1/14/2018         ویزیٹ:1737       کا کوڈ:۹۳۵۶۵۵          ارسال این مطلب به دیگران

استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای » استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
  ،   خريد و فروخت کا نمايندہ

خريد و فروخت کا نمايندہ

س1244 : بعض دکان دار اپنى چيزيں فروخت کرنے کے لئے خريدنے والى کمپنى يا اداروں کے نمايندوں کو اشياءکى اصل قيمت پر اضافہ کيئے بغير فقط روابط بڑھانے کے لئے کچھ مال ديتے ہيں دکان دار اور خريدنے والے نمايندہ کے لئے مذکورہ مال کے بارے ميں کيا حکم ہے ؟ کيا اس فروخت کرنے والے کے لئے يہ مال دينا جائز ہے ؟ اور خريدارى کے وکيل کے لئے اس مال کا لينا کيا حکم رکھتا ہے؟
ج:  فروخت کرنے والے کے لئے جائز نہيں ہے کہ وہ مال دے اور وکيل کے لئے مال لينا جائز نہيں ہے ۔ وہ تمام مال جو وکيل ليتا ہے اسے دفتر يا کمپنى کو جس کى طرف سے خريدارى کے لئے وکيل تھا۔ دينا واجب ہے۔

س1245 : حکومتى يا پرائيويٹ کمپنى کى طرف سے معين شدہ نمايندہ جوکمپنى کى طرف سے ضرورى اشياءکى خريدارى کے لئے نمايندہ ہے آيا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ بيچنے والے سے خريدى ہوئى اشياءکے منافع پر کچھ فى صد لينے کى شرط کرے ؟ اور کيا مذکورہ منافع لينا جائز ہے؟ اور اگر اس کے انچارج سے مذکورہ عمل انجام دينے کى اجازت ہو تو کيا حکم ہے؟
ج: مذکورہ شرط کا اسے حق نہيں ہے اور ايسى شرط رکھنا صحيح بھى نہيں ہےہے لہذا اس کے لئے اپنے لئے مقررہ فى صد لينا جائز نہيں ہے مافوق انچارج بھى اجازت دينے کا مجاز نہيں ہے اور اس کے اذن اور اجازت کى کوئى حيثيت نہيں ہے۔

س1246 : کمپنى يا دفتر کى طرف سے مقرر شدہ خريدارى کا نمايندہ اگر کسى شئے کو بازار کى معين قيمت سے زيادہ قيمت پر خريدے تاکہ فروخت کرنے والا اس کى مالى معاونت کرے توکيا مذکورہ عمل صحيح ہے؟ اور اس کا بيچنے والے سے رقم لينا صحيح ہے؟
ج:  اگر اشياءکو بازار کى عادلانہ قيمت سے زيادہ قيمت پر خريدلے جبکہ وہ مذکورہ اشياءکو کم قيمت پر خريدسکتا تھا تو مذکورہ معاملہ جو کہ زيادہ قيمت پر کيا گيا ہے اضافى قيمت کى نسبت سے فضولى (مالک کى اجازت کے بغير معاملہ کرنا) معاملہ ہے اور قانون کے مطابق موکل کى قانونى اجازت پر موقوف ہے بہر حال اس کے لئے فروخت کرنے والے سے کوئى چيز لينا اپنے ليئے جائز نہيں ہے۔

س1247 :  اگرکوئى شخص کسى ادارے يا کمپنى کى طرف سے ضرورى اشياءکى خريدارى کا نمائندہ ہو اور وہ مختلف اداروں سے رفت و آمد اور آشنائى کى وجہ سے شرط رکھے کہ اگر ميں تم سے اشياءخريد تاہوں تو منافع ميں سے کچھ فيصد کا شريک قرار پاؤں گا۔
  ١) اس شرط کا شرعى حکم کيا ہے؟
  ٢) اس بارے ميں ادارے کے رئيس يا مسئول کى جانب سے اجازت نامہ ہونے کى صورت ميں اشکال شرعى حکم کيا ہے ؟
  ٣) اگر مذکورہ شى کى قيمت جو نمائندے کى جانب سے ادارے يا کمپنى کو بتائى گئى ہے بازار کى نسبت زيادہ ہو ليکن اسى کو طے کرلياجائے تو کيا حکم ہے؟
  ٤) بعض فروخت کرنے والے، اداروں کى جانب سے خريدارى کے نمائندے کو رسيد ميں درج رقم سے ہٹ کر کچھ حصّہ رقم ديتے ہيں ايسے ميں فروخت کرنے والے اور نمائندے کا کيا حکم ہے ؟
  ٥) اگر مذکورہ شخص کمپنى کى نمائندگى کے علاوہ ايک دوسرى کمپنى کى طرف سے فروخت کرنے کا نمائندہ ہو اگر وہ اپنى کمپنى کے ليے مذکورہ کمپنى کى مصنوعات خريدے تو اس صورت ميں کيا وہ منافع ميں سے کچھ فى صد لے سکتاہے؟
  ٦) اگر کوئى شخص مذکورہ طريقوں سے نفع حاصل کرتاہے تو اس نفع کى نسبت اس فرد کى شرعى ذمہ دارى کيا ہے؟
ج:  ١) شرعى کوئى صورت نہيں اور باطل ہے۔
     ٢) ادارے کے مسئول يا افسر بالا کى جانب سے اجازت ، شرعى و قانونى کوئى وجہ نہ رکھنے کى وجہ سے معتبر نہيں ہے۔
     ٣)   اگر بازار کى مناسب قيمت سے زيادہ ہو، اور اس سے کم قيمت ميں اس شى کا حاصل کرنا ممکن ہو تو اس صورت ميں طے شدہ قرار داد نافذ نہيں ۔
     ٤)  جائز نہيں ہے اور خريدارى کا نمائندہ جو کچھ وصول کرے اسے مربوط ادارے کہ جسکى جانب سے يہ خريدارى ميںنمائندہ ہے تک پہنچانا ضرورى ہے۔
    ٥) فيصد کا کوئى حصہ دريافت کرنے کا حق نہيں رکھتا، اور جو کچھ دريافت کرے اسے مربوط ادارے کے حوالے کرنا ہوگا اور اگرکوئى قرار داد باندھے جو ادارے کے نفع و نقصان کے خلاف ہو وہ ابتداءسے باطل ہے۔
    ٦) غير شرعى درآمد مربوط ادارے کہ جسکى جانب سے يہ خريدارى کا نمائندہ ہے کو دنيا ضرورى ہے ۔



فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک