اربعین چالیس کو کہتے ہیں لہذا 20 صفر کو امام حسین(ع) کی شہادت کا چالیسواں دن ہونے کی وجہ سے اربعین حسینی کہا جاتا ہے۔ اس دن کے اہم واقعات میں جابر بن عبداللہ انصاری اور اسیران کربلا کا اسی دن امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچنا ہے۔
جابر بن عبداللہ انصاری کی کربلا میں حاضری پیغمبر اسلام(ص) کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو پہلا زائر امام حسین علیہ السلام ہونے کا اعزار حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ۔
جابر جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے انھوں نے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور آہستہ آہستہ امام کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوئے اور عطیہ بن عوفی کی رہنمائی میں اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا اور بے ہوش ہو گیا، ہوش میں آنے کے بعد تین بار یا حسین کہا اس کے بعد کہا"حَبیبٌ لا یجیبُ حَبیبَهُ. .." اس کے بعد امام اور دیگر شہداء کی زیارت کی۔
اہل بیت کی کربلا واپسی
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اسرائے کربلا اسی سال یعنی سنہ 61 ہجری کو ہی شام سے رہا ہو کر مدینہ جانے سے پہلے عراق گئے اور واقعہ کربلا کے 40 دن بعد یعنی 20 صفر کو کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے جب یہ قافلہ کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو وہاں پایا پھر امام حسین(ع) کی زیارت کے بعد وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب لہوف میں سید ابن طاووس نے اس نظرئے کی تصریح کی ہے۔
ان کے مقابلے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ شام اور عراق کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسیران کربلا عاشورا کے 40 دن بعد دوبارہ کربلا واپس آ گئے ہوں کیوں کہ کوفہ سے شام پھر وہاں سے دوبارہ کربلا لوٹ آنا اس مختصر مدت میں امکان پذیر نہیں ہے۔محدث نوری اور شیخ عباس قمی اسی نظرئے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی موجود نہیں ہے۔
علماء کا ایک گروہ اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسیران کربلا کا شام سے مدینہ واپسی کی تاریخ کو اسی سال صفر کے اواخر یا ربیع الاول کے اوائل بتاتے ہیں جبکہ بعض علماء اس واقعے کو اگلے سال صفر کی 20 تاریخ کو رونما ہونے کے قائل ہیں۔
قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ، آپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی۔
«و انا من حسین»یعنی پیغمبرؐ کا دین حسینؑ ابن علیؑ کے ہاتھوں زنده ہوا ہے۔ یہ سکے کا ایک رخ ہے جبکہ سکے کا دوسرا رخ عاشوره کا عظیم، شجاعت سے بھرپور اور عاشقانہ واقعہ ہے، اور حقیقتاً کربلا کے واقعات کو عشق کی منطق اور عاشقانہ نگاه کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
لازم ہے کہ عاشقانہ نگاه سے دیکھا جائے تا کہ سمجھا جا سکے کہ حسینؑ ابن علیؑ نے تقریباً ایک رات اور آدھے دن میں یا تقریباً ایک دن اور رات میں یعنی 9 محرم کی شام سے عاشورا کی شام تک کیا کیا اور کس عظمت کو وجود میں لائے ہیں! اسی لیے دنیا میں باقی ره گئے اور ہمیشہ باقی رہیں گے۔
بعض لوگوں نے بہت کوشش کی کہ عاشوره کے واقعے کو بھلا دیں لیکن کامیاب نہ ہوئے۔
جہالت اور گمراہی سے نجات
امام حسینؑ کی زیارت اربعین میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ «وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيک لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَک مِنَ الْجَهَالَةِ وَحَيْرَةِ الضَّلَالَة» سیدالشہداءؑ نے اپنا خون (حتی) اپنے خون کا آخری قطره بھی جو آپؑ کے قلب مبارک سے جاری ہوا جس کو قربان کر دیا تا کہ الله کے بندوں کو جہالت اور گمراہی میں بھٹکنے سے نجات دیں۔
یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس عظیم امامؑ کے شیعہ ہوں لیکن لوگوں کی گمراہی اور جہالت کے مقابلے میں بے توجہی کا مظاہره کریں؟
لہذا فتنوں کو ختم کرنا اور فتنوں کا شکار لوگوں کو نجات دینا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔
فائل اٹیچمنٹ: