→تقلید کے شرائط.....................................................فہرست............................................تقلید بدلنا ←
اجتہاد اور اعلمیت کا اثبات اور فتوی حاصل کرنے کے طریقے
س22۔ دو عادل گواہوں کی گواہی سے ایک مجتہد کی صلاحیت ثابت ہو جانے کے بعد کیا اب میرے اوپر اس سلسلہ میں کسی اور سے بھی سوال کرنا واجب ہے ؟
ج۔ کسی معین جامع الشرائط مجتہد کی صلاحیت کے اثبات کے لئے اہل خبرہ (اہل علم)حضرات میں سے دو عادل گواہوں کی گواہی پر اعتماد کافی ہے اور اس سلسلہ میں مزید افراد سے سوال کرنا ضروری نہیں ہے۔
س23۔ مرجع تقلید کے انتخاب اور اس کا فتویٰ حاصل کرنے کے کیا طریقے ہیں ؟
ج۔ مرجع تقلید کے اجتہاد اور اس کی اعلمیت کے اثبات کے لئے ضروری ہے کہ یا انسان خود عالم ہو اور تحقیق کرے یا اسے علم حاصل ہو جائے چاہے ایسی شہرت کے ذریعہ ہی ، جس سے یقین ہو جائے یا اطمینان حاصل ہو جائے یا اہل خبرہ میں سے دو عادل گواہی دیں۔
مرجع تقلید سے فتویٰ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خود اس سے سنے یا دو عادل نقل کریں بلکہ ایک ہی عادل کا نقل کرنا کافی ہے یا پھر ایسے معتبر انسان کا نقل کرنا بھی کافی ہے جس کی بات پر اطمینان ہو یا اس کی توضیح المسائل میں دیکھے جو غلطیوں سے محفوظ ہو۔
س24۔ کیا مرجع کے انتخاب کے لئے وکیل بنانا صحیح ہے؟ جیسے بیٹا اپنے باپ کو اور شاگرد اپنے استاد کو اپنا وکیل بنائے؟
ج۔ اگر وکالت سے مراد جامع الشرائط مجتہد کی تحقیق کو باپ، استاد یا مربی وغیرہ کے سپرد کرنا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں اگر اس سلسلہ میں ان کا قول یقین اور اطمینان کے قابل ہو یا اس میں دلیل و شہادت کے شرائط موجود ہوں تو ان کا قول شرعاً معتبر اور حجت ہے۔
س25۔ میں نے چند مجتہدین سے پوچھا کہ اعلم کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا فلاں شخص کی طرف رجوع کرنے سے انسان بری الذمہ ہے تو کیا میں ان کی بات پر اعتماد کرسکتا ہوں جبکہ مجھے معلوم نہیں کہ موصوف اعلم ہیں یا نہیں یا مجھے ان کے اعلم ہونے کے بارے میں احتمال ہے یا اطمینان ہے کہ وہ شخص اعلم نہیں ہے اس لئے کہ دوسرے فقہا کے بارے میں بھی مثلاً ایسی ہی شہادت اور گواہی موجود ہے؟
ج۔ جب کسی جامع الشرائط مجتہد کے اعلم ہونے پر شرعی دلیل قائم ہو جائے تو جب تک اس دلیل کے خلاف کسی اور دلیل کا علم نہ ہو وہ حجت ہے اور اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ، یقین یا اطمینان حاصل کرنا اس کے لئے شرط نہیں ہے اور نہ اس کے خلاف گواہیوں کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔
س26۔ کیا وہ شخص شرعی احکام کے جوابات دے سکتا ہے جس کے پاس اجازہ نہیں ہے اور وہ بعض مقامات پر اشتباہ سے بھی دوچار ہوتا اور احکام کو غلط بیان کر دیتا ہے اور اس حالت میں کیا کیا جائے جبکہ اس نے توضیح المسائل سے پڑھ کر مسئلہ بیان کیا ہو؟
ج۔ مجتہد کا فتویٰ نقل کرنے اور شرعی احکام بیان کرنے کے لئے اجازہ شرط نہیں ہے لیکن اگر اس سے غلطی یا اشتباہ ہوتا ہے تو اس کے لئے بیان اور نقل کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر کسی ایک مسئلہ بیان کرنے میں اس سے غلطی ہو جائے اور بعد میں اس کی طرف متوجہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ سننے والے کو اس غلطی سے آگاہ کر دے۔ بہر حال سننے والے کو بیان کرنے والے کی بات پر اس وقت تک عمل کرنا جائز نہیں ہے جب تک اس کے قول اور اس کی بیان کردہ بات کے صحیح ہونے پر اسے اطمینان نہ ہو جائے۔
→تقلید کے شرائط.....................................................فہرست............................................تقلید بدلنا ←
فائل اٹیچمنٹ: