی لشکر تبوک کی سرزمین پر پہنچا تو وہاں رومی سپاہ کا نام ونشان نہیں تھا پیامبر اعظم نے اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ دشمن کی سرزمین میں پیش قدمی کی جائے یا مدینہ واپس لوٹ جائیں۔اس مشورہ کا نتیجہ یہ تھا کہ لشکر اسلام جس نے تبوک کی راہ میں مشکلات کا سامنا کیاتازہ دم ہونے کے لیے مدینہ لوٹ جائیں۔اس کے علاوہ مسلمان اپنے ہدف(سپاہ روم کو بکھیرنے) میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔اور رومیوں کے دلوں میں خوف وہراس بھی پیدا کردیا۔تو آپ(ص) نے فرمایا:میں شوری کی رائے کو محترم جانتاہوں اور یہیں سے مدینے واپس لوٹتے ہیں۔(24)
جنگوں میں نظم وضبط
پیامبراعظم نےتمام جنگوں میں بطورسپہ سالارنظم وضبط کاخیال رکھاجیسےفوری اورصحیح فیصلےکرنا،شجاعت اورجسمانی طاقت،دوراندیشی، قوت اور طاقت کی پہچان،باہمی اعتماد اور دوستی،نئی حربوں سے فائدہ اٹھانا،جنگی اصولوں سے آشنائی اور پہچان،جیسے اہداف کو معین کرنا،غافلگیری کے اصولوں سے بہرہ مند ہونا،رازداری کے اصول پر پابند ہونا،طاقت اور توانائی پر تمرکز کرنا،اور ضروری موقع پر حملہ کے اصول سے بہرہ مند ہونا،
ان سب باتوں کامیدان جنگ میں خیال رکھتےاوربہت سی جنگوں اورجنگی ماموریت میں اصل اہداف کومخفی رکھتے،یہاں تک کہ بعض موقعوں پرکسی کو ایک گروہ کی کمان دیتے اور ایک مہرشدہ خط بھی دیتے اور فرماتے مثلا دوروز بعد فلاں جگہ پہنچ کر خط کھول کر اس حکم پر عمل کرنا۔(25)
عمومی آمادگی
پیامبرگرامی اسلام جب بھی دشمن سے جنگ کے لیے آمادہ ہوتے تو تمام مسلمانوں کو جانی اور مالی امداد کی دعوت دیتے اور جنگ و جہاد کی ترغیب اوروادارکرتے۔اسی طرح مسلمانوں کو حکم دیتے تاکہ سپاہیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں اور وہ لوگ جو جنگ میں شریک ہونے سے عاجز ہوتے وہ مالی مدد کرتے تاکہ سپاہیوں کی جنگی ضروریات پوری ہو سکیں۔(26)
آنحضرت(ص)جنگ پر جانے سے پہلے لوگوں کو آمادہ کرتے اور جنگ کی اہمیت کو بیان فرماتے۔چونکہ آیت شریفہ عمومی آمادگی کی بہت ترغیب کرتی ہے۔(انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ فِى سَبِيلِ اللّهِ ذَلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )۔(27)
خداوند نے اس آیت میں معاشرہ کے ہرفرد [جوجانی یا مالی قدرت رکھتا ہو]چاہے فقیرہو یا غنی،جوان ہویا بوڑھا،سواری رکھتا ہو یا نہ ،کوجہاد میں شریک ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔(28)
اس وقت ابن مکتوم(جوکہ نابیناتھا)پیامبر(ص)کی خدمت میں حاضرہوا اورکہا:یارسول اللہ!مجھ پربھی شرکت کرنا ضروری ہے؟فرمایا: ہاں
توآیہ شریفہ،
(ليس على الاعمى حرج) (29)
نازل ہوئی۔البتہ خداوند متعال نےلوگوں پرضروری قرار دیا ہےکہ جب بھی پیامبر ان کو آمادہ کریں توپیامبر(ص)کے فرمان پر عمل کریں اورہرگز رسول خدا کےفرمان سےسرپیچی نہ کریں چنانچہ فرمایا:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ إِذَا قِيلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِى سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِى الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ` إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللّهُ عَلَى کُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ۔(30)
اورخداوندمتعال نے یہ بھی فرمایا:کہ ہمیشہ پوری آمادگی میں رہیں چنانچہ فرمایا:
(و اعدّوا لهم ما استطعتم من قوه..). (31)
پیامبر(ص)اوراسلام کےبزرگ پیشوائوں کی عملی سیرت سے پتہ چلتا ہےکہ دشمن سے مقابلہ کرنے میں کسی بھی لمحے غافل نہیں رہتے تھے۔اسلحہ اورنفری،سپاہیوں کی حوصلہ افزائی،دشمن پرحملہ کرنےکےلیےمناسب جگہ کاانتخاب،اورہرقسم کےجنگی حربوں کااستعمال،اورہرچھوٹی اوربڑی خبرسےباخبررہتے تھے۔
جنگ حنین میں پیامبر(ص) کو خبر دی گئی کہ یمن میں جدید اسلحہ ایجاد ہوا ہےتو پیامبر اسلام نے فورا بعض لوگوں کو یمن روانہ کیا تاکہ وہ اسلامی فوج کے لیےاسلحہ مہیا کریں۔(32)
خداوند متعال نے پیامبر کو بھی فرمایا:کہ مومنین کو دشمنوں سے جنگ کے لیے ترغیب دلائیں۔
(يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال)۔(33)
جنگ سے فرار کرنے والوں سے آپ (ص) کا رویہ:
اسلام میں جنگ سے فرار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور خداوند عالم نے فراریوں کےلیے عذاب کا وعدہ کیا ہے.
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ کَفَرُواْ زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوهُمُ الأَدْبَارَ` وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ) (34)
چونکہ جنگ سے فرار دین میں سست روی کا باعث بنتا ہے اور پیامبران اور امامان عادل کی توہین شمار ہونے اور دشمنان دین کے خلاف ان کی مدد نہ کرنےکاسبب بنتا ہے ۔(35)
مگر بعض افراد مثل عثمان بن عفان اور ۔نے جنگ احد میں رسول خدا [ص] کے فرمان سے سر پیچی کی اور فرار ہوئے تو پیامبر اعظم [ص] نے اسکو آواز دی اور ثابت قدمی کیلیے فرمایا ' میری طرف لوٹ آو میں اللہ کا رسول ہوں اور جو پلٹ آئے گا اس کے لیے بہشت ہے ۔(36)
جبکہ آپ [ص] نے جنگ میں ثابت قدمی کی اہمیت میں فرمایا : تین ایسے عمل ہیں جنکے انجام دینے سے انسان کو کسی نیکی کا فائدہ نہیں ہوتا ، خدا کے ساتھ شرک ، والدین سے عاق ہونا اور جنگ سے فرار ہونا۔(37)
اس وقت آپ [ص] سپاہیوں کا جذبہ بڑھاتے تھے تاکہ دشمنان اسلام سے جنگ کر کے خدا کا نام سر بلند کریں
دشمن سے معلومات حاصل کرنا
جب پیامبر [ص]مدینہ میں سکونت پذیر تھے ہمیشہ اپنے صحابہ کو آس پاس بھیجتے تاکہ آپ [ص] کو مدینہ سے باہر کے حالات آگاہ کریں ، پھر دشمن کے حالات آگاہ ہونے کے بعد دشمن کو بھگانے کیلیے پلاننگ کرتے اور رسول اللہ کی سیاسی بصیرت میں سے کچھ مھم ترین روش یہ تھیں کہ جن کی طرف اشارہ کریں گے
(1) ۔ پیامبر اکرم [ص] کے چچا عباس نے ہجرت نہیں کی بلکہ مکہ رہے اور ہمیشہ مکہ کے حالات کے بارے میں پیامبر [ص] کو با خبر کرتے تھے اس لیے آپ قریش کے کاروان کو روکنے میں کامیاب ہوئے ۔(38)
(2)۔ پیامبر اکرم [ص] نے دو لوگوں بنام "سبس بن جھنی" اور "عدی بن ابی الرغباء" کو ابو سفیان اور کاروان قریش کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے کے لیے بدر کی طرف روانہ کیا۔ وہ ااپنی ذمہ داری پر یہ خبر لائے کہ پرسوں کاروان قریش یہاں [بدر] پہنچ جائیں گے۔(39)
(3) جنگ احزاب سے پہلے جاسوسوں نے پیامبر (س) کو خبر دی اسلام کے خلاف لڑنے کے لیےدشمن متحدہ فوج تشکیل ہو چکی ہےاورفلاں دن مدینہ کا محاصرہ کرنا چاہتے ہیں۔پیامبراسلام نے فورامشورہ کیاپھرمسلمانوں کوشہر کے اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا۔(40)
(4)آنحضرت(ص) نےحذیفہ بن یمانہ کو ذمہ داری سونپی کہ وہ رات کے وقت جنگ میں قریش کے درمیان جا کر انکی وضیعت اور ارادہ کے بارے میں رسول خدا کو بتاَئے ور حذیفہ نے اپنی ذمہ داری کو انجام دیا۔
(5) فتح مکہ میں مدینہ کے مسلمانوں میں سے ایک نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا اور اس کو اطلاع دی کہ شاید محمد(ص) مکہ کو فتح کرنے کے لئے جنگی سازوسامان اکٹھا کیا اور شہر پرحملہ کرنا چاہتے ہیں۔پیامبر(ص) اس واقعہ سے مطلع ہوئے اور حضرت علی(ع) کو بھیجا تاکہ اس عورت کو گرفتار کرےجو مدینہ سے چھپ کر نکلی ہے اور اونٹ پر سوارہے۔حضرت علی(ع) تیزی سے اس عورت تک پہونچےاور اس سے خط طلب کیاتو عورت نے انکار کیا جب اس کو وارننگ دی گئی کہ اگر اس نے خط نہ دیا تو اس کے لباس کو اس کے تن سے جدا کر دیا جائے گا-اس وقت اس نے اپنے بالوں سے خط نکال کر حضرت علی(ع) کو دے دیا جو حضرت علی(ع) نےپیامبر اکرم(ص) کی خدمت میں پیش کیا۔(41)
دشمن کےکیمپ میں اختلاف ایجادکرنا۔
جنگ احزاب میں کہ جس میں مدینہ تقریبا ایک ماہ سے دشمن کے محاصرہ میں تھا ایک دن نعیم بن مسعود جو کہ نو مسلم تھا پیامبر(ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کی:یارسول اللہ میں تازہ مسلمان ہوا ہوں اور آپ کے حکم کی بجا آوری کے لئے حاضر ہوں آنحضرت (ص) نے فرمایا:تم ہمارے درمیان ایک شخص سے زیادہ نہیں ہو لیکن اگر دشمنوں کے درمیان اختلاف ایجاد کر سکتے ہوتو کرو کیونکہ جنگوں میں دھوکہ دیا جاتا ہے۔(42)
نعیم فورابنی قریظہ کےپاس گیااورکہااگرمجھےاپناخِیرخواہ سمجھتےہوتوجان لوکہ قریش اورغطفان تم جیسےنہیں ہیں یہاں تمہارا شہراورسرزمین ہےاورتم نےہمیشہ یہیں رہناہےلیکن قریش اورغطفان دوردرازسےآئےہیں اگرکامیاب ہوگئےتومالِ غنیمت لےکےچلےجائیں گےاوراگر صورت حال الٹ جائےاورشکست کھاجائیں تواپنےشہروں کولوٹ جائیں گےمگرتم ہمیشہ محمد(ص)کے سامنے ہو اور ان کے ماتحت زندگی گذارو گےاور ان کا مقابلہ نہیں کر سکو گے اس لیے ایک تجویز ہےکہ تم ان کو کہو اطمینان کے لئے چند بزرگان ِقریش اورغطفان کو ہمارے پاس چھوڑجائو ورنہ تم محمد(ص) سے جنگ نہ کرو-بنی قریضہ نے نعیم بن مسعود کی باتوں کو دل وجان سے سنا اور قبول کیا پھردوسری طرف قریش کےپاس گیااور ابوسفیان اور دوسرے سرداروں کو کہا جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے چاہنے والا ہوں میں نے ایک خبر سنی ہے جس سے آپ کو باخبر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہودی محمد(ص) سےعہدشکنی پر پشیمان ہیں اورہر صورت اس کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ آپ میں سے بعض بزرگوں کواپنے اس تاوان کے طورپررکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو محمد (ص)کی تحویل میں دے کرانہیں اپنی صداقت دکھا کرراضی کرناچاہتے ہیں اوران سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جنگ کے اختتام تک مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ اس لیے تم اپنے بزرگان کو انکی تحویل میں دینے کو ہرگزقبول نہ کریں۔پھر نعیم قبیلہ غطفان کے پاس گیااور انہی باتوں کا تکرار کیااور ان کو بھی بزرگوں کوتحویل دینے سے خبردار کیا۔
نعیم بن مسعود کی خبر سے احزاب کےسپاہیوں میں بےچینی پھیل گئی بالاخر بزرگان قریش اور غطفان نے اپنے نمایندوں کو معین کیا تاکہ بنی قریظہ سے مزاکرات کریں تاکہ کل کے حملے کا آغاز کریں۔
بنی قریظہ نے ان کے جواب میں کہا کہ آج ہفتہ کا دن ہیں ہم ہفتے کو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے اس کے علاوہ آپ جب تک اپنے کچھ بزرگان کو ہماری تحویل نہیں دیں گے ہم جنگ کے لیے کوئی اقدام نہیں کریں گے کیونکہ ممکن ہے جنگ طولانی ہوجائے اورتم اپنے گھروں کو پلٹ جائو اور ہمیں محمد(ص) کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دو اس وقت ہمارے پاس ان سے مقابلے کے لیے سپاہی نہیں ہو گی –ان باتوں کی وجہ سے ان کے درمیان عجیب دل شکستگی پیدا ہوئی ،اور یہ بات پھیل گئی جو ان کے متفرق ہونے کا سبب بنی۔(43)
دشمن کے دل میں وحشت پیدا کرنا
دشمن کے دل میں وحشت اور رعب پیدا کرنا جنگ کی بہترین حکمت عملی ہے-دشمن کو شکست دینے کا یہ ایک بہترین راہ ہے۔ پیامبراعظم(ص) دشمن کے مقابلے میں اس اہم حکمت عملی سے استفادہ کرتے تھے کیونکہ فتح مکہ دشمن کے دل میں وحشت پیدا کرنے کا نتیجہ ہے پیامبر(ص) نے مکہ فتح کرنے اور بت پرستی کے محکم گڑھ کو توڑنےاور قریش کی ظالم حکومت(جو کہ دین اسلام پھیلنے کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی) کو ختم کرنے کے لیے عمومی حرکت کا اعلان کیااور دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ
(مرّالظهران)
کے مقام پر(مکہ سے چند کیلومیٹر) پہونچے اور اہل مکہ کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لیے اسلامی فوجوں کو اونچی جگہ پر آگ جلانے کاحکم دیا توسب نے آگ جلائی تاکہ آگ کے شعلوں سے تمام اونچی جگہیں اور پہاڑ روشن ہو جائیں ۔جب اچانک اہل مکہ متوجہ ہوئے کہ ہم محاصرہ میں آ گئے ہیں اور آگ نے بھی تمام شہر مکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
توبعض بزرگان قریش مثلا ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام تحقیق کرنے کے لیے مکہ سے باہر گئے اس وقت پیامبر (ص) کے چچا حضرت عباس مکہ سے مدینہ ہجرت کر چکے تھے وہاں پہنچے اور بزرگان قریش کو بتایا کہ یہ آگ کے شعلہ محمد(ص) کے سپاہیوں کے متعلق ہیں اور محمدص) ایک عظیم طاقت کے ساتھ آئے ہیں اور قریش ان سے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ابو سفیان نے ڈر کے راہ حل پوچھی تو حضرت عباس نے کہا:آئو پیامبر کے ساتھ تمہاری ملاقات کرواتا ہوں تاکہ ان سے پناہ طلب کرو ورنہ قریش کی جانیں خطرہ میں ہوں گی ابوسفیان پیامبر(ص) کی خدمت میں پہونچا اور ان سے ملنے کے بعد خدا کی وحدنیت اور آپ (ص) کی رسالت کا اقرار کیا اس کے باوجود پیغمبر اعظم (ص) نے ابوسفیان کی آزادی کا حکم نہ دیا بلکہ حضرت عباس کو حکم دیا: کہ اس کو تنگ وادی میں روکے رکھیں کہ اسلام کی تازہ تشکیل شدہ فوج جنگی آلات کے ساتھ اس کےسامنے سے گذرے تاکہ اسلام کی طاقت روز روشن کی طرح اس پر عیاں ہو جائے۔اور وہ مکہ جا کراہل مکہ کو اسلام کی طاقت سے ڈرائے تاکہ وہ مقابلے سے باز رہیں۔ (44)
فوجی دستوں کے گذرنے کے بعد ابوسفیان پیامبر اسلام کے حکم سے آزادہوا۔وہ تیزی سے مکہ پہنچا اور لوگوں کوبتایا کہ یہ محمد(ص) ہے جو اپنی فوج کے ساتھ آیا ہے جس کا مقابلہ کسی کے بس میں نہیں۔اسی ڈر اوروحشت کی وجہ سے مکہ بغیر کسی خونریزی کےپیامبر اور مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔ااگرچہ پیامبر (ص) نے مکہ میں قریش کے ہاتھوں بہت سی اذیتیں برداشت کیں تھیں۔اسی وجہ سے بعض کا خیال تھا کہ محمد(ص) انتقام لیں گے لیکن پیغمبر(ص) نے فرمایا:
اذهبوا فانتم الطلقاء ۔ (45)
دوران جنگ
جن جنگوں میں بھی پیامبر(ص)نےشرکت کی ان میں فوج کے سپاہ سالار خود ہی ہوا کرتے ،ضروری احکامات صادر فرماتے اور ہر دستے کو ان کے مناسب ماموریت سونپتے ۔تمام غزوات میں تعاون کے اصول کو برقرار رکھتے،اورمناسب وقت میں صفوں کے باہمی امداد کے ذریعے اپنی فوج کی فتح کے راہ کو ہموار کرتے۔
جنگ بدرمیں آنحضرت کی شرکت کے بارے میں ہے کہ حضرت نے سپہ سالار کی حیثیت سے حکم دیا کہ حملہ نہ کریں اور تیراندازی کے ذریعے دشمن کوروکے رکھیں ۔(36)
آنحضرت(ص)خود بھی شجاعانہ جنگ کرتے جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا: جب بھی آتش جنگ شعلہ ور ہوتی ہم پیامبر(ص) کی پناہ میں جاتے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی پیامبر کی طرح دشمن کے نزدیک نہ ہوتا۔(47)
آنحضرت(ص)جنگ سےپہلےاپنےلشکر کومنظم کرتےاور تبلیغ کےذریعےاسلامی سپاہیوں کےحوصلےبلند کرتے، انکوجنگی فنون اور حکمت عملی سکھاتے،چونکہ جنگ احدمیں ایک اہم قلعےکوخالی نہ چھوڑنےکی ہدایت فرمائی تاکہ دشمن پیچھےسےحملہ نہ کر سکیں لیکن مسلمانوں کا پیامبر(ص) کے حکم سے روگردانی کرنا اور قلعہ خالی چھوڑنا جنگ احدمیں مسلمانوں کی شکست کا سبب بنا۔
علمدار کا تقرر
پرچم اور نعرہ ان چیزوں میں سے ہے جن کا جنگ میں ہونا ضروری ہے اور اس سے سپاہیوں کے مرکز کا پےہ چلتا ہے۔اور یہ بہت پرانا طریقہ کار ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:روم کے خلاف جنگ کے لیے سب سے پہلے جس نےپرچم اٹھایا وہ حضرت ابراہیم خلیل تھے –اور اس پرچم پر
(لااله الاالله ) (48)
لکھاتھا۔اس سنت کے مطابق جنگوں میں پیامبر اعظم (ص) کی طرف سے ایک شخص کو پرچم دیا جاتا-جیسا کہ پیامبر کی سب سے پہلی جنگ (ودان یا ابواء)میں علم حضرت علی (ع) کے دست مبارک میں علم تھا اسلام میں سب سے پہلے سفید رنگ کا علم بنایا گیا کہ جس کو حضرت حمزہ سید الشہداء اٹھاتے تھے ۔(49)
اور جنگ خیبر کے پہلے دن علم ابوبکر کے ہاتھ میں دوسرے دن عمر کے پاس تھا لیکن جب دونوں ناکام لوٹے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: کل علم اُس کو دوں گا جو خدا،پیامبر کو چاہنے والا ہے اور خدا اور پیامبر بھی اُس کو چاہتے ہیں خداوند اس کے ہاتھوں قلعہ فتح کرے گا وہ ہرگز دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاتا اور جنگ سے فرار نہیں کرتا۔(50)
اگلےدن حضرت علی(ع)کوبلاکرفرمایا:یہ علم لےکےجائو تاکہ خداوندتمہارےلیے قلعہ کھول۔
جنگی قیدی
خداوندمتعال فرماتا ہے:
(فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِکَ وَلَوْ يَشَاء اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَکِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ) ۔(51)
اور دوسری جگہ پر فرمایا:
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِى أَيْدِيکُم مِّنَ الأَسْرَى إِن يَعْلَمِ اللّهُ فِى قُلُوبِکُمْ خَيْرًا يُؤْتِکُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )۔(52)
ان مذکورہ آیات سے رہبرمسلمین ان میں سے کوئی ایک کام کرے –یا ان پر رحم کرکے ان کو آزاد کر دے یا ان سے فدیہ لے کر انہیں آزاد کردے لیڈر کے حکم سے قیدیوں کو قتل کر دیں ۔چونکہ پیامبر(ص) کی سیرت میں ان موارد کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جنگ بدر کے بعض اسیروں کو فدیہ کے بغیر آزاد کیا گیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا جیسے ابوالعاص۔اور بعض جیسے عباس بن نوفل۔۔۔۔۔سے فدیہ لے کران کو آزاد کیا گیااور جن کے پاس فدیہ کی رقم نہیں تھی انہیں مسلمانوں کوپڑھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔اوردو لوگوں عقبہ بن ابی معیط ،نضر بن حارث کو پیامبر (ص) کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔(53)
کلی طور پر پیامبر اکرم کا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا سب کے لیے عجیب تھا کیونکہ اِنہی لوگوں نےپیامبر اکرم کو بہت اذیتیں دیں تھیں مگر پیامبر جو کہ رحمت الہی سے سراب تھے بڑی رحمدلی سے پیش آئے اور مسلمانوں کو بھی رحمدلی سے پیش آنے کی نصیحت کی۔
جنگوں کے اخراجات
جنگ کی تیاری سے مراد اسلام کا دفاع ہے،اسلامی حکومت کی پشت پناہی کرنا اور اسلام کے نفاذ میں وسعت پیدا کرنا ایک اہم امر ہے۔لیکن مسلمانوں کی مالی وضعیت ایسی تھی کہ سب کے پاس جنگی سازوسامان مہیا کرنے کی رقم نہ تھی مگرصرف دولت مند جنگی اخراجات برداشت کر سکتے تھے تو اس وقت آیہ زکواۃ اور خدا کے راہ میں انفاق کرنے کی آیات نازل ہوئیں ۔
(وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ[54]
إِنَّ اللّهَ يَجْزِى الْمُتَصَدِّقِين [55]
وَأَنفِقُواْ فِى سَبِيلِ اللّهِ[56]
اس کے علاوہ بھی بہت ساری آیات خدا کی راہ میں انفاق کی تاکید کرتی ہیںاس سے قرآن کی مراد،فقراء پر انفاق،خصوصا جنگ کے اخراجات برداشت کرنا۔(57)
قرآن کریم کی رہنمائی کے باعث بہت سی عورتوں نے اپنے زیورات ،جنگی اخراجات کے لیے پیامبر(ص) کی خدمت میں پیش کیے۔ایک شخص(علبہ بن زیدحارثی)ایک صاع(تقریبا تین کلو)خرما لایا اور کہا: اے رسول خدا (ص) میں نخلستان میں کام کرتا ہوں مجھے دوصاع اجرت ملی ہے ایک صاع اپنے گھر والوں کےلیے رکھا ہے اور ایک کلو جنگی اخراجات کے لیے لایا ہوں۔(58)
اسلامی فوج کا کفار سے جنگ کرنے کے لیے دوسرے اخراجات مدینہ کے یہودیوں سے ملنے والی غنیمت سے پورے ہوتے کہ اس کا جنگی اخراجات کے لیے منبع اصلی شمار ہوتا تھا۔سپاہی اپنے حق سے استفادہ کے علاوہ،مقتول کے لباس اوراسلحہ سے اپنے آپ کو لیس کرتے۔اس کے علاوہ غزوات اور جنگوں میں جو مالِ غنیمت حاصل ہوتا اس کوسپاہیوں میں برابر تقسیم کیا جاتا۔سواروں کوپیادہ سے تین گنا زیادہ ملتا۔
پس پیامبر(ص) کے آخری زمانے میں اسلامی حکومت کی بیشتر درآمد،جزیہ،خمس،غنائم،زکواۃ،واجب صدقات،اور زمینوں پر خراج یا ٹیکس کی صورت میں حاصل ہوتی۔لیکن اسلامی حکومت کی درآمد اور جنگی اخراجات کا منبع مسلمانوں کے ہدیے اورانفاق تھا۔
خداوند ہمیں رسول اعظم (ص) کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مؤلف: اعجازحسین نگری
مترجم: سیدعامرعلیرضا
بر گرفتہ از سایت : موسسہ امام حسین علیہ السلام
[1]. ال عمران، 19.
[2]. احزاب، 40.
[3]. بقرہ، 2.
[4]. احزاب، 21.
[5]. نساء، 59. نساء، 80. حشر، 7.
[6]. انى تارک فيکم الثقلين کتاب الله و عترتى اهل بيتى ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدى حتى يردا على الحوض. القدير 10/278؛ المعجم الکبیر، 5، 154.
[7]. لسان العرب، 7/454.
[8]. سیری در سیرہی نبوی، ص 52.
[9]. حج، 40-39.
[10]. تاریخ و مقررات جنگ در اسلام، صص 129-126.
[11]. آل عمران، 159.
[12]. شوری، 38.
[13]. آل عمران، 159.
[14]. آل عمران،159.
[15]. سیرہ ی حکومت ی پیامبر-، ص 134.
[16]. المصنف 5/35؛ فروغ ابدیت 2/493.
[17]. المغازی، 1/48.
[18]. تفسیر الثعابی، 2/117؛، التبیان 5/82؛ جوامع الجامع 7/7، تفسیر ابن کثیر 2/301؛ الدور المنثور 3/169، سلام بر خورشید 2/172.
[19]. تفسیر ابن الثعلبی 2/238؛ ارواء الغلیل 5/47؛ الدورالمنثور 3/169.
[20]. تاریخ پیامبر اسلام، ایتی، ص 310؛ فروغ ابدیت، 2/37.
[21]۔تاریخ پیامبراسلام،ص310،فروغ ابدیت،2/37
[22]. تاریخ طبری، 2/92.
[23]. فروغ ابدیت2، ص 246-243.
[24]. فروغ ابدیت2، ص 400.
[25]. دکتر صادق آئینہ وند، تاریخ اسلام، ص 88.
[26]. المغازی، ج 2، صص 991-990.
[27]. توبہ، 41.
[28]. ترجمہ تفسیر مجمع البیان، 11/100.
[29]. تفسیر منہج الصادقین 4/262.
[30]. توبہ، 39-38.
[31]. انفال، 60.
[32]. تفسیر نمونہ، ج 7، ص 224.
[33]. انفال، 65.
[34]. انفال، 15 و 16.
[35]. بحارالانوار، 6/98؛ تفسیر نورالثقلین، 2/138.
[36]. النص والاجتہاد، ص 327؛ تفسیر مجمع البیان، ج2، ص 419؛ تفسیر آصفی، ج1، ص 177.
[37]. الہود المحدیہ، ص 724.
[38]. رسول اکرم در میدان جنگ، ص 178.
[39]. زندگانی پیامبر اسلام، ابن ہشام، ج2، ص 15.
[40]. زندگانی پیامبراسلام،ابن ہشام،ج2، ص 154؛ سلام بر خورشید، ج 3، ص 263.
[41]. سیرہ ی حلبی، ج 2، ص 327-326؛ ابن ہشام، زندگانی پیامبر اسلام، ج 2، ص 172-171.
[42]. سلام بر خورشید، ج 3، ص 26.
[43]. ابن ہشام، زندگانی پیامبر اسلام، ج2، ص 180-168؛ نظام دفاعی اسلام، ص107؛ با نخستین حکومت اسلامی در مدینہ، ص131.
[44]. المغازی، ج 2، ص 818.
[45]. بحار الانوار، 44/5؛ شرح الاخبار، 101؛ فتح القدیر، 2/60؛ السیرہ النبویہ، ابن کثیر، 3/570؛ الصحیح من السیرہ 7/132.
[46]. موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج 2، ص 123؛ ابن ہشام، سیرہ النبی، ج 2، 457؛ ابن کثیر، السیرہہ النبویہ، ج2، ص 410.
[47]. نہج البلاغہ، ترجمہ دشتی فصل غرائر الکلام، ش 9، ص 691.
[48]. درسہائی از نظام دفاعی اسلام، ص146.
[49]. تاریخ مقررا ت جنگ در اسلام، ص 308.
[50]. تاریخ طبری، ج 2، ص 126؛ ابن ہشام، زندگانی پیامبر اسلام، ج 2، ص 229؛ سلام بر خورشید، ج4، ص 94.
[51]. محمد، 4.
[52]. انفال، 70.
[53]. ابن ہشام، زندگانی پیامبر اسلام، ج 2، ص 42.
[54]. آل عمران، 92.
[55]. یوسف، 88.
[56]. بقرہ، 195.
[57] ـ دولت رسول خدا، ص 342.
[58]. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص 623.
فائل اٹیچمنٹ: