5/4/2017         ویزیٹ:2546       کا کوڈ:۹۳۴۲۶۶          ارسال این مطلب به دیگران

توضیح المسائل: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ » توضیح المسائل: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ
  ،   عبادات (وضو)
→ مُطہّرات .............................................................................................................واجب غسل ←


عبادات (وضو)

وضو



242۔وضو میں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور دونوں پاوں کے سامنے والے حصے کا مسح کیا جائے۔

243۔ چہرے کو لمبائی میں پیشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جہاں سر کے بال اگتے ہیں ٹھوڑی کے آخری کنارے تک دھونا ضروری ہے اور چوڑائی میں بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے پھیلاو میں جتنی جگہ آجائے اسے دھونا ضروری ہے اگر اس مقدار کا ذرا سا حصہ بھی چھوٹ جائے تو وضو باطل ہے۔اور اگر انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ ضروری حصہ پورا ڈھل گیا ہے تو یقین کرنے کے لئے تھوڑا تھوڑا ادھر ادھر سے دھونا بھی ضروری ہے۔

244۔ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی بہ نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو اسے دیکھنا چاہئے کہ عام لوگ کہاں تک اپنا چہرہ دھوتے ہیں اور پھر وہ بھی اتنا ہی دھو ڈالے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی پیشانی پر بال اگے ہوئے ہوں یا سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو اسے چاہئے کہ عام اندازے کے مطابق پیشانی دھو ڈالے۔

245۔ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ کسی شخص کی بھوں، آنکھ کے گوشوں اور ہونٹوں پر میل یا کوئی دوسری چیز ہے۔ جو پانی کے ان تک پہنچنے میں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظروں میں درست ہو تو اسے وضو سے پہلے تحقیق کر لینی چاہئے اور اگر کوئی چیز ہو تو اسے دور کرنا چاہئے۔

246۔ اگر چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہو تو پانی جلد تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دھونا کافی ہے اور ان کے نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں۔

247۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چہرے کی جلد بالوں کے نیچے سے نظر آتی ہے یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ بالوں کو دھوئے اور پانی جلد تک بھی پہنچائے۔

248۔ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکھوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہیں آتے دھونا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ جن جگہوں کا دھونا ضروری ہے ان میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی تو واجب ہے کہ ان اعضاء کا کچھ اضافی حصہ بھی دھو لے تاکہ اسے یقین ہو جائے اور جس شخص کو اس (مذکورہ) بات کا علم نہ ہو اگر اس نے جو وضو کیا ہے اس میں ضروری حصے دھونے یا نہ دھونے کے بارے میں نہ جانتا ہو تو اس وضو سے اس نے جو نماز پڑھی ہے وہ صحیح ہے اور بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔

249۔ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھوں اور اسی طرح چہرے کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھوئے جائیں تو وضو باطل ہوگا۔

250۔ اگر ہتھیلی پانی سے تر کر کے چہرے اور ہاتھوں پر پھیری جائے اور ہاتھ میں اتنی تری ہو کہ اسے پھیرنے سے پورے چہرے اور ہاتھوں پر پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔ ان پر پانی کا بہنا ضروری نہیں۔

251۔ چہرہ دھونے کے بعد پہلے دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ کہنی سے انگلیوں کے سروں تک دھونا چاہئے۔

252۔ اگر انسان کو یقین نہ ہو کہ کہنی کو پوری طرح دھولیا ہے تو یقین کرنے کے لئے کہنی سے اوپر کا کچھ حصہ دھونا بھی ضروری ہے۔

253۔ جس شخص نے چہرہ دھونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو کلائی کے جوڑ تک دھویا ہو اسے چاہئے کہ وضو کرتے وقت انگلیوں کے سروں تک دھوئے۔ اگر وہ صرف کلائی کے جوڑ تک دھوئے گا تو اس کا وضو باطل ہوگا۔

254۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کا ایک دفعہ دھونا واجب، دوسری دفعہ دھونا مستحب اور تیسری دفعہ یا اس سے زیادہ بار دھونا حرام ہے۔ ایک دفعہ دھونا اس وقت مکمل ہوگا جب وضو کی نیت سے اتنا پانی چہرے یا ہاتھ پر ڈالے کہ وہ پانی پورے چہرے یا ہاتھ پر پہنچ جائے اور احتیاطاً کوئی جگہ باقی نہ رہے لہذا اگر پہلی دفعہ دھونے کی نیت سے دس بار بھی چہرے پر پانی ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی جب تک مثلاً وضو کرنے یا چہرہ دھونے کی نیت نہ کرنے پہلی بار دھونا شمار نہیں ہوگا۔ لہذا اگر چاہے تو چند بار چہرہ کو دھولے اور آخری بار چہرہ دھوتے وقت وضو کی نیت کر سکتا ہے لیکن دوسری دفعہ دھونے میں نیت کا معتبر ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگرچہ وضو کی نیت سے نہ بھی ہو ایک دفعہ دھونے کے بعد ایک بار سے زائد چہرے یا ہاتھوں کو نہ دھوئے۔

255۔ دونوں ہاتھ دھونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا مسح وضو کے پانی کی اس تری سے کرنا چاہئے جو ہاتھوں کو لگی رہ گئی ہو۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جو اوپر سے نیچے کی طرف ہو۔

256۔ سر کے چار حصوں میں سے پیشانی سے ملا ہوا ایک حصہ وہ مقام ہے جہاں مسح کرنا چاہئے۔ اس حصے میں جہاں بھی اور جس اندازے سے بھی مسح کریں کافی ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ طول میں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور عرض میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کیا جائے۔

257۔ یہ ضروری نہیں کہ سر کا مسح جلد پر کیا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے لیکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً اگر کنگھا کرے تو چہرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پہنچیں تو ضروری ہے کہ وہ بالوں کی جڑوں پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے۔ اور اگر وہ چہرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصوں تک پہنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے گا یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے کو بڑھ آئے ہوں مسح کرے گا تو ایسا مسح باطل ہے۔

258۔ سر کے مسح کے بعد وضو کے پانی کی اس تری سے جو ہاتھوں میں باقی ہو پاوں کی کسی ایک انگلی سے لے کر پاوں کے جوڑ تک مسح کرنا ضروری ہے۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ دائیں پیر کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں پیر کا بائیں ہاتھ سے مسح کیا جائے۔

259۔ پاوں پر مسح کا عرض جتنا بھی ہو کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ تین جڑی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر ہو اور اس سے بھی بہتریہ ہے کہ پاوں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھیلی سے کیا جائے۔

260۔ احتیاط یہ ہے کہ پاوں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگلیوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاوں کے ابھار کی جانب کھینچے یا ہاتھ پاوں کے جوڑ پر رکھ کر انگلیوں کے سروں کی طرف کھینچے۔ یہ درست نہیں کہ پورا ہاتھ پاوں پر رکھے اور تھوڑا سا کھینچے۔

261۔ سر اور پاوں کا مسح کرنے وقت ہاتھ پر کھینچنا ضروری ہے۔اور اگر ہاتھ کو ساکن رکھے اور سر یا پاوں کو اس پر چلائے تو باطل ہے لیکن ہاتھ کھینچنے کے وقت سر اور پاوں معمولی حرکت کریں تو کوئی حرن نہیں۔

262۔ جس جگہ کا مسح کرنا ہو وہ خشک ہونی چاہئے۔ اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھیلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے لیکن اگر اس پر نمی ہو یا تری اتنی کم ہو کہ وہ ہتھیلی کی تری سے ختم ہو جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

263۔ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھیلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو اسے دوسرے پانی سے تر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسی صورت میں اپنی ڈاڑھی کی تری لے کر اس سے مسح کرنا چاہئے۔ اور ڈاڑھی کے علاوہ اور کسی جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محل اشکال ہے۔

264۔ اگر ہتھیلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سر کا مسح اس تری سے کیا جائے اور پاوں کے مسح کے لئے اپنی ڈاڑھی سے تری حاصل کرے۔

265۔ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے۔ ہاں اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغیرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتارے جاسکیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تیمم بھی کرے۔ اور تقیہ کی صورت میں موزے اور جوتے پر مسح کرنا کافی ہے۔

266۔ اگر پاوں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے دھویا بھی نہ جاسکتا ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

ارتماسی وضو


267۔ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چہرے اور ہاتھوں کو وضو کی نیت سے پانی میں ڈبو دے۔ بظاہر ارتماسی طریقے سے دھلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسا کرنا خلاف احتیاط ہے۔

268۔ ارتماسی وضو میں بھی چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے چاہئیں۔ لہذا جب کوئی شخص وضو کی نیت سے چہرہ اور ہاتھ پانی میں ڈبوئے تو ضروری ہے کہ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے ڈبوئے۔

229۔ اگر کوئی شخص بعض اعضاء کا وضو ارتماسی طریقے سے اور بعض کا غیر ارتماسی (یعنی ترتیبی) طریقے سے کرے تو کوئی حرج نہیں۔

دعائیں جن کا وضو کرتے وقت پڑھنا مستحب ہے


270۔ جو شخص وضو کرنے لگے اس کے لئے مستحب ہے کہ جب اس کی نظر پانی پر پڑے تو یہ دعا پڑھے:۔

بِسِم اللہ وَ بِاللہِ وَالحَمدُ للہ الّذی حَعَلَ المَآءَ طَھُوراوّلم یَجعَلہُ نجسنا۔

جب وضو سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے تو یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ اجعَلنی مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلنِی مِنَ المُتَھِرینَ۔

کُلّی کرنے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ لَقِّنِّی حُجَّتِی یَومَ اَلقاکَ وَاَطلِق لِسَانیِ بِذِکرِکَ نام میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے:اَللّھُمَّ لاَ تُحَرِّم عَلَیَّ رِیحَ الجَنَّۃِ واجعَلنِی مِمَّن یَّشُمُّ رِیحَھَا وَرَوحَھَا وَ طِیبَھَا۔

چہرہ دھوتے یا دُعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ بَیِض وَجھِی یَومَ تَسوَدّ الوُجُوہُ وَلَا تُسَوِدوَلاَ تُسَوِد وَجھِی یَومَ تَبیَضُّ الوُجُوہُ۔

دایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ اَعطِنِی کِتَابیِ بِیَمِیِنی وَالخُلدَفِی الجِنَانِ بِیَسَارِی وَ حَاسِبنِی حِسَاباً یَّسِیراً۔

بایاں ہاتھ دھوتے وقت یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ لاَ تُعطِنِی کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِن وَّرَآ و ظَھِری وَلاَ تَجعَلھَا مَغلُولَۃً اِلٰی عُنُقِی وَاَعُوذُ بَکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِیّراَنِ۔

سر کا مسح کرتے وقت یہ دُعا پڑھے۔ اَللّھُمَّ غَشِنِی عَلَی الصِراطِ یَومَ تَزِل فِیہِ الاَقدَامُ وَاجعَل سَعیِی فِی مَا یُرضِیکَ عَنِّی یَاذَالجَلَالِ وَالِاکرَامِ۔

وضو صحیح ہونے کی شرائط


وضو کا صحیح ہونے کی چند شرائط ہیں۔

(پہلی شرط) وضو کا پانی پاک ہو۔ ایک قول کی بنا پر وضو کا پانی ایسی چیزوں مثلاً حلال گوشت حیوان کے پیشاب، پاک مُردار اور زخم کی ریم سے آلودہ نہ ہو جن سے انسان کو گھن آتی ہو اگرچہ شرعی لحاظ سے (ایسا پانی) پاک ہے اور یہ قول احتیاط کی بنا پر ہے۔

(دوسری شرط) پانی مطلق ہو۔

271۔ نجس یا مضاف پانی سے وضو کرنا باطل سے خواہ وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے میں علم نہ رکھتا ہو یا بھول گیا ہو کہ یہ نجس یا مضاف پانی ہے۔ لہذا اگر وہ ایسے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھ چکا ہو تو صحیح وضو کرکے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔

272۔ اگر ایک شخص کے پاس مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ اور کوئی پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر لے لیکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا کسی طریقے سے اس پانی کو صاف کرے اور وضو کرے۔

(تیسری شرط) وضو کا پانی مباح ہو۔

273۔ ایسے پانی سے وضو کرنا جو غصب کیا گیا ہو یا جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اس کا مالک اس کے استعمال راضی ہے یا نہیں حرام اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں اگر چہرے اور ہاتھوں سے وضو کا پانی غصب کی ہوئی جگہ پر گرتا ہو یا وہ جگہ جس میں وضو کر رہا ہے غصبی ہے اور وضو کرنے کے لئے کوئی اور جگہ بھی نہ ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے اور اگر کسی دوسری جگہ وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دوسری جگہ وضو کرے۔ لیکن اگر دونوں صورتوں میں گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے اسی جگہ وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

274۔ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ آیا وہ تمام لوگوں کے لئے وقت کیا گیا ہے یا صرف مدرسے سے طلباء کے لئے وقف ہے اور صورت یہ ہو کہ لوگ عموماً اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

275۔ اگر کوئی شخص ایک مسجد میں نماز پڑھنا نہ چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تمام لوگوں کے لئے وقف ہے یا صرف ان لوگوں کے لئے جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو اس کے لئے اس حوض سے وضو کرنا درست نہیں لیکن اگر عموماً وہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد میں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو تو وہ شخص بھی اس حوض سے وضو کر سکتا ہے۔

276۔ سرائے، مسافرخانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کا جو ان میں مقیم نہ ہوں، وضو کرنا اسی صورت میں درست ہے جب عموماً ایسے لوگ بھی جو وہاں مقیم نہ ہوں اس حوض سے وضو کرتے ہوں اور کوئی منع نہ کرتا ہو۔

277۔ بڑی نہروں سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ انسان نہ جانتا ہو کہ ان کا مالک راضی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر ان نہروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا معلوم ہو کہ وہ ان سے وضو کرنے پر راضی نہیں یا ان کا مالک نابالغ یا پاگل ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان نہروں کے پانی سے وضو نہ کرے۔

278۔ اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے خود پانی غصب کیا ہو اور بعد میں بھول جائے کہ یہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کرلے تو اس کا وضو صحیح ہونے میں اشکال ہے۔

(چوتھی شرط) وضو کا برتن مباح ہو۔

(پانچویں شرط) وضو کا برتن احتیاط واجب کی بنا پر سونے یا چاندی کا بنا ہوا نہ ہو۔ ان دو شرطوں کی تفصیل بعد والے مسئلے میں آرہی ہے۔

279۔ اگر وضو کا پانی غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہو اور اس شخص کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن میں انڈیل سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن میں انڈیل لے اور پھر اس سے وضو کرے اور اگر ایسا کرنا آسان نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو تو ضروری ہے کہ اس سے وضو کرے۔ اور اگر ان دونوں صورتوں میں وہ صحیح طریقے پر عمل نہ کرتے ہوئے اس پانی سے جو غصبی یا سونے یا چاندی کے برتن میں ہے وضو کر لے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

280۔ اگر کسی حوض میں مثال کے طور پر غصب کی ہوئی ایک اینٹ یا ایک پتھر لگا ہو اور عرف عام میں اس حوض میں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو (پانی لینے میں) کوئی حرج نہیں لیکن اگر تصرف سمجھا جائے تو پانی کا نکالنا حرام لیکن اس سے وضو کرنا صحیح ہے۔

281۔ اگر ائمۃ طاہرین علیہم السلام یا ان کی اولاد کے مقبرے کے صحن میں جو پہلے قبرستان تھا کوئی حوض یا نہر کھودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمین قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(چھٹی شرط) وضو کے اعضاء دھوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں۔

282۔ اگر وضو مکمل ہونے سے پہلے وہ مقام نجس ہو جائے جسے دھویا جا چکا ہے یا جس کا مسح کیا جاچکا ہے تو وضو صحیح ہے۔

283۔ اگر اعضائے وضو کے سوا بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو وضو صحیح ہے لیکن اگر پاخانے یا پیشاب کے مقام کو پاک نہ کیا ہو تو پھر احتیاط مستحب یہ ہے کہ پہلے انہیں پاک کرے اور پھر وضو کرے۔

284۔ اگر وضو کے اعضاء میں سے کوئی عضو نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد متعلقہ شخص کو شک گزرے کہ آیا وضو کرنے سے پہلے اس عضو کو دھویا تھا یا نہیں تو وضو صحیح ہے لیکن اس نجس مقام کو دھو لینا ضروری ہے۔

285۔ اگر کسی کے چہرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس سے خون نہ رکتا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحیح سالم اجزاء کو ترتیب وار دھونے کے بعد زخم یا خراش والے حصے کو کُر برابر پانی یا جاری پانی میں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون بند ہو جائے اور پانی کے اندر ہی اپنی انگلی زخم یا خراش پر رکھ کر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے تاکہ اس (خراش یا زخم) پر پانی جاری ہو جائے۔ اس طرح اس کا وضو صحیح ہو جائے گا۔

(ساتویں شرط) وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے وقت کافی ہو۔

286۔ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ متعلقہ شخص وضو کرے تو ساری کی ساری نماز یا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تیمم کرلے لیکن اگر تیمم اور وضو کے لئے تقریباً یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرے۔

287۔ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تیمم کرنا ضروری ہو اگر وہ قصد قربت کی نیت سے یا کسی مستحب کام مثلاً قرآن مجید پڑھنے کے لئے وضو کرے تو اس کا وضو صحیح ہے۔ اور اگر اسی نماز کو پڑھنے کے لئے وضو کرے تو بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اسے قصد قُربت حاصل نہیں ہوگا۔

(آٹھویں شرط) وضو بقصد قربت یعنی اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیاجائے۔ اگر اپنے آپ کو ٹھنڈک پہنچانے یا کسی اور نیت سے کیا جائے تو وضو باطل ہے۔

288۔ وضو کی نیت زبان سے یا دل میں کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر ایک شخص وضو کے تمام افعال اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے بجا لائے تو کافی ہے۔

(نویں شرط) وضو اس ترتیب سے کیا جائے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے یعنی پہلے چہرہ اور اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے اس کے بعد سر کا اور پھر پاوں کا مسح کیا جائے اور احتیاط مستحب یہ ہےکہ دونوں پاوں کا ایک ساتھ مسح نہ کیا جائے بلکہ بائیں پاوں کا مسح دائیں پاوں کے بعد کیا جائے۔

(دسویں شرط) وضو کے افعال سر انجام دینے میں فاصلہ نہ ہو۔

289۔ اگر وضو کے افعال کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ عرف عام میں متواتر دھونا نہ کہلائے تو وضو باطل ہے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی عذر پیش آجائے مثلاً یہ کہ بھول جائے یا پانی ختم ہو جائے تو اس صورت میں بلافاصلہ دھونے کی شرط معتبر نہیں ہے۔ بلکہ وضو کرنے والا شخص جس وقت چاہے کسی عضو کو دھولے یا اس کا مسح کرلے تو اس اثنا میں اگر ان مقامات کی تری خشک ہو جائے۔ جنہیں وہ پہلے دھوچکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو تو وضو باطل ہوگا لیکن اگر جس عضو کو دھونا ہے یا مسح کرنا ہے صرف اس سے پہلے دھوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہو مثلاً جب بایاں ہاتھ دھوتے وقت دائیں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو لیکن چہرہ تر ہو تو وضو صحیح ہے۔

290۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال بلا فاصلہ انجام دے لیکن گرم ہوا یا بدن کی تپ یا کسی اور ایسی ہی وجہ سے پہلی جگہوں کی تری (یعنی ان جگہوں کی تری جنہیں وہ پہلے دھو چکا ہو یا جن کا مسح کر چکا ہو) خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحیح ہے۔

291۔ وضو کے دوران چلنے پھرنے میں کوئی حرن نہیں لہذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے تو اس کا وضو و صحیح ہے۔

(گیارہویں شرط) انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے اور پھر سر اور پاوں کا مسح کرے۔ اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چہرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاوں کا مسح کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے۔

292۔ اگر کوئی کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو کسی دوسرے شخص سے مدد لے لے اگرچہ دھونے اور مسح کرنے میں حتی الامکان دونوں کی شرکت ضروری ہے اور اگر وہ شخص اجرت مانگے تو اگر اس کی ادائیگی کر سکتا ہو اور ایسا کرنا اسکے لئے مالی طور پر نقصان دہ نہ ہو تو اجرت ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ وضو کی نیت خود کرے اور اپنے ہاتھ سے مسح کرے اور اگر خود دوسرے کے ساتھ شرکت نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص سے مدد لے جو اسے وضو کروائے یا اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ دونوں وضو کی نیت کریں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا نائب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسح کی جگہوں پر پھیرے ار اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ نائب اس کے ہاتھ سے تری حاصل کرے اور اس تری سے اس کے سر اور پاوں پر مسح کرے۔

293۔ وضو کے جا افعال بھی انسان بذات خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ انھیں انجام دینے کے لئے دوسروں کی مدد نہ لے۔

(بارہویں شرط) وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

294۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا اس پانی سے وضو کرے گا تو پیاسارہ جائے گا اس کا فریضہ وضو نہیں ہے۔ اور اگر اسے علم نہ ہو کہ پانی اس کے لئے مضر ہے اور وہ وضو کر لے اور اسےوضو کرنے سے نقصان پہنچے تو اس کا وضو باطل ہے۔

295۔ اگر چہرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دھونا جس سے وضو صحیح ہو جاتا ہو ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرے۔

(تیرہویں شرط) وضو کے اعضاء تک پانی پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

296۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء پر کوئی چیز لگی ہوئی ہے لیکن اس بارے میں اسے شک ہو کہ آیا وہ چیز پانی کے ان اعضاء تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چیز کو ہٹا دے یا پانی اس کے نیچے تک پہنچائے۔

297۔ اگر نانخن کے نیچے میل ہو تو وضو درست ہے لیکن اگر ناخن کا ہونا جائے اور اس میل کی وجہ سے پانی کھال تک نہ پہنچے تو وضو کے لئے اس میل کا دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھ جائیں تو جتنا حصہ معمول سے زیادہ بڑھا ہوا ہو اس کے نیچے سے میل نکالنا ضروری ہے۔

298۔ اگر کسی شخص کے چہرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاوں کے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دھو لینا اور اس پر مسح کر لینا کافی ہے اور اگر اس میں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نیچے پہنچانا ضروری نہیں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکھڑ جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ جو حصہ نہیں اکھڑا اس کے نیچے تک پانی پہنچایا جائے۔ لیکن جب اکھڑی ہوئی جلد کبھی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبھی اوپر اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ یا تو اسے کاٹ دے یا اس کے نیچے پانی پہنچائے۔

299۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چیز چپکی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر میں بھی درست ہو مثلاً گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ تحقیق کر لے یا ہاتھ کو اتنا ملے کہ اطمینان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا لگا رہ گیا تھا تو دور ہو گیا ہے یا پانی اس کے نیچے پہنچ گیا ہے۔

300۔ جس جگہ کو دھونا ہو یا جس کا مسح کرنا ہو اگر اس پر میل ہو لیکن وہ میل پانی کے جلد تک پہنچے میں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر پلستر وغیرہ کا کام کرنے کے بعد سفیدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے نہ روکے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شک ہو کہ ان چیزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع ہے یا نہیں تو انہیں دور کرنا ضروری ہے۔

301۔اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پہلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چیز موجود ہے جو ان تک پانی پہنچنے میں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کرتے وقت پانی ان اعضاء تک پہنچایا ہے یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

302۔ اگر وضو کے بعض اعضاء میں کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نیچے پانی کبھی تو خود بخود چلا جاتا ہو اور کبھی نہ پہنچتا ہو اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نیچے پہنچا ہے یا نہیں جب کہ وہ جانتا ہو کہ وضو کے وقت وہ اس رکاوٹ کے نیچے پانی پہنچنے کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

303۔ اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد وضو کے اعضاء پر کوئی ایسی چیز دیکھے جو پانی کے بدن تک پہنچنے میں مانع ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وضو کے وقت یہ چیز موجود تھی یا بعد میں پیدا ہوئی تو اس کا وضو صحیح ہے لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت وہ اس رکاوٹ کی جانب متوجہ نہ تھا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

304۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہو کہ جو چیز پانی کے پہنچنے میں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہیں تو اس کا وضو صحیح ہے۔

وضو کے احکام

305۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال اور شرائط مثلاً پانی کے پاک ہونے یا غصبی نہ ہونے کے بارے میں بہت زیادہ شک کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

306۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہیں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا وضو باقی ہے لیکن اگر اس نے پیشاب کرنے کے بعد استبراء کئے بغیر وضو کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ یہ جانتا ہو کہ پیشاب ہے یا کوئی اور چیز تو اس کا وضو باطل ہے۔

307۔ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

308۔ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کیا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گیا ہے مثلاً اس نے پیشاب کیا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کونسی بات پہلے واقع ہوئی ہے اگر یہ صورت نماز سے پہلے پیش آئے تو اسے چاہئے کہ وضو کرے اور اگر نماز کے دوران پیش آئے تو نماز توڑ کر وضو کرنا ضروری ہے اور اگر نماز کے بعد پیش آئے تو جو نماز وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے البتہ دوسری نمازوں کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔

309۔ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقین ہو جائے کہ اس نے بعض جگہیں نہیں دھوئیں یا ان کا مسح نہیں کیا اور جن اعضاء کو پہلے دھویا ہو یا ان کا مسح کیا ہو ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو اسے چاہئے کہ دوبارہ وضو کرے لیکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا ہوا کی گرمی یا کیس اور ایسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ جن جگہوں کے بارے میں بھول گیا ہو انہیں اور ان کے بعد آنے والی جگہوں کو دھوئے یا ان کا مسح کرے اور اگر وضو کے دوران کسی عضو کے دھونے یا مسح کرنے کے بارے میں شک کرے تو اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔

310۔ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن آئندہ نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔

311۔ اگر کسی شخص کو نماز کے دوران شک ہو کہ آیا اس نے وضو کیا تھا یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔

312۔ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ سمجھے کہ اس کا وضو باطل ہوگیا تھا لیکن شک ہو کہ اس کا وضو نماز سے پہلے باطل ہوا تھا یا بعد میں تو جو نماز پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہے۔

313۔ اگر کوئی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اسے پیشاب کے قطرے گرتے رہتے ہوں یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو اگر اسے یقین ہو کہ نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھ لے اور اگر اسے صرف اتنی مہلت ملے جو نماز کے واجبات ادا کرنے کے لئے کافی ہو تو اس دوران صرف نماز کے واجبات بجا لانا اور مستحب افعال مثلاً اذان، اقامت اور قنوت کو ترک کر دینا ضروری ہے۔

314۔ اگر کسی شخص کو (بیماری کی وجہ سے) وضو کرکے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی مہلت ملتی ہو اور نماز کے دوران ایک دفعہ یا چند دفعہ اس کا پیشاب یا پاخانہ خارج ہوتا ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وضو کر کے وضو کر کے نماز پرھے لیکن نماز کے دوران لازم نہیں ہے کہ پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو کرے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ پانی کا برتن اپنے ساتھ رکھے اور جب بھی پیشاب یا پاخانہ خارج ہو وضو کرے اور باقی ماندہ نماز پڑھے اور یہ احتیاط اس صورت میں ہے کہ جب پیشاب یا پاخانہ خارج ہونے کا وقفہ طویل نہ ہو یا دوبارہ وضو کرنے کی وجہ سے ارکان نماز کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ ہو۔ بصورت دیگر احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔

315۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار باریوں آتا کہ اسے وضو کر کے نماز کا کچھ حصہ پڑھنے کی بھی مہلت نہ ملتی ہو تو اس کی ہر نماز کے لئے بلا اشکال ایک وضو کافی ہے بلکہ اظہر یہ ہے کہ ایک وضو چند نمازوں کے لئے بھی کافی ہے۔ ماسوا اس کے کہ کسی دوسرے حدث میں مبتلا ہوجائے۔ اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک بار وضو کرے لیکن قضا سجدے، قضا تشہد اور نماز احتیاط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہیں ہے۔

316۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وضو کے بعد فوراً نماز پڑھے اگرچہ بہتر ہے کہ نماز پڑھنے میں جلدی کرے۔

317۔ اگر کسی شخص کو پیشاب یا پاخانہ بار بار آتا ہو تو وضو کرنے کے بعد اگر وہ نماز کی حالت میں نہ ہو تب بھی اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا جائز ہے۔

318۔ اگر کسی شخص کو قطرہ قطرہ پیشاپ آتا رہتا ہو تو اسے چاہئے کہ نماز کے لئے ایک ایسی تھیلی استمعال کرے جس میں روئی یا کوئی اور چیز رکھی ہو جو پیشاب کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز سے پہلے نجس شدہ ذکر کو دھولے۔ علاوہ ازیں جو شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اسے چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے تک پاخانے کو دوسری جگہوں تک پھیلنے سے روکے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر باعث زحمت نہ ہو تو ہر نماز کے لئے مقعد کو دھوئے۔

319۔ جو شخص پیشاب پاخانے کو روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو جہاں تک ممکن ہو نماز میں پیشاب یا پاخانے کو روکے چاہے اس پر کچھ خرچ کرنا پڑے بلکہ اس کا مرض اگر آسانی سے دور ہو سکتا ہو تو اپنا علاج کرائے۔

320۔ جو شخص اپنا پیشاب یا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے صحت یاب ہونے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں اس نے مرض کی حالت میں اپنے وظیفہ کے مطابق پڑھی ہوں ان کی قضا کرے لیکن اگر اس کا مرض نماز پڑھتے ہوئے دور ہو جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جو نماز اس وقت پڑھی ہو اسے دوبارہ پڑھے۔

321۔ اگر کسی شخص کو یہ عارضہ لا حق ہو کہ ریاح روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظیفہ کے مطابق عمل کرے جو پیشاب اور پاخانہ روکنے پر قدرت رکھتے ہوں۔

وہ چیزیں جن کے لئے وضو کرنا چاہئے


322۔ چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے۔

(اول) واجب نمازوں کے لئے سوائے نماز میت کے ۔ اور مستحب نمازوں میں وضو شرط صحت ہے۔

(دوم) اس سجدے اور تشہد کے لئے جو ایک شخص بھول گیا ہو جب کہ ان کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث اس سے سر زد ہوا ہو مثلاً اس نے پیشاب کیا ہو لیکن سجدہ سہو کے لئے وضو کرنا واجب نہیں۔

(سوم) خانہ کعبہ کے واجب طواف کے لئے جو کہ حج اور عمرہ کا جز ہو۔

(چہارم) وضو کرنے کی منت مانی ہو یا عہد کیا ہو یا قسم کھائی ہو۔

(پنجم) جب کسی نے منت مانی ہو کہ مثلاً قرآن مجید کا بوسہ لے گا۔

(ششم) نجس شدہ قرآن مجید کو دھونے کے لئے یا بیت الخلاء وغیرہ سے نکالنے کے لئے جب کہ متعلقہ شخص مجبور ہو کر اس مقصد کے لئے اپنا ہاتھ یا بدن کا کوئی اور حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے مس کرے لیکن وضو میں صرف ہونے والا وقت اگر قرآن مجید کو دھونے یا اسے بیت الخلاء سے نکالنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جس سے کلام اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضو کئے بغیر قرآن مجید کو بیت الخلاء وغیرہ سے باہر نکال لے یا اگر نجس ہو گیا ہو تو اسے دھو ڈالے۔

323۔ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ سے لگانا حرام ہے لیکن اگر قرآن مجید کا فارسی زبان یا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو تو اسے چھونے میں کوئی اشکال نہیں۔

324۔ بچے اور دیوانے کو قرآن مجید کے الفاظ کو چھونے سے روکنا واجب نہیں لیکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجید کی توہین ہوتی ہو تو انہیں روکنا ضروری ہے۔

325۔ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالی کے ناموں اور ان صفتوں کو چھونا جو صرف اسی کےلئے مخصوص ہیں خواہ کسی زبان میں لکھی ہوں احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور بہتر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور ائمہ طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام اور حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام کے آسمائے مبارکہ کو بھی نہ چھوئے۔

326۔اگر کوئی شخص کو یقین ہو کہ (نماز کا) وقت داخل ہو چکا ہے اور واجب وضو کی نیت کرے لیکن وضو کرنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تھا تو اس کا وضو صحیح ہے۔

328۔ میت کی نماز کے لئے قبرستان جانے کے لئے، مسجد یا ائمۃ علیہم السلام کے حرم میں جائے کے لئے، قرآن مجید ساتھ رکھنے، اسے پڑھنے، لکھنے اور اس کا حاشیہ چھونے کے لئے اور سونے کے لئے وضو کرنا مستحب ہے۔ اور اگر کسی شخص کا وضو ہو تو ہر نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنا مستحب ہے۔ اور مذکورہ بالا کاموں میں سے کسی ایک کے لئے وضو کرے تو ہر وہ کام کر سکتا ہے جو باوضو کرنا ضروری ہے مثلاً اس وضو کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔

مبطلات وضو


329۔ سات چیزیں وضو کو باطل کر دیتی ہیں:۔

(اول) پیشاب (دوم) پاخانہ (سوم) معدے اور آنتوں کی ہوا جو مقعد سے خارج ہوتی ہے (چہارم) نیند جس کی وجہ سے نہ آنکھیں دیکھ سکیں اور نہ کان سن سکیں لیکن اگر آنکھیں نہ دیکھ رہی ہوں لیکن کان سن رہے ہوں تو وضو باطل نہیں ہوتا (پنجم) ایسی حالت جن میں عقل زائل ہو جاتی ہو مثلا دیوانگی، مستی یا بے ہوشی (ششم) عورتوں کا استحاضہ جس کا ذکر بعد میں آئے گا (ہفتم) جنابت بلکہ احتیاط مستحب کی بنا پر ہر وہ کام جس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔

جبیرہ وضو کے احکام


وہ چیز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی باندھی جاتی ہے اور وہ دو جو زخم یا ایسی ہی کسی چیز پر لگائی جاتی ہے جبیرہ کہلاتی ہے۔

330۔ اگر وضو کے اعضا میں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور پانی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسی طرح وضو کرنا ضروری ہے جسے عام طور پر کیا جاتا ہے۔

331۔ اگر کسی شخص کے چہرے اور ہاتھوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا اس (چہرے یا ہاتھوں) کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور اس پر پانی ڈالنا نقصان وہ ہو تو اسے زخم یا پھوڑے کے آس پاس کا حصہ اس طرح اوپر سے نیچے کو دھونا چاہئے جیسا وضو کے بارے میں بتایا گیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اگر اس پر تر ہاتھ کھینچنا نقصان دہ نہ ہو تو تر ہاتھ اس پر کھینچے اور اس کے بعد پاک کپڑا اس پر ڈال دے اور گیلا ہاتھ اس کپڑے پر بھی کھینچے۔ البتہ اگر ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔

332۔ اگر زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہڈی کسی شخص کے سر کے اگلے حصے یا پاوں پر ہو اور اس کا منہ کھلا ہو اور وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو کیونکہ زخم مسح کی پوری جگہ پر پھیلا ہوا ہو یا مسح کی جگہ کا جو حصہ صحیح و سالم ہو اس پر مسح کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ تیمم کرے اور احتیاط مستحب کی بنا پر وضو بھی کرے اور پاک کپڑا زخم وغیرہ پر رکھے اور وضو کے پانی کی تری سے جو ہاتھوں پر لگی ہو کپڑے پر مسح کرے۔

333۔ اگر پھوڑے یا زخم یا ٹوٹی ہڈی کا منہ کسی چیز سے بند ہو اور اس کا کھولنا بغیر تکلیف کے ممکن ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو اسے کھول کر وضو کرنا ضروری ہے خواہ زخم وغیرہ چہرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے اور پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

334۔ اگر کسی شخص کا زخم یا پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چیز سے بندھی ہوئی ہو اس کے چہرے یا ہاتھوں پر ہو اور اس کا کھولنا اور اس پر پانی ڈالنا مضر ہو تو ضروری ہے کہ آس پاس کے جتنے حصے کو دھونا ممکن ہو اسے دھوئے اور جبیرہ پر مسح کرے۔

335۔ اگر زخم کا منہ نہ کھل سکتا ہو اور خود زخم اور جو چیز اس پر لگائی گئی ہو پاک ہو اور زخم تک پانی پہنچانا ممکن ہو اور مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم کے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف پہنچائے۔ اور اگر زخم یا اس کے اوپر لگائی گئی چیز نجس ہو اور اس کا دھونا اور زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے دھوئے اور وضو کرتے وقت پانی زخم تک پہنچائے۔ اور اگر پانی زخم کے لئے مضر نہ ہو۔ لیکن زخم کے منہ تک پانی پہنچانا ممکن نہ ہو یا زخم نجس ہو اور اسے دھویا نہ جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کرے۔

336۔ اگر جبیرہ اعضائے وضو کے کسی حصے پر پھیلا ہوا ہو تو بظاہر وضو جبیرہ سے کافی ہے لیکن اگر جبیرہ تمام اعضائے وضو پر پھیلا ہوا ہو تو احتیاط کی بنا پر تیمم کرنا ضروری ہے اور وضوئے جبیرہ بھی کرے۔

337۔ یہ ضروری نہیں کہ جبیرہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے بلکہ اگر وہ ریشم یا ان حیوانات کے اجزا سے بنی ہو جن کا گوشت کھانا جائز نہیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے۔

338۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ ہو اور وضو کرنے وقت اس نے تر ہاتھ اس پر کھینچا ہو تو سر اور پاوں کا مسح اسی تری سے کرے۔

339۔ اگر کسی شخص کے پاوں کے اوپر والے پورے حصے پر جبیرہ ہو لیکن کچھ حصہ انگلیوں کی طرف سے اور کچھ حصہ پاوں کے اوپر والے حصہ کی طرف سےکھلا ہو تو جو جگہیں کھلی ہیں وہاں پاوں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبیرہ ہے وہاں جبیرہ پر مسح کرنا ضروری ہے۔

340۔ اگر چہرے یا ہاتھوں پر کئی جیرے ہوں تو ان کا درمیانی حصہ دھونا ضروری ہے اور اگر سریا پاوں کے اوپر والے حصے پر جبیرے ہوں تو ان کے درمیانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جہاں جبیرے ہوں وہاں جبیرے کے بارے میں احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

341۔ اگر جبیرہ زخم کے آس پاس کے حصول کو معمول سے زیادہ گھیرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ متعلقہ شخص تیمم کرے بجز اس کے کہ جبیرہ و تیمم کی جگہوں پر ہو کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور دونوں صورتوں میں اگر جبیرہ کا ہٹانا بغیر تکلیف کے ممکن ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا دے۔ پس اگر زخم چہرے یا ہاتھوں پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کی دھوئے اور اگر سر یا پاوں کے اوپر والے حصے پر ہو تو اس کے آس پاس کی جگہوں کا مسح کرے اور زخم کی جگہ کے لئے جبیرہ کے احکام پر عمل کرے۔

342۔ اگر وضو کے اعضا پر زخم نہ ہو یا ان کی ہڈی ہوئی نہ ہو لیکن کسی دوسری وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو یا تیمم کرنا ضروری ہے۔

343۔ اگر وضو کے اعضا کی کسی رگ سے خون نکل آیا ہو اور اسے دھونا ممکن نہ ہو تو تیمم کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو جبیرہ کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

344۔ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چیز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا اسے اتارنے کی تکلیف نا قابل برداشت ہو تو متعلقہ شخص کا فریضہ تیمم ہے۔ لیکن اگر چپکی ہوئی چیز تیمم کے مقامات پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو اور تیمم دونوں کرے اور اگر چپکی ہوئی چیز دوا ہو تو وہ جبیرہ کے حکم میں آتی ہے۔

345۔ غسل مس میت کے علاوہ تمام قسم کے غسلوں میں غسل جبیرہ وضوئے جبیرہ کی طرح ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر مکلف شخص کے لئے ضروری ہے کہ غسل ترتیبی کرے (ارتماسی نہ کرے) اور اظہر یہ ہے کہ اگر بدن پر زخم یا پھوڑا ہو تو مکلف کو غسل یا تیمم کا اختیار ہے۔ اگر وہ غسل کو اختیار کرتا ہے اور زخم یا پھوڑے پر جبیرہ نہ ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ زخم یا پھوڑے پر پاک کپڑا رکھے اور اس کپڑے کے اوپر مسح کرے۔ اور اگر بدن کا کوئی حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور احتیاط جبیرہ کے اوپر بھی مسح کرے اور اگر جبیرہ پر مسح کرنا ممکن نہ ہو یا جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہ کھلی ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے۔

346۔ جس شخص کا وظیفہ تیمم ہو اگر اس کی تیمم کی بعض جگہوں پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو تو ضروری ہے کہ وہ وضوئے جبیرہ کے احکام کے مطابق تیمم جبیرہ کرے۔

347۔ جس شخص کو وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کرکے نماز پڑھنا ضروری ہو اگر اسے علم ہو کہ نماز کے آخر وقت تک اس کا عذر دور نہیں ہو گا تو وہ اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر اسے امید ہو کہ آخر وقت تک اس کا عُذر دور ہو جائے گا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ انتظار کرے اور اگر اس کا عذر دور نہ ہو تو آخر وقت میں وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کے ساتھ نماز ادا کرے لیکن اگر اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت تک اس کا عذر دور ہو جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو یا غسل کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

348۔ اگر کوئی شخص آنکھ کی بیماری کی وجہ سے پلکیں موند کر رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیمم کرے۔

349۔ اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آیا اس کا وظیفہ تیمم ہے یا وضوئے جبیرہ تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے تیمم اور وضوئے جبیرہ دونوں بجالانے چاہئیں۔

350۔ جو نمازیں کسی انسان نے وضوئے جبیرہ سے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں اور وہ اسی وضو کے ساتھ آئندہ کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔




فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک