امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ولادت
امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی دختر اور امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ سیدہ حکیمہ فرماتی ہیں: جب امام محمد بن علی (ع) کی ولادت کا وقت آن پہنچا تو امام رضا علیہ السلام نے مجھے بلواکر فرمایا: بہن حکیمہ! بیبی خیزران اور دایہ کے ہمراہ ایک کمرے میں چلی جائیں؛ آپ (ع) نے ہمارے لئے ایک چراغ روشن کیا اور دروازہ بند کرکے چلے گئے۔
اسی وقت درد زہ کا آغاز بھی ہوا اور چراغ بھی بجھ گیا میں فکرمند ہوئی لیکن امام جواد علیہ السلام نے چودھویں کے چاند کی مانند اچانک طلوع کیا جبکہ آپ (ع) کا بدن لطیف اور نرم و نازک سے کپڑے میں لپٹے نے لپٹا ہوا تھا اور بچے کے نور نے کمرے کو روشن کیا ہوا تھا. میں نے امام (ع) کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور وہ نازک کپڑا آپ (ع) کے بدن سے الگ کیا کہ اتنے میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اندر تشریف لائے اور آپ (ع) کو لے کر گہوارے میں ڈال دیا اور فرمایا: بہن! گہوارے کا خیال رکھنا.
تین روز گذرنے کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب کھول دیں اور نگاہ دائیں اور بائیں طرف دوڑائی اور فرمایا: اشہد ان لا الہ الا الہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ (ص).
گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے پیغمبر ہیں۔
میں ہراساں ہوکر اٹھی اور امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے مولا! میں نے اس بچے سے بہت حیران کن بات سنی ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسی عجیب بات سنی ہے آپ نے؟
میں نے جو سنا تھا نقل کرکے سنایا.
امام (ع) نے فرمایا: اے حکیمہ! اس بچے سے جن عجیب چیزوں کا آپ مشاہدہ کریں گی وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو آپ نے سن لیا ہے۔
(مناقب، ج 4، ص 394)
امام جواد علیہ السلام کی ولادت کی پیشین گوئی
ابن ابی نجران نقل کرتے ہیں: واقفیہ فرقے کے ایک راہنما "حسین بن قیاما" نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: کیا آپ امام ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! میں ہی امام ہوں.
اس شخص نے کہا: خدا کی قسم آپ امام نہیں ہیں.
امام علیہ السلام چند لمحوں تک سر جھکا کر بیٹھے رہے اور پھر اس شخص سے فرمایا: تم کیوں سوچتے ہو کہ میں امام نہیں ہوں؟
اس شخص نے کہا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ "امام بانجھ نہیں ہوسکتا جبکہ آپ اس عمر میں بھی صاحب اولاد نہیں ہیں اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔
امام رضا (ع) کی خاموشی اس بار طویل ہوگئی اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: "خدا کی قسم! بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے گا جب خداوند متعال مجھے ایک بیٹا عطا فرمائے گا".
ابن ابی نجران کہتے ہیں: ہم نے اس کے بعد مہینے گننا شروع کئے اور ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خداوند متعال نے امام رضا علیہ السلام کو امام جواد علیہ السلام عطا فرمایا.
(بحار الانوار، ج 49، ص 272، ح 18)
امام جواد علیہ السلام کی تاریخ ولادت
تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام جواد علیہ السلام سنہ 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے مگر آپ (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔:
محمد بن یعقوب کلینی نے الکافی میں، شیخ مفید نے الارشاد میں اور شہید ثانی نے الدروس میں تحریر کیا ہے کہ امام جواد علیہ السلام ماہ مبارک رمضان سنہ 195 کو پیدا ہوئے.
بعض مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان کو پیدا ہوئے ہیں.
تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ امام جواد علیہ السلام کا یوم پیدائش 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔
(بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
امام رضا علیہ السلام امام جواد علیہ السلام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.
جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا.
امام رضا علیہ السلام پوری رات گہوارے میں اپنے بیٹے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔
(بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)
امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں شیعہ راہنماؤں کا اجتماع
امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام کی عمر تقریباً سات برس تھی؛ اسی بنا پر بغداد اور دیگر شہروں میں لوگوں میں اختلافات ظاہر ہوئے.
ریان بن صلت، صفوان بن یحیی، محمد بن حکیم، عبدالرحمن بن حجاج، یونس بن عبدالرحمن و دیگر نے عبدالرحمن بن حجاج کے گھر میں اجتماع کیا تا کہ اس سلسلے میں بات چیت کریں.
تمام حاضرین امام رضا علیہ السلام کی شہادت کی مصیبت پر گریہ و بکاء کررہے تھے. یونس بن عبدالرحمن نے کہا: رونے کا وقت نہیں ہے اس مسئلے کے بارے میں بات کرو کہ جب تک ابوجعفر بڑے ہونگے منصب امامت کس کے پاس رہے گا؟ اور ہم اپنے سوالات کس سے پوچھیں گے؟
ریان بن صلت یہ بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور یونس کا گریباں پکڑ لیا اور کہا: تم بظاہر ایمان کا مظاہرہ کرتے ہو لیکن باطن میں اہل تردید اور اہل شرک ہو. کیا تم نہیں جانتے کہ اگر کوئی فرد خدا کی طرف سے امامت پر منصوب ہو وہ اگر ایک روزہ بچہ بھی ہو ایک بوڑھے عالم و دانشور کی مانند ہے اور اگر خدا کی جانب سے نہ ہو اور ایک ہزار برس تک بھی جئے وہ بہرصورت ایک عام انسان ہی ہے اور ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہئے۔
ریان بن صلت کے بعد دوسروں نے بھی یونس بن عبدالرحمن پر ملامت کی.
(بحار الانوار، ج 50، ص 99، ح 12)
امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی امامت پر تصریح فرمائی
عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں: میں صفوان بن یحیی کے ہمراہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی. امام جواد علیہ السلام کی عمر اس وقت تین برس سے زیادہ نہ تھی اور امام رضا علیہ السلام کی پہلو میں کھری تھی.
ہم نے عرض کیا: ہم اللہ کی پناہ مانگتی ہیں؛ اگر آپ کو کچھ ہوجائی تو...
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا یہ بیتا؛ اور امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اور ہان! اسی چھوتی عمر میں ہی، خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دو سال کی عمر میں نبوت کا عہدہ سونپ دیا.
(بحار الانوار، ج 50، ص 35، ح 23 - بحار الانوار، ج 50، ص 21، ح 8)
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے.
چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا اہل تشیع کے بعد گروہ بھی شک و شبہے کا شکار ہوئے اور امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا.
کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے عنوان سے اٹھے ہوئے سوال کا جواب
ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.
اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں.
(بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
امام جواد علیہ السلام کا اونچا مقام و مرتبہ
حدیث لوح امام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت کی نویں کڑی ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص قسم کی خصوصیات عطا ہوئی ہیں جن کے باعث آپ (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، ائمۂ طاہرین اور اپنے والد بزرگوار کے نزدیک بھی اونچے مقام و منزلت کے مالک ہیں.
آپ کے بعض مقامات کی مختصر مثالیں
امام جواد علیہ السلام حدیث کی روشنی میں
ابوبصیر کہتے ہیں: ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا: اے جابر! کون سا وقت آپ کے لئے مناسب ہے کہ میں خلوت میں آپ سے کچھ پوچھ لوں؟
جابر نے عرض کیا: جب بھی آپ مناسب سمجھیں.
ابوبصیر کہتے ہیں: اس کے بعد امام علیہ السلام جابر سے خلوت میں ملے اور فرمایا: آپ نے میری والدہ ماجدہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ایک "لوح" دیکھا تھا اس کے بارے میں اور جو کچھ میری والدہ نے آپ سے فرمایا تھا، اس کے بارے میں مجھ آگاہ کریں.
اللہ کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات کے ایام میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر مبارکباد عرض کرنے سیدہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ سیدہ (س) کے دست مبارک میں سبز رنگ کا ایک لوح تھا (یا تختی تھی) میں سمجھا کہ وہ لوح زمرد کا بنا ہوا ہے اور میں نے اس لوح پر سورج کی طرح چمکتی تحریر دیکھی؛ میں نے عرض کیا: اے دختر رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں یہ لوح کیا ہے؟
سیدہ (س) نے فرمایا: یہ ایسا لوح ہے جو خداوند متعال نے اپنے رسول (ص) پر تحفے کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ اس لوح میں میرے والد، میرے شوہر اور میرے دو بیٹوں کے ناموں کے ساتھ میرے فرزندوں میں سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اوصیاء اور جانشینوں کے نام درج ہیں اور یہ لوح والد ماجد نے امام حسیں علیہ السلام کی ولادت پر تحفے کے طور پر مجھے عطا فرمایا ہے۔
جابر کہتے ہیں: اے فرزند رسول اللہ (ص)! آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ زہراء (س) نے وہ لوح مجھے دیا اور میں نے وہ پڑھ لیا اور اس پر لکھی عبارتیں بھی لکھ لیں.
میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ اس لوح پر مرقوم تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط ہے خداوند عزیز حکیم کی جانب سے اس کے نبی و حبیب محمد (ص) کے نام ... میں اس ـ علی بن موسی الرضا (ع) کو ـ اس کے بیٹے، جانشین اور اس کے علوم کے وارث "محمد" کے توسط سے ـ مسرور کروں گا اور اپنے خاندان میں سے ایسے ستر افراد کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کروں گا چاہے وہ سارے کے سارے اہل جہنم ہی کیوں نہ ہوں.
(اصول کافی، کتاب الحجہ، ج 2، ص 473، ح 3)
امام جواد علیہ السلام کی شان رفیع
علی بن ابراہیم قمی اپنے والد ابراہیم سے نقل کرتے ہیں: ہم امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام جواد علیہ السلام کے گھر میں حاضر ہوئے. مختلف شہروں سے آئے ہوئے شیعیان امام علیہ السلام کی ملاقات کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے.
اسی وقت امام رضا (ع) کے چچا عبداللہ بن موسی ـ جو معمر شخص تھے اور کریم النفس تھے ـ دروازے سے اندر آئے. انھوں نے کھُردرا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ان کی پیشانی پر سجدے کے آثار ہویدا تھے. اتنے میں امام علیہ السلام بھی تشریف لائے. امام علیہ السلام نے کتان کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سفید جوتے پہنے ہوئے تھے.
عبداللہ بن موسی استقبال کے لئے اٹھے؛ اور آپ (ع) کے دو آنکھوں کے بیچ پیشانی کو بوسہ دیا.
امام علیہ السلام کرسی پر رونق افروز ہوئے. لوگ امام (ع) کی کمسنی سے حیرت زدہ ہوگئے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ایک مرد اٹھا اور عبداللہ بن موسی سے مخاطب ہوکر کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا فتوی کیا ہے جس نے حیوان کے ساتھ آمیزش کی ہو؟
عبداللہ نے کہا: اس شخص کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اس پر زنا کی حد جاری ہوگی.
امام جواد علیہ السلام یہ سن کر غضبناک ہوئے اور فرمایا: چچاجان! تقوائے الہی اپناؤ اور محتاط رہو. روز قیامت اللہ کی بارگاہ میں کھڑے کئے جاؤگے اور خداوند متعال پوچھے گا: تم نے ایسے موضوع کے بارے میں کیوں فتوی دیا جس کا تم کو علم ہی نہیں تھا.
عبداللہ نے عرض کیا: میرے مولا و آقا! کیا آپ کے والد نے یہی حکم نہیں دیا تھا؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد سے اس شخض کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے ایک عورت کی قبر کھول کر عورت کی میت سے آمیزش کی تھی اور میرے والد نے حکم دیا تھا کہ نبش قبر کے جرم میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور اس پر زنا کی حد بھی جاری کردی جائے کیونکہ مردہ انسان کی حرمت زندہ انسان کی مانند ہے۔
عبداللہ نے عرض کیا: میرے اقا! آپ نے سچ فرمایا؛ اللہ مجھے اپنی غلطی کی بابت بخش دے.
حیرت زدہ لوگوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا اور امام علیہ السلام سے عرض کرنے لگے:
ہمارے سید و مولا! کیا ہم بھی آپ سے کچھ پوچھ سکتے ہیں؟
اس کے بعد لوگوں نے سینکڑوں سوالات پوچھے اور امام علیہ السلام نے سب کو جواب دیا اور اس وقت امام علیہ السلام نو سال کے تھے.
(بحار الانوار، ج 50، ص 85، ح 1)
علی بن جعفر علیہ السلام کا بیان
علی بن جعفر الصادق علیہالسلام، المعروف بہ العُریضی، امام جعفر صادق علیہ السلام کے آخری فرزند، امام موسی کاظم علیہ السلام کے چھوٹے بھائی اور امام رضا علیہ السلام کے چچا تھے. مدینہ میں پیدا ہوئے اور اپنے والد ماجد امام صادق علیہ السلام اور بڑے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی آغوش میں پروان چڑھے.
علی بن جعفر کہتے ہیں: میں چار مرتبہ اپنے بھائی امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں عمرہ کے لئے مکہ معظمہ مشرف ہوا اور ہر سفر میں، میں امام علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ہوتا جبکہ آپ کا کنبہ بھی آپ (ع) کے ہمراہ ہوا کرتا تھا. امام علیہ السلام نے پہلے سفر میں مدینہ سے مکہ تک کا راستہ 26 دنوں میں طے کیا جبکہ دوسرے سفر میں 25 دن، تیسرے میں 24 دن اور چوتھے سفر میں 21 دن میں یہ راستہ طے فرمایا۔
علی بن جعفر العریضی امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر رہے۔
وہ نقل کرتے ہیں: جب امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں اور اعمام نے امام علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی اور آپ (ع) پر ظلم و ستم روا رکھا میں اٹھا اور میں نے امام رضا علیہ السلام کے فرزند ابوجعفر محمد بن علی (امام جواد علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا: اشہد انک امامی؛ گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرے امام اور پیشوا ہیں.
امام رضا علیہ السلام نے یہ دیکھ کر روئے اور فرمایا: چچاجان! کیا آپ نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا:
"بأبی ابن خیرہ الاماء النوبہ الطیبہ"
میرا باپ فدا ہو بہترین اور پاک ترین ثوبیہ کنیز کے فرزند (امام محمد بن تقی الجواد) پر۔
میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو بالکل حق اور سچ ہے۔
مروی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو علی بن جعفر معمر بزرگ ہونے کے باوجود چھوٹی عمر میں امامت کے رتبے پر فائز امام جواد علیہ السلام کی پیروی کیا کرتے تھے اور اس پیروی کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے.
منقول ہے کہ جب علی بن جعفر جب بھی امام جواد علیہ السلام کے سامنے آتے آپ (ع) کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اور جب کہیں جانے کا ارادہ کرتے تو وہ آپ (ع) کے جوتے سیدھے کرتے.
علی بن جعفر کی یہی خاکساری اور اطاعت و عقیدت کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان پر اعتراض کیا.
ایک شخص نے کہا: آپ کی عمر زیادہ ہے اور آپ کا مقام اونچا ہے اس کے باوجود آپ اس بچے کو کیونکر اپنا امام مانتے ہیں؟
فرمایا: خاموش ہوجاؤ! تم شیاطین میں سے ہو! اور اس کے بعد اپنی داڑرھی پر ہاتھ پھیر کر کہا: خداوند متعال نے اس سفید داڑھی کو لائق نہیں سمجھا ہے جبکہ اس بچے کو مرتبہ امامت کا لائق قرار دیا ہے! تم اس کے باوجود اس کے فضل و برتری کا انکار کرتے ہو؟
بہرحال علی بن جعفر علیہ السلام نے چار اماموں (امام صادق، امام کاظم، امام رضا اور امام محمد تقی الجواد علیہم السلام) سے خوب خوب فیض حاصل کیا، کثیر تعداد میں حدیثیں سنیں اور یہ حدیثیں بعد کی نسلوں کے سپرد کردیں.
کہا جاتا ہے کہ علی بن جعفر کوفہ کے عوام کی درخواست پر کچھ عرصہ کوفہ میں مقیم ہوئے اور کوفہ والوں نے ان سے بہت زیادہ حدیثیں سنیں. اس کے بعد شیعیان قم کو انہیں قم تشریف آوری کی دعوت دی اور وہ قم میں تشریف لائی.
اہل قم بھی ان کے علم و دانش سے خوب خوب مستفیض ہوئے اور ایک نقل کے مطابق اسی شہر میں دنیائے فانی سے دار بقاء کی جانب کوچ کرگئے اور قم میں اسی مقام پر سپرد خاک ہوئے جس کو بعد میں "گلزار علی بن جعفر" کا نام دیا گیا.
بحارالانوار کے مؤلف علامہ محمد باقر مجلسی کے والد علامہ محمد تقی مجلسی نے اسی قول سے اتفاق کیا ہے مگر بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ وہ مدینہ منورہ کے نواح میں واقع "عریض" نامی قصبے میں مدفون ہیں.
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی وقت عریض کے علاقے میں مقبرہ اور گنبد و بارگاہ ہے جو علی بن جعفر الصادق علیہ السلام کا مقبرہ کہلاتی ہے۔ بعض دیگر کا خیال ہے کہ علی بن جعفر کا مقبرہ ایران کے شہر سمنان میں واقع ہے مگر اہل تاریخ کی نظر میں یہ قول بعید از صواب ہے۔
(سفینہ البحار، ج 6، ص 416؛ قاموس الرجال، ج 7، ص 387؛ اعیان الشیعہ، ج 7، ص 177)
امام جواد علیہ السلام بچپن میں بولتے ہیں
اس واقعے کا آغاز اچھا نہیں ہے لیکن نتیجہ خوبصورت ہے:
روایت ہے کہ چونکہ امام جواد علیہ السلام کا رنگ سانولا تھا اسی لئے معرفت و حقیقت سے بیگانہ لوگوں نے (معاذاللہ) کہنا شروع کیا کہ گویا آپ (ع) امام رضا علیہ السلام کے فزرند نہیں ہوسکتے.
تاہم چہرہ شناسوں نے تصدیق کی کہ آپ (ع) خاندان نبی و علی علیہما السلام کے چشم و چراغ ہیں... اس وقت امام علیہ السلام کی عمر 25 مہینے تھی.
امام محمد تقی علیہ السلام نے اس موقع پر شمشیر سے بھی زیادہ تیز زیان سے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا:
حمد و سپاس اس خدا کے لئے مخصوص ہے جس نے ہمیں اپنے نور سے خلق فرمایا اور اپنی مخلوقات میں سے ہمیں پسند فرمایا میں محمد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفرالصادق بن محمد الباقر بن سید العابدین بن حسین الشہید بن امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب اور فرزند حضرت فاطمہ زہراء دختر رسول اللہ (ص)، کا فرزند ہوں.
کیا میرے بارے میں شک و شبہہ کیا جاتا ہے؟ کیا خداوند متعال اور میرے جد امجد پر بہتان تراشی روا رکھی جاتی ہے؟ کیا تم میرے جیسے فرد کو چہرہ شناسوں کے سامنے پیش کرتے ہو؟ خدا کی قسم کہ میں لوگوں کے تمام اسرار اور یادوں سے واقف ہوں.
خدا کی قسم کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ ان کو جانتا ہوں. میں جو کہتا ہوں حق ہے اور میرا بیان حقیقت ہے یہ علم ہمیں کسی بھی موجود کی خلقت سے قبل اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔
خدا کی قسم اگر کافرین و منافقین کے درمیان سازباز اور گمراہی نہ ہوتی میں آج ایسی بات کہہ دیتا کہ تمام لوگ سن کر حیرت زدہ ہوتے.
اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھا اور فرمایا: اے محمد! خاموش رہو جس طرح کہ تیرے آباء و اجداد نے خاموشی اختیار کرلی اور صبر اختیار کرو جس طرح کہ خداوند متعال کے بزرگ پیغمبروں نے صبر اختیار کیا.
(بحار الانوار، ج 50، ص 8، ح 9)
امام جواد علیہ السلام مآمون عباسی کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں
مأموں عباسی شہر سے گدررہا تھا. راستے میں بچے کھیل کود میں مصروف تھے؛ امام جواد علیہ السلام بھی بچوں کے ہمراہ نظر آرہے تھے. بچے مأموں کو دیکھ کر ادھر ادھر بھاگ گئے.
مأموں نے پوچھا: تم کیوں نہیں بھاگے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے کوئی خطا سرزد نہیں ہوئی جس کی بابت میں ڈر کر بھاگ جاؤں اور راستہ بھی تنگ نہیں ہے کہ میں راستے سے ہٹ جاؤں. تم جہاں سے بھی گذرنا چاہو گذر جاؤ.
مأموں نے پوچھا: تم کون ہو؟
امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: میں محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (علیہم السلام) ہوں.
مأمون نے پوچھا: علم و دانش میں تمہارا کیا مقام ہے؟
امام نے فرمایا: مجھ سے آسمان کی خبریں پوچھو.
مأمون وداع کرکے چلا گیا جیکہ ایک شکاری باز بھی اس کے پاس تھا اور اس نے باز ہوا میں چھوڑ دیا اور باز تھوڑی دیر بعد ایک مچھلی کو شکار کرکے واپس آیا.
مأمون واپسی میں اسی مقام پر پہنچا جہاں امام جواد علیہ السلام موجود تھے اور گھوڑے سے اتر کر امام (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے آسمان کی خبر دو.
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول اللہ (ص) سے اور رسول اللہ (ص) نے جبرئیل سے روایت کی ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا: آسمان اور سمندر کے بیچ فضا کا ایک حصہ ہے جس کی لہریں متلاطم ہیں اور وہاں دبیز بادل ہوتے ہیں جن میں بعض مچھلیاں بھی اوپر کو گئی ہوئی ہیں اور ان کے پیٹ کا رنگ سبز ہے اور وہیں زندگی بسر کرتی ہیں اور بعض بادشاہ شکاری بازوں کے ذریعے انہیں شکار کردیتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے علماء کی آزمائش کرلیں.
مامون نے کہا: تم نے اور تمہارے والد اور آباء و اجداد نے اور تمہارے پروردگار نے بالکل سچ کہا ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 56، ح 31)
فائل اٹیچمنٹ: