بسم اللہ الرحمن الرحیم
31 اگست 2018 کو نماز جمعہ حجت الاسلام و المسلمین مولانا حسینی صاحب کی اقتداء میں آدا کی گئی۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ نے کہا کہ گزشتہ خطبوں میں، میں نے آپ لوگوں کے کیلئے ایک موضوع چھیڑا تھا کے جس میں ہم اسلام کی صفات کو بیان کررہے تھے اور ہم نے کہا تھا کہ اسلام میں کسی شخص کو معزز بننے کیلئے تین صفتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے 1: متقی 2: علم رحمانی 3: جہاد فی سبیل اللہ ۔
تقویٰ کے بارے میں عرض ہوچکا تھا لیکن پھر بھی میں اشاراتا حضرت امام علی علیہ السلام کا واقعہ نقل کرتا ہو کہ ایک شخص رات کے وقت (شہد میں ) گندھا ہو ا حلوہ ایک برتن میں ليے ہوئے ہمارے گھر پر آیا۔جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسو س ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یازکوٰة ہے یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے۔ تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے۔تو میں نے کہا پسر مردہ عورتیں تجھ پر روئیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے ليے آیا ہے۔کیا تو بہک گیا ہے ؟ یا پاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے۔خدا کی قسم ! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں۔صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کروں گا۔
یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذ ّتوں سے کیا واسطہ۔ ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔
اسلام میں معزز ہونے کی دوسری صفت علم ہے جس کے پاس علم اور اخلاص ہو وہی بڑا شخص اور معزز ہوتا ہے اسی ہفتے مدارس کھلنے والے ہیں تو اساتذہ کے لیئے عرض کروں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ( اجود الاجوودین) یعنی سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ تو اصحاب نے کہا کہ آپ فرمائیں ہمارے علم میں نہیں ہے تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے اجود الاجودین اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور پھر اسکی پیغمبر ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرے یا پھر وہ آدمی جو علم کو قربان کرتے ہوئے لوگوں تک علم پہنچائے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں خدایا علی کے دل کو علم و ہدایت پر ثابت قدم رکھ۔مولاء علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اس دعا کے بعد مجھے کبھی بھی زندگی میں کوئی ایسا کھٹن مرحلہ سامنے نہیں آیا کہ جس کا مجھے علم نہ ہو ۔
حتی خلفاء کے زمانے میں فیصلوں کے لیے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک آدمی نے اپنی بیوی پر شکایت کرتے ہوئے دوسرے خلیفہ کے زمانے میں خلیفہ کے پاس آیا اور کہا کہ میری شادی چھ مہینے پہلے ہو چکی ہے اور چھ مہینے کے بعد میری بیوی نے بچہ کو جنم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بیوی نے کہیں کوئی غلط کام کیا ہے تو خلیفہ مجبور ہو گیا او ر یہ فیصلہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیاگیا تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے پاس دو آیت ہے کہ جس کے ذریعہ میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ عورت بی قصور ہے تو مولانے فرمایا ایک وہ آیت کے جس میں کہا گیا ہے کہ عورت نے اپنے بچے کو دو سال دودھ پلانے ہیں (وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ کَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ) البقرہ 233۔
اور دوسری آیت میں کہتے ہیں کہ حمل اور دودھ پلانے کا کل عرصہ تیس مہینے کا ہے(وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ)الاحقاف آیت15۔
تو اگر ہم دو سال دودھ کے نکالے تو چھ مہینے بچتے ہیں لہذا چھ مہینے میں بچہ پیدا کرنا عین قرآن کے مطابق ہے اور یہ غلطی نہیں ہے یہ اسی کا ہی بچہ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے پول صراط کو پار کرنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ علی کے ہاتھ کا لیکھا ہوا پاس ہوں۔
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کے اگر ساتوں زمین اور ساتوں آسمان ایک پلے پر رکھا جائے اور علی کی ایمان کو دوسرے پلے میں رکھا جائے تو علی کے ایمان کا پلہ بھاری ہو گا ۔
خوارزمی نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے جوعلی کی فضائل کو آنکھوں سے پڑھے تو اس شخص کی آنکھوں کی گناہ بخش دیئے جائینگے اور اگر کان سے سونے تو کان کی گناہ بخش دیئے جائینگے۔
حضرت علی علیہ السلام کاعلم ہر میدان میں لا محدود ہے ۔اور اسی طرح عدل و انصاف کے مالک ہے۔ ایک عورت جو کہ قبیلہ ہمدان سے تھی معاویہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ کا گورنر اور ہم پر ظلم کرتا رہتا ہے تو معاویہ نے اس عورت کو دھمکی دی کہ خبردار جو میرے گورنر کے بارے میں کچھ بولے۔
تو تب اس عورت نے آہ بھری آواز میں بولی کہ علی کیساتھ حق بھی دفن ہو گیا تو معاویہ نے کہا کہ پھر بولو کیا بولا؟ اس عورت نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام کےجانے سے عدال و انصاف بھی دفن ہوا ۔معاویہ نے کہاں کیسے ؟
کہاں کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں آپ (ع) پاس گئی تھی اور میں نے اعتراض کیا تھا کہ آپ نے جس شخص کو زکوۃ جمع کرنے کے لئے ہمارے ہاں بھیجا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے تو مولا علی (ع) روئے تھے اور پھر کہا تھا کہ خدایا میں نے اس شخص کو ان پر ظلم کرنے کے لیئے تو نہیں بھیجا تھا ۔
اور پھر ایک خط لکھا اور اس خط میں اس آدمی کو زکوۃ جمع کرنے سے معزول کیا ۔
وسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ خطبوں میں، میں نے آپ لوگوں کے کیلئے ایک موضوع چھیڑا تھا کے جس میں ہم اسلام کی صفات کو بیان کررہے تھے اور ہم نے کہا تھا کہ اسلام میں کسی شخص کو معزز بننے کیلئے تین صفتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے 1: متقی 2: علم رحمانی 3: جہاد فی سبیل اللہ ۔
تقویٰ کے بارے میں عرض ہوچکا تھا لیکن پھر بھی میں اشاراتا حضرت امام علی علیہ السلام کا واقعہ نقل کرتا ہو کہ ایک شخص رات کے وقت (شہد میں ) گندھا ہو ا حلوہ ایک برتن میں ليے ہوئے ہمارے گھر پر آیا۔جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسو س ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یازکوٰة ہے یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے۔ تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے۔تو میں نے کہا پسر مردہ عورتیں تجھ پر روئیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے ليے آیا ہے۔کیا تو بہک گیا ہے ؟ یا پاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے۔خدا کی قسم ! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں۔صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کروں گا۔
یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذ ّتوں سے کیا واسطہ۔ ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔
اسلام میں معزز ہونے کی دوسری صفت علم ہے جس کے پاس علم اور اخلاص ہو وہی بڑا شخص اور معزز ہوتا ہے اسی ہفتے مدارس کھلنے والے ہیں تو اساتذہ کے لیئے عرض کروں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ( اجود الاجوودین) یعنی سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ تو اصحاب نے کہا کہ آپ فرمائیں ہمارے علم میں نہیں ہے تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے اجود الاجودین اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور پھر اسکی پیغمبر ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرے یا پھر وہ آدمی جو علم کو قربان کرتے ہوئے لوگوں تک علم پہنچائے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں خدایا علی کے دل کو علم و ہدایت پر ثابت قدم رکھ۔مولاء علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اس دعا کے بعد مجھے کبھی بھی زندگی میں کوئی ایسا کھٹن مرحلہ سامنے نہیں آیا کہ جس کا مجھے علم نہ ہو ۔
حتی خلفاء کے زمانے میں فیصلوں کے لیے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک آدمی نے اپنی بیوی پر شکایت کرتے ہوئے دوسرے خلیفہ کے زمانے میں خلیفہ کے پاس آیا اور کہا کہ میری شادی چھ مہینے پہلے ہو چکی ہے اور چھ مہینے کے بعد میری بیوی نے بچہ کو جنم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری بیوی نے کہیں کوئی غلط کام کیا ہے تو خلیفہ مجبور ہو گیا او ر یہ فیصلہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیاگیا تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے پاس دو آیت ہے کہ جس کے ذریعہ میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ عورت بی قصور ہے تو مولانے فرمایا ایک وہ آیت کے جس میں کہا گیا ہے کہ عورت نے اپنے بچے کو دو سال دودھ پلانے ہیں (وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ کَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ) البقرہ 233۔
اور دوسری آیت میں کہتے ہیں کہ حمل اور دودھ پلانے کا کل عرصہ تیس مہینے کا ہے(وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ)الاحقاف آیت15۔
تو اگر ہم دو سال دودھ کے نکالے تو چھ مہینے بچتے ہیں لہذا چھ مہینے میں بچہ پیدا کرنا عین قرآن کے مطابق ہے اور یہ غلطی نہیں ہے یہ اسی کا ہی بچہ ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے پول صراط کو پار کرنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ علی کے ہاتھ کا لیکھا ہوا پاس ہوں۔
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کے اگر ساتوں زمین اور ساتوں آسمان ایک پلے پر رکھا جائے اور علی کی ایمان کو دوسرے پلے میں رکھا جائے تو علی کے ایمان کا پلہ بھاری ہو گا ۔
خوارزمی نے لکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے جوعلی کی فضائل کو آنکھوں سے پڑھے تو اس شخص کی آنکھوں کی گناہ بخش دیئے جائینگے اور اگر کان سے سونے تو کان کی گناہ بخش دیئے جائینگے۔
حضرت علی علیہ السلام کاعلم ہر میدان میں لا محدود ہے ۔اور اسی طرح عدل و انصاف کے مالک ہے۔ ایک عورت جو کہ قبیلہ ہمدان سے تھی معاویہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ کا گورنر اور ہم پر ظلم کرتا رہتا ہے تو معاویہ نے اس عورت کو دھمکی دی کہ خبردار جو میرے گورنر کے بارے میں کچھ بولے۔
تو تب اس عورت نے آہ بھری آواز میں بولی کہ علی کیساتھ حق بھی دفن ہو گیا تو معاویہ نے کہا کہ پھر بولو کیا بولا؟ اس عورت نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام کےجانے سے عدال و انصاف بھی دفن ہوا ۔معاویہ نے کہاں کیسے ؟
کہاں کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں آپ (ع) پاس گئی تھی اور میں نے اعتراض کیا تھا کہ آپ نے جس شخص کو زکوۃ جمع کرنے کے لئے ہمارے ہاں بھیجا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے تو مولا علی (ع) روئے تھے اور پھر کہا تھا کہ خدایا میں نے اس شخص کو ان پر ظلم کرنے کے لیئے تو نہیں بھیجا تھا ۔
اور پھر ایک خط لکھا اور اس خط میں اس آدمی کو زکوۃ جمع کرنے سے معزول کیا ۔
وسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دوسرا خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خدایا ہمیں ان افراد میں سے قرار دے کہ جن پر خود امام زمان علیہ السلام، سلام پڑھتاہے۔
پھر آپ سب کو تقوائے الہی اپنانے کی سفارش کرتے ہوئے اس ہفتے میں جو اعیاد آچکے ہے اس مناسبات سے مبارکباد عرض کرتا ہوں
اس ہفتے میں بہت سارے مناسبات اور اعیاد ہیں کہ جس میں سے ایک روایت کے مطابق آج رات شب ولادت امام موسی کاظم علیہ السلام ہے اور کل 18 ذی لحجہ کو عید سعید غدیر عید اللہ الاکبر ہے اور ب22 ذی الحجہ کو میثم تمار کی شہادت ہے کہ ابن زیاد نے حضرت امام علی علیہ السلام کے ماننے والوں کو گرفتار کیا تھا کہ جن میں سے میثم تمار ار مختار ثقفی وغیرہ ہے مختار کو تو بعد میں آزاد کیا گيا لیکن میثم تمار کو 22 ذی الحجہ کو شہید کیا گیا 24 ذی الحجہ کوآیت تطہیر کی نزول کا دن ہے اور اسی دن کو عید مباہلہ بھی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے۔
( فَمَنْ حَاجَّکَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَي الْکاذِبينَ. (آل عمران/61)
جب بھی وہ حضرت عیسی(ع) کے بارے میں علم و یقین آنے کے بعد تم سے مجادلہ و بحث کریں تو تم ان سے کہو کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں، تم بھی اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں تم بھی اپنی عورتوں کو لاؤ اور ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو لاؤ۔ پھر آپس میں مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ علی، فاطمہ زھرا، امام حسن و امام حسین(علیھم السلام) کو اپنے پاس بلایا اور دعا کی: خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں۔
جب نصاری نے ان ھستیو ں کو آتے ہو ئے دیکھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹوں میں حضرت حسن اور حسین کو اور عورتوں میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو نفسوں میں حضرت علی علیہ سلام کولے کر آرہیں ہے تو ان میں بڑے نے کہا کہ ہم اگر ان کے ساتھ مباھلہ کریں تو نابود ہو جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم ہار مانتے ہیں اور فدیہ کے طور پر ہم مال دینے کے لیے تیار ہے ایک اہلسنت عالم دین لکھتا ہے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ قرآن کے ان آیاتوں میں سے کس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کی زیادہ فضائل ذکر کی گئی ہے تو میں کہو گا کہ آیت مباہلہ، کیونکہ آیت مباہلہ میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس رسول کے طور پر معرفی کیا گیا ہے۔
23 ذلحجہ کو ایک دوسرا مناسبت بھی ہے اور وہ ہے حضرت علی علیہ السلام کا رکوع کی حالت میں زکات کی طور پر انگوٹھی دینا
وہ اس طرح کہ حضرت علی علیہ السلام مسجدنبوی میں نماز پڑھ رہے تھے ایک سائل آیا اور کہا کہ میں فقیر ہوں میری مدد کیا جائے تو حضرت علی علیہ السلام جوکہ مظہر اسم محیط الہی ہے ،کو پتہ چلتاہے کہ ایک سائل مسجد میں آیا ہے اور فقیر ہیں کچھ مانگ رہا ہے تو ساتھ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کا خشوع اور خضوع نہیں ٹوٹا سائل کو اشارہ کیا کہ اس کی انگوٹھی لے لے تاکہ اس انگوٹھی کو بھیچ کر اپنا مشکل حل کریں۔
25 ذلحجہ سورہ ھل آتی کی ان آیتوں کی نزول کا دن ہے
﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْکِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا * إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا﴾
وہ اپنی نذر پر عمل کرتے ہیں اور عذاب والے دن سے ڈرتے ہیں اور غذا کو نیاز اور ضرورت ہونے کے با وجود مسکین، یتیم اور اسیر کو دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم کو خدا کے لیے غذا دے رہے ہیں اور تم سے کسی قسم کی جزا اور شکریہ کو نہیں چاہتے۔
کہتا ہے کہ: حسن و حسین(ع) بیمار ہو گئے۔ رسول خدا(ص) چند اصحاب کے ساتھ ان کے گھر ان کی عیادت کے لیے آئے اور علی(ع) سے کہا کہ اے ابو الحسن بہتر تھا کہ آپ بچوں کی شفاء کے لیے نذر کرتے۔ علی و فاطمہ(ع) اور گھر کی خادمہ فضّہ تینوں نے نذر کی کہ اگر بچوں کو شفاء مل گئی تو ہم تین دن روزہ رکھیں گے۔
جب امام حسن و امام حسین(ع) کو شفاء مل گئی تو گھر میں کچھ کھانے کو نہیں تھا۔ علی(ع) ایک یھودی شمعون سے تین من جو قرض لے کر آئے۔ بی بی فاطمہ(س) نے ایک سوم کو آٹا بنا اس سے روٹی بنائی۔ افطار کے وقت دروازے پر فقیر آیا اور کہا سلام ہو آپ پر اے اھل بیت محمد(ص) میں ایک مسکین مسلمان ہوں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اگر مجھے کھانے کو دیں تو اللہ آپ کو جنت کے کھانے عطا کرے گا۔ ان سب نے اپنے اپنے حصے کو مسکین کو دے دیا اور سب نے اس شام کو پانی سے روزہ افطار کیا۔
دوسرے دن بھی روزہ رکھا۔ دوبارہ افطار کے وقت کہ غذا کو تیار کیا ہوا تھا۔ ایک یتیم دروازے پر آیا۔ پہلے دن کی طرح ساری غذا کو یتیم کو دے دیا اور پھر سب نے پانی سے روزہ افطار کیا۔
تیسرے دن پھر افطار کے وقت ایک اسیر دروازے پر آیا پھر سب نے اپنے اپنے حصے کو اس اسیر کو دے دیا اور پانی سے روزہ افطار کیا۔ جب صبح ہوئی تو علی(ع) حسن و حسین(ع) کو لے کر رسول خدا(ص) کے پاس گئے۔ رسول خدا نے دیکھا کہ بچے بھوک کی شدت سے کانپ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی یہ حالت میرے لیے بہت درد آور ہے۔ پھر بچوں کو لے کر واپس اپنی بیٹی فاطمہ کے گھر آئے۔ جب آئے تو دیکھا کہ وہ محراب عبادت میں ہیں اس حالت میں کہ بھوک سے ان کا شکم کمر سے لگا ہوا تھا اور بہت ہی کمزور ہو گئی ہیں۔ رسول خدا کو یہ سب دیکھ کر ہبت ان پر رحم آیا۔
اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اس سورہ کو لے لیں۔ خداوند آپ کو ایسے اہل بیت ہونے پر آفرین کہہ رہا ہے۔ پھر سورہ ھل اتی کو ان کے لیے پڑھا۔
آیت اللہ جوادی آملی جو کہ بہت بڑا مفسر قرآن ہے کہتا ہے کہ یہ نذر پر وفا کرنا کرنے والیی آیت تو متوسط فضیلت ہے اہلبیت کا اصل فضیلت تو آیہ تطہیر میں ہے ایک مرتبہ حضرت امام علی علیہ السلام نے خلیفہ سے پوچھا کہ اگر کوئی کہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہ نے چوری کی ہے تو آپ کیا کریں گے تو اس نے کہا کہ میں حد جاری کروں گا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کے یہاں آپ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو جاؤں گے کیونکہ آپ دوانسانوں کی گواہی تو قبول کر رہے ہو لیکن خدا کی گواہی کو رد کر رہے ہو ۔
خلیفہ نے کہا وہ کیسے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا وہ ایسے کہ آیہ تطہیر میں اللہ تعالی نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہ کی تطہیر کی گواہی دی ہے اور وہ چھوری کر ہی نہیں سکتی۔
اس ہفتے میں کیونکہ سکول کھول رہے ہیں اس لحاظ سے عرض کرتے چلو کہ اساتید کا بہت زیادہ احترام ہوتا ہے حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر شاگرد جتنابھی بڑا آدمی بنے اپنے استاد اور والدین کی احترام کیلئے انکو اٹھنا چاہئے ۔
لہذا میں توقع رکھتا ہوں کے ہم سب اسکولوں سے فائدہ اٹھائے گے ۔
اور اب حضرت امام کاظم علیہ السلام کا ایک حدیث آپ لوگوں کے سامنے عرض کرتا چلوں کہ جب حضرت امام کاظم علیہ السلام نیشا پور تشریف لائے تو کچھ لوگ جن پر خمس دینا واجب تھا اپناخمس لے کر آپ(ع) کی خدمت میں آرہے تھے کہ ایک عورت جس کا نام شطیطہ تھی نے ایک درہم اور ایک ٹوپی جو کہ اوس نے خود سیاتھا ان لوگوں کو دیا کہ اور کہا کہ خمس کی طور پر امام کی خدمت میں پیش کیا جائیں جب یہ لوگ آگئے تو امام علیہ السلام نے کہا کہ میں باقی کا خمس نہیں لے سکتا لیکن یہ شطیطہ کا خمس میں لے لوں گا اور خمس لینے کے بعد اس عورت کے لیے چالیس درہم اور کفن کے لیئے ایک کپڑا بھیجا کہ جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بنایا ہوا تھا اور فرمایا کے اس عورت کی تدفین کے لئے میں خود آؤں گا تو کہتے ہیں کہ جب شطیطہ فوت ہوئی تو سب لوگ جمع تھے انھوں نے دیکھا کہ حضرت امام کاظم علیہ السلام ایک گھوڑے پر سوار ہے اور تشریف لا رہے ہیں امام نے اس عورت پر نماز جنازہ خود پڑھا اور خود اس کو دفن کیا اور خاکی کربلا کو اسکی قبر میں ڈال دیا پھر فرمایا کہ سب آئمہ ایسا ہی کرتے ہیں جب اس کا ماننے والا دنیا سے چلا جاتا ہے تو زمانے کا امام آکر ایسا ہی کر لیتا ہے لیکن اس کا شرط یہ ہے کہ وہ مؤمن متقی ہو بس اے لوگو تقوی اختیار کرو
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
فائل اٹیچمنٹ: