20 اپریل 2018 کو حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا موسوی فر صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ اداء کی گئی۔
آپ نے پہلے خطبے میں سب سے پہلے حضرت امام حسین کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی۔
اور پھراس آیت کریمہ (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (2)مایدہ
نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
کے ذیل میں گفتگو فرمایی آپ نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ اور مبارکہ میں ایک دوسرے کی تعاون کا حکم دیا گیا ہے اور تعاون اور مدد سے مراد ہر طرح کی مدد اور تعاون ہے چھوٹی ہو چاہے بڑی ۔مثلا غیبت کرنے والے کا ساتھ دینا بھی اسکی مدد کرنا ہے۔
اسی مثال میں اسکے لیئے آپکی مدد یہ ہوگی کہ کہ کسی بھی طرح انکے موضوع کو بدل دے تا کہ وہ غیبت کرنے سے روک جائے۔
دوسری بات یہ کہ آیہ مجیدہ میں اجتماعی زندگی کی طرف ایشارہ کیا گيا ہے اوراجتماعی زندگی کا ایک اصول یہ کہ دوسروں کی اچھے کاموں میں مدد کریں ۔
اور بہترین مدد اورتعاون یہ ہے کہ خود کو اور آپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیئے دوسروں کے ساتھ فکری ہم آھنگی پیدا کریں ۔ جان لے کہ خدا بھی مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے اور اجتماعی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ مثلا شادی شدہ انسان کے اعمال کا ثواب غیر شادی شدہ کے اعمال سے زیادہ ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب تنہا نماز پڑھنے کے ثواب سے کہی زیادہ ہے اور اتنا زیادہ ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
لہذا یاد رکھیے کہ آپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیئے آچھے کاموں میں ایک دوسروں کا ساتھ دے نہ کہ برے کاموں میں مثلااگر آپکا بھائی کسی پر ظلم کر رہا ہے تو اسکا ساتھ نہ دے اللہ کی بارگاہ میں یہ ظاہری رشتے مد نظر نہیں رکھے جاتے ہے بلکہ تقوی کو دیکھا جاتا ہے۔
اور اسی طرح اللہ اجتماع کو چاہتا ہے او ر اجتماع کو پسند کرتا ہےاور اسکی بہتر ین مثال حج اور نماز جماعت ہے۔۔۔
اسکے بعد علامہ صاحب نے ارشاد فرمایا مدد کی سلسلے میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ دوسری کی مدد کریں چاہےوہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی دین یا مذھب سے تعلق رکھتےہو
اور تقوی کواختیار کرے کسی بھی حال میں اور اگر آپنے تقوی کے ازمانا چاہتے ہے کہ کتنی مضبوطی ہے اس میں تو اپنے زندگی میں جھانک کر دیکھے کہ مثلا اگر ایک غریب آدمی کا سلام اور ایک مالدا ر آدمی کا سلام آپ ایک جیسے قبول کرتے ہیں اور ایک جیسے جواب دیتے ہے تو تقوی مضبوط ہے لیکن اگر دونوں میں فرق قرار دیتے ہیں ایک کی غربت یا دوسرے کی مال و دولت کی وجہ سے تو سمجھ لے کہ تقوی نہیں ہے ۔
مولانا صاحب نے دوسرے خطبے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے ارشاد فرمایا کہ: تین شعبان بہت بڑی عیدوں میں سے ایک ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے شعائر الہیہ کی تعظیم آل عیال کی قربانی دیکر سکھائی ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو یہ مقام عطاء فرمایا کہ سب ایمان والو ں کی دلوںکوانکی محبت سے بر دیا ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا عظیم ثواب رکھا اگرچہ یہ زیارت دور سے اس مختصر جملے کیساتھ کی جائیں ۔ (السلام علیک یا اباعبداللہ الحسین)
ہمیں چاہئے کہ ہم ہر روز قرآن کے کم سے کم ایک صفحے کی تلاوت کر کے حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں ہدیہ کریں
حضرت امام حسین علیہ السلام وہ ہے کہ جو خود بھی معصوم ہے اور انکے جد امجدبھی معصوم ہے اور انکے والدین گرامی بھی معصوم ہیں اور انکے بھائی بھی معصوم ہے اورانکے بعد انے والے امام انکا بیٹا ہے وہ بھی معصوم ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام فاتح دنیا اور آخرت ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام بہترین وسیلہ ہے ۔ اللہ تعالی نےارشاد فرمایا کہ وابتغوا لیہ الوسیلہ۔
وسیلہ کی تلاش خدا کا بنایا ہو ایک فطری قانون ہے اوربات کو ہم لوگ آپنی روز مرہ زندگی میں مشاھدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہمارےہر کام کو اللہ تعالی وسیلے کے ذریع سے ہی انجام دیتا ہیں۔ مثلا شفا عطا کرنا اور صحت عطا کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں لیکن پھر بھی ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور صحت اللہ ہی عطا کرتا ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں بلکہ ہروہ کام جو ہم دوسروں کے ذریع انجام دیتے ہیں وسلیلے کے لیئے بہترین مثال اور دلیل ہیں ۔
و صل اللہ علی محمد و آلہ آجمعین۔
فائل اٹیچمنٹ: