27 اپریل 2018 کو حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا موسوی فر صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ اداء کی گئی۔
آپ نے پہلے خطبے میں لوگوں کو تقوی اور پرہیزگاری کی نصیحت کی ۔
اور اس کے بعد سورہ اعراف کی 35 نمبر آیت (فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ۔(جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہو ں گے)
کے ذیل میں گفتگو فرمائی
آپ نے فرمایا کہ : کہ اس آیت کریمہ اور مبارکہ میں اللہ تعالی نے تقوی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے صفت کا بھی ذکر کیاہے کہ دوسرے مقامات پر تقوی کے ساتھ اس صفت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اور وہ صفت ہے اصلاح کرنا ۔
اب اصلاح سے کیا مراد ہے؟
اس بات کو واضح کرنے کے لیئے سب سے پہلے یہ عرض کرتا چلو کہ دنیا میں خوف اور حزن پایا جاتا ہے جب یہ خوف تعادل کی حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو یاس اور نا امیدی وجود میں آتی ہے مایوسی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔
لیکن اگر خوف اور خزن کو تعادل میں رکھا جائیں تو یہی خوف اور حزن انسان کے تکامل کاباعث بن جاتاہے۔
ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو اس میں خوف اور خزن متعادل مقدار میں موجود ہوتا ہیں اگر اس خوف اور حزن کودونوں کو اٹھا لیا جائے تو انسان لا پروا اور بے باک ہو جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یو کہا جائے کہ طاغوت بن جاتا ہے لیکن اگر یہی خوف اور حزن حد زیادہ بڑھا دیا جائیں تو انسان نا امیدی اور مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
تو سوال یہ ہے کہ اصلاح سے مراد کیا ہے؟ یہاں پر لفظ اصلاح کو بطور مطلق ذکرکیا گیا ہے یعنی اس میں کسی بھی فرد کو یا صداق کو معین اور مشخص نہیں کیا گیا ہے اور جب بھی شئی کو بطور مطلق ذکر کیا جائیں تو اس کا کامل ترین مصداق مراد ہوتا ہے۔
کیونکہ اصلاح اگر بطور مطلق ذکر ہو تو ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم کس کس چیز کی اصلاح کریں آپنے آپ کی اصلاح کریں ، آپنے معاشرے کی اصلاح کریں ، خانوادے کی اصلاح کریں ، دین اور مذھب کی اصلاح کریں ، ۔۔۔
لہذا ایسے صورت میں ہمیں اصلاح کی تمام تر صورتوں کو مد نظر رکھناہو گا۔
اب سوال یہ کہ اصلاح کی وہ مطلوب ترین صورت کونسی ہے۔ اور کامل ترین فرد اور مصداق کونسا ہے۔ کہ جس کی اصلاح سے ہم قرآن کے بیان کے مطابق ہم خوف اور خزن سے نکل آئیں گے۔
جہاں تک میری نظر ہے، تو اصلاح کے لیئے وہ کامل ترین فرد میں وہ فرد کہ جسکی حصول کے بعد انسان خوف اور خزن سے نکل آتاہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کی اصلاح کریں آپ دل کی اصلاح کریں آپنے انسانیت کی اصلاح کریں وہ انسانیت کہ جسکی وجہ سے انسان دوسرے موجودات سے الگ ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے دل اور عقل آپنے فکر اور روح کی اصلاح کرنی ہو گی۔ اور اس اصلاح کا مطلب یہ ہے ان سب کو اللہ کی وحدانیت پرقایل کرنا ہوگا۔
کیونکہ دین کی بنیاد وحدانیت خدا ہے جب خدا کی وحدانیت انسان میں کامل ہو جاتی ہے تو اس کا دین اور ایمان مکمل ہو جاتا ہے اور معاشرہ مکمل طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اور یہ دل پھر خلیفۃ اللہ بن جاتا ہے اور یہی دل پھر ہمیشہ کے ليئے زندہ رہ جاتا ہے۔ اور نتیجتا اس اس انسان کے لیئے پھر نہ خوف ہو گا اور نہ خزن ہوگا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
دوسرا خطبہ
مولانا صاحب نے دوسرے خطبے میں فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہیں کہ
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ (7) أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ (8) وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ (9) وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (10).... البلد۔
7- کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟
8- کیا ہم نے اس کے لیے نہیں بنائیں دو آنکھیں؟
9- اور ایک زبان اور دو ہونٹ؟
10- اور ہم نے دونوں راستے (خیر و شر) اسے دکھائے،
میں نے گذشتہ خطبوں میں اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ جہنم کے دروازے بند ہو جائیں اور جنت کے دروازے کھول دیا جائیں؟
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہیں کہ( لیس للانسان الاما سعی)۔ انسان کے لیئے دنیا اور آخرت میں صرف وہی سب کچھ ہوتا ہے کہ جسکے ليئے وہ کوشش کرتا ہےیعنی جو وہ خود کرنا چاہتاہے۔ پس اگر ایسا ہے تو ہمیں آپنے اوپر جنت کے دروازے کھول لینے چاہئے۔
اس جہان میں یا نور ہے یا روح یا ریحان ہے اوریا زکوم ہےیا آگ یا سانپ ہے اور بچھوں۔
انسانی اعضاء ایک لحاظ سے سات ہیں اور ایک دوسرےحساب سے اگر دیکھیں جائیں تو آٹھ ہے۔
حواس پنجگانہ غضب اور شہوت بس یہی سات جہنم کی دروازے ہیں اور اگر ان کے ساتھ عقل کو ملا دیا جائیں تو یہی اعضاء پھر جنت کی آٹھ دروازے بن جاتے ہے۔
یہ پنج اعضاء(آنکھ ، کان ، زبان، ناک ، اور محسوس کرنا) انسان میں اتنے اہمیت کے حامل ہے کہ اللہ تعالی نے ایسی کے ذریع انتقاد کیا ہے۔
7- کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟
8- کیا ہم نے اسے آنکھیں عطاء نہیں کی ؟
9- اور ایک زبان اور دو ہونٹ عطاء نہیں کیے؟
10- اور ہم نے دونوں راستے (خیر و شر) اسے دکھا دیے،
ان میں سے پھر زبان اور آنکھوں کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے اور اللہ تعالی انہی کا ذکر فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو ان دو بہت بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہے کہ آپنے دل کی اصلاح کریں اور ہمارا دل،قلب سلیم بن جائے تو سمجھ لے کہ دل ایک دریا یا ایک حوض کے طرح ہے اس حوض تین ندیوں سے پانی آ رہاہے۔
- پہلی ندی زبان: زبان سے اگر ہم اچھا ذکر کریں تو صاف پانی کی طرح دل میں چلا جائیں گا لیکن اگر جھوٹ، غیبت، تہمت وغیرہ ۔۔۔ لگائیں تو یہ پھر گندہ پانی ہے جو دل کے حوض میں چلا جائیگا۔ تو دل کا حوض اور دل کا (تلاب) گندہ ہو جائے گا اور در حقیقت اس طریقے سے ہمارا دل آلودا ہو جاتا ہے۔ اسطرح کا دل پھر سالم نہیں رہ جائیں گا۔
ایک مرتبہ لقمان حکیم کسی کے ہاتھوں اسیر ہو گئے اور اسیر کر نے والے نے اسے ایک تاجر کے ہاتھوں بیچ دیا اس تاجر نے جب لقمان حکیم کو دیکھا او را ن کی باتو ں کو سنا تو اسے لقمان حکیم سے بی پناہ محبت ہو گئی ۔ تو اس کے بعد وہ جو کچھ بھی کھانے کے لیئے لاتا تو آپنے ہاتھوں سے لقمان حکیم کو کہلاتا تھا۔
ایک مرتبہ تاجر نے تربوز لایا اور کاٹ کر لقمان حکیم کو کھلانے لگا لقمان حکیم بھی مزے سے کھاتے رہے اس نے سترہ ٹکڑے لقمان حکیم کو کھلائیں لقمان اتنے مزے سے کھاتے رہےکہ تاجر کے منہ میں پانی آنے لگا اورسوچھا کہ یہ ایک ٹکڑہ میں خود کھاؤں گا لقمان بولے بسم اللہ آپ ارباب ہے جیسے آپ بوليں گے۔
جب اس ارباب نے ایک ٹکڑا کھایا تو دیکھا کہ یہ تربوز تو بہت کڑوا ہے تو لقمان حکیم سے کہا کہ لقمان: میں آپ سے بی پناہ محبت رکھتا ہو یہ تربوز میں اس لیئے آپکو کھلاتا رہا کہ میں خود سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہو۔ تو پھر آپ نے مجھے بتایا کیو ں نہیں ؟ لقمان حکیم نے بولےکہ آپ میرے مالک ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھ سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہےتو ان باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ مجھے وہی کرنا چاہئے جو آپ بولیں۔
اب ہم اپنی حالت کو دیکھیں کہ جب ہم مریض ہو جاتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے نمازیں ترک ہو جاتے ہیں اورہم اللہ سے لڑتے ہیں لیکن لقمان حکیم اس بلند مقام تک پہنچے کہ اللہ انکے نام سے پوری سورت نازل فرما دی۔
زبان اللہ تعالی کے معجزات میں سے ایک ہےیہ سب کتابیں اور یہ اتنا سارا علم زبان کے لیئے ہیں
حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہے۔ کہ زبان کے انسان پر پنج حقوق ہیں
زبان کے حقوق کو ذکر کرنے سے پہلے یہ عرض کرتا چلو کہ بہت سے چیزوں کے ہم پر حقوق ہیں جیسے والدین بیوی بچیں وغیرہ۔۔۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ دین مبین اسلام کوقبول کرنے سے ہم پر پنج چیزوں کی حقوق واجب ہو جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے۔
1: قرآن 2: سیرت اور اخلاق پیغمبر خدا (ص) 3: جھاد اور ذوالفقار حضرت امام علی علیہ السلام۔ 4: مال اور دولت حضرت جدیجہ سلام اللہ علیھا۔5: حضرت ابو طالب علیہ السلام ۔
اگر یہ پنج نہ ہوتے اسلام نہ بچ پاتا۔
لہذا زبان کے پنج حقوق کو ذکر کرکے آج کے خطبے کو تمام کر تاہو۔
- زبا ن کا احترام کریں ۔ یعنی کہ زبان سے گالی گلوچ نہ کریں زبان سے غیبت یا جھوٹ نہ بولے ۔
- آپنی زبان کو آچھی باتو کی عادت ڈالے۔
- زبان کو بے فائدہ باتوں کے لیئے استعمال نہ کریں ۔
- زبان کے ذریع لوگوں کے ساتھ نیکی کریں ۔
- ہمیشہ آچھی باتے کرے اور آچھا سلوک کرتے رہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
فائل اٹیچمنٹ: