حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زندگی پر اجمالی نظر
ولادت با سعادت: آٹھویں امام علیہ السلام کی تاریخ ولادت با سعادت میں اختلاف ہے۔ لیکن مشہور قول کے مطابق آنحضرت کی ولادت با سعادت ١١ ذیقعد ١٤٨ہجری قمری (بروز جمعرات ) کو ہوئی۔(١)
مقام ولادت با سعادت: مدینہ منورہ (٢)
دیدار کی آرزو: حضرت امام صادق علیہ السلام کا قول اسی مشہور روایت کی تائید کرتا ہے ۔حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار مجھ سے فرماتے تھے کہ ''عالم آل محمد آپ سے ہوں گے، اے کاش میں انھیں پا لیتا ۔
بے شک وہ حضرت امیر المومنین کے ہمنام ''علی''علیہ السلام ہوں گے ۔ (٣)
ولادت با سعادت کے متعلق مشہور قول کی تائید اس طرح سے ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کی دلسوز شہادت معروف قول کی رو سے ٢٥ شوال ١٤٨ ہجری قمری کو ہوئی ۔(٤) جبکہ اسی سال کچھ دنوں کے بعد ١١ ذیقعد کو عالم آلِ محمد حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے۔ یعنی آن حضرت کے میلاد مسعود سے چند دن پہلے ہی ان کے جد بزرگوار حضرت امام صادق علیہ السلام اس دار فانی سے عالم ِ جاودانی کو سفر فرما چُکے تھے۔ یہ ملاقات انھیں نصیب نہیں ہو سکی تھی، اس لیے فرماتے تھے ''اے کاش میں اُنھیں درک کر لیتا ۔''
بس آنحضرتکیولادتباسعادتکیتاریخ کے ضمن میں مثلاَ١١ربیعالاول(١٤٨ھ.ق)کاقولصحیحمعلوم نہیں ہوتاہے۔ (5)
ورنہ چھٹے امام صادق علیہ السلام ایسی آرزو نہ فرماتے۔ اسی مناسبت سے دوسری تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ آنخضرت کا سن مبارک مشہور قول کی بنا پر ٥٥ برس نقل ہوا ہے ۔(٦) اور سال شہادت ٢٠٣ منقول ہے ۔بس اس کے مطابق یہ مطابقت اسی صورت میں درست ثابت ہوتی ہے کہ ولادت با سعادت کے بارے میں مشہور قول کو لیا جائے۔
والد بزرگوار: باب الحوائج موسیٰ بن جعفر حضرت امام موسیٰ کا ظم علیہ السلام ہیں۔
والدہ ماجدہ :آپ کی والدہ ماجدہ کے تاریخ کی کتب میں متعدد اسما ء نقل ہوئے ہیں، منجملہ ام البنین، نجمہ خاتون، خیزران، سمانہ،تکتم،طاہرہ۔ ابن بابویہ نے معتبر سند سے علی بن میثم سے روایت کی ہے جس کے مطابق امام کاظم کی والدہ اپنی ایک کنیز کی بہت تعریف فرماتی تھیں ۔وہ پاکیزہ اور خوش قسمت کنیز بھی کس قدر با معرفت و ارادت تھی کہ کبھی بھی حمیدہ خاتون کے سامنے نہیں بیٹھتی تھیں ۔ایک دن حضرت حمیدہ نے اپنے فرزند ارجمند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے فرمایا :اے میرے فرزند گرامی !تُکتم میری ایسی کنیز ہے کہ میں نے اخلاق حُسنہ میں اس سے بہتر کوئی نہیں دیکھی، میں جانتی ہوں کہ اس سے جو نسل وجود میں آئے گی وہ پاکیزہ اور مُطہر ہو گی، میں یہ کنیز آپ کو بخش رہی ہوں اور آپ سے التماس کرتی ہوں کہ اس کو محترم رکھیںپس جب اس پاکیزہ خاتون نے حجت خدا حجرت امام رضا علیہ السلام کی والدہ ماجدہ بننے کا شرف پایا تو حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے اُنھیں ''طاہرہ'' اسم سے موسوم فرمادیا۔
ایک اور معتبر روایت کے مطابق حضرت حمیدہ نے عالمِ خواب میں حضرت رسالتماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی اور حضورۖنے انھیں فرمایا کہ اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو یہ کنیز دے دیں، پس انھوں نے ایسا ہیکیا۔ (٧)
نام نامی : آنخضرت کا نام نامی اپنے جد بزرگوار ''علیؑ''کے اسم گرامی پر ہے ۔ (٨)
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : میں نے یہ کنیز خداوند متعال کے حکم سے لی اور خواب میں مجھے امر فرمایا کہ جب بھی مولود مسعود عطاہو تو اس کا نام علی رکھنا ۔
یہ آسماں کی بلندیاں بھی لپک کے جس گردِپا کو چُو میں۔
وہ گردِ پا حُجتخدا کیہے نامِ ن امی علی رضاہے۔
کنیت: آنخضرت کی مشہور کنیت ''ابو الحسن''جبکہ خاص کنیت ''ابو علی '' ہے ۔ (٩)
القاب: سِراج اللہ، نو ر الھدٰی، قُرة اعین المومنین (یعنی مومنین کی آنکھوں کی ٹھنڈک)، کافی الخلق، فاضل، صابر، وفی، رضی، صدیق،غیظ الملحدین، عالم آل محمدۖ، غریب الغربا،معین الضعفاء والفقرا،انیس النفوس،شمس الشموس روف آلِ محمدۖ، رضا،.........
مشہور لقب : آنخضرت کا زیادہ معروف و مشہور لقب مبارک ''رضا''ہے۔
مشہور لقب کی ایک وضاحت:ابن بابویہ نے بزنطی سے روایت کی ہے :میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں عرضکیاکہ آپ کا ایک مخالف گروہ گمان کرتا ہے کہ آپ کے والد بزرگوار کو مامون نے ''رضا''کے لقب سے ملقب کیا تھا اور یہ اس وقت ہوا جب ان حضرت کو اس نے اپنا ولی عہد مقرر کیا ،حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا کی قسم وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ خود خداوند متعال نے اُن حضرت کو ''رضا''کے اسم گرامی سے موسوم فرمایا ہے کیونکہوہ آسمان میں خداوند کے پسندیدہ تھے ۔اور خدا و آئمہ خدا علیھم السلام زمین پر ان سے راضی و خوشنود تھے اور ان حضرت کو امامت کے لیے پسند فرمایا ۔(راوی کہتا ہے )میں نے کہا :کیا آپ کے تمام اجداد خدا، رسول اور آئمہ علیھم السلام کےہاں پسندیدہ نہیں تھے ؟فرمایا ! پسندیدہ تھے، میں نے کہا : پھر کیا وجہ ہے کہ ان سب کے درمیان صرف وہ حضرت کو ہی اس گرامی لقب سے مخصوص فرمایا؟ جواب میں امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا:جیسا کہ موافق اور چاہنے والے آنخضرت سے راضی اور خوشنود تھے ایسے ہی مخالف اور دشمن بھی انہیں پسند کرتے تھے اور اُن سے را ضی تھے اور آنخضرت پر دوست و دشمن سب کا راضی و خوشنود ہونا انھیں کی مخصوص فضیلت ہے جس کی وجہ سے اس اسم (رضا)سے آنخضرت کو یاد کیا گیا۔(١٠)
القاب کی دلالت : اہل علم بخوبی آگاہ ہیں کہ ہر لفظ کم از کم ایک معنی و مفہوم اپنے اندر لیے ہوتا ہے ،دوسری تعبیر میں الفاظ 'معانی و مفاہیم'کے مظاہراور آئینہ دار ہوتے ہیں جنکے معانی و مفاہیم جاننے کی صورت میں وہ الفاظ سنتے ہی اذھان خاص اور معین حقایق کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔مثلاََ پانی کا لفظ سنتے ہی اس لفظ کے معنی سے آگاھی رکھنے والےکے ذہن میںفوراََ پانی کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔مطلوبہ حقایق کو بیان کرنے کے لیے ہر زبان میں مخصوص وضع شدہ الفاظ کو بروے کار لایا جاتا ہے ۔اور ان سے استعفادہ کرتے ہوئے ان حقایق کو بیان کیا جاتا ہے ۔ اس خاص تبیین و بیان کا ایک راز موصوف حقایق و اشیاء کا ایک خاص معانی و مفاہیم سے متصف ہوتا ہے ۔اور بعض اوقات یہ اتصاف اس قدر شدید ہوتا ہے کہ خاص لفظ سنتے یا پڑھتے ہی ذہن کا تبادر اور سبقت ذہنی اسی مخصوص و موصوف حقیقت کی طرف ہو جاتی ہے کہ دیگر الفاظ و معانی
التباس و اشتراک پیدا نہیں کر سکتے۔ مطلوب امر حاصل ہو جاتا ہے۔اتصاف کی اس شدت کو لقب و القاب کے مقولے میں واضح طور پر ملا حظہ کیا جا سکتا ہے ۔مثلاََ شاید اول تاریخ سے ابھی تک ان گنت ایسے افراد گزرے ہوں جو وفاداری کی رسمیںنبھا چکے ہوںلیکن اس باب میں شدت اتصاف کے تقاضے کے مطابق جب بھی اور جہاں بھی شہنشاہ وفا یا سلطان وفا کا لفظ سامنے آتا ہے تو موافق و مخالف اور دوست و دشمن کے ذہن ایک ہی فخر وفا ہستی کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔جس نے کربلا میں وفا کی بے مثال لاج رکھی۔پس گویا یہ لفظ آئینہ اور اس شخصیتکی تصویر لازم و ملزوم ہو گئے۔ہمارے اس 'القاب کی دلالت'کا عنوان بھی اسی حقیقت کی عکاسی کر رہا ہے ۔کہ جس معصوم اور حجت خدا ، امام ھدیٰ ہستی کی بہتر شناخت و معرفت کی خاطر ٹوٹے پھوٹے لیکن عقیدت بھرے الفاظ و جملات پیش کرنے کے لیے توفیق رفیق ہو رہی ہے ۔وہ ہستی آفتابوں کے اندر بھی ایسے نمایاں آفتاب ہیں کہ شمس الشموس کا لفظ سنتے ہی ہر آگاہ ذہن اس ہستی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔یہ موصوم امام علیہ السلام بھی بہت زیادہ القاب کے مالک ہیں۔اور ہر ایک لقب اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اس لفظ کے مفاہیم و معانی کی وسعت کی منزل مقصود اسی معصوم علیہ السلام پر منتہی ہو رہی ہے .
مامون ملعون نے خواہ علم دوستی و مثلاََاسلام کی سر بلندی ظاہر کرنے کے لیے اور خواہ اس مذموم ہدف کے حصول کے لیے تاکہ آخرکسی مرحلے پر تو عجزو ناتوانی کی علامات سامنے آ جائیں اور لوگوں کے اذہان و قلوب میں امام کا مقام گر جائے ۔بہت اخراجات کیے اور متعدد مرتبہ بڑے بڑے علمی مناظروں کے اہتمام و انتظام کیے، اس دور کے علمی مشاہیر اور مختلف مکاتب کے صاحبان نظر افراد کو مدعو کیا اورحضرت امام رضا علیہ السلام کے حضور علمی محافل کا انعقاد کیا۔سب سوالات کے جوابات خاندانِ نور کا علمی آفتاب اپنی خاص چمک دمک سے دے دیا کرتا تھا، لیکن امام علیہ السلام کے سوالات کے جواب دینے کےمرحلے میں جب مسلسل بڑے بڑے سر جھکتے نظر آتے تھے تو اپنے پرائے سب حضرت امام رضا علیہ السلام کی علمی فوقیت، برتری ،اعلمیت،اور افضلیت کے قائل ہو جاتے تھے۔اور اس طرح عالم آل محمد ۖ کا مبارک اور مقدس لقب ان حضرت کے ساتھ مخصوص ہو گیا ۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ منبرِ سلونی کے بے بدیل خطیب ''علی''کا یہ ''علی''فرزند اسی علم لدنی سے بہرہ مند تھا ۔جو حبیب خدا، خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وراثت میں آئمہ ہدیٰ کے پاس آ رہا تھا ۔خداوند منان کی بے پایان مہربانی و رافت کا اس مہربان امام علیہ السلام کی ذات با برکات سے اس قدر ظہور ہواکہ رئوف امام علیہ السلام کہلائے۔اور رافت کی وسعتوں نے نہ فقط انسان بلکہ تمام مخلوقات کو گھیر اور سمیٹ لیا ،اور اسی طرح ان حضرت کے دیگرالقاب کی صورتحال بھی ایسے ہی ہے کہ ہر ایک لقب خاص مناقب،اوصاف اور فضائل کی وسعتوں کو آستانِ رافت کے شمس الشموس سے مخصوص کر رہا ہے۔
حیات طیبہ: حضرت امام رضاعلیہ آلاف التحیہ والثناء کی ولادت با سعادت اور دلسوز شہادت کی تاریخوں کے باب میں مشہور اقوال (١٤٨،٢٠٣ھ.ق) کے مطابق آنخضرت کی حیات طیبہ ٥٥ برس پر مشتمل ہے۔
علامہ حلی کی ایک کتاب کے حاشیے میں محقق محترم نے ان حضرت کی حیات طیبہ ٥٤ برس،تین ماہ اور انیس دن لکھی ہے۔ (11)
والد بزرگوار کے ساتھ زندگی : تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام تقریباََ ٣١ برس اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ رہے ۔حضرت امام موسیٰ کاطم ١٧٩ھ.ق میں اسیر ہوئے۔
مدت امامت : آپ کے والد بزرگوار ساتویں برحق امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام ٢٥ رجب ١٨٣ ھ.ق کو بغداد میں شہید کر دیے گئے اور انکی وصیت کے مطابق حضرت امام رضاعلیہ السلام نے منصب امامت سنبھالا۔ اور ٢٠ سال تک سختاوضاع اور احوال میں فرائض امامت انجام دیے۔
انگوٹھی کا نقش: بحار الانوار میں اصول کافی سے منقولہ روایت میں ذکر ہے کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں: نقشخاتمی''ما شا ء اللہ لا قوة الا با للہ ''یعنی میری انگوٹھی کا نقش ''ماشاء اللہ لا قوة الا با للہ''ہے ۔ (١٢)
بحار الانوار میں عیون اخبار الرضا علیہ السلام سے نقل ہے کہ ان حضرت کی انگشتری کا نقش ''ولی اللہ''تھا۔ (١٣)
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرت کو جو انگوٹھی اپنے والد بزرگوار کی طرف سے عطا ہوئی اس کا نقش ''حسبی اللہ'' تھا۔ (١٤)
بحار الفضائل کی اجمالی سیر:
بحار الفضائل سے مراد ''فضیلتوں کے سمندر ''ہے ۔خداوند متعال کی برگزیدہ،پسندیدہ اور منتخب ھستیوں کے علاوہ فضائل و کمالات کے سمندر وں کے مالک اور کون ہو سکتے ہیں!!
این سعادت بزور بازو نیست |
تا نبخشد خدائے بخشندہ |
خداوند منان و ہی کنز مخفی اور پوشیدہ خزانہ ہے کہ جس نے جب اپنی معرفت و عرفان کی دولت و ثروت پھیلانا چاہی تو اس اولین اور مقدس ترین مخلوق کو خلق فرمایا۔ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم خداوند متعال کی اس قدر حبیب ہستی ہے کہ کون و مکان میں ان کی مثال نہیں ملتی۔
بعد از خدا بزرگ توئی،قصہ مختصر
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قدر فضائل و کمالات اور مناقب و معجزات اس لیے ہیں کہ وہ خود قرآن کریم کی آیت مباھلہ کی روشنی میں (....وانفسنا وانفسکم.....)نفسِ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اور غدیر کے ناقابل انکار حقائق کی رو سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بلا فصل خلیفہ، وارث،وزیر اور جانشین ہیں، ولی خدا ہیں، وصی رسول خدا ہیںخانہ زاد خدا ہیں،داماد رسول ھدیٰۖ اور شوہر نامدار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ قرآن ناطق ہیں جنکی مدح و ثناء سے قرآن صامت بھرا ہوا ہے ۔ایسے آفتاب حقیقت تاب ہیں جن کے فضائل کی شعاعوں کو دشمنوں نے بغض و حسد کی بناء پر اور اکثر دوستوں نے ناموس و جان کے خوف کی وجہ سے ظاہر نہ ہونے دینے کی کو ششیں کیں لیکن پھر بھی مخالف و موافق کتب میں جس قدر اس ہستی کے فضائل ملتے ہیں، کسی اور کے نہیں ملتے۔ابو الائمہ اور امیر المومنین ہونا انھیں کے جملہ فضائل میں سے ہے ۔
رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اکلوتی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا فضیلتوں کے جہان کی وہ اکلوتی خاتو ن ہیں جنھیں ذات اقدس نے اس قدر فضائل و کمالات سے نوازا کہ جب بھی اپنے بابا ،انبیاء کے سرور و سردار ،حبیب خدا حضرت احمد مختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حضور حاضر ہوتیں تو وہ ہستی جو بعد از خدا بزرگترین ہستی ہیں، اپنیجگہ چھوڑ دیتی،انتہائی احترام فرما کر ،کھڑے ہو کر ،پیشانی چوم کر، اپنی جگہ پر بٹھاتے اور اس طرح جہاں خود بھی احکام الہی کو بجا لا کر اس ذات با برکت اور مطلق کمالات کے ہاں محبوب سے محبوب تر ہوتے ، وہاں اپنے ماننے اور چاہنے والوں کو بھی اپنی حرکات و سکنات سے بہت کچھ سمجھادیتے تھے، حضرت صدیقہ کبری،مریم کبریٰ،حبیب خدا ،ولیتہ اللہ ، ناموس خدا کے فضائل کے سمندروں سے یہ ایک قطرہ ہیں ۔بطور اشارہ متعارف کروادینا اس مختصر تحریر میں کفایت کرتا ہے کہ حجت خدا ابو الحجةحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مشہور فرمان ذیشان اس بی بی کے عظمت کے بیان میں یوں ملتا ہے کہ ''ہم خدا وند کی طرف سے خلق خدا پر حجت ہیں اور ہماری ماں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاخداوند کی جانب سے ہم پر حجت ہیں ۔''اور شہنشاہ دوراں حضرت امام زمان علیہ السلام کا یہ عالیشان فرمان کس قدر اعلیٰ الہیٰ حقایق کا عمدہ ترجمان ہے کہ حضرت بقیةاللہ الاعظم علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :''لی فی ابنة رسول اللہ اسوة حسنة''یعنی میرے لیے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیدختر نیک اختر کی ذات با برکت میں اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل ہے ۔
حسنین شریفین علیہما السلام کا بحار فضائل سے یہی متعارف کروا دینا کفایت کرتا ہے کہ حبیب خدا، علی مرتضیٰ اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جیسی محبوب خدا ہستیوں کے زیر سایہ اور ان کی مقدس ترین آغوش میں پلے بڑھے ، مدینے کی گلیاں آج بھی گواہ ہیں کہ انبیاء و رسل کے سرور و سالار اپنے شانوں پر سوار کر کے گھماتے پھراتے تھے ۔جب کہنے والا کہتا ہے کہ سواری کتنی پیاری ہے تو ناراض ہو کر جواب میں فرماتے ہیں کہ ذرا دیکھو کہ سوار بھی کتنے پیارے ہیں ۔جن کے بارے میں وحی الھی کی مطابقت میں جنبش و حرکت میں آنے والی لسان مبارک سے یہ فرمان جاری ہوا کہ ''حسن اور حسین علیہ السلام چاہیں قیام کریں یا بیٹھ جائیں،ہر حال میں دونوں امام ہیں ۔''یعنی ان کی صلح اور جنگ،سب امور خداوند متعال کی مرضی اور اس کے احکام کے عین مطابق ہیں۔اور جن کے بحار فضائل کی بعض امواج کے اس نکتئہ اوج کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہے کہ رسالت کی زبان مبارک سے یہ حدیث شریف صا در ہوئی اور اغیار و ابرار سب نے لکھی کہ حضور ۖ نے فرمایا :الحسن والحسین سید شباب اھل الجنة' یعنی حسن و حسین علیھا السلام دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔''وابو ھما افضلھما''اور ان کے والد گرامی کا مرتبہ ان دونوں سے بھی بالاتر ہے۔
یہ ہستیاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وراثت رکھنے کی مناسبت سے بیکران اور بے پایان فضائل و کمالات کی مالک ہیں، اس وراثت کا یہ سلسلہ جب پنچتن علیہ السلام سے آگے بڑھتا ہے تو حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مایہ ناز فرزند ارجمند حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نظر آتے ہیں۔جن کے زین العابدین اور سید الساجدین کے القاب اور صحیفہ سجادیہ کی نایاب دعاوں کا ایک ایک انقلاب بخش باب ان کا تعارف کروا رہے ہیں،جو خود بیماری برداشت کرتے رہے لیکندین خدا کو تندرست و شفایاب کر دیا،ان کے بعد انھیں فضائل و کمالات کی امانات کی بے مثال وارث حجرت امام محمد باقر علیہ السلام ہیں جنہوں نے کم سنی کے عالم میں اپنے والد بزرگوار او حضرت نے جد نامدار کے قدم بقدم مدینہ سے لے کر کربلا تک کے سختو صعب مراحل عبور کیے۔کربلا سے کوفہ اور پھر کوفہ سے شام تک کی تمام کٹھن منزلیں کمسنی کے باوجود لغزش ایجاد نہ کر پا ئیں ۔جنہوں نے خداوند علیم کے علم کے خزانوں کو شکافتہ فرمایا،اور یہ وراثت ایسے فرزند ارجمند کو منتقل فرمائی جنہیں کائنات مذہب حق کے رئیس و سربراہ کے عنوان سے پہچانتی ہے اور عوالم کے ذرات حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات بلند صفات کی عظمتوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں ۔یہ شیعہ مذہب انھیں کے نام نامی سے متعارف ہوتا ہے۔
یعنی ایسے امام علیہ السلام جن کی انتھک محنتیں اور ہمہ وقت و ہمہ گیر کاوشیں اس نقطہ اوج پر دکھائی دے رہی ہیں ،کہ مذہب حق کا تعارف بن گئے۔ خداوند متعال نے اپنی اس حجت کو ایسا فرزند عطا کیا کہ جس کے بارے میں اس طرح سے فرماتے تھے کہ مجھے اپنی تمام اولاد میں سے اپنے اس فرزند ارجمند ''موسیٰ کاظم''(علیہ السلام) سے اس قدر شدید دلی محبت ہے کہ اولاد میں سے کسی اور سے اس قدر محبت نہیں ہے ۔
فضائل و کمالات کے سمندروں کے اس مالک نے بھی راہِ خدا میں کیا کیا صعوبتیں برداشت نہیں کیں ،اسیر بغداد مشہور ہو گئے۔ ایک زندان سے دوسرے ،دوسرے سے تیسرے ...میں لائے گئے حتی کہ سندی بن شاہک یہودی ملعون کے ذریعے خلیفہ وقت نے مسموم کروایا ۔باب الحوائج،حجت خدا حضرت امام موسیٰ کا ظم علیہ السلام کی ناقابل فراموش مظلومیت کی ٢٥ رجب کی تاریخ کسی مومن کے صفحہ ذہن سے ایک لحظہ کے لیے بھی محو نہیں ہو سکتی۔جس تاریخ کی تلخ ترین یادیں جہاں پُل بغداد کو نہیں بھول سکتیں وہاں اس غریب الوطن کے حقیقی وارث حضرت امام رضاغریب الغرباء علیہ السلام کو بھی آج تک رُلا رہی ہیں۔جنہوں نے اپنے غریب حجت خدا والد بزرگوار کی تغسیل،تکفین، اور تدفین و نماز کے مشکل ترین مراحل انجام دیے۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام خود بھی دل کی گہرائیوں سے اپنے حجت خدا فرزند ارجمند حضرت امام رضا علیہ السلام کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ اور جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی غریب الغرباء سے محبتکے بارے میں ان کی یہ حدیث شریف نقل فرماتے تھے ۔''میرے والد بزرگوار فرماتے تھے کہ عالم آل محمد حضرت امام رضا علیہ السلام آپ سے ہوں گے، اے کاش میں انھیں درک کر لیتا ۔بے شک وہ حضرت امیر المومنین کے ہمنام ''علی''سے ہوں گے۔(١٥)
اس پاک و پاکیزہ خاندان کی ایک کے بعد ایک معصوم فرد خداوند متعال کی جانب سے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وراثت میں حقیقی کمالات و فضائل کے ان اعماق کے مالک ہیں۔ جن کی ظاہریحد تک اجمالی اور سطحی طور پر بھی خاکی انسان کی کما حقہ رسائی نہیں ہو پاتی ۔بغیر کسی خلیج و فاصلے کے یہ سمندر ہے کہ جو بعد دیگرے ہر دور اور ہر زمانے میں جاری و ساری ہے اور ان کا پاک و پاکیزہ پاکیزگی بخش سفر کمال مطلق کی طرف رواں دواں ہے۔ زمین بلکہ کون و مکان اور کائنات کا مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب،جہاں بھی کوئی بھی فضیلت نظر آتی ہے اس کا سر چشمہ یہی ذوات با برکات ہیں۔ چاہے ان کا پہلا ہو ، وسطی ہو یا آخری،یہ چودہ کی چودہ ہستیاں اسی کمال مطلق کے عشق میں رواں دواں اور فانی ہیں، ان میں سے ایک کا انکار سب کے انکار کا حکم رکھتا ہے اور سب کا اقرار کرتے ہوئےکسی ایک کے کردار یا گفتار کو مشعل راہ قرار دینا سب کی اتباع و پیروی شمار ہوتی ہے ۔
خداوند منان کی طرف سے توفیق رفیق رہنے کی صررت میں انیس النفوس،شمس الشموس،غریب طوس، راہِ ہُدی ٰ حضرت امام رضا علیہ الیف التحیة والثناء کے فضائل کے سمندروں سے بحسب توفیق چند قطروں سے اجمالی طور پر معطر ہونے کی کوشش و کاوش ہے۔
آب دریا را اگر نتوان کشید
ہم بقدرِ تشنگی باید چشید
منابع و مدارک
(1) منتھی الامال یک جلدی صفحہ ٩٠٢
(2) ایضاََ
(3) منتھی الامال صفحہ ٩٠٢
(4) تقویم الشیعہ صفحہ ٢٦٧ از قلائد النحور ج شوال ص ١٣٩، جنات الخلور ص ٢٧،مستدرک سفینت البحار
(5) ج ٦و صفحہ ٦٦، کافی ج٢ و ص٣٧٧، ارشاد ج٢ و ص ١٨٠
(6) تقویم الشیعہ ص٢٧٤ از فیض العلام ص ١١٩،بحار ج ٤٩ و ص ٣٠٤
(7) منتھی الامال ص ٩٦٤،٩٦٥
(8) (7)ایضاََ ص ٩٠٣ ، ٩٠٤
(9) تقویم شیعہ ص ٢٧٥ ، منتھی الامال ص ٩٠٣
(10) بحار الانوار ج ٤٩ ، ص ١٠
(11) منتھی الامال ص ٩٠٣، بحار ج ٤٩ ص ١٠
(12) نگاہی بر زند گی دوازدہ امام علیہ السلام (مترجم : محمدی اشتہاردی )ص ٢٣٧
(13) بحار الانوار ج ٤٩ ص ٢ ، منتھی الامال ص ٩٠٥
(14) ایضاََ ص٧
(15) منتھی الامال ص ٩٠٥
فائل اٹیچمنٹ: