17 اگست2018 کو نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید حسینی صاحب کی اقتداء میں ادا کی گئی
آپ نے سب سے پہلے دعائے سلامتی امام زمان علیہ السلام پڑھا اور پھر سب مومنین کو تقوی الہی اپنانے کی سفارش کی۔
پھر اپنے امام باقر علیہ السلام کی اس حدیث پر روشنی ڈالی کہ (ان اشد الناس حسرۃ یوم القیامہ من وصف عدلا وخالف غیرہ) کہ جس نے عدل کے صفات بیان کئے لیکن خود اس پر عمل پیرانہ ہوا
جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں عرض کیا تھا کہ شہید مطہری نے اسلام کی 24 صفات بیان کیے ہیں کہ جن میں کچھ ہم ذکر کر چکے ہے اور ہم نے کہا تھا کہ خلقت کے کچھ مقاصد ہے کہ بترتیب ذکر ہوگئے (عبادت تقوی کامیابی) اور پھر ہم نے حج کا بحث چھیڑا تھا کہ ابن ابی العوجہ نے حج کے اعمال کو بی فائدہ سمجھ کر حضرت امام صادق (ع) پر کچھ اعتراضات کیے تھے۔ تو حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا تھا کہ یہ سب اللہ کا آپنے بندو سے امتحان لینا ہے اور پھر حج کی اسرار کہ حضرت امام سجاد (ع) نے شبیلی کو فرمائیں تھیں اس میں سے 7 عدد گزشتہ جمعے کو بیا ن ہو گئے اور آب اسی کا ادامہ ہے ۔
8- ای شبیلی جب آپ منا پہنچ گئے تو اپنے مقاصد پا لیے کہ جو اپنے زمانے کے پیغمبر یا امام سے ملنا تھا کو ؟ کہا نہیں یا مولاہ۔
9- کیاآپ کے حاجات پرے ہو گئے ؟ کہا نہیں یا مولاہ۔
10- منا پہنچ کر آپ نے یہ نیت کیا کہ اسکے بعد لوگو میرے زبان سے امان میں رہیں گے۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
11- جب آپ شیطان کو کنکریا ں مارنے کے لیئے پتھر جمع کر رہے تھے تو کیا آپنے یہ نیت کیا کہ میں سب پلیدیوں سے اپنے آپ کو سمیٹ رہا ہو۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
12- جب آپ شیطان کو مارنے کے لیئے گئے تو کیا آپ نے یہ نیت کیا کہ آپ اپنے دشمن شیطان کہ انس میں سے ہو یا جن میں سے اسکو پتھر مار رہے ہو۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
13- جب آپ اپنے بال منڈوا رہے تھے تو کیا آپنے یہ نیت کیا کہ آپ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے پاک کر رہے ہو ۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
14_ کیا آپنے یہ نیت کیا کہ گویا ابھی آپ گناہوں سے اسے پاک ہو گئے ہو کہ جیسے ماں کی پیٹ سے ابھی جنم لیے ہو۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
15- جب آپ آپنے قربانی کا سر کاٹ رہے تھے تو کیا یہ نیت کیا کہ آپ طمع اور لالچ کا گلہ کاٹ رہے ہو۔ کہا نہیں یا مولاہ۔
اب فلسفہ حج کو آیات کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
محمد بن فضیل نے امام کاظم (ع) سے سوال کیا کہ یہ آیت کہ ( من کا ن فی ھذہ الاعمی فھو فی الآ خرۃ اعمی واضل سبیلا) اس سے مراد کیا ہے ۔ تو امام (ع) نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہے کہ جو مستطیع ہے حج ان پر واجب ہو چکا ہے لیکن پھر بھی وہ لوگ اج کال کر رہے ہوتے ہیں ۔
سورت کہف 105 نمبر آیت میں فرمایا کہ (ھل ننبئکم بالاخسارین اعمال) وہ لوگ کہ جو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں ( وھم یحسبون انہم یحسنون صنعا ) وہ گمان کر رہے ہوتے کہ وہ آچھے اعمال بجا لا رہے ہیں ۔
یہ وہ لوگ ہے کہ جو مستطیع ہو کر حج پر نہیں جاتے ہیں ۔
(و للہ علی الناس حج البیت ومن کفر) و من کفر سے مراد یہ کہ جنہوں نے حج انجام دینا ترک کیا ہو۔
مرحوم محقق فرماتے ہیں کہ (و خیر مع الشرائط کبیرۃ موبغہ) حج کے لیئے جانے میں سستی کرنا گناہ کبیرہ ہے
حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ( و من مات لم یحج حجۃ الاسلام یمنعہ من ذلک مات یہودیا او نصرانیا)۔
جو حج کیے بغیر مر جائیں اور کوئی عذر شرعی بھی نہ ہو تو یہودی اور نصرانی مر جاتا ۔ عذر سے مراد یہ کہ مریض ہو یا حاکم وقت منع کر رہا ہو
فلسفہ حج کے بارے میں فرماتے
اذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا و علی کل ضامر) لوگوں کو حج کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ پیدل یا تکڑے سواری پر حج کرنے پہنچ جائیں ۔
پس حج کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ لوگ زمانے کے نبی یا امام کو پہنچے اسی وجہ سے سن62 ھجری میں بھی لوگوں پر واجب تھا کہ حج کی اعمال کو چھوڑ کر اپنے زمانے کی امام حضرت امام حسین (ع) سے مل جاتے ۔
فائل اٹیچمنٹ: