بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ:
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) اثنا عشری شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ جمعہ کے دن آٹھ ربیع الثانی 232 ہجری قمری تھی جب شہر مدینہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت کے نور سے روشن ہوگیا۔[1] اور 28 سال کی عمر میں سامرا میں شہید کردیئے گئے۔ آپؑ کے والد گرامی دسویں امام، حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) ہیں۔ آپؑ کی والدہ ماجدہ جناب حُدیث یا حدیثه تھیں۔[2] بعض دیگر مآخذ نے آپؑ کی والدہ گرامی کا نام سوسن[3]، عسفان[4]، سلیل[5] لکھا ہے اور آپؑ کو اس عبارت سے کہ "آپؑ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں" سراہا ہے۔[6]
خوبصورت القاب اور کنیات: معصومین(علیہم السلام) کے مختلف القاب، ان حضراتؑ کے متعدد کمالات کے پہلووں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے بھی کئی خوبصورت القاب تھے جو آپؑ کے فضائل و کمالات کے مختلف پہلووں کو نمودار کرتے ہیں۔ آپؑ کے القاب هادی، نقی، زکی، رفیق اور صامت بیان ہوئے ہیں، بعض مورخین نے آپؑ کے لئے لقب "خالص" بھی نقل کیا ہے[7]۔ "ابن الرضا" نیز ایسا لقب ہے جو امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری (علیہم السلام) کے لئے مشہور ہے۔[8] لقب "عسکری" بھی امام علی نقی اور امام حسن عسکری (علیہماالسلام) کے درمیان مشترکہ ہے کیونکہ یہ دونوں حضراتؑ سامرا میں مجبورا رہائش پذیر ہوئے۔ "عسکر" سامرا کے لئے غیر مشہور عنوان تھا۔[9] نیز "حسن" کا نام آپؑ اور امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے درمیان مشترکہ ہونے کی وجہ سے آپؑ کو "حسن اخیر" بھی کہا گیا ہے۔[10] آپؑ کی کنیت "ابومحمد" تھی[11]۔ بعض مآخذ میں آپؑ کے لئے ابوالحسن[12]، ابوالحجۃ[13]، ابوالقائم[14] کی کنیات بھی ذکر ہوئی ہیں۔
خوبصورت چہرہ: آپؑ خوبصورت چہرے والے اور نہایت ہی پُرکشش تھے اور جنہوں نے آپؑ کو دیکھا، انہوں نے آپؑ کے حُسن اور ہیبت کا اقرار کیا ہے۔ احمد ابن خاقان جس نے کچھ عرصہ سامرا میں زندگی بسر کی، آپؑ کے بارے میں بیان کرتا ہے: "رجل اسْمر، اَعْین، حَسَنُ القامہ، جمیلُ الوجہ، حَیدُ البدن، حَدیث السنّ لَہُ جلالۃٌ و ھیبۃٌ"[15]، "گندمی بڑی آنکھوں والے، اچھے قد، خوبصورت، اچھے بدن، نوجوان اور جلال و ہیبت والے مرد تھے"۔ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ہیبت اور خوبصورتی اسقدر تھی کہ لوگوں کے کشش کا باعث تھی اور آپؑ کا جلال و ہیبت اتنا تھا کہ دلوں کو آپؑ کی نورانیت اور ملکوتی چہرہ کے سامنے خاضع کردیتا تھا اور لوگوں کو حتی مخالفین کو احترام پر مجبور کردیتا تھا۔ تاریخ کے مطابق، جب آپؑ کو "علی ابن نارْمَش" کے پاس جو ناصبی تھا اور اہل بیت (علیہم السلام) اور آل علی (علیہم السلام) کا دشمن تھا، قیدی کیا گیا تو درباری افراد نے اسے تاکید کی کہ حضرتؑ پر سختی کرے، لیکن ابھی آپؑ کے قیدی ہونے کا ایک دن نہیں گزرا تھا کہ "ابن نارْمَش "ایسا ہوگیا کہ امام کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے سر نہیں اٹھاتا تھا اور آنحضرتؑ کے شیعوں میں سے ہوگیا۔[16]
اولاد: اکثر شیعہ و سنی مآخذ کے مطابق آپؑ کے واحد فرزند حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں۔[17]
سامرا کی طرف ہجرت: حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے بچپن میں آپؑ کے والد گرامی حضرت امام ہادی (علیہ السلام) کو جبراً عراق بلوایا گیا اور عباسی حکومت کے دارالحکومت سامرا میں آپؑ کو حکومت کے زیرنگرانی رکھا گیا۔ اس سفر میں امام حسن عسکری (علیہ السلام) بھی اپنے والد گرامی کے ساتھ تھے۔ امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے اپنی حیات طیبہ کا اکثر زمانہ سامرا میں گزارا اور مشہور ہوا کہ آپؑ واحد امام ہیں جو حج پر نہیں گئے، لیکن کتاب عیون اخبار الرضا (علیہ السلام) اور کتاب کشف الغمہ میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جسے راوی نے مکہ میں امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے سنا ہے۔[18]
ظالم حکمرانوں کی قید میں: امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی امامت کا دور تین عباسی خلفاء کے زمانے میں گزرا: معتز، مہتدی اور معتمد۔[19] معتز نے آپؑ کو 255 ہجری قمری میں قید کردیا، آپؑ معتز کے بعد والے خلیفہ مہتدی کے ایک سالہ دور میں بھی زندان میں رہے۔ معتمد کی خلافت کے آغاز (256 ہجری) کے وقت جس کا شیعی قیاموں سے سامنا ہوا، آپؑ زندان سے آزاد ہوئے اور بار دیگر آپؑ شیعوں کے معاشرتی اور اقتصادی حالات کو منظم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوئے۔ آپؑ کے اس متحرک کردار نے اور وہ بھی عباسی حکومت کے دارالحکومت میں، دوبارہ عباسی حکومت کو پریشان کردیا، لہذا ماہ صفر 260 ہجری میں آپؑ کو دوبارہ معتمد کے حکم سے قید کردیا گیا اور خلیفہ خود روزانہ آپؑ کے متعلق معلومات وصول کرتا تھا[20]۔ ایک مہینہ کے بعد آپؑ کو زنداں سے آزاد کردیا گیا، لیکن آپؑ پر نگرانی رکھنے کے لئے آپؑ کو حسن ابن سہل (مامون کے وزیر) کے گھر، شہر واسط کے قریب منتقل کردیا گیا۔[21] آپؑ نے چھ سال (254 سے 260 ہجری تک) امامت کی ذمہ داری نبھائی اور آپؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند حضرت امام مہدی (علیہ السلام) مقام امامت پر فائز ہوئے۔
شیعی تعلیمات: آخری ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے زمانہ میں امامت کے متعلق پیچیدگیوں اور ابہامات کی وجہ سے، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے بیانات اور خطوط میں مکرر طور پر ان تعلیمات سے سامنا ہوتا ہے کہ زمین حجت الہی سے خالی نہیں رہتی[22] اور یہ کہ اگر امامت ختم ہوجائے اور اس کا سلسلہ رک جائے تو اللہ تعالی کے امور معطل ہوجائیں گے۔[23] اور زمین پر اللہ کی حجت ایسی نعمت ہے جو اللہ نے مومنوں کو دی ہے اور ان کا اِس ہدایت کے ذریعہ اکرام کیا ہے۔[24] دیگر تعلیمات جن پر مکرر آپؑ کے فرامین ملتے ہیں، صبر کرنے کا اور فرج پر یقین کرنے کا اور اس کا انتظار کرنے کا حکم دینا ہے۔[25] نیز آنحضرتؑ کی احادیث میں شیعوں کے اندرونی تعلقات کو منظم کرنے اور دینی بھائیوں کے ساتھ معاشرت پر بھی خاص تاکید دکھائی دیتی ہے۔[26]
شہادت: علامہ طبرسی کے بقول اکثر شیعہ علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ آپؑ کی شہادت کا سبب آپؑ کو زہر دلانا تھا۔ وہ آپؑ اور دیگر ائمہ اطہار کی شہادت پر شیعہ علما٫ کی دلیل، امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی اس روایت کو جانتے ہیں جو آنحضرتؑ نے فرمایا: "والله ما منا الا مقتول شهید[27]"، "اللہ کی قسم، ہم میں سے کوئی نہیں مگر مقتول شہید ہے"۔
نتیجہ: امام حسن عسکری (علیہ السلام) شیعوں کے گیارہویں امام اور حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کے والد گرامی ہیں۔آپؑ دیگر ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی طرح وقت کے تقاضوں کے مطابق فرائض امامت ادا کرتے رہے اور امت کی ہدایت میں مکمل طور پر سرگرم عمل رہے، آپؑ نے اپنے دور امامت میں تین عباسی خلفاء کا سامنا کیا، آپؑ نے وقت کے حکمرانوں کے ذریعہ قیدی ہونے کے بعد شہادت پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، علامه مجلسى، ج 50 ، ص 236 ؛ کافى، کلینى، ج 1، ص 503 ؛ الارشاد، شیخ مفید، ص 334۔
[2] کلینی، کافی، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، ج2، ص313۔
[3] ابن طلحه، مطالب السؤول، نجف، 1371ق، ج2، ص78؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص362؛ البتہ سوسن کا نام بعض مآخذ میں حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) کی والدہ کے لئے (نوبختی، فرق الشیعه، ص93) و دوسری نقل کے مطابق حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کی والدہ کے لئے آیا ہے (ابن ابیالثلج، «تاریخ الائمه» مجموعه نفیسه، ص26)۔
[4] نوبختی، فرق الشیعه، ص96؛ کہا گیا ہے کہ اس کنیز کا نام پہلے عسفان تھا اور بعد میں امام علی نقی (علیہ السلام) نے ان کا نام حدیث رکھا.
[5] مسعودی، اثبات الوسیله، ص258۔
[6] حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، ص123۔
[7] طبری، دلائل الامامة، ص425.
[8] ابن شهر آشوب، مناقب، ج4، ص421.
[9] ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج2، ص94.
[10] ابن شهرآشوب، ج3، ص526، به نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص618.
[11] شیخ مفید، الارشاد، باب تاریخ امام حسن عسکری.
[12] دلائل الإمامة، الطبری،ص:424۔
[13] موسوعة الإمام العسکری(ع)، الخزعلی،ج1،ص:32۔
[14] موسوعة الإمام العسکری(ع)، الخزعلی،ج1،ص:32۔
[15] بحار الانوار، ج 50 ، ص 326۔
[16] کافى، ج 1، ص 508 ؛ بحار الانوار، ج 50 ، ص 307، 308۔
[17] ابن شهرآشوب، مناقب، ج3، ص523؛ ابن طولون، الائمه الاثنا عشر، ص113؛ طبرسی، تاج الموالید، ص59؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج7، ص274؛ ابن صباغ، الفصول المهمه، ص278؛ شبلنجی، نور الابصار، ص183، بنقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص618.
[18] شيخ صدوق، عيون أخبار الرضا(ع)، ج2، ص135؛ اربلی، کشف الغمه، ج3، ص198۔
[19] طبری، دلائل الامامه، ج1، ص223۔
[20] مسعودی، اثبات الوصیه، ص268۔
[21] مسعودی، اثبات الوصیه، ص269۔
[22] نمونہ کے طور پر دیکھیے: مسعودی، اثبات الوصیه، ص271۔
[23] نمونہ کے طور پر دیکھیے: ابن بابویه، کمال الدین، ص43۔
[24] نمونہ کے طور پر دیکھیے: رجال کشی، ص541۔
[25] نمونہ کے طور پر دیکھیے: مناقب ابن شهرآشوب، ج3، ص527۔
[26] نمونہ کے طور پر دیکھیے: مناقب ابن شهرآشوب، ج3، ص526۔
[27] طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ج2، ص131، 132.
فائل اٹیچمنٹ: