(شریعت اسلام میں) روزہ سے مراد ہے خداوند عالم کی رضا کے لئے انسان اذان صبح سے مغرب تک نوچیزوں سے جو بعد میں بیان کی جائیں گی پرہیز کرے۔
نیت
1559۔ انسان کے لئے روزے کی نیت دل سے گزارنا یا مثلاً یہ کہنا کہ "میں کل روزہ رکھوں گا" ضروری نہیں بلکہ اس کا ارادہ کرنا کافی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا کے لئے اذان صبح سے مغرب تک کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے روزہ باطل ہوتا ہو اور یقین حاصل کرنے کے لئے اس تمام وقت میں وہ روزے سے رہا ہے ضروری ہے کہ کچھ دیر اذان صبح سے پہلے اور کچھ دیر مغرب کے بعد بھی ایسے کام کرنے سے پرہیز کرے جن سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
1560۔ انسان ماہ رمضان المبارک کی ہر رات کو اس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کر سکتا ہے۔اور بہتر یہ ہے کہ اس مہینے کی پہلی رات کو ہی سارے مہینے کے روزوں کی نیت کرے۔
1561۔ وہ شخص جس کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اس کے لئے ماہ رمضان میں روزے کی نیت کا آخری وقت اذان صبح سے پہلے ہے۔ یعنی اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت ضروری ہے اگرچہ نیند یا ایسی ہی کسی وجہ سے اپنے ارادے کی طرف متوجہ نہ ہو۔
1562۔ جس شخص نے ایسا کوئی کام نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرے تو وہ جس وقت بھی دن میں مستحب روزے کی نیت کرلے اگرچہ مغرب ہونے میں کم وقت ہی رہ گیا ہو، اس کا روزہ صحیح ہے۔
1563۔ جو شخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں اور اسی طرح واجب روزوں میں جن کے دن معین ہیں روزے کی نیت کئے بغیر اذان صبح سے پہلے سوجائے اگر وہ ظہر سے پہلے بیدار ہو جائے اور روزے کی نیت کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر وہ ظہر کے بعد بیدار ہو تو احتیاط کی بناپر ضروری ہے کہ قربت مطلقہ کی نیت نہ کرے اور اس دن کے روزے کی قضا بھی بجالائے۔
1564۔اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا روزہ رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس روزے کو معین کرے مثلاً نیت کرے کہ میں قضاکا یا کفار کا روزہ رکھ رہا ہوں لیکن ماہ رمضان المبارک میں یہ نیت کرنا ضروری نہیں کہ میں ماہ رمضان کا روزہ کھ رہا ہوں بلکہ اگر کسی کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اور کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تب بھی وہ روزہ ماہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا۔
1565۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ رمضان کا مہینہ ہے اور جان بوجھ کر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو وہ روزہ جس کی اس نے نیت کی ہے وہ روزہ شمار نہیں ہوگا اور اسی طرح ماہ رمضان کا روزہ بھی شمار نہیں ہوگا اگر وہ نیت قصد قربت کے منافی ہو بلکہ اگر منافی نہ ہو تب بھی احتیاط کی بنا پر وہ روزہ ماہ رمضان کا روزہ شمار نہیں ہوگا۔
1566۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے پہلے روزے کی نیت کرے لیکن بعد میں معلوم ہوکہ یہ دوسرا یا تیسرا روزہ تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1567۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرنے کے بعد بے ہوش ہوجائے اور پھر اسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اگر تمام نہ کرسکے تو اس کی قضا بجالائے۔
1568۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور پھر بے حواس ہو جائے اور پھر اسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
1569۔ اگر کوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اور سوجائے اور مغرب کے بعد بیدار ہو تو اس کا روزہ صبح ہے۔
1570۔ اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اور ظہر سے پہلے اس امر کی جانب متوجہ ہو اور اس دوران کوئی ایسا کام کر چکا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہے تو اس کا روزہ باطل ہوگا لیکن ضروری ہے کہ مغرب تک کوئی ایسا کام نہ کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور ماہ رمضان کے بعد روزے کی قضا بھی کرے۔ اور اگر ظہر کے بعد متوجہ ہو کہ رمضان کا مہینہ ہے تو احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے اور اگر ظہر سے پہلے متوجہ ہو اور کوئی ایسا کام بھی نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1571۔اگر ماہ رمضان میں بچہ اذان صبح سے پہلے بالغ ہو جائے تو ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور اگر اذان صبح کے بعد بالغ ہو تو اس کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر مستحب روزہ رکھنے کا ارادہ کر لیا ہو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس دن کے روزے کو پورا کرنا ضروری ہے۔
1572۔ جو شخص میت کے روزے رکھنے کے لئے اجیر بنا ہو یا اس کے ذمے کفارے کا روزے ہوں اگر وہ مستحب روزے رکھے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر قضا روزے کسی کے ذمے ہوں تو وہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر بھول کر مستحب روزہ رکھ لے تو اس صورت میں اگر اسے ظہر سے پہلے یاد آ جائے تو اس کا مستحب روزہ کالعدم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی نیت واجب روزے کی جانب موڑ سکتا ہے۔ اور اگر وہ ظہر کے بعد متوجہ ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہے اور اگر اسے مغرب کے بعد یاد آئے تو اس کے روزے کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں۔
1573۔اگر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا مخصوص روزہ انسان پر واجب ہو مثلاً اس نے منت مانی ہو کہ ایک مقررہ دن کو روزہ رکھے گا اور جان بوجھ کر اذان صبح تک نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر اسے معلوم نہ ہو کہ اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے یا بھول جائے اور ظہر سے پہلے اسے یاد آئے تو اگر اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو اور روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر ظہر کے بعد اسے یاد آئے تو ماہ رمضان کے روزے میں جس احیتاط کا ذکر کیا گیا ہے اس کا خیال رکھے۔
1574۔ اگر کوئی شخص کسی غیر مُعَیَّن واجب روزے کے لئے مثلاً روزہ کفارہ کے لئے طہر کے نزدیک تک عمداً نیت نہ کرے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اگر نیت سے پہلے مصمم ارادہ رکھتا ہو کہ روزہ نہیں رکھے گا یا مذبذب ہو کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے تو اگر اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو اور ظہر سے پہلے روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1575۔اگر کوئی کافر ماہ رمضان میں ظہر سے پہلے مسلمان ہو جائے اور اذان صبح سے اس وقت تک کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ روزے کی نیت کرے اور روزے کو تمام کرے اور اگر اس دن کا روزہ نہ رکھے تو اس کی قضا بجالائے۔
1576۔ اگر کوئی بیمار شخص ماہ رمضان کے کسی دن میں ظہر سے پہلے تندرست ہو جائے اور اس نے اس وقت تک کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو تو نیت کرکے اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے اور اگر ظہر کے بعد تندرست ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے۔
1577۔ جس دن کے بارے میں انسان کو شک ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ، اس دن کا روزہ رکھنا اس پر واجب نہیں ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو رمضان المبارک کے روزے کی نیت نہیں کر سکتا لیکن نیت کرے کہ اگر رمضان ہے تو رمضان کا روزہ ہے اور اگر رمضان نہیں ہے تو قضا روزہ یا اسی جیسا کوئی اور روزہ ہے تو بعید نہیں کہ اس کا روزہ صحیح ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ قضا روزے وغیرہ کی نیت کرے اور اگر بعد میں پتہ چلے کہ ماہ رمضان تھا تو رمضان کا روزہ شمار ہوگا لیکن اگر نیت صرف روزے کی کرے اور بعد میں معلوم ہو کہ رمضان تھا تب بھی کافی ہے۔
1578۔ اگر کسی دن کے بارے میں انسان کو شک ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تو وہ قضا یا مستحب یا ایسے ہی کسی اور روزہ کی نیت کرکے روزے رکھ لے اور دن میں کسی وقت اسے پتہ چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرلے۔
1579۔ اگر کسی مُعَیَّن واجب روزے کے بارے میں مثلاً رمضان المبارک کے روزے کے بارے میں انسان مُذبذِب ہو کہ اپنے روزے کو باطل کرے یا نہ کرے یا روزے کو باطل کرنے کا قصد کرے تو خواہ اس نے جو قصد کیا ہو اسے ترک کردے اور کوئی ایسا کام بھی نہ کرے جس سے روزہ باطل ہوتا ہو اس کا روزہ احتیاط کی بنا پر باطل ہوجاتا ہے۔
1580۔اگر کوئی شخص جو مستحب روزہ یا ایسا واجب روزہ مثلاً کفارے کا روزہ رکھے ہوئے ہو جس کا وقت مُعَیَّن نہ ہو کسی ایسے کام کا قصد کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو مُذَبذِب ہو کہ کوئی ایسا کام کرے یا نہ کرے تو اگر وہ کوئی ایسا کام نہ کرے اور واجب روزے میں ظہر سے پہلے اور مستحب روزے میں غروب سے پہلے دوبارہ روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں۔
1581۔چند چیزیں روزے کو باطل کر دیتی ہیں:
1۔ کھانا اور پینا۔
2۔ جماع کرنا۔
3۔ اِستِمَنَاء۔ یعنی انسان اپنے ساتھ یا کسی دوسرے کے ساتھ جماع کے علاوہ کوئی ایسا فعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج ہو۔
4۔ خدا تعالی پیغمبر اکرام (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا۔
5۔ غبار حلق تک پہنچانا۔
6۔ مشہور قول کی بنا پر پورا سر پانی میں ڈبونا۔
7۔ اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں رہنا۔
8۔ کسی سَیَّال چیز سے حُقنہ (انیما) کرنا ۔
9۔ قے کرنا۔
ان مبطلات کے تفصیلی احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
کھانا اور پینا
1582۔ اگر روزہ دار اس امر کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے کوئی چیز جان بوجھ کر کھائے یا پئے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ چیز ایسی ہو جسے عموماً کھایا یا پیا جاتا ہو مثلاً روٹی اور پانی یا ایسی ہو جسے عموماً کھایا یا پیانہ جاتا ہو مثلاً مٹی اور درخت کا شیرہ، اور خواہ کم یا زیادہ حتی کہ اگر روزہ دار مسواک منہ سے نکالے اور دوبارہ منہ میں لے جائے اور اس کی تری نگل لے تب بھی روزہ باطل ہوجاتا ہے سوائے اس صورت کے کہ مسواک کی تری لعاب دہن میں گھل مل کر اس طرح ختم ہو جائے کہ اسے بیرونی تری نہ کہا جاسکے۔
1583۔ جب روزہ دار رکھانا کھا رہا ہو اگر اسے معلوم ہوجائے کہ صبح ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ جو لقمہ منہ میں ہو اسے اگل دے اور اگر جان بوجھ کر وہ لقمہ نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں ہوگا اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔
1584۔ اگر روزہ دار غلطی سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
1585۔ جو انجکشن عضو کو بے حس کر دیتے ہیں یا کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں اگر روزے دار انہیں استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ ان انجکشنوں سے پرہیز کیا جائے جو دوا اور غذا کی بجائے استعمال ہوتے ہیں۔
1586۔ اگر روزہ دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیز عمداً نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
1587۔ جو شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے اذان صبح سے پہلے دانتوں میں خلال کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر اسے علم ہو کہ جو غذا دانتوں کے ریخوں میں رہ گئی ہے وہ دن کے وقت پیٹ میں چلی جائے گی تو خلال کرنا ضروری ہے۔
1588۔ منہ کا پانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا خواہ ترشی وغیرہ کے تصور سے ہی منہ میں پانی بھر آیا ہو۔
1589۔ سر اور سینے کا بلغم جب تک منہ کے اندر والے حصے تک نہ پہنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ منہ میں آجائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے تھوک دے۔
1590۔ اگر روزہ دار کو اتنی پیاس لگے کہ اسے پیاس سے مرجانے کا خوف ہو جائے یا اسے نقصان کا اندیشہ ہو یا اتنی سختی اٹھانا پڑے جو اس کے لئے ناقابل برداشت ہو تو اتنا پانی پی سکتا ہے کہ ان امور کا خوف ختم ہو جائے لیکن اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر ماہ رمضان ہو تو اختیار لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس سے زیادہ پانی نہ پیئے اور دن کے حصے میں وہ کام کرنے سے پرہیز کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
1591۔ بچے یا پرندے کو کھلانے کے لئے غذا کا چبانا یا غذا کا چکھنا اور اسی طرح کے کام کرنا جس میں غذاً عموماً حلق تک نہیں پہنچتی خواہ وہ اتفاقاً حلق تک پہنچ جائے تو روزے کو باطل نہیں کرتی۔ لیکن اگر انسان شروع سے جانتا ہو کہ یہ غذا حلق تک پہنچ جائے گی تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے اور ضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہے۔
1592۔ انسان معمولی نقاہت کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑا سکتا لیکن اگر نقاہت اس حد تک ہو کہ عموماً برداشت نہ ہوسکے تو پھر روزہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
جماع
1593۔ جماع روزے کو باطل کر دیتا ہے خواہ عضو تناسل سپاری تک ہی داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہوئی ہو۔
1594۔ اگر آلہ تناسل سپاری سے کم داخل ہو اور منی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن جس شخص کی سپاری کٹی ہوئی ہو اگر وہ سپاری کی مقدار سے کم تر مقدار داخل کرے تو اگر یہ کہا جائے کہ اس نے ہم بستری کی ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
1595۔ اگر کوئی شخص عمداً جماع کا ارادہ کرے اور پھر شک کرے کہ سپاری کے برابر دخول ہوا تھا یا نہیں تو احیتاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس روزے کی قضا بجالائے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔
1596۔ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور جماع کرے یا اسے جماع پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ اس کا اختیار باقی نہ رہے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا البتہ اگر جماع کی حالت میں اسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے یا مجبوری ختم ہوجائے تو ضروری ہے کہ فوراً جماع ترک کر دے اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
اِستِمنَاء
1597۔ اگر روزہ دار اِستمِنَاء کرے (استمناء کے معنی مسئلہ 1581 بتائے جاچکے ہیں) تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
1598۔ اگر بے اختیاری کی حالت میں کسی کی منی خارج ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔
1599۔ اگرچہ روزہ دار کو علم ہو کہ اگر دن میں سوئے گا تو اسے احتلام ہو جائے گا یعنی سوتے میں اس کی منی خارج ہوجائے گی تب بھی اس کے لئے سونا جائز ہے خواہ نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ بھی ہو اور اگر اسے احتلام ہو جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
1600۔ اگر روزہ دار منی خارج ہوتے وقت نیند سے بیدار ہو جائے تو اس پر یہ واجب نہیں کہ منی کو نکلنے سے روکے۔
1601۔ جس روزہ دار کو احتلام ہوگیا تو وہ پیشاپ کرسکتا ہے خواہ اسے یہ علم ہو کہ پیشاب کرنے سے باقیماندہ منی نالی سے باہر آجائے گی۔
1602۔ جب روزے دار کو احتلام ہو جائے اگر اسے معلوم ہو کہ منی نالی میں رہ گئی ہے اور اگر غسل سے پہلے پیشاب نہیں کرے گا تو غسل کے بعد منی اس کے جسم سے خارج ہوگی تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے۔
1603۔جو شخص منی نکالنے کے ارادے سے چھیڑ چھاڑ اور دل لگی کرے تو خواہ منی نہ بھی نکلے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
1604۔ اگر روزہ دار منی نکالنے کے ارادے کے بغیر مثال کے طور پر اپنی بیوی سے چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کرے اور اسے اطمینان ہو کہ منی خارج نہیں ہوگی تو اگرچہ اتفاقاً منی خارج ہو جائے اس کا روزہ صحیح ہے۔ البتہ اگر اسے اطمینان نہ ہو تو اس صورت میں جب منی خارج ہوگی تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
خدا و رسول پر بہتان باندھنا
1605۔ اگر روزہ دار زبان سے یا لکھ کر یا اشارے سے یا کسی اور طریقے سے اللہ تعالی یا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) یا آپ کے (برحق) جانشینوں میں سے کسی سے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اگرچہ وہ فوراً کہہ دے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یا توبہ کرلے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط مستحب کی بنا پر حضرت فاطمہ زَہرا سَلاَمُ اللہِ عَلَیہَا اور تمام انبیائے مرسلین اور ان کے جانشینوں سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب کرنےکا یہی حکم ہے۔
1606۔ اگر (روزہ دار) کوئی ایسی روایت نقل کرنا چاہے جس کے قطعی ہونے کی دلیل نہ ہو اور اس کے بارے میں اسے یہ علم نہ ہو کہ سچ ہے یا جھوٹ تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس شخص سے وہ روایت ہو یا جس کتاب میں لکھی دیکھی ہو اس کا حوالہ دے۔
1607۔ اگر (روزہ دار) کسی چیز کے بارے میں اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ واقعی قول خدایا قول پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) ہے اور اسے اللہ تعالی یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے منسوب کرنے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ نسبت صحیح نہیں تھی تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
1608۔ اگر روزے دار کسی چیز کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ جھوٹ ہے اسے اللہ تعالی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے منسوب کرے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ درست تھا تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ روزے کو تمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
1609۔ اگر روزے دار کسی ایسے جھوٹ کو جو خود روزے دار نے نہیں بلکہ کسی دوسرے نے گھڑا ہو جان بوجھ کر اللہ تعالی یا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) یا آپ کے (برحق) جانشینوں سے منسوب کر دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جائے لیکن اگر جس نے جھوٹ گھڑا ہو اس کا قول نقل کرے تو کوئی حرج نہیں ۔
1610۔ اگر روزے دار سے سوال کیا جائے کہ کیا رسول محتشم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے ایسا فرمایا ہے اور وہ عمداً جہاں جواب نہیں دینا چاہئے وہاں اثبات میں دے اور جہاں اثبات میں دینا چاہئے وہاں عمداً نفی میں دے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
1611۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالی یا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا قول درست نقل کرے اور بعد میں کہے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یا رات کو کوئی جھوٹی بات ان سے منسوب کرے اور دوسرے دن جب کہ روزہ رکھا ہو ہو کہے کہ جو کچھ میں نے گزشتہ رات کہا تھا وہ درست ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ روایت کے (صحیح یا غلط ہونے کے) بارے میں بتائے (تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا)۔
غبار کو حلق تک پہنچانا
1612۔ احتیاط واجب کی بنا پر کثیف غبار کو حلق تک پہنچانا روزے کو باطل کر دیتا ہے خواہ غبار کسی ایسی چیز کا ہو جس کا کھانا حلال ہو مثلاً آٹا یا کسی ایسی چیز کا ہو جس کا کھانا حرام ہو مثلاً مٹی ۔
1613۔اقوی یہ ہے کہ غیر کثیف غبار حلق تک پہنچانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
1614۔ اگر ہوا کی وجہ سے کثیف غبار پیدا ہو اور انسان متوجہ ہونے اور احتیاط کر سکنے کے باوجود احتیاط نہ کرے اور غبار اس کے حلق تک پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے ۔
1615۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سگریٹ اور تمباکو وغیرہ کا دھوان بھی حلق تک نہ پہنچائے۔
1616۔ اگر انسان احتیاط نہ کرے اور غبار یا دھواں وغیرہ حلق میں چلا جائے تو اگر اسے یقین یا اطمینان تھا کہ یہ چیزیں حلق میں نہ پہنچیں گی تو اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اسے گمان تھا کہ یہ حلق تک نہیں پہنچیں گی تو بہتر یہ ہے کہ اس روزے کی قضا بجالائے۔
1617۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جانے پر کہ روزے سے ہے احیتاط نہ کرے یا بے اختیار غبار وغیرہ اس کے حلق میں پہنچ جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
سر کو پانی میں ڈبونا
1618۔ اگر روزہ دار جان بوجھ کر سارا سر پانی میں ڈبو دے تو خواہ اس کا باقی بدن پانی سے باہر رہےمشہور قول کی بنا پر اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے لیکن بعید نہیں کہ ایسا کرنا روزے کو باطل نہ کرے۔ اگرچہ ایسا کرنے میں شدید کراہت ہے اور ممکن ہو تو اس سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
1619۔ اگر روزہ دار اپنے نصف سر کو ایک دفعہ اور باقی نصف سر کو دوسری دفعہ پانی میں ڈبوئے تو اس کا روزہ صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
1620۔ اگر سارا سر پانی میں ڈوب جائے تو خواہ کچھ بال پانی سے باہر بھی رہ جائیں تو اس کا حکم بھی مسئلہ (1618) کی طرح ہے۔
1621۔ پانی کے علاوہ دوسری سیال چیزوں مثلاً دودھ میں سر ڈبونے سے روزے کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ اور مضاف پانی میں سر ڈبونے کا بھی یہی حکم ہے۔
1622۔ اگر روزہ دار بے اختیار پانی میں گر جائے اور اس کا پورا سر پانی میں ڈوب جائے یا بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر پانی میں ڈبو لے تو اس کے روزے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
1623۔ اگر کوئی روزہ دار یہ خیال کرتے ہوئے اپنے آپ کو پانی میں گرا دے کہ اس کا سر پانی میں نہیں ڈوبے گا لیکن اس کا سارا سر پانی میں ڈوب جائے تو اس کے روزے میں بالکل اشکال نہیں ہے۔
1624۔ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اور سر پانی میں ڈبو دے تو اگر پانی میں ڈوبے ہوئے اسے یاد آئے کہ روزے سے ہے تو بہتر یہ ہے کہ روزہ دار فوراً اپنا سر پانی سے باہر نکالے۔ اور اگر نہ نکالے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
1625۔ اگر کوئی شخص روزے دار کے سر کو زبردستی پانی میں ڈبو دے تو اس کے روزے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن جب کہ وہ ابھی پانی میں ہے دوسرا شخص اپنا ہاتھ ہٹا لے تو بہتر ہے کہ فوراً اپنا سر پانی سے باہر نکال لے۔
1626۔ اگر روزہ دار غسل کی نیت سے سر پانی میں ڈبو دے تو اس کا روزہ اور غسل دونوں صحیح ہیں۔
1627۔ اگر کوئی روزہ دار کسی کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر سر کو پانی میں ڈبو دے خواہ اس شخص کو بچانا واجب ہی کیوں نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ روزے کی قضا بجالائے۔
اذان صبح تک جنابت، حیض اور نفاس کی حالت میں رہنا
1627۔اگر جُنب شخص ماہ رمضان المبارک میں جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو، اور وہ جان بوجھ کر تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ بھی باطل ہے اور ماہ رمضان کی قضا کا حکم بھی یہی ہے۔
1629۔ اگر جنب شخص ماہ رمضان کے روزوں اور ان کی قضا کے علاوہ ان واجب روزوں میں جن کا وقت ماہ رمضان کے روزوں کی طرح معین ہے جان بوجھ کر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا روزہ صحیح ہے۔
1630۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کی کسی رات میں جنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے حتی کہ وقت تنگ ہو جائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور روزہ رکھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا بھی بجالائے۔
1631۔ اگر جنب شخص ماہ رمضان میں غسل کرنا بھول جائے اور ایک دن کے بعد اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روہ قضا کرے اور اگر چند دنوں کے بعد یاد آئے تو اتنے دنوں کے روزوں کی قضا کرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ جنب تھا مثلاً اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ تین دن جنب رہا یا چار دن تو ضروری ہے تین دنوں کے روزوں کی قضا کرے۔
1632۔ اگر ایک ایسا شخص اپنے آپ کو جنب کرلے جس کے پاس ماہ رمضان کی رات میں غسل اور تیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔
1633۔ اگر روزہ دار یہ جاننے کے لئے جستجو کرے کہ اس کے پاس وقت ہے یا نہیں اور گمان کرے کہ اس کے پاس غسل کے لئے وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تیمم کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اور اگر بغیر جستجو کئے گمان کرے کہ اس کے پاس وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کر لے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تیمم کرکے روزہ رکھے تو احتیاط مستحب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔
1634۔جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوئے گا تو صبح تک بیدار ہ ہوگا اسے بغیر غسل کئے نہیں سونا چاہئے اور اگر وہ غسل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے سو جائے اور صبح تک بیدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہیں۔
1635۔جب جنب ماہ رمضان کی رات میں سو کر جاگ اٹھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر وہ بیدار ہونے کے بارے میں مطمئن نہ ہو تو غسل سے پہلے نہ سوئے اگرچہ اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدا ہو جائے گا۔
1636۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور اس کا مصمم ارادہ ہوکہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے کے ساتھ سو جائے اور اذان تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ اور اگر کوئی شخص صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہونے کے بارے میں مطمئن ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
1637۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور اسے علم ہو یا احتمال ہوکہ اگر سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور وہ اس بات سے غافل ہو کہ بیدار ہونے کے بعد اس پر غسل کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اور صبح کی اذان تک سویا رہے احتیاط کی بنا پر اس پر قضا واجب ہو جاتی ہے۔
1638۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہو اور اسے یقین ہو یا احتمال اس بات کا ہو کہ اگر وہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ بیدار ہونے کے بعد غسل نہ کرنا چاہتا ہوتو اس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اور بیدار نہ ہو اس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس کے لئے لازم ہے۔ اور اسی طرح اگر بیدار ہونے کے بعد اسے تردد ہو کہ غسل کرے یا نہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
1639۔اگر جنب شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں سو کر جاگ اٹھے اور اسے یقین ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر دوبارہ سو گیا تو صبح کی اذان سے پہلے بیدار ہو جائے گا اور وہ مصمم ارادہ بھی رکھتا ہو کہ بیدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور دوبارہ سو جائے اور اذان تک بیدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ بطور سزا اس دن کا روزہ قضا کرے۔ اور اگر دوسری نیند سے بیدار ہو جائے اور تیسری دفعہ سو جائے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ بھی دے۔
1640۔ جب انسان کو نیند میں احتلام ہو جائے تو پہلی، دوسری اور تیسری نیند سے مراد وہ نیند ہے کہ انسان (احتلام سے) جاگنے کے بعد سوئے لیکن وہ نیند جس میں احتلام ہوا پہلی نیند شمار نہیں ہوتی۔
1641۔ اگر کسی روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو اس پر فوراً غسل کرنا واجب نہیں۔
1642۔ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں صبح کی اذان کے بعد جاگے اور یہ دیکھے کہ اسے احتلام ہو گیا ہے تو اگرچہ اسے معلوم ہو کہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہوا ہے اس کا روزہ صحیح ہے۔
1643۔ جو شخص رمضان المبارک کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو اور وہ صبح کی اذان تک جنب رہے تو اگر اس کا اس حالت میں رہنا عمداً ہو تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر عمداً نہ ہو تو روزہ رکھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ روزہ نہ رکھے۔
1644۔ جو شخص رمضان المبارک کے قضا روزے رکھنا چاہتا ہو اگر وہ صبح کی اذان کے بعد بیدار ہو اور دیکھے کہ اسے احتلام ہو گیا ہے اور جانتا ہو کہ یہ احتلام اسے صبح کی اذان سے پہلے ہوا ہے تو اقوی کی بنا پر اس دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے۔
1645۔ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں میں کہ جن کا وقت معین نہیں ہے مثلاً کفارے کے روزے میں کوئی شخص عمداً اذان صبح تک جنب رہے تو اظہر یہ ہے کہ اس کا روزہ صحیح ہے لیکن بہتر ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔
1646۔ اگر رمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور عمداً غسل نہ کرے یا وقت تنگ ہونے کی صورت میں ۔ اگرچہ اس کے اختیار میں ہو اور رمضان کا روزہ ہو ۔ تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور احتیاط کی بنا پر ماہ رمضان کے قضا روزے کا بھی یہی حکم ہے (یعنی اس کا روزہ باطل ہے) اور ان دو کے علاوہ دیگر صورتوں میں باطل نہیں اگرچہ احوط یہ ہے کہ غسل کرے۔ ماہ رمضان میں جس عورت کی شرعی ذمہ داری حیض یا نفاس کے غسل کے بدلے تیمم ہو اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر رمضان میں اگر جان بوجھ کر اذان صبح سے پہلے تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
1647۔ اگر کوئی عورت ماہ رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدار رہنا ضروری نہیں ہے۔ جب جنب شخص کا وظیفہ تیمم ہو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
1648۔ اگر کوئی عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے نزدیک حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل یا تیمم کسی کے لئے وقت باقی نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1649۔ اگر کوئی عورت صبح کی اذان کے بعد حیض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے یا دن میں اسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو اگرچہ یہ خون مغرب کے قریب ہی کیوں نہ آئے اس کا روزہ باطل ہے۔
1650۔اگر عورت حیض یا نفاس کا غسل کرنا بھول جائے اور اسے ایک دن یا کئی دن کے بعد یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحیح ہیں۔
1651۔ اگر عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کرنے میں کوتاہی کرے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور وقت تنگ ہونے کی صورت میں تیمم بھی نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلا منتظر ہو کہ زمانہ حمام میسر آجائے خواہ اس مدت میں وہ تین دفعہ سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اور تیمم کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1652۔ جو عورت استحاضہ کثیرہ کی حالت میں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو اس تفصیل کے ساتھ نہ بجالائے جس کا ذکر مسئلہ 402 میں کیا گیا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ ایسے ہی استحاضہ متوسطہ میں اگرچہ عورت غسل نہ بھی کرے، اس کا روزہ صحیح ہے۔
1653۔ جس شخص نے میت کو مس کیا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ میت کے بدن سے چھوا ہو وہ غسل مس میت کے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت میں بھی میت کو مس کرے تو اس کا روزہ باط نہیں ہوت ا۔
حقنہ لینا
1654۔ سیال چیز سے حقنہ (انیما) اگرچہ بہ امر مجبوری اور علاج کی غرض سے لیا جائے روزے کو باطل کر دیتا ہے۔
قے کرنا
1655۔ اگر روزہ دار جان بوجھ کر قے کرے تو اگرچہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے لیکن اگر سہواً یا بے اختیار ہو کر قے کرے تو کوئی حرج نہیں۔
1656۔ اگر کوئی شخص رات کو ایسی چیز کھالے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کے کھانے کی وجہ سے دن میں بے اختیار قے آئے گی تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ قضا کرے۔
1658۔ اگر روزہ دار کے حلق میں مکھی چلی جائے چنانچہ وہ اس حد تک اندر چلی گئی ہو کہ اس کے نیچے لے جانے کو نگلنا نہ کہا جائے تو ضروری نہیں کہ اسے باہر نکالا جائے اور اس کا روزہ صحیح ہے لیکن اگر مکھی کافی حد تک اندر نہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ باہر نکالے اگرچہ اسے قے کرکے ہی نکالنا پڑھے مگر یہ کہ قے کرنے میں روزہ دار کو ضرر اور شدید تکلیف نہ ہو۔ اور اگر وہ قے نہ کرے اور اسے نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
1659۔ اگر روزہ دار سہواً کوئی چیز نگل لے اور اس کے پیٹ میں پہنچے سے پہلے اسے یاد آجائے کہ روزے سے ہے تو اس چیز کا نکالنا لازم نہیں اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
1660۔اگر کسی روزہ دار کو یقین ہو کہ ڈکار لینے کی وجہ سے کوئی چیز اس کے حلق سے باہر آجائے گی تو احتیاط کی بنا پر اسے جان بوجھ کر ڈکار نہیں لینی چاہئے لیکن اگر اسے ایسا یقین نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
1661۔ اگر روزہ دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے حلق یا منہ میں آجائے تو ضروری ہے کہ اسے اگل دے اور اگر وہ چیز بے اختیار پیٹ میں چلی جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
ان چیزوں کے احکام جو روزے کو باطل کرتی ہیں۔
1662۔ اگر انسان جان بوجھ کر اور اختیار کے ساتھ کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر کوئی ایسا کام جان بوجھ کر نہ کرے تو پھر اشکال نہیں لیکن اگر جنب سوجائے اور اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ 1639 میں بیان کی گئی ہے صبح کی اذان تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ چنانچہ اگر انسان نہ جانتا ہو کہ جو باتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے بعض روزے کو باطل کرتی ہیں یعنی جاہل قاصر ہو اور انکار بھی نہ کرتا ہو (بالفاظ دیگر مقصر نہ ہو) یا یہ کہ شرعی حجت پر اعتماد رکھنا ہو اور کھانے پینے اور جماع کے علاوہ ان افعال میں سے کسی فعل کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
1623۔ اگر روزہ دار سہواً کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور اس کے گمان سے کہ اس کا روزہ باطل ہوگیا ہے دوبارہ عمداً کوئی اور ایسا ہی کام کرے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
1664۔ اگر کوئی چیز زبردستی روزہ دار کے حلق میں انڈیل دی جائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگر اسے مجبور کیا جائے مثلاً اسے کہا جائے کہ اگر تم غذا نہیں کھاو گے تو ہم تمہیں مالی یا جانی نقصان پہنچائیں گے اور وہ نقصان سے بچنے کے لئے اپنے آپ کچھ کھالے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔
1665۔ روزہ دار کو ایسی جگہ نہیں جانا چاہئے جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ لوگ کوئی چیز اس کے حلق میں ڈال دیں گے یا اسے روزہ توڑنے پر مجبور کریں گے اور اگر ایسی جگہ جائے یا بہ امر مجبوری وہ خود کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز اس کے حلق میں انڈیل دیں تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
وہ چیزیں جو روزہ دار کے لئے مکروہ ہیں۔
1666۔ روزہ دار کے لئے کچھ چیزیں مکروہ ہیں اور ان میں سے بعض یہ ہیں:
1۔ آنکھ میں دوا ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ اس کا مزہ یا بو حلق میں پہنچے۔
2۔ ہر ایسا کام کرنا جو کمزوری کا باعث ہو مثلاً فصد کھلوانا اور حمام جانا۔
3۔ (ناک سے) ناس کھینچنا بشرطیکہ یہ علم نہ ہو کہ حلق تک پہنچے گی اور اگر یہ علم ہو کہ حلق تک پہنچے گی تو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
4۔ خوشبودار گھاس (اور جڑی بوٹیاں) سونگھنا۔
5۔ عورت کا پانی میں بیٹھنا۔
6۔ شیاف استعمال کرنا یعنی کسی خشک چیز سے انیما لینا۔
7۔ جو لباس پہن رکھا ہو اسے تر کرنا۔
8۔ دانت نکلوانا اور ہر وہ کام کرنا جس کی وجہ سے منہ سے خون نکلے۔
9۔ تر لکڑی سے مسواک کرنا۔
10۔ بلاوجہ پانی یا کوئی اور سیال چیز منہ میں ڈالنا
اور یہ بھی مکروہ ہے کہ منی نکالنے کے قصد کے بغیر انسان اپنی بیوی کا بوسہ لے یا کوئی شہوت انگیز کام کرے اور اگر ایسا کرنا منی نکالنے کے قصد سے ہو اور منی نہ نکلے تو احتیاط لازم کی بنا پر روزہ باطل ہو جاتا ہے۔
ایسے مواقع جن میں روزہ کی قضا اور کفارہ واجب ہو جاتے ہیں
1667۔اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے کو کھانے، پینے یا ہم بستری یا استمناء یا جنابت پر باقی رہنے کی وجہ سے باطل کرے جب کہ جبر اور ناچاری کی بنا پر نہیں بلکہ عمداً اور اختیاراً ایسا کیا ہو تو اس پر قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہوگا اور جو کوئی مَتَذَکَّرہ امور کے علاوہ کسی اور طریقے سے روزہ باطل کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ قضا کے علاوہ کفار بھی دے۔
1668۔ جن امور کا ذکر کیا گیا ہے اگر کوئی ان میں سے کسی فعل کو انجام دے جب کہ اسے پختہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
روزے کا کفارہ
1669۔ ماہ رمضان کا روزہ توڑنے کے کفارے کے طور پر ضروری ہے کہ انسان ایک غلام آزاد کرے یا ان احکام کے مطابق جو آئندہ مسئلے میں بیان کئے جائیں گے دو مہینے روزے رکھے یا ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا ہر فقیر کو ایک مد تقریباً 4۔3 کلو طعام یعنی گندم یا جو یا روٹی وغیرہ دے اور اگر یہ افعال انجام دینا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو بقدر امکان صدقہ دینا ضروری ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو توبہ و استغفار کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جس وقت (کفارہ دینے کے) قابل ہو جائے کفارہ دے۔
1670۔ جو شخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طور پر دو ماہ روزے رکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ ایک پورا مہینہ اور اس سے اگلے مہینے کے ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور اگر باقی ماندہ روزے مسلسل نہ بھی رکھے تو کوئی اشکال نہیں۔
1671۔جو شخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طور پر دو ماہ روزے رکھنا چاہے ضروری ہے کہ وہ روزے ایسے وقت نہ رکھے جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ ایک مہینے اور ایک دن کے درمیان عید قربان کی طرح کوئی ایسا دن آجائے گا جس کا روزہ رکھنا حرام ہے۔
1672۔ جس شخص کو مسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں اگر وہ ان کے بیچ میں بغیر عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے تو ضروری ہے کہ دوبارہ از سر نو روزے رکھے۔
1673۔اگر ان دنوں کے درمیان جن میں مسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں روزہ دار کو کوئی غیر اختیار عذر پیش آجائے مثلاً حیض یا نفاس یا ایسا سفر جسے اختیار کرنے پر وہ مجبور ہو تو عذر کے دور ہونے کے بعد روزوں کا از سر نو رکھنا اس کے لئے واجب نہیں بلکہ وہ عذر دور ہونے کے بعد باقیماندہ روزے رکھے۔
1674۔ اگر کوئی شخص حرام چیز سے اپنا روزہ باطل کر دے خواہ وہ چیز بذات خود حرام ہو جیسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہو جائے جیسے کہ حلال غذا جس کا کھانا انسان کے لئے بالعموم مضر ہویا وہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے۔ یعنی اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور دو مہینے روزے رکھے اور ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کر کھنا کھلائے یا ان میں سے ہر فقیر کو ایک مد گندم یا جَو یا روٹی وغیرہ دے اور اگر یہ تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن ہوں تو ان میں سے جو کفارہ ممکن ہو، دے۔
1675۔اگر روزہ دار جان بوجھ کر اللہ تعالی یا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے جس کی تفصیل گزشتہ مسئلہ میں بیان کی گئی ہے۔
1676۔اگر روزہ دار ماہ رمضان کے ایک دن میں کئی دفعہ جماع یا استمناء کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ ہر دفعہ کے لئے ایک ایک کفارہ دے۔
1677۔اگر روزہ دار ماہ رمضان کے ایک دن میں جماع اور استمناء کے علاوہ کئی دفعہ کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو روزے کے باطل کرتا ہو تو ان سب کےلئے بلااشکال صرف ایک کفارہ کافی ہے۔
1678۔اگر روزہ دار جماع کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور پھر اپنی زوجہ سے مجامعت بھی کرے تو دونوں کے لئے ایک کفارہ کافی ہے۔
1679۔ اگر روزہ دار کوئی ایسا کام کرے جو حلال ہو اور روزے کو باطل کرتا ہو مثلاً پانی پی لے اور اس کے بعد کوئی دوسرا ایسا کام کرے جو حرام ہو اور روزے کو باطل کرتا ہو مثلاً حرام غذا کھالے تو ایک کفارہ کافی ہے۔
1680۔اگر روزے دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے منہ میں آجائے تو اگر وہ اسے جان بوجھ کر نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہوجاتا ہے اور اگر اس چیز کا کھانا حرام ہو مثلاً ڈکار لیتے وقت خون یا ایسی خوراک جو غذا کی تعریف میں نہ آتی ہو اس کے منہ میں آجائے اور وہ اسے جان بوجھ کر نگل لے تو ضروری ہے کہ اس روزے کی قضا بجا لائے اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہ جمع بھی دے۔
1681۔ اگر کوئی شخص میت مانے کی ایک خاص دن روزہ رکھے گا تو اگر وہ اس دن جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کر دے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے اور اس کا کفارہ اسی طرح ہے جیسے کہ منت توڑنے کا کفارہ ہے۔
1682۔ اگر روزہ دار ایک ایسے شخص کے کہنے پر جو کہے کہ مغرب کا وقت ہوگیا ہے اور جس کےکہنے پر اسے اعتماد نہ ہو روزہ افطار کرلے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ مغرب کا وقت نہیں ہوا یا شک کرے کہ مغرب کا وقت ہوا ہے یا نہیں تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہو جاتے ہیں۔
1683۔ جو شخص جان بوجھ کر اپنا روزہ باطل کرلے اور اگر وہ ظہر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظہر سے پہلے سفر کرے تو اس پر سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ اگر ظہر سے پہلے اتفاقاً اسے سفر کرنا پڑھے تب بھی کفارہ اس پر واجب ہے۔
1684۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنا روزہ توڑ دے اور اس کے بعد کوئی عذر پیدا ہو جائے مثلاً حیض یا نفاس یا بیماری میں مبتلا ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔
1685۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ آج ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے اور وہ جان بوجھ کر روزہ توڑ دے لیکن بعد میں اسے پتہ چلے کہ شعبان کہ آخری تاریخ ہے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
1686۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کر آج رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پہلی تاریخ اور وہ جان بوجھ کر روزہ توڑ دے اور بعد میں پتہ چلے کہ پہلی شوال ہے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
1687۔ اگر ایک روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی روزہ دار بیوی سے جماع کرے تو اگر اس نے بیوی کو مجبور کیا ہو تو اپنے روزے کا کفارہ اور احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ اپنی بیوی کے روزے کا بھی کفارہ دے اور اگر بیوی جماع پر راضی ہو تو ہر ایک پر ایک ایک کفارہ واجب ہو جاتا ہے۔
1688۔ اگر کوئی عورت اپنے روزہ دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
1689۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی بیوی کو جماع پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
1690۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان المبارک میں اپنی روزہ دار بیوی سے جو سو رہی ہو جماع کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہو جاتا ہے اور عورت کا روزہ صحیح ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہیں ہے۔
1691۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو یا بیوی اپنے شوہر کو جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور کرے جس سے روزہ باطل ہو جاتا ہو تو ان دونوں میں سے کسی پر بھی کفارہ واجب نہیں ہے۔
1692۔ جو آدمی سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھے وہ اپنی روزہ دار بیوی کو جماع پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن اگر مجبور کرے تب بھی مرد پر کفارہ واجب نہیں۔
1693۔ ضروری ہے کہ انسان کفارہ دینے میں کوتا ہی نہ کرے لیکن فوری طور پر دینا بھی ضروری نہیں۔
1694۔ اگر کسی شخص پر کفارہ واجب ہو اور وہ کئی سال تک نہ دے تو کفارے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
1695۔ جس شخص کو بطور کفارہ ایک دن ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا ضروری ہو اگر ساٹھ فقیر موجود ہوں تو وہ ایک فقیر کو ایک مد سے زیادہ کھانا نہیں دے سکتا یا ایک فقیر کو ایک سے زائد مرتبہ پیٹ بھر کر کھلائے اور اسے اپنے کفارے میں زیادہ افراد کو کھانا کھلانا شمار کرے البتہ وہ فقیر کے اہل و عیال میں سے ہر ایک کو ایک مد دے سکتا ہے خواہ وہ چھوٹے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔
1696۔ جو شخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کی قضا کرے اگر وہ ظہر کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کرے جو روزے کے باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ دس فقیروں کو فرداً فرداً ایک مد کھانا دے اور اگر نہ دے سکتا ہو تو تین روزے رکھے۔
وہ صورتیں جن میں فقط روزے کی قضا واجب ہے
1697۔ جو صورتیں بیان ہوچکی ہیں ان کے علاوہ ان چند صورتوں میں انسان پر صرف روزے کی قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہیں ہے۔
1۔ ایک شخص ماہ رمضان کی رات میں جنب ہو جائے اور جیسا کہ مسئلہ 1639 میں تفصیل سے بتایا گیا ہے صبح کی اذان تک دوسری نیند سے بیدار نہ ہو۔
2۔ روزے کو باطل کرنے والا کام تو نہ کیا ہو لیکن روزے کی نیت نہ کرے یا ریا کرے (یعنی لوگوں پر ظاہر کرے کہ روزے سے ہوں) یا روزہ رکھنے کا ارادہ کرے۔ اسی طرح اگر ایسے کام کا ارادہ کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس دن کے روزے کی قضا رکھنا ضروری ہے۔
3۔ ماہ رمضان المبارک میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور جنابت کی حالت میں ایک ایک کئی دن روزے رکھتا رہے۔
4۔ ماہ رمضان المبارک میں یہ تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ صبح ہوچکی تھی تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ قُربت مطلقہ کی نیت سے اس دن ان چیزوں سے اجتناب کرے جو روزے کو باطل کرتی ہیں اور اس دن کے روزے کی قضا بھی کرے۔
5۔ کوئی کے کہے کہ صبح نہیں ہوئی اور انسان اس کے کہنے کی بنا پر کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور بعد میں پتہ چلے کہ صبح ہوگئی تھی۔
6۔ کوئی کہے کہ صبح ہوگئی ہے اور انسان اس کے کہنے پر یقین نہ کرے یا سمجھے کہ مذاق کر رہا ہے اور خود تحقیق نہ کرے اور کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو اور بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی۔
7۔ نابینا یا اس جیسا کوئی شخص کسی کے کہنے پر جس کا قول اس کے لئے شرعاً حجت ہو روزہ افطار کرلے اور بعد میں پتہ چلے کہ ابھی مغرب کا وقت نہیں ہوا تھا۔
8۔ انسان کو یقین یا اطمینان ہو کہ مغرب ہوگئی ہے اور وہ روزہ افطار کرلے اور بعد میں پتہ چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اگر مطلع ابر آلود ہو اور انسان اس گمان کے تحت روزہ افطار کرلے کہ مغرب ہوگئی ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو احتیاط کی بنا پر اس صورت میں قضا واجب ہے۔
9۔ انسان پیاس کی وجہ سے کلی کرے یعنی پانی منہ میں گھمائے اور بے اختیار پانی پیٹ میں چلاجائے۔ اگر نماز واجب کے وضو کے علاوہ کسی وضو میں کلی کی جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگر انسان بھول جائے کہ روزے سے ہے اور پانی گلے سے اتر جائے یا پیاس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں کہ جہاں کلی کرنا مستحب ہے ۔ جسیے وضو کرتے وقت۔ کلی کرے اور پانی بے اختیار پیٹ میں چلاجائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔
10۔ کوئی شخص مجبوری، اضطرار یا تقیہ کی حالت میں روزہ افطار کرے تو اس پر روزے کی قضا رکھنا لازم ہے لیکن کفارہ واجب نہیں۔
1698۔ اگر روزہ دار پانی کے علاوہ کوئی چیز منہ میں ڈالے اور وہ بے اختیار پیٹ میں چلی جائے یا ناک میں پانی ڈالے اور وہ بے اختیار (حلق کے) نیچے اتر جائے تو اس پر قضا واجب نہیں ہے۔
1699۔ روزہ دار کے لئے زیادہ کلیاں کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کے بعد لعاب دہن نگلنا چاہے تو بہتر ہے کہ پہلے تین دفعہ لعاب کو تھوک دے۔
1700۔ اگرکسی شخص کو معلوم ہو یا اسے احتمال ہو کہ کلی کرنے سے بے اختیار پانی اس کے حلق میں چلاجائے گا تو ضروری ہے کہ کلی نہ کرے۔ اور اگر جانتا ہو کہ بھول جانے کی وجہ سے پانی اس کے حلق میں چلا جائے گا تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
1701۔ اگر کسی شخص کو ماہ رمضان المبارک میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم نہ ہو کہ صبح ہوگئی ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو اس کے لئے روزے کی قضا کرنا ضروری نہیں۔
1702۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ مغرب ہوگئی ہے یا نہیں تو وہ روزہ افطار نہیں کر سکتا لیکن اگر اسے شک ہو کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں تو وہ تحقیق کرنے سے پہلے ایسا کام کر سکتا ہے جو روزے کو باطل کرتا ہو۔
قضاروزے کے احکام
1703۔ اگر کوئی دیوانہ اچھا ہوجائے تو اس کے لئے عالم دیوانگی کے روزوں کی قضا واجب نہیں۔
1704۔ اگر کوئی کافر مسلمان ہوجائے تو اس پر زمانہ کفر کے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اگر ایک مسلمان کافر ہو جائے اور پھر دوبارہ مسلمان ہو جائے تو ضروری ہے ایام کفر کے روزوں کی قضا بجالائے۔
1705۔ جو روزے انسان کی بے حواسی کی وجہ سے چھوٹ جائیں ضروری ہے کہ ان کی قضا بجالائے خواہ جس چیز کی وجہ سے وہ بے حواس ہوا ہو وہ علاج کی غرض سے ہی کھائی ہو۔
1706۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزے نہ رکھے اور بعد میں شک کرے کہ اس کا عذر کسی وقت زائل ہوا تا تو اس کے لئے واجب نہیں کہ جتنی مدت روزے نہ رکھنے کا زیادہ احتمال ہو اس کے مطابق قضا بجالائے مثلاً اگر کوئی شخص رمضان المبارک سے پہلے سفر کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ ماہ مبارک کی پانچویں تاریخ کو سفر سے واپس آیا تھا یا چھٹی کو یا مثلاً اس نے ماہ مبارک کے آخر میں سفر شروع کیا ہو اور ماہ مبارک ختم ہونے کے بعد واپس آیا ہو اور اسے پتہ نہ ہو کہ پچیسویں رمضان کو سفر کیا تھا۔یا چھبیسویں کو تو دونوں صورتوں میں وہ کمتر دنوں یعنی پانچ روزوں کی قضا کر سکتا ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں یعنی چھ روزوں کی قضا کرے۔
1707۔ اگر کسی شخص پر کئی سال کے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا واجب ہو تو جس سال کے روزوں کی قضا پہلے کرنا چاہے کر سکتا ہے لیکن اگر آخر رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کا وقت تنگ ہو مثلاً آخری رمضان المبارک کے پانچ روزوں کی قضا اس کے ذمے ہو اور آئندہ رمضان المبارک کے شروع ہونے میں بھی پانچ ہی دن باقی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ پہلے آخری رمضان المبارک کے روزوں کی قضا بجالائے۔
1708۔ اگر کسی شخص پر کئی سال کے ماہ رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہو اور وہ روزہ کی نیت کرتے وقت معین نہ کرے کہ کون سے رمضان المبارک کے روزے کی قضا کر رہا ہے تو اس کا شمار آخری ماہ رمضان کی قضا میں نہیں ہوگا۔
1709۔ جس شخص نے رمضان المبارک کا قضا روزہ رکھاہو وہ اس روزے کو ظہر سے پہلے توڑ سکتا ہے لیکن اگر قضا کا وقت تنگ ہو تو بہتر ہے کہ روزہ نہ توڑے۔
1710۔ اگر کسی نے میت کا قضا روزہ رکھا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ظہر کے بعد روزہ نہ توڑے۔
1711۔اگر کوئی بیماری یا حیض یا نفاس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اور اس مدت کے گزرنے سے پہلے کہ جس میں وہ ان روزں کی جو اس نے نہیں رکھے تھے قضا کر سکتا ہو مرجائے تو ان روزوں کی قضا نہیں ہے۔
1712۔اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اور اس کی بیماری آئندہ رمضان تک طول کھینچ جائے تو جو روزے اس نے نہ رکھے ہوں ان کی قضا اس پر واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام یعنی گندم یا جَو یا روٹی وغیرہ فقیر کو دے لیکن اگر کسی اور عذر مثلاً سفر کی وجہ سے روزے نہ رکھے اور اس کا عذر آئندہ رمضان المبارک تک باقی رہے تو ضروری ہے کہ جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ہر ایک دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔
1713۔ اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اور رمضان المبارک کے بعد اس کی بیماری دور ہوجائے لیکن کوئی دوسرا عذر لاحق ہو جائے جس کی وجہ سے وہ آئندہ رمضان المبارک تک قضا روزے نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا بجالائے نیز اگر رمضان المبارک میں بیماری کے علاوہ کوئی اور عذر رکھتا ہو اور رمضان المبارک کے بعد وہ عذر دور ہو جائے اور آئندہ سال کے رمضان المبارک تک بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو جو روزے نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا بجالائے اور احتیاط واجب کی بنا پر ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔
1714۔ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے رمضان المبارک میں روزے نہ رکھے اور رمضان المبارک کے بعد اس کا عذر دور ہوجائے اور وہ آئندہ رمضان المبارک تک عمداً روزوں کی قضا نہ بجالائے تو ضروری ہے کہ روزوں کی قضا کرے اور ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دے۔
1715۔ اگر کوئی شخص قضا روزے رکھنے میں کوتاہی کرے حتی کہ وقت تنگ ہو جائے اور وقت کی تنگی میں اسے کوئی عذر پیش آجائے تو ضروری ہے کہ روزوں کی قضا کرے اور احتیاط کی بنا پر ہر ایک دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دے۔ اور اگر عذر دور ہونے کے بعد مصمم ارادہ رکھتا ہو کہ روزوں کی قضا بجالائے گا لیکن قضا بجا لانے سے پہلے تنگ وقت میں اسے کوئی عذر پیش آجائے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
1716۔ اگر انسان کا مرض چند سال طور کھینچ جائے تو ضروری ہے کہ تندرست ہونے کے بعد آخری رمضان المبارک کے چھٹے ہوئے روزوں کی قضا بجالائے اور اس سے پچھلے سالوں کے ماہ ہائے مبارک کے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقیر کو دے۔
1717۔ جس شخص کے لئے ہر روزے کے عوض ایک مد طعام فقیر کو دینا ضروری ہو وہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقیر کو دے سکتا ہے۔
1718۔ اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کرنے میں کئی سال کی تاخیر کر دے تو ضروری ہے کہ قضا کرے اور پہلے سال میں تاخیر کرنے کی بنا پر ہر روزے کے لئے ایک مدطعام فقیر کو دے لیکن باقی کئی سال کی تاخیر کے لئے اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
1719۔ اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے روزے جان بوجھ کر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بجالائے اور ہر دن کے لئے دو مہینے روزے رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا دے یاایک غلام آزاد کرے اور اگر آئندہ رمضان المبارک تک ان روزوں کی قضانہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر ہردن کے لئے ایک مد طعام کفارہ بھی دے۔
1720۔ اگر کوئی شخص جان بوجھکر رمضان المبارک کا روزہ نہ رکھے اور دن میں کئی دفعہ جماع یا استمناء کرے تو اقوی کی بنا پر کفارہ مکررنہیں ہوگا (ایک کفارہ کافی ہے) ایسے ہی اگر کئی دفعہ کوئی اور ایسا کام کرے جو روزے کو باطل کرتا ہو مثلاً کئی دفعہ کھانا کھائے تب بھی ایک کفارہ کافی ہے۔
1721۔ باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کے لئے احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ باپ کے روزوں کی قضا اسی طرح بجالائے جیسے کہ نماز کے سلسلے میں مسئلہ 1399 میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
1722۔اگر کسی کے باپ نے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کوئی دوسرے واجب روزے مثلا سَنَّتی روزے نہ رکھے ہوں تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بڑا بیٹا ان روزوں کی قضا بجالائے۔ لیکن اگر باپ کسی کے روزوں کے لئے اجیر بنا ہو اور اس نے وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ان روزوں کی قضا بڑے بیٹے پر واجب نہیں ہے۔
مسافر کے روزوں کے احکام
1723۔جس مسافر کے لئے سفر میں چار رکعتی نماز کے بجائے دو رکعت پڑھنا ضروری ہو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے لیکن وہ مسافر جو پوری نماز پڑھتا ہو مثلاً وہ شخص جس کا پیشہ ہی سفر ہو یا جس کا سفر کسی ناجائز کام کے لئے ہو ضروری ہے کہ سفر میں روزہ رکھے۔
1724۔ ماہ رمضان المبارک میں سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن روزے سے بچنے کے لئے سفر کرنا مکروہ ہے اور اسی طرح رمضان المبارک کی چوبیسویں تاریخ سے پہلے سفر کرنا (بھی مکروہ ہے) بجز اس سفر کے جو حج، عمرہ یا کسی ضروری کام کے لئے ہو۔
1725۔اگر ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کسی خاص دن کا روزہ انسان پر واجب ہو مثلاً وہ روزہ اجارے یا اجارے کی مانند کسی وجہ سے واجب ہوا ہو یا اعتکاف کے دنوں میں سے تیسرا دن ہو تو اس دن سفر نہیں کر سکتا اور اگر سفر میں ہو اور اس کے لئے ٹھہرنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ دس دن ایک جگہ قیام کرنے کی نیت کرے اور اس دن روزہ رکھے لیکن اگر اس دن کا روزہ منت کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو ظاہر یہ ہے کہ اس دن سفر کرنا جائز ہے اور قیام کی نیت کرنا واجب نہیں۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جب تک سفر کرنے کے لئے مجبور نہ ہو سفر نہ کرے اور اگر سفر میں ہو تو قیام کرنے کی نیت کرے۔
1726۔ اگر کوئی شخص مستحب روزے کی منت مانے لیکن اس کے لئے دن معین نہ کرے تو وہ شخص سفر میں اسیا مَنّتی روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اگر منت مانے کی سفر کے دوران ایک مخصوص دن روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ وہ روزہ سفر میں رکھنے نیز اگر منت مانے کی سفر میں ہو یا نہ ہو ایک مخصوص دن کا روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ اگرچہ سفر میں تب بھی اس دن کا روزہ رکھے۔
1727۔ مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن مدینہ طیبہ میں مستحب روزہ رکھ سکتا ہے اور اَحوَط یہ ہے کہ وہ تین دن بدن، جمعرات اور جمعہ ہوں۔
1728۔ کوئی شخص جسے یہ علم نہ ہو کہ مسافر کا روزہ رکھنا باطل ہے، اگر سفر میں روزہ رکھ لے اور دن ہی دن میں اسے حکم مسئلہ معلوم ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن اگر مغرب تک حکم معلوم نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
1729۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ وہ مساف ہے یا یہ بھول جائے کہ مسافر کا روزہ باطل ہوتاہے اور سفر کے دوران روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
1730۔ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے احتیاط کی بنا پر اپنے روزے کو تمام کرے اور اگر ظہر سے پہلے سفر کرے اور رات سے ہی سفر کا ارادہ رکھتا ہو تو اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا بلکہ اگر رات سے سفر کا ارادہ نہ ہو تب بھی احتیاط کی بنا پر اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن ہر صورت میں حد تَرخُّص تک پہنچنے سے پہلے ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جو روزہ کو باطل کرتا ہو ورنہ اس پر کفارہ واجب ہوگا۔
1731۔ اگر مسافر ماہ رمضان المبارک میں خواہ وہ فجر سے پہلے سفر میں ہو یا روزے سے ہو اور سفر کرے اور ظہر سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن قیام کرنا چاہتا ہو اور اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہوجو روزے کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ رکھے اور اگر کوئی ایسا کام کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو تو اس دن کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے۔
1732۔اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن پہنچے یا ایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن قیام کرنا چاہتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا۔
1733۔ مسافر اور وہ شخص جو کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو اس کے لئے ماہ رمضان المبارک میں دن کے وقت جماع کرنا اور پیٹ بھر کر کھانا اور پینا مکروہ ہے۔
وہ لوگ جن پر روزہ رکھنا واجب نہیں
1734۔ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا روزہ رکھنا اس کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ ہر روزے کے عوض ایک مُدطعام یعنی گندم یا جَو یا روٹی یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز فقیر کو دے۔
1735۔ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے ماہ رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اگر وہ رمضان المبارک کے بعد روزے رکھے کے قابل ہوجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا بجالائے۔
1736۔ اگر کسی شخص کو کوئی ایسی بیماری ہو جس کی وجہ سے اسے بہت زیادہ پیاس لگتی ہو اور وہ پیاس برداشت نہ کر سکتا ہو یا پیاس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ضروری ہے کہ ہر روزے کے عوض ایک مدطعام فقیر کو دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جتنی مقدار اشد ضروری ہو اس سے زیادہ پانی نہ پیئے اور بعد میں جب روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے تو جو روزے نہ رکھے ہوں احتیاط مستحب کی بنا پر ان کی قضا بجالائے۔
1737۔جس عورت کا وضع حمل کا وقت قریب ہو اس کا روزہ رکھنا خود اس کے لئے یا اس کے ہونے والے بچے کے لئے مضر ہو اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ وہ ہر دن کے عوض ایک مد طعام فقیر کو دے اور ضروری ہے کہ دونوں صورتوں میں جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا بجالائے۔
1738۔ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس کا دودھ کم ہو خواہ وہ بچے کی ماں ہو یا دایہ اور خواہ بچے کو مفت دودھ پلارہی ہو اگر اس کا روزہ رکھنا خود ان کے یا دودھ پینے والے بچے کے لئے مضر ہو تو اس عورت پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مدطعام فقیر کو دے اور دونوں صورتوں میں جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضا کرنا ضروری ہے۔ لیکن احتیاط واجب کی بنا پر حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ بچے کو دودھ پلانے کا انحصار اسی پر ہو لیکن اگر بچے کو دودھ پلانے کا کوئی اور طریقہ ہو مثلاً کچھ عورتیں مل کر بچے کو دودھ پلائیں تو ایسی صورت میں اس حکم کے ثابت ہونے میں اشکال ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کا طریقہ
1739۔ مہینے کی پہلی تاریخ (مندرجہ ذیل) چار چیزوں سے ثابت ہوتی ہے :
1۔ انسان خود چاند دیکھے۔
2۔ ایک ایسا گروہ جس کے کہنے پر یقین یا اطمینان ہو جائے یہ کہے کہ ہم نے چاند دیکھا ہے اور اس طرح ہر وہ چیز جس کی بدولت یقین یا اطمینان ہو جائے۔
3۔ دو عادل مرد یہ کہیں کہ ہم نے رات کو چاند دیکھا ہے لیکن اگر وہ چاند کے الگ الگ اوصاف بیان کریں تو پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی۔ اور یہی حکم ہے اگر ان کی گواہی میں اختلاف ہو۔ یا اس کے حکم میں اختلاف ہو۔ مثلاً شہر کے بہت سے لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں لیکن دو عادل آدمیوں کے علاوہ کوئی دوسرا چاند دیکھنے کا دعوی نہ کرے یا کچھ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں اور ان لوگوں میں سے دو عادل چاند دیکھنے کا دعوی کریں اور دوسروں کو چاند نظر نہ آئے حالانکہ ان لوگوں میں دو اور عادل آدمی ایسے ہوں جو چاند کی جگہ پہچاننے، نگاہ کی تیزی اور دیگر خصوصیات میں ان پہلے دو عادل آدمیوں کی مانند ہوں (اور وہ چاند دیکھنے کا دعوی نہ کریں) تو ایسی صورت میں دو عادل آدمیوں کی گواہی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی۔
4۔ شعبان کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزر جائیں جن کے گزرنے پر ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریک ثابت ہوجاتی ہے اور رمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزر جائیں جن کے گزرنے پر شوال کی پہلی تاریخ ثابت ہو جاتی ہے۔
1740۔ حاکم شرع کے حکم سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی اور احتیاط کی رعایت کرنا اولی ہے۔
1741۔ منجموں کی پیش گوئی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی لیکن اگر انسان کو ان کے کہنے سے یقین یا اطمینان ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے۔
1742۔ چاند ا آسمان پر بلند ہونا یا اس کا دیر سے غروب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ سابقہ رات چاند رات تھی اور اسی طرح اگر چاند کے گرد حلقہ ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پہلی کا چاند گزشتہ رات نکلا ہے۔
1743۔ اگر کسی شخص پر ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے لیکن بعد میں ثابت ہو جائے کہ گزشتہ رات ہی چاند تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔
1744۔ اگر کسی شہر میں مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہو جائے تو وہ دوسرے شہروں میں بھی کہ جن کا افق اس شہر سے متحد ہو مہینے کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔ یہاں پر افق کے متحد ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر پہلے شہر میں چاند دکھائی دے تو دوسرے شہر میں بھی اگر بادل کی طرح کوئی رکاوٹ نہ ہو تو چاند دکھائی دیتا ہے۔
1745۔ مہینے کی پہلی تاریخ ٹیلی گرام (اور ٹیلکس یا فیکس) سے ثابت نہیں ہوتی سوائے اس صورت کے کہ انسان کو علم ہو کہ یہ پیغام دو عادل مردوں کی شہادت کی رو سے کسی دوسرے ایسے طریقے سے آیا ہے جو شرعاً معتبر ہے ۔
1746۔ جس دن کے متعلق انسان کو علم نہ ہو کہ رمضان المبارک کا آخری دن ہے یا شوال کا پہلا دن اس دن ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن اگر دن ہی دن میں اسے پتہ چل جائے کہ آج یکم شوال (روز عید) ہے تو ضروری ہے کہ روزہ افطار کرلے۔
1747۔ اگر کوئی شخص قید میں ہو اور ماہ رمضان کے بارے میں یقین نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ گمان پر عمل کرے لیکن اگر قوی گمان پر عمل کر سکتا ہو تو ضعیف گمان پر عمل نہیں کر سکتا اور اگر گمان پر عمل ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس مہینے کے بارے میں احتمال ہو کہ رمضان ہے اس مہینے میں روزے رکھے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس مہینے کو یاد رکھے۔ چنانچہ بعد میں اسے معلوم ہو کہ وہ ماہ رمضان یا اس کے بعد کا زمانہ تھا تو اس کے ذمے کچھ نہیں ہے۔ لیکن اگر معلوم ہو کہ ماہ رمضان سے پہلے کا زمانہ تھا تو ضروری ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا کرے۔
حرام اور مکروہ روزے
1748۔ عید فطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے نیز جس دن کے بارے میں انسان کو یہ علم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان المبارک کی پہلی تو اگر وہ اس دن پہلی رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھے تو حرام ہے۔
1749۔اگر عورت کے مستحب (نفلی) روزہ رکھنے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہو تو عورت کا روزہ رکھنا حرام ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ خواہ شوہر کی حق تلفی نہ بھی ہوتی ہو اس کی اجازت کے بغیر مستحب (نفلی) روزہ نہ رکھے۔
1750۔اگر اولاد کا مستحب روزہ ۔ ماں باپ کی اولاد سے شفقت کی وجہ سے ۔ ماں باپ کے لئے اذیت کا موجب ہو تو اولاد کے لئے مستحب روزہ رکھنا حرام ہے۔
1751۔ اگر بیٹا باپ کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھ لے اور دن کے دوران باپ اسے (روزہ رکھنے سے)منع کرے تو اگر بیٹے کا باپ کی بات نہ ماننا فطری شفقت کی وجہ سے اذیت کا موجب ہو تو بیٹے کو چاہئے کہ روزہ توڑ دے۔
1752۔ اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ روزہ رکھنا اس کے لئے ایسا مضر نہیں ہے کہ جس کی پروا کی جائے تو اگرچہ طبیب کہے کہ مضمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور اگر کوئی شخص یقین یا گمان رکھتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے تو اگرچہ طبیب کہے کہ مضر نہیں ہے ضروری ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور اگر وہ روزہ رکھے جبکہ روزہ رکھنا واقعی مضر ہو یا قصد قربت سے نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہے۔
1753۔اگر کسی شخص کو احتمال ہو کہ روزہ رکھنا اس کے لئے ایسا مضر ہے کہ جس کی پروا کی جائے اور اس احتمال کی بنا پر (اس کے دل میں) خوف پیدا ہو جائے تو اگر اس کا احتمال لوگوں کی نظر میں صحیح ہوتو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اور اگر وہ روزہ رکھ لے تو سابقہ مسئلے کی طرح اس صورت میں بھی اس کا روزہ صحیح نہیں ہے۔
1754۔ جس شخص کو اعتماد ہو کہ روزہ رکھنا اس کے لئے مضر نہیں اگر وہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد اسے پتہ چلے کہ روزہ رکھنا اس کے لئے ایسا مضر تھا کہ جس کی پروا کی جاتی تو احتیاط واجب کی بنا پر اس روزے کی قضا کرنا ضروری ہے۔
1755۔ مندرجہ بالا روزوں کے علاوہ اور بھی حرام روزے ہیں جو مفصل کتابوں میں مذکور ہیں۔
1756۔ عاشور کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور اس دن کا روزہ بھی مکروہ ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عید قربان کا دن۔
مستحب روزے
1757۔ بجز حرام اور مکروہ روزوں کے جن کا ذکر کیا گیا ہے سال کے تمام دنوں کے روزے مستحب ہیں اور بعض دنوں کے روزے رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے جن میں سے چند یہ ہیں :
1۔ ہر مہینے کی پہلی اور آخری جمعرات اور پہلا بدھ جو مہینے کی دسویں تاریخ کے بعد آئے۔
اور اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو مستحب ہے کہ ان کی قضا کرے اور اگر روزہ بالکل نہ رکھ سکتا ہو تو مستحب ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مُدطعام یا 6۔ 12 نخود سکہ دار چاندی فقیر کو دے۔
2۔ ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ ۔
3۔ رجب اور شعبان کے پورے مہینے کے روزے۔ یا ان دو مہینوں میں جتنے روزے رکھ سکیں خواہ وہ ایک دن ہی کیوں نہ ہو۔
4۔ عید نوروز کا دن
5۔ شوال کی چوتھی سے نویں تاریخ تک
6۔ ذی قعدہ کی پچیسویں اور اکتیسویں تاریخ
7۔ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ (یوم عرفہ) تک لیکن اگر انسان روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کی بنا پر یوم عرفہ کی دعائیں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
8۔ عید سعید غدیر کا دن (18 ذی الحجہ)
9۔ روز مباہلہ (24 ۔ذی الحجہ)
10۔ محرم الحرام کی پہلی، تیسری اور ساتویں تاریخ
11۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی ولادت کا دن (17۔ ربیع الاول)
12۔ جمادی الاول کی پندرہ تاریخ۔
نیز (عید بِعثَت یعنی) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اعلان رسالت کے دن (27 رجب) بھی روزہ رکھنا مستحب ہے۔ اور جو شخص مستحب روزہ رکھے اس کے لئے واجب نہیں ہے کہ اسے اختتام تک پہنچائے بلکہ اگر اس کا کوئی مومن بھائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن میں ہی روزہ کھول لے خواہ ظہر کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
وہ صورتیں جن میں مبطلات روزہ سے پرہیز مستحب ہے۔
1758۔(مندرجہ ذیل) پانچ اشخاص کے لئے مستحب ہے کہ اگرچہ روزے سے نہ ہوں ماہ رمضان المبارک میں ان افعال سے پرہیز کریں جو روزے کو باطل کرتے ہیں :
1۔ وہ مسافر جس نے سفر میں کوئی ایسا کام کیا ہو جو روزے کو باطل کرتا ہو اور وہ ظہر سے پہلے اپنے وطن یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو۔
2۔ وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو۔ اور اسی طرح اگر ظہر سے پہلے ان جگہوں پر پہنچ جائے جب کہ وہ سفر میں روزہ توڑ چکا ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
3۔ وہ مریض جو ظہر کے بعد تندرست ہو جائے۔ اور یہی حکم ہے اگر ظہر سے پہلے تندرست ہوجائے اگرچہ اس نے کوئی ایسا کام (بھی) کیا ہو جو روزے کو باطل کرتاہو۔ اور طرح اگر ایسا کام نہ کیا ہو تو اس کا حکم مسئلہ 1576 میں گزر چکا ہے۔
4۔ وہ عورت جو دن میں حیض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے۔
1759۔ روزہ دار کے لئے مستحب ہے کہ روزہ افطار کرنے سے پہلے مغرب اور عشا کی نماز پڑھےلیکن اگر کوئی دوسرا شخص اس کا انتظار کر رہا ہو یا اسے اتنی بھوک لگی ہو کہ حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے کہ پہلے روزہ افطار کرے لیکن جہاں تک ممکن ہو نماز فضیلت کے وقت میں ہی ادا کرے۔