خداوند عالم سورۂ قدر کی چوتھی آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: «تنزّل الملائکة و الرّوح فیها بإذن ربهّم من کلّ أمرٍ[سورۂ قدر/آیت 4] اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں»، فعل مضارع «تنّزل» تکرار اور بقاء پر دلالت کرتا ہے۔
اور دوسری جگہ سورۂ دخان میں ارشادفرمارہا ہے: «فیها یفرّق کلّ أمرٍ حکیم[سورۂ دخان/آیت4] اس رات میں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فیصلہ کیا جاتا ہے»۔فعل«تفعّل» دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔
دونوں فعلوں سے یہ سمجھ میں آرہا ہےکہ ملائکہ ہر شب قدر میں نازل ہوتے ہیں اور ہر شب قدر کو امور کا فیصلہ ہوتا ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی موجودگی میں ہر شب قدر یہ امور آپکے لئے نازل ہوتے تھے، اب یہ امور کسی ایسے شخص پر نازل ہونگے جو افق نبوت سے قریب ہوں۔
اب کوئی ایسا شخص ہو جس پر یہ امور نازل ہوں کیونکہ جس کسی پر یہ امور نازل ہوتے ہیں وہی آپکا وصی ہے، اسی لئے جو کوئی یہ دعوا کررہا ہےکہ میں ولی امرّّ ہوں، اسکے لئے ضروری ہےکہ وہ اس بات کو ثابت کرے کے ملائکہ اور روح اس پر نازل ہوتے ہیں، سوائے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور معصومین(علیہم السلام) کے کسی نے اس بات کا دعوی نہیں کیا کہ ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہیں، جیسا کہ امام باقر(علیہ السلام ) فرمارہے ہیں :« لا تخفى علينا ليلة القدر إن الملائکة يطوفون بنا فيها؛ شب قدر ہم پر پوشیدہ نہیں ہے، یقنیا ملائکہ اس رات میں ہماراطواف کرتے ہیں»۔[1]
جو کوئی فرشتوں کے نازل ہونے کے بارے میں اقرار کرتا ہے، اسے ولی امر کو بھی قبول کرنا پڑیگا، کیونکہ اگر قبول نہیں کیا تو قرآن کی بعض آیات کے انکار کرنے والوں میں اسکا شمار ہوگا، اور جو کوئی قرآن کی بعض آیات کا انکار کریگا اسکا شمار کافروں میں ہوگا، جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے: «إنّ الّذین یکفرون بالله و رسله و یریدون ان یفرّقوا بین الله و رسله و یقولون نؤمن ببعض و نکفر ببعض و یریدون أن یتّخذوا بین ذلک سبیلاً أولئک هم الکافرون حقّاً و أعتدنا للکافرین عذاباً مهین[سورۂ نساء/آیت 150،151] بے شک جو لوگ اللہ اور رسول کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور رسول کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے درمیان سے کوئی نیا راستہ نکال لیں تو درحقیقت یہی لوگ کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے بڑا رسوا کن عذاب مہّیا کررکھا ہے»۔
احادیث کی روشنی میں جو کوئی امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف )کا انکار کرے وہ کافرہے, جیسا کہ رسول خدا ارشاد فرمارہے ہیں:«من أنکر خروج المهدي فقد کفر[2] جو کوئی خروج مھدی(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا انکار کرے وہ کافر ہے»۔
نتیجہ: اس بناء پر حقیقی مؤمن وہ ہے جو قیامت تک لیلۃ القدر کے استمرار کا بھی قائل ہو اور زمانے کی حجت کی موجودگی کا بھی قائل ہو، جس پر ہر شب قدر میں، ملائکہ امور کو لیکر نازل ہوتے ہیں، جو احادیث کی روشنی میں امام مھدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[1]۔على بن ابراهيم قمى،تفسیر القمی،دار الکتاب، 1367 ش ج2ص 291۔
[2]۔شيخ حر عاملى، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، 1425 ق، ج5، س277۔