۱۴۰۳/۴/۲۹   2:57  بازدید:125     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


13 محرم الحرام 1446 (ھ۔ ق) مطابق با 07/19/2024 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ الْمُقِرِّ لِلزَّمَانِ الْمُدْبِرِ الْعُمُرِ الْمُسْتَسْلِمِ لِلدَّهْرِ الذَّامِّ لِلدُّنْیَا السَّاکِنِ مَسَاکِنَ الْمَوْتَى وَ الظَّاعِنِ عَنْهَا غَداً إِلَى الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لَا یُدْرِکُ السَّالِکِ سَبِیلَ مَنْ قَدْ هَلَکَ .

 فَإِنِّی أُوصِیکَ بِتَقْوَى اللَّهِ أَیْ بُنَیَّ وَ لُزُومِ أَمْرِهِ وَ عِمَارَةِ قَلْبِکَ بِذِکْرِهِ وَ الِاعْتِصَامِ بِحَبْلِهِ وَ أَیُّ سَبَبٍ أَوْثَقُ مِنْ سَبَبٍ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ اللَّهِ إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِهِ أَحْیِ قَلْبَکَ بِالْمَوْعِظَةِ وَ أَمِتْهُ بِالزَّهَادَةِ وَ قَوِّهِ بِالْیَقِینِ وَ نَوِّرْهُ بِالْحِکْمَةِ وَ ذَلِّلْهُ بِذِکْرِ الْمَوْتِ وَ قَرِّرْهُ بِالْفَنَاءِ وَ بَصِّرْهُ فَجَائِعَ الدُّنْیَا  

 

 

انسان اور حوادث زمانہ

: یہ وصیت ایک ایسے باپ کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمرخاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے سپرانداختہ ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔

 اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اورہلاک ہوجانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ‘

بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گروی ہے۔

مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کا فریب کاریوں کا تاجر اور موت کا   قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کاہمنشیں ہے اور آفتوں کا نشانہ ‘ خواہشات کامارا ہوا ہے اورمرنے والوں کا جانشین۔

 اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہوگیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اوراغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکرسے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میری رائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہوگئی ،

جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔

 میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے۔

 اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں چاہے میں زندہ رہوں یا مرجاؤں۔

 

 

 

 

 

اپنی اصلاح کے مراحل:

 فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے باد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خداا کے درمیان نہیں ہے۔

 

 اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنادینا۔اسے یقین کے ذریعہ قوی رکھنا اورحکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااورفناکے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا

 

 

امام سجاد(ع) کا دربار یزید میں خطبہ اور یزید بن معاویہ بن ابوسفیان کی رسوائی

امام سجاد علیہ السلام کی زندگی عجیب قسم کی مصائب اور آزمایشات سے بری ہے  امام پر بہت زیادہ اور سنگین امتحانات آگئے۔

امام علیہ السلام کے پاس تبلیغ کے لیے بھی آزادی میسر نہ تھی

تو امام علی سجاد علیہ السلام نے دعاوں کی ضمن میں اپنے پورے پیغامات پہنچا دیے  اس حد تک کہ اگر صحیفہ سجادیہ کی دعاوں سے  اللھم ہٹا دیا جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ تو نہج البلاغہ  ہے اس میں وہ مکمل طور پر دینی تربیت دعاوں کی ضمن میں بیان کیا ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام جب شام میں یذید کے دربار میں  تشریف فرما  ہو گئے تو امام علیہ السلام نے اس طرح  خطبہ دیا 

اسیران کربلا کو جب مسجد اموی میں لگے دربار یزید میں لایا گیا تو وہاں یزید نے ایک بہت بڑی محفل منعقد کروائی ہوئی تھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی تماشہ دیکھنے کے لیے جمع تھی یزید اپنی طرف سے اس کام کے ذریعے اہل بیت(ع) کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک خطیب نے ممبر سے یزید اور اس کے آباء و اجداد کی مدح سرائی کرنا شروع کی اور شہداء کربلا اور اسیران کربلا کو باغی قرار دیا۔ اس موقع پر امام سجاد نے مذکوره خطیب سے فرمایا: "وائے ہو تم پر! تم نے مخلوق کی خشنودی اور رضا کو خدا کی خوشنودی پر مقدم کیا اور جہنم کو اپنا ٹھکانا بنایا"۔ اس کے بعد امام سجادؑ نے حاضرین سے بات کرنے کے لیے یزید سے اجازت مانگی، ناسخ التواریخ میں آیا ہے کہ یزید نے امام سجادؑ کی بات کو رد کر دیا لیکن کچھ شامیوں نے کہا ہم دیکھنا چاہتے ہیں یہ لاغر بیمار کیا کہہ لے گا۔ پس شامیوں کے اصرار پر یزید نے مجبورا امام سجادؑ کو حاضرین سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد امام سجادؑ کے دوٹوک اور روشنگرانہ خطبے نے حکومت یزید کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں مزید رسوائی سے بچنے کے لیے یزید نے مؤذن سے اذان دینے کا کہا اور اس کے درباری مؤذن نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اذان شروع کر دی۔ لیکن جیسے جیسے مؤذن اذان کے جملات ادا کرتا جاتا امام سجادؑ بھی کوئی نہ کوئی جملہ ارشاد فرماتے یہاں تک کہ مؤذن اشھد ان محمدا رسول اللہ کے جملے پر جب پہنچا تو امام سجادؑ نے مؤذن کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے یزید سے پوچھا: اے یزید! یہ محمد جس کی رسالت کی گواہی اذان میں دی جاتی ہے، تیرا نانا ہے یا میرا نانا؟ اگر تم انہیں اپنا نانا کہو تو بے شک تمہاری بات جھوٹ ہو گی لیکن اگر وہ میرا نانا ہے تو ان کی عترت اور اہل بیت پر یہ ظلم کیوں روا رکھا ہے؟ امام سجاد علیہ السلام کا خطبہ:- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے: ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں: خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔ صدیق (امیرالمؤمنین علیؑ) ہم سے ہیں۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔ زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور مہدی امت ہم سے ہیں۔ لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔ لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے] میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛ میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔ میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛ میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ ؐکے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد ؐ ) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے داد (امیرالمؤمنین ؑ) وہ ہيں جن کو جبرائیل ؑ کی تائید و حمایت اور میکائیل ؑ کی مدد و نصرت حاصل ہے، میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین ؑ کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول ؐکی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔ میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین ؑ" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہراؑ کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔ پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کردیا۔ مؤذن نے کہا: الله أکبر الله أکبر امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔ مؤذن نے کہا: أشهد أن لاإله إلا الله امام علي بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔ مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد ؐ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ؐمیرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتائ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ