مکتب کربلا کے دروس کلام امام حسین(ع) کی روشنی میں
ہلال محرم ایک بار پھر نواسہء رسول حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر طلوع ہو چکا ہے، دنیا بھر میں امت مسلمہ اس ماہ، جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ ۖ کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔ میدان کربلا میں نواسہ رسول (ص) اور ان کے باوفا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لئے اسو ہ حسنہ ہیں، کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت سے ہم کو درس حریت و آزادی ملتا ہے، یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے، کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدا ر رکھا جائے، ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں پیدا کرتے رہیں گے۔ کربلا ایک لگاتار پکار ہے، یزیدیت ایک فکر اور سوچ کا نام ہے، اسی طرح حسینیت بھی ایک کردار کا نام ہے، اگر کوئی حکمران اسلام کا نام لیوا اور کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کے کام یزید جیسے ہیں تو وہ دور حاضر کا یزید ہی ہے۔
یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا، جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول (ص) جسے امت کے سامنے محمد مصطفیٰ ۖ نے تربیت کیا تھا، سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، آپ کی قربانی آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی بقا کی اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔ یہ تاریخی و بےمثال قربانی اور نمونہ ایثار و شجاعت ہمارے لئے درس کا باعث ہے، اس شہادت میں بہت سے درس اور راز و سر موجود ہیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں اور یزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں، کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں، بالخصوص امت مسلمہ کی وحدت و بھائی چارہ پر فرقہ واریت کے منحوس سائے نہ پڑنے دیں۔ یہ قربانی کس قدر بےمثال ہے کہ جس سے چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ایسے ہی درس و سبق حاصل کئے جاتے ہیں جیسے ابھی کل ہی ہونے والے کسی واقعہ سے انسان کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرتا ہے ہم نے اس مقالے میں مکتب کربلا کی اقدار کو سید الشہداء علیہ السلام و شہدائے کربلا کی سیرت کی روشنی می بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اور ذیل میں ان اقدار کو بیان کیا ہے۔
توحید محور
انسان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ الله اس سے راضی رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبات میں اپنی تحریک کو توحید محور قرار دیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت کی رضا وہی الله کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی الله سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کو توحید باوری اور توحید محوری کا پیغام دیا بقول شاعر،
توحید کی چاہت ہے تو پھر کربو بلا چل
ورنہ یہ کلی کھل کے کھلی ہے نہ کھلے گی
توحید ہے مسجد میں نہ مسجد کی صفوں میں
توحید تو شبیر کے سجدے میں ملے گی
مرکز عزت و حمیت
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت و آزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جانا۔ امام نے عزت کو زلت پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا، ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں۔ آپ نے تاقیامت بشریت کو عزت سے جینے کا گُر سکھایا۔
طاغوت ستیزی:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبر اکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ”اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو الله کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کررہا ہو، تو اس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے الله کی طرف سے سزا دی جائے گی۔
ھدف کے حصول میں استقامت
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا ہے امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہیئے اور اسقامت و پائیداری کے ساتھ دشمنان دین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔
فائل اٹیچمنٹ: