5/1/2017         ویزیٹ:2391       کا کوڈ:۹۳۴۲۴۷          ارسال این مطلب به دیگران

استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای » استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
  ،   انفال
انفال
 
س1064۔ شہروں کے قانون اراضی کے مطابق
 
1۔ غیر آباد زمینوں کو انفال کو جزء سمجھا جاتا ہے اور یہ اسلامی حکومت کے تحت تصرف ہوتی ہیں۔
 
2۔ شہر کی آباد وغیرآباد زمینوں کے مالکوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ان زمینوں کو جن کی حکومت یا بلدیہ کو ضرورت ہو ، علاقہ کی رائج قیمت پر فروخت کریں۔
 
اب سوال یہ ہے :
 
1۔ اگر کوئی شخص ایسی غیر آباد زمین کو ( جس کا وثیقہ اس کے نام تھا لیکن اس قانون کے مطابق اس وثیقہ کا کوئی اعتبار نہیں رہا سہم امام و سہم سادات کے عنوان سے دیدے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
 
2۔ اگر ایک شخص کے پاس کچھ زمین ہے اور حکومت یا بلدیہ کے قانون کے مطابق وہ اسے فروخت کرنے پر مجبور ہے چاہے زمین آباد ہویا نہ ہو لیکن وہ شخص اسے سہم امام و سہم سادات کے عنوان سے دے دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
 
ج۔ غیر آباد زمین اگر اس شخص کی ملکیت نہیں ہے جس کے نام کا وثیقہ ہے تو اسے خمس کے عنوان سے چھوڑنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس خمس میں حساب کرسکتا ہے جو اس کے ذمہ ہے۔ اسی طرح اس مملوکہ زمین کو بھی خمس کے عنوان سے چھوڑنا یا اس کا اپنے ذمہ واجب خمس میں حساب کرنا صحیح نہیں ہے ، جس کو بلدیہ یا حکومت اس کے مالک سے قانون کے مطابق معاوضہ دے کر یا بغیر معاوضہ کے لے سکتی ہے۔
 
س1065۔ اگر کوئی شخص اینٹ کے کارخانے کے نزدیک اپنے لئے زمین خریدے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ اس زمین کی مٹی بیچ کر فائدہ کمائے، تو کیا ایسی زمین انفال میں شمار ہو گی یا نہیں ؟ اور اس فرض پر کہ انفال میں شمار نہ ہو تو کیا حکومت کو حق ہے کہ اس مٹی پر ٹیکس وصول کرے؟ یہ بھی معلوم ہے کہ قانون کے مطابق آمدنی کا دس فیصد شہر کی بلدیہ کو دیا جاتا ہے ؟
 
ج۔ اگر اس قسم کے ٹیکس کی وصول یابی ایران میں مجلس شورائے اسلامی کے پاس کردہ قانون کے مطابق ہے جس کی شورائے نگہبان نے تصدیق کی ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
 
س1066۔ کیا میونسپل بورڈ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہر کی تعمیر وغیرہ کے سلسلے میں ندی، نہر کے ریت سے فائدہ اٹھائے اور بصورت جواز اگر ( میونسپل بورڈ کے علاوہ ) کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ میری ملکیت ہے تو ا س دعوے کی سماعت ہو گی یا نہیں ؟
 
ج۔ میونسپلٹی بورڈ کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اور بڑی نہروں کے احاطہ کی ملکیت کے سلسلہ میں کسی شخص کے دعویٰ کی سماعت نہیں کی جائے گی۔
 
س1067۔ خانہ بدوش قبائلی لوگوں کو چراگہوں کے تصرف میں جو حق اولویت ہر قبیلے کی اپنی چراگاہ کی نسبت ہوتا ہے ، کیا وہ اس قصد کے ساتھ کوچ کرنے کے باوجود کہ دوبارہ اسی جگہ مراجعت کریں گے ، ختم ہو جاتا ہے ؟ واضح رہے کہ یہ کوچ اور مراجعت دسیوں سال سے اسی طرح رہی ہے اور رہے گی؟
 
ج۔ حیوانات کی چراگاہ کے سلسلہ میں ان کے کوچ کر جانے کے بعد ان کے لئے شرعی حق اولویت کا ثابت ہونا محل اشکال ہے اور اس سلسلہ میں احتیاط بہتر ہے۔
 
س1068۔ ایک گاؤں میں چراگاہ اور زرعی زمینوں کی سخت قلت کی وجہ سے اس گاؤں کے عمومی اخراجات چراگہوں کی سبز گہاس فروخت کر کے پورے کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ لیکن مسئولین اب اس کام سے منع کرتے ہیں۔ گاؤں والوں کے فقر اور ناداری اور اسی کے ساتھ چراگہوں کے غیر آباد ہونے کے پیش نظر کیا ، اس گاؤں کی مجلس شوریٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گاؤں والوں کو چراگاہ کی گہاس بیچنے سے منع کر دے اور اس کو گاؤں کے عمومی اخراجات پورے کرنے کے لئے مختص کر دے؟
 
ج۔ ان عمومی چراگہوں کی گہاس کو فروخت کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے جو کسی کی شرعی ملکیت نہیں ہیں۔ لیکن جو شخص حکومت کی طرف سے جو گاؤں کے امور کا مسئول ہے وہ گاؤں کی فلاح و بہبود کے لئے اس شخص سے کچھ وصول کرسکتا ہے جسے چراگاہ میں مویشی چرانے کی اجازت دے۔

 
س1069۔ کیا خانہ بدوش قبائلی سردی اور گرمی کی ان چراگہوں کو ، کہ جہاں وہ دسیوں سال سے گہوم پھر کرآتے ہیں ، اپنی ملکیت بنا سکتے ہیں ؟
 
ج۔ وہ طبیعی چراگہیں جو ماضی میں کسی کی ملکیت نہیں تھیں وہ انفال اور عمومی اموال میں شامل ہیں اور ولی امر مسلمین کو ان پر اختیار ہے اور وہ خانہ بدوشوں کے وہاں گھوم پھر کر آنے سے ان کی ملکیت نہیں بن سکتی۔
 
س1070۔ خانہ بدوشوں کی چراگہوں کی خرید و فروخت کب صحیح ہے اور کب صحیح نہیں ہے ؟
 
ج۔ ان غیر مملوکہ چراگہوں کی خرید و فروخت صحیح نہیں ہے جو انفال اموال عامہ کا جزو ہیں۔
 
س1071۔ ہم چرواہے ایک جنگل میں مویشی چراتے ہیں۔ پچاس سال سے بھی زیادہ ہمارا یہی پیشہ ہے۔ یہ اس جنگل کی شرعی ملکیت ہونے کی موروثی سند ہمارے پاس موجود ہے اس کے علاوہ یہ جنگل امیرالمومنین (ع)، سید الشہداء اور حضرت ابو الفضل العباس(ع) کے نام وقف ہے ، مویشیوں کے مالک اس جنگل میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ان کے گھر زرعی زمینیں اور باغات ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے جنگل کے نگہبان ہمیں وہاں سے نکال کر اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں کیا وہ ہمیں اس جنگل سے باہر نکالنے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں ؟
 
ج۔ وقف کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اس کی شرعی ملکیت پہلے ثابت ہو جیسا کہ میراث کے ذریعہ منتقل ہونا بھی اس بات پر موقوف ہے کہ اس سے پہلے وہ مورث کی شرعی ملکیت ہو پس جنگل اور قدرتی چراگہیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں اور اس سے پہلے نہیں کسی نے زندہ و آباد نہیں کیا ہے اور نہ وہ کسی کی ملکیت رہی ہیں کہ ان کا وقف صحیح ہو یا وہ میراث قرار پائیں۔ بہر حال جنگل کا وہ حصہ جو کھیت یا مسکن کی صورت میں یا ان سے مشابہ کسی صورت میں آباد ہے اور وہ شرعی لحاظ سے ملکیت بن گیا ہے۔ اگر وہ وقف ہے تو شرعی لحاظ سے متولی کو اس میں تصرف کا حق ہے لیکن جنگل و چراگاہ کا وہ حصہ جو قدرتی جنگل یا چراگاہ ہے تو وہ اموال عامہ میں سے ہے اور انفال ہے اور قانون کے مطابق وہ اسلامی حکومت کے اختیار میں ہے۔
 
س1072۔ کیا مویشیوں کے ان مالکوں کا جن کے پاس جانوروں کو چرانے کی اجازت ہے ، ایسے آباد کھیتوں میں ، جو چراگہوں سے ملحق ہیں ، خود کو اور مویشیوں کو کھیت کے پانی سے سیراب کرنے کے لئے مالک کی اجازت کے بغیر کھیت میں اترنا جائز ہے ؟
 
ج۔ صرف چراگہوں میں چرانے کی اجازت ہونا دوسروں کی ملکیت میں وارد ہو کر ان کے پانی سے سیراب ہونے کے جواز کے لئے کافی نہیں ہے پس مالک کی اجازت کے بغیر ان کو ایسا کرنا جائز نہیں۔



فائل اٹیچمنٹ:
حالیہ تبصرے

اس کہانی کے بارے میں تبصرے


امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک