20 جولائی 2018 کو حجت الاسلام والمسلمین مولانا سید حسینی کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کی گئی۔
آپ نے فرمایا کہ امام سجاد علیہ السلام نے صحفہ سجادیہ کی بیسویں دعا میں ارشاد فرمایا ہے کہ متقی اور پرہیز گار لوگوں کی کچھ صفات ہوتی ہے ان میں سے تین صفات کو ہم نےگزشتہ نمازجمعہ کے خطبوں میں ذکر کیا ۔ اور چوتھی صفت یہ ہے کہ متقی انسان آپنے رشتہ داروں کے درمیان صلح کراتے ہیں ۔
دین مبین اسلام کے بھی بہت ساری صفات اور خصوصیات ہے جن میں سے سب سے پہلی اور بنیادی صفت یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر ایمان لانا ہوگا کہ سب اللہ کی طرف سے ہےاور دوسری صفت یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اور اسلام کی تیسری صفت یہ ہے کہ ان مخلوقات کو خالق نے کسی مقصد کے لیئے خلق فرمایاہے۔
خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا کہ -وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (56) – کہ میں نے جن اور انس کو صرف عبادت کے لیئے خلق کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مخلوقات کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہے یا نہیں مخلوقات کو خلق کرنے کا مقصد کچھ اور بھی ہے ۔ علامہ طباطبایی نے آپنے کتاب تفسیر المیزان میں فرمایا کہ خلقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عبد بنے یہ خالق کا مقصد نہیں ہے۔
عبودیت کیا ہے؟
علامہ شہید مرتضی مطہری فرماتے ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ عبدبنے تو اسے چاہئے کہ ان پانچ چیزوں پر قابو پائیں ۔
1: نفس کو آپنے قابو میں رکھے۔
2: آپنے خیالوں کو آپنے قابو میں رکھے۔
3: یہ کہ بندہ خود کو اس مقام تک پہنچائیں کہ آپنے روح کو آپنے بدن سے جدا کر سکے ۔
4: یہ کہ آپنے اندر جو تبدیلی لانا چاہئے تو لا سکے ۔
5: یہ کہ اگر دنیا میں اگر کوئی تبدیلی لانا چاہئے تو لا سکے ۔
جیسا کہ آیت اللہ بہجت کے بیٹے نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آیت اللہ بہجت آپنے نواسے کے ساتھ کسی عالم دین کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیئے تشریف لے گئے، تو جانے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا اور جب واپس آنے لگے تو آیت اللہ بہجت کے نواسے نے عرض کیا کہ میں تھک چکا ہو ، اگر ہو سکے تو ٹیکسی لے لے کہ جو ہمیں گھر پہنچا دے ۔ آیت اللہ بہجت نے فرمایا کہ جب ہم نجف اشرف میں ہوتے تھے تو ہم آپنےپاؤں پر قرآن کی آیت لکھتے تھے تو پھر ہمارے لیئے زمین گھٹ جاتی تھی اور بہت جلدہم آپنے منزل پر پہنچ جاتے تھے۔
بس یہی دو تین باتے کی اور وہ دونوں گھر پہنچ گئے ۔
اس کرامت کو دیکھ کر وہ بچا برداشت نہ کر پایا اور بیمار پڑ گیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آیت اللہ بہجت کا باہر کی دنیا پرتسلط رکھتے تھے۔
آب سوال یہ ہے کہ کیا عبادت ہی مقصد تخلیق ہے ؟
علامہ طبا طبایی فرماتے ہے کہ نہیں بلکہ مقصد تخلیق اس بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ جسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ عبادت کرو تاکہ متقی بن سکو۔ اور آگے فرمایا کہ متقی بنو تاکہ کامیاب ہو جاؤ۔
لہذا اللہ تعالی یہ چاہتا ہے کہ ہمیں ان تمام مراحل سے گزار کر کامیانی اور کامرانی سے ہم کنار کر دے ۔
مولانا صاحب نے دوسرے خطبے میں فرمایا کہ
امام سجاد علیہ السلام نے اسی بیسویں خطبے میں فرماتے ہیں کہ صفات متقین میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ معروف کو پہلاتے ہے ۔ آچھے کاموں کو پہلاتے ہیں۔
جیسے کہ نماز جمعہ میں شرکت کرنے کے ذریعے اس معروف کو عام کرنا۔
اور پھر ذی القعدہ مہینے کی مناسبات کی طرف ایشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
1: ماہ ذی القعدہ ان مہینوں میں سے ہے جسکو ماہ حرام کہا جاتا ہے کہ جس میں جنگ حرام ہے۔
یہاں پر مرحوم علامہ تبریزی صاحب نے کیا خوب فرمایا کہ ان مہینو ں میں کافروں سے بھی لڑنا حرام ہے تو پھر کیسے ہم خدا سے لڑتے ہے جان لے کہ اللہ کی عبادت نہ کرنا ایسا ہے کہ جیسا ہم خدا سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔
2: بات یہ کہ اگر ان مہینوں میں کسی نے جمعرات جمعے اور ہفتے کو روزہ رکھا تو گویا اس نے 900 سال عبادت کی ۔
3: قضا نماز یا قضا روزے اگر کسی پر ہے تو وہ آپنے قضا کی نیت کریں۔
4: اس مہینے کی پہلی تاریخ منسوب ہے حضرت معصومہ(س) کے ساتھ اور اسکی چھٹی روزہ منسوب شاہ چراغ احمد ابن موسی کاظم (ع) کے ساتھ اور گیارہویں روز منسوب ہے حضرت امام رضا (ع) کے ساتھ۔
حضرت محمد مصطفی (ص) نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے اھل بیت کی محبت ساتھ جگوں میں کام آئے گا
1: جنکدن کی وقت ۔ 2: جب قبر میں رکھا جائےگا۔ 3: جب قبر سے اٹھایا جائے گا۔ 4: عمل نامہ دیتے وقت ۔ 5:حساب اور کتاب کے وقت۔ 6: اعمال وزن کرتے وقت۔ 7: صراط المستقیم سے عبور کرتے وقت۔
امام جواد علیہ السلام کی زمانے میں ایک شخص حج بیت اللہ سے مشرف ہوا اور اسی طرح نجف کربلا کاظمین اور زیارت امام رضا (ع) سے بھی مشرف ہوا تو آیندہ سال اسکا مالی حالت اور بھی بہتر ہو چکا تھا۔ تو امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ مولا آب اس سال مجھے حج پر جانا چاہئے یا زیارت امام رضا علیہ السلام پر؟
تو امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ زیارت امام رضا علیہ السلام پر جانا چاہئے کہ جو 70 مقبول حجوں کے برابر ہے راوی نے تعجب کیا اور کہا مولا 70 مقبول حج !
امام نے فرمایا کہ کہ ستر ہزار مقبول حج ۔ راوی کا تعجب اور بڑھ گیا اور عرض کیا 70 ہزار مقبول حج!
امام نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی حج کے لیئے جائیں لیکن اسکا حج اس سے قبول نہ ہو لیکن اگر زیارت امام رضا علیہ السلام کے لیئے کوئی گیا تو اسکو 70 ہزار مقبول حجوں کا ثواب ملے گا۔راوی کا تعجب بڑھتا رہا امام نے فرمایا کہ اگر کوئی اما م رضا علیہ السلام کی زیارت کرنے کے لیئے مشھد میں ایک رات ٹہر گیا تو گویا اس نے عرش الہی پر اللہ تعالی کا دیدار کیا۔
امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن اولین میں سے عرش الہی کے نیچے حضرت نو ح اور حضرت ابراھیم، حضرت عیسی اور حضرت موسی علیہم السلام اور آخریں میں سے حضرت محمدمصطفی (ص) اور حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت امام حسن اور امام حسین کو لایا جائیگا اور ایک پھر ایک حد مقرر کی جائیگی۔ اور ہم اہل بیت کے پیچے ہمارے زائرین ہونگے ان میں زائرین امام رضا علیہ السلام کا درجہ سب سے زیادہ ہوگا۔
فائل اٹیچمنٹ: