امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کا ثواب اور فضیلت
مترجم: سید لیاقت علی
معصومین علیہم السلام کی زیارت کی فضیلت میں بہت ساری روایات پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہلبیت علیہم السلام سے مروی ہیں جو اگر نہ بھی ہوتیں تب بھی مؤمنین سیرت معصومین علیہم السلام کو دیکھتے ہوئے والہانہ انکی زیارت پر کمربستہ نظر آتے، اس سے قطع نظر ہم یہاں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت اورزیارت کے آداب کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کو قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
1۔حضرت امام رضا علیه السلام کی زیارت کا ثواب حج کے برابر
حضرت امام رضاعلیه السلام سے جناب شیخ طوسی نقل کرتے ہیں کہ امام علیه السلام فرماتے ہیں:
سرزمین خراسان پر ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں ایک زمانہ ایسا آئیگا جب وہ جگہ فرشتوں کی آمد و رفت اور انکے طواف کا مرکز قرار پائیگی جب تک کہ قیامت آن پہنچے اور صور پھونک دیا جائے اور اسکے بعد قیامت بالکل ہی آجائے۔
پوچھا گیا: اے فرزند رسول! وہ جگہ کونسی ہے: فرمایا:
وہ جگہ سرزمین طوس پر ہے، خدا کی قسم ! وہ زمین بہشت کے باغوں کا ایک ٹکڑا ہے، جو بھی میری اس جگہ زیارت کریگا گویا ایسا ہی ہے کہ اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کی اور اس زائر کے لئے ہزار مقبول حج اور ہزار مقبول عمرہ کا ثواب لکھا جائیگا اور میں اور میرے آباء و اجداد روز قیامت اسکی شفاعت کرنے والے ہونگے (1)۔
ایک دوسری روایت میں بزنطی کہتے ہیں:حضرت امام رضا«علیه السلام» کا ایک خط میں نے پڑھا جس میں تحریر تھا:
ہمارے شیعوں کو اطلاع دو کہ میری زیارت ہزار حج کے ثواب کے برابر ہے ۔
بزنطی کہتے ہیں کہ امام جواد«علیه السلام» سے میں نے تعجب خیز لہجے میں پوچھا : ہزار حج کے برابر؟ امام «علیه السلام»
نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں بالکل : خدا کی قسم جو کوئی آپؑ کی زیارت کرے اس حالت میں کہ انکے حق کی معرفت رکھتا ہو اسکے لئے ہزار ہزار حج (ایک ملین حج )کا ثواب ہے (2)۔
ایک اور روایت کے مطابق امام موسی بن جعفر «علیه السلام» فرماتے ہیں:
جو کوئی میرے فرزند علی «علیه السلام» کی زیارت کرے اسکا ثواب ستّر مقبول حج کے برابر ہوگا۔
مازنی کہتے ہیں میں نے تعجب بھرے لہجے میں پوچھا: ستّر حج ؟ فرمایا: ستّر ہزار حج۔
میں نے عرض کیا : انکی زیارت کا ثواب ستر ہزار حج کے برابر ہے ؟ فرمایا: ہاں بیشک! بہت سارے حج بارگاہ خدا میں قبول نہیں ہوتے، جو کوئی میرے بیٹے علی کی زیارت کرے اور ایک رات وہاں ٹھہرے گویا ایسا ہی ہے کہ اس نے خدا کی عرش پر زیارت کی ہے (3)
یہ روایات آپس میں کسی طور ناسازگاری نہیں رکھتیں؛ کیونکہ کچھ روایات واضح طور پر یہ عیاں کرتی نظر آتی ہیں کہ امام کاظم، امام رضا اور امام جواد علیہم السلام کے مخاطبین اتنی ظرفیت نہیں رکھتے تھے کہ وہ آپؑ کی زیارت سے حاصل ہونے والے ثواب کے بوجھ کو سنبھال سکیں اور اس میں پوشیدہ راز کو کما حقہ سمجھ سکیں اسی لئے امام علیه السلام نے انکی ظرفیت کو ملاحظہ کرتے ہوئے مختلف مقامات پر زیارت کے مختلف اجر و ثواب کا تذکرہ فرمایا ہے کیونکہ وہ لوگ زیارت کا ثواب سنتے ہی تعجب میں پڑ جاتے تھے، اسی طرح یہ روایات یہ بھی واضح کرتی نظر آتی ہیں کہ یہ اجر وثواب ہرکسی کی قسمت میں نہیں ہے بلکہ اسے ہی ہزار ہزار حج کا ثواب مل سکتا ہے جو آپؑ کی معرفت کے ساتھ اور انکے حقوق کو پہچانتے ہوئے زیارت کرے۔
2۔ نشاط و شادابی
امام رضا«علیه السلام» کی قدسی اور ملکوتی بارگاہ میں جو لوگ ذوق و شوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں انہیں بہت سارے مختلف فائدے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ پاکیزہ حرم اور دلوں کو اپنی جانب کھینچنے والا وہ مقام معنویت سے سرشار ہے اور اس کا جلوہ اس قدر زائر کو اپنی جانب متوجہ کرتا چلا جاتا ہے کہ ہر زائر اپنی بساط بھر اس سے فیضیاب ضرور ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں زائر کا غم و اندوہ کافور اور خوشی و نشاط کی محفلیں زائر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں، پیغمبر اعظم - صلی اللَّه وعلیه وآله – فرماتے ہیں:
میرے جسم کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن کیا جائے گا، غم و اندوہ میں مبتلا ہر وہ شخص جو اس کی زیارت کرے خدائے عز و جل اسکے غموں کو دور کردیگا، اور ہر گنہگار جو اسکی زیارت کو جائے خدا اسکے گناہوں کو بخش دیگا۔(4)
3۔ گناہوں کی بخشش
سرزمین طوس اور جہاں پر فرزند فاطمہ - علیہاالسلام –مدفون ہیں ایسی گران بہا سرزمین ہےکہ جس پر بہشت کی خاک حسرت بھری نگاہوں سے تکتی ہے اور جسکی زیارت کے لئے فرشتے گروہ در گروہ نازل ہوتے ہیں حرم مطہر کی الٰہی اور معنوی فضا کچھ ایسی ہے کہ زائرین کی روح آب کوثر کے صاف ستھرے پانی سے دھلتی نظر آتی ہے جس سے گناہوں کی میل کچیل صاف ہوجاتی ہے، حقیقت حال یہی ہے کہ جو لوگ خلوص نیت کے ساتھ اسی بابرکت سرزمین پر قدم رکھتے ہیں خدائے عزوجل انکے جسموں سے ذلت و معصیت کا پیراہن اتار پھینکتا ہے اور گناہوں کے سنگین بوجھ سے انہیں رہائی دلادیتا ہے۔
اس نکتہ کی طرف متعدد روایات میں اشارہ کیا گیا ہے، امام جواد- علیه السلام –فرماتے ہیں:
جو کوئی میرے والد کی طوس میں زیارت کرے خدا اسکے گذشتہ و آئندہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔(5)
وشاء کہتے ہیں: علی بن موسیٰ الرضا - علیه السلام –نے اپنی قبر کی زیارت کی فضیلت کے سلسلے میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ:
عنقریب ہی میں ظلم وستم کے ساتھ زہر کے ذریعہ قتل کیا جاؤوں گا، جو کوئی میری زیارت کو آئیگا اور میرے حق کو پہچانتا بھی ہوگا، اسکے گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو پروردگار بخش دیگا(6)
4۔نجات و فریادرسی
قیامت کے حولناک عالم میں جب کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا حضرت امام رضا - علیه السلام – اپنے زائرین کی نجات کے لئے حاضر ہونگے اور انکی فریاد پر لبیک کہینگے۔
حمدان دیوانی اس سلسلے میں حضرتؑ سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
جو کوئی دور ہونے کے باوجود میرے مقبرہ کی زیارت کو آئے، روز قیامت تین جگہوں پر میں اسکی دستگیری کرونگا اور قیامت کی حولناکی سے اسے نجات دونگا، جب لوگوں کے نامۂ اعمال انکے دائیں اور بائیں ہاتھ میں دیئے جائینگے، جب پُل سے گذرنے کا وقت ہوگا، میزان کے سامنے(7)۔
5۔ شفاعت
روز قیامت ہر انسان کو اپنے کئے کا حساب دینا ہی ہوگا اس سخت ترین مرحلہ پر اولیائٔ الٰہی کی شفاعت ہی ہمارے کام آسکتی ہے ورنہ ایسا کوئی نہیں جو ہمیں اس حولناک مرحلہ سے بچا لے جائے ۔
بزنطی روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیه السلام سے میں نے سنا کہ آپؑ فرمارہے تھے: میرے چاہنے والوں میں سے جوکوئی میری زیارت کرے جبکہ وہ میرے حق کو پہچانتا بھی ہو روز قیامت میں اسکی شفاعت کرونگا (8)
ایک دوسری روایت میں آپؑ سے حسن بن فضال نقل کرتے ہیں:
میں زہر دئے جانے کے ذریعہ قتل کیا جاؤونگا اور مجھے غربت میں دفن کیا جائے گا میں یہ بات اپنے والد کے توسط سےجانتا ہوں کیونکہ وہ اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب اور انہوں نے رسول خدا صلی الله علیه و آله سے یہ بات مجھ تک پہنچائی ہے، جان لو کہ جو کوئی میری غربت میں اور میری وطن سے دوری میں میری زیارت کو آئے، میں اور میرے والد روز قیامت اسکے شفیع ہونگے اور جس کے ہم جیسے شفیع ہوں اسکے سارے گناہ چاہے و تمام جن و انس کے برابر ہی کیوں نہ ہوں بخش دیئے جائیں گے(9)
ایک اور روایت کے مطابق ہروی کہتے ہیں:حضرت امام رضا - علیه السلام –اس جگہ پہنچے جہاں ہارون دفن تھا امام علیه السلام نے اپنے دست مبارک سے اسکے کنارے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا:
یہ میری تربت ہے اور یہیں پر میں دفن کیا جاؤونگا، خداوند متعال اس جگہ کو ہمارے چاہنے والے اور شیعوں کی آمد وشد کی جگہ قرار دیگا، خدا کی قسم انمیں سے جو کوئی میری زیارت کریگا یا مجھ پر سلام بھیجے گا وہ ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کے لطف و عنایت کا حقدار ہوگا ۔(10)
6۔دوزخ کی آگ سے نجات
دوزخ کی دہشت قابل بیان نہیں ہے ایسی صور ت میں بھی حضرت امام رضا علیه السلام کے زائرین جہنم کی جلتی آگ سے محفوظ ہونگے۔
حضرت عبد العظیم حسنی کہتے ہیں کہ میں امام ہادی - علیه السلام – کو فرماتے سنا:
قم کے لوگ بخش دیئے گئے ہیں کیونکہ وہ لوگ طوس میں ہمارے جد علی بن موسی الرضا علیه السلام کی زیارت کو جاتے ہیں، یادرکھو!جو بھی انکی زیارت کو جائیگا، اور طوس کی جانب سفر کرتے ہوئے ایک قطرہ بھی آسمانی مشکل اس پر پڑتی ہے یہاں تک کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی زحمت و مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کا جسم جہنم پر حرام ہوجائے گا(11)
7۔ بہشت کا وعدہ
بہشت کا حصول ہرایک کی دلی خواہش ہے جبکہ امام رضا علیه السلام کی معرفت کے ساتھ زیارت بہشت کے دروازوں کی چابی ہے۔
رسول خدا- صلی الله علیه وآله – فرماتے ہیں:
’’اوجب الله عزوجل له الجنة‘‘ جو بھی انکی زیارت کرے خداوند اس پر جنت واجب کردیتا ہے۔(12)
امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے منقول ہے: فله الجنة یعنی جو کوئی میرے بیٹے کی زیارت کرے اسکے لئے بہشت ہے(13)
امام جواد علیه السلام فرماتے ہیں: ضمنت لمن زار قبر ابی بطوسٍ عارفاً بحقه الجنة علی الله تعالی (14) میں اس شخص کے لئے بہشت کا ضامن ہوں جو جو میرے والد بزرگوار کی معرفت کے ساتھ طوس میں زیارت کرے۔
عبد العظیم حسنی امام جواد علیه السلام سے نقل فرماتے ہیں: الجنة واللَّهِ خدا کی قسم اسکے لئے بہشت ہے جو میرے والد کے قبر کی زیارت کرے۔(15)
حضرت امام رضا علیه السلام فرماتے ہیں: جو کوئی اس دیار غربت میں میری زیارت کرے خدا اسے ہمارے ساتھ محشور فرمائے گا اور اعلیٰ درجات پر ہمارے ساتھ ہوگا(16)
8۔ روز قیامت ایک خاص منزلت
جو کوئی امام رضا علیه السلام کی زیارت کرے گا روز قیامت اس کے لئے رسول خدا صلی الله علیه وآله و سلم کے پہلو میں منبر لگایا جائےگا یہاں تک کہ خداوند مخلوقات کا حساب و کتاب کرلےگا(17)
راوی کہتا ہے کہ میں نے ایوب بن نوح کو دیکھا کہ وہ آپؑ کی زیارت کر رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’منبر کے حصول کے لئے آیا ہوں‘‘۔
9۔ مجاہدین اور شہداءکا ثواب
امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں: ہمارا ایک فرزند سرزمین خراسان کے ایک شہر طوس میں شہید کیا جائے گا، ہر کوئی کہ جو اسکے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرےگا قیامت کے دن میں اس کا مددگار ہونگا اور اسے بہشت میں داخل کروں گا، اگرچہ اسکا نام گناہ کبیرہ انجام دینے والوں کی فہرست میں ہی کیوں نہ ہو، جو کوئی اسکی زیارت کرے اور اسکے حق کو پہچانتا بھی ہو ، پروردگار اسے ستّر شہداء کے برابر کہ جو ایمان کے ساتھ بصیرت کے ہمراہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں،ثواب عنایت فرمائے گا(18)
اسکے علاوہ بہت سارے مادی و معنوی نیز ظاہری و باطنی فوائد کے حصول کی طرف احادیث و روایات میں اشارہ پایا جاتا ہے تفصیلات کے لئے احادیث و روایات کی کتب کی جانب مراجعہ فرمایا جائے۔
منابع و ماخذ:
(1) بحار الانوار، ج 101، ص 367 و33.
(2) من لایحضره الفقیه، ج 2، ص 349؛ تهذیب، ج 6، ص 85
(3) کافی، ج 4، ص 585؛ تهذیب، ج 6، ص 85؛ بحارالانوار، ج 101، ص 43
(4) وسائل الشیعه ج10 ص437
(5) کافی، ج 4، ص 585.
(6) عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 26: بحارالانوار، ج 101، ص 28.
(7) بحار الانوار، ج 101، ص 40
(8) امالی، صدوق، ص 119
(9) بحارالانوار، ج 101، ص 35
(10) من لایحضره الفقیه،ج 2، ص 585
(11) عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255
(12) عیون اخبارالرضا، ج 2، ص 256
(13) جامع احادیث الشیعه، ج 15، ص 357.
(14) جامع احادیث الشیعه، ج 15، ص 357.
(15) وسایل الشیعه، ج 14، ص 556
(16) من لایحضره الفقیه، ص 585
(17) کامل الزیارات، ص 920
(18) بحارالانوار، ج 102، ص 35.
فائل اٹیچمنٹ: