امام حسین علیہ السلام پر فرشتوں کا گریہ
تحریر: محمد عباس بہشتی کچوروی
آپ کا اسم مبارک حسین، کنیت ابا عبداللہ اور القاب سید شہدا ، سبط اصغر ہیں۔ والد بزرگوار امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور مادر خاتون جنت جناب فاطمہ زھرا علیہا السلام ہیں۔
تین شعبان 4هجری کوحضرت علی و فاطمہ زهرا علیہما سلام کے دوسرے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام نےوحی وامامت کے گھر میں آنکھ کھولی۔جب ولادت کی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچے تو آپ )ص( حضرت علی علیہ السلام کے گھر تشریف لائے اور اسما سے فرمایا:فرزند کو میرے پاس لے آو- اسما نے بچے کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائی- آنحضرت)ص( نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کهی- ولا دت کے ساتویں دن وحی الہی کے امانتدار جبریل امین تشریف لائے اور کہا: اے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کا دورود وسلام هو آپ پر اس مولود کا نام هارون کے چھوٹے فر زند شبر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہتے هیں کیونکہ علی علیہ السلام کو آپ سے وهی نسبت حاصل هے جو هارون ع کو موسی بن عمران سے حاصل تھیں صرف یہ کہ آپ آخری پیغمبر هیں"۔ولادت کے ساتویں دن حضرت فا طمہ زهرا علیہاالسلام نے ایک گوسفند ذبح کر کے اپنے فرزند کا عقیقہ کیا ان کے سر کے بال ترشواے اور بالوں کے هم وزن چاندی صدقہ دی-
امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت تک چھ سال اور چند ماه کی مدت میں لوگوں نے بار بار دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام حسین علیه السلام سے کس قدر محبت و احترام کرتے تھے،جس سے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ هو گیا- -جناب سلمان فارسی کا بیان هے کہ:میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسین ع کو اپنے زانو پر بٹھاے هوئے هیں اور یہ فرما رهے تھے:"تم کریم هو' کریم ابن کریم کے فرزند اور کریموں کے باپ هو- تم امام ابن امام اور اماموں کے باپ هو تم حجت خد ا، حجت خدا کے فرزند اور حجج الهی کے باپ ہو جن کا نواں فرزند قائم آل محمد امام زمانہ هوگا"-
انس بن مالک کی روایت هے کہ:جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ اپنے اهل بیت میں سب سے زیاده کس سے محبت کرتے هیں۔ آپ نے فرما یا حسن اور حسین سے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارها امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگا تے تھے اور ان کا بوسہ لیتے تھے-ابوهریره کا بیان هے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہاامام حسن وامام حسین کو اپنے شانوں پر بھٹائے هوئے هماری طرف تشریف لارهے تھے، جب همارے پاس پہنچے توآپ نے فرمایا:جو شخص میرے ان دونوں فرزندوں سے محبت کرے تو گویا اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور جو ان سے دشمنی کرے گویا اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق ترین اور واضح ترین معنوی وملکوتی رابطے کا اندازہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان سے کرسکتا ہے:"حسین مجھ سے هیں اور میں حسین سے هوں"۔
امام حسین علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد تیس سال تک اپنے والد بزرگوار کے ساتھ گزارے-وه عظیم ہستی جس نے همیشه عدل و انصاف سے کام لیا اور جس کی ساری زندگی خدا و رسول کی اطاعت کرتے گزری-آپ اپنے والد محترم اور برادر امام حسن علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں ہمیشہ ان کی اطاعت کرتے رهے- اسی طرح ایک فداکار سپاهی کی طرح جنگ جمل ، جنگ نهروان اور جنگ صفین میں شریک رهے- خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ آپ مسجد میں داخل هوے اس وقت خلیفہ دوم لوگوں سے مخاطب تھے -آپ فورا منبرکے پاس تشریف لے گئے اور فر مایا:"میرے باپ کی منبر سے اتر جائے"اس طرح امام حسین علیہ السلام نے لوگوں پر واضح کیا کہ خلافت کا اصل حقدار امام علی علیہ السلام ہے۔
بعداز شہادت امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ اسلام امامت کے منصف پر فائز ہوئے ۔ آپ کے دور میں یزید ابن معاویہ شام کے حکمران تھے اور یزید نے چاہا کہ آپ سے بیعت لیں چوں یزید فاسق و فاجر شخص تھا جس نے حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال قرار دیا تھا لہذا آپ نے یزید کے بیعت کے جواب میں فرمایا:"مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا"۔ جب یزید تک امام حسین علیہ اسلام کا جواب پہنچا تو اُس نے آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے 60 ھجری ذی الحجہ کے مہینے میں حج کے احرام کو عمرہ میں بدل کرکوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ لوگوں نے آپ کے سفر کا مقصد پوچھا تو آپ کا کہنا تھا: "میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہے اور نہ میرا مقصد فساد اور ظلم کرنا ہے میں صرف اس لیے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور یوں اپنے نانا اور اپنے والد کی سیرت کی پیروی کروں" یوں امام حسین علیہ السلام دو محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچے اور لشکر یزید سے مقابلے کے بعد دس محرم الحرام کو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ آپ کی شہادت پر کائنات کی ہر چیز نے گریہ کیا یہاں تک کہ احادیث میں آیا ہے کہ فرشتے قیامت تک آپ پر گریہ کرتے ہیں۔ عن ابی عبد اللہ علیہ سلام قال وکل اللہ تعالیٰ باالحسین علیہ السلام سبعین الف ملک یصلون علیہ کل یوم شعثا غبرا منذ یوم قتل الی ماشا اللہ یعنی بذالک قیام القائم علیہ السلام ۔امام صادق علیه السلام نے فرمایا :"خداوند متعال نے سترهزار فرشتوں کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے قبر مطهر پر مقرر کیا ہے جوہر روز گردوغبار کی حالت میں تا امام زمان علیہ السلام کے ظهور تک محمد و آل محمد پر درود پڑهتے ہیں"- ایک اور جگہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :"قبر مطہر امام حسین علیہ السلام پر چهار هزار فرشتےتا قیامت روتے رهیں گے اور ان فرشتوں کے سردار کا نام منصور ہے" عن آبی جعفر علیہ السلام قال:آربعة آلاف ملک شعث غبر یبکون الی یوم القیامۃ (الساعہ)امام باقر علیه السلام نے فرمایا:"چار هزار فرشته غبار آلود حالت میں قیامت تک امام حسین علیہ السلام پر گریہ وزاری کرتے رهیں گے"۔
حوالہ جات:
1۔اعلام الوری طبرسی ص213۔2۔اعیان الشیعہ ج 11ص163۔3۔امالی شیخ طوسی ج1ص377۔4۔تاج العروس ج3ص389۔5۔معانی أخبار 57۔6۔وسایل شیعہ ج15 ص 143۔7۔کافی ج6ص34۔8۔مقتل خوارزمی ج 1 ص146۔9۔کمل الدین صدوق 156۔10۔سنن تر مذی ج 5 ص 323 ۔11۔ذاخایر العقبی ص122۔12۔الاصبابہ ج1ص330۔13۔سنن ترمذی ج 5ص324۔14۔اصبابہ ج 1ص 333۔15۔تذکر الخواص ابن جوزی ص34۔16۔کامل ا لزیارات ص178الی 181۔
فائل اٹیچمنٹ: