۱۴۰۳/۴/۲   8:59  بازدید:164     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


14 ذی الحجہ 1445 (ھ۔ ق) مطابق با06/21/2024 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسم الله الرحمن الرحيم

ان المتقين في مقام أمين، في جنات و عيون

متقین اور پرہیز گار لوگ سب سے آمن والے مقام میں ہوں گے اور اس کے اردگرد چشمیں اور باغیں ہوں گے۔

انَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕؑ وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ﴿٪12

ے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے وہ اعمال لکھ لیتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور ان کے وہ آثار بھی ثبت کرتے ہیں جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلا م فرماتے ہے:"فإني اوصيکم بتقوالله"

میں آپ سب کو تقوی اپنانے اور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

حضرت امام ھادی علیہ السلام کی ولادت کے آیام ہے  اس  موقع پر مبارکباد دیتے ہوئے   میں دو  اہم مسائل کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

 

 

پہلا  ولادت مبارک     حضرت امام علی بن محمد  ہے جو کہ امام ہادی اور علی النقی علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں، مومنین کے دسویں امام ہیں، ان کے والد گرامی  امام جواد علیہ السلام ہے ،  جو کہ نواں امام ہے ، اور ان کی والدہ  محترمہ  سمانہ مغربیہ یا سوزان تھی۔

 

ہمارے دسویں امام کے مشہور ترین لقبوں میں سے ایک ہادی اور نقی ہے، آپ کو ہادی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے میں لوگوں کے لیے نیکی  اور صراط مستقیم  کی طرف رہنمائی کرتے تھے،آپ کے  اور القاب بھی ہے  جیسے مرتضی، عالم، فقیہ، امین، ناصح، خالص اور طیب  ۔۔۔

 

کلینی، شیخ طوسی، شیخ مفید اور ابن شہر آشوب کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام  15 ذی الحجہ 212 ہجری کو سریا (مدینہ کے قریب ایک علاقہ ہے) میں پیدا ہوئے۔ البتہ ایک اور روایت میں  آپ کی ولادت رجب کے دوسرے یا پانچویں دن سنہ 214 ہجری کو ملتی ہے۔

 

چوتھی صدی کے ایک مورخ مسعودی کے مطابق جس سال امام جواد علیہ السلام نے اپنی اہلیہ ام الفضل کے ساتھ حج بجا لایا، اس سال امام ہادی کو مدینہ لایا گیا جبکہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے۔ اور 233 ھ ق تک مدینہ منورہ میں زندگی کی  اور یعقوبی جو تیسری صدی کا مورخ  ہے ، نے لکھا ہے کہ 233 ھ ق میں متوکل عباسی نے امام ھادی علیہ السلام سامرہ بلایا ،

اور عسکری نامی علاقےمیں سکونت دی تاکہ اس طرح وہ  اس کے کنٹرول میں رہے۔

اور اس طرح وہ آپنے زندگی کی آخری آیام تک ادھر  ہی رہے۔

 

ایک خبر کے مطابق جو کہ اثبات الوصیہ  میں نقل ہوئی ہے کہ امام جواد کی شہادت کے بعد عباسی حکومت  نے ابو عبد اللہ جنیدی نامی ایک شخص جو کہ اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی رکھتا تھا، کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی  تاکہ وہ  امام ہادی علیہ السلام  کو تعلیم دے اور  اس طرح  ان کو   اپنےنظروں کے سامنے رکھے  اور شیعوں   کو ان سے رابطہ رکھنے سے روکے رکھے۔

لیکن کچھ عرصہ بعد  وہ شخص  امام کے علم اور شخصیت سے متاثر ہو گيا اور     امام  کی پیروی  کرنے لگا۔

 

 

 

 

امام  ہادی  علیہ السلام کے فضائل۔

1) روایت میں ہے کہ اصفہان کے لوگوں کا ایک گروہ "عبدالرحمٰن" نامی ایک شخص کے پاس آیا جو امام ہادی علیہ السلام  سے محبت رکھتا تھا   یہ اس وقت  کی بات ہے کہ  جب اس شہر میں  کوئی بھی امامت  اور ولایت سے با  خبر نہ تھا، اور اس سے پوچھا کہ تم کیوں شیعہ ہو گئے   ہوں؟ ان کے جواب میں انہوں نے کہا:

میں ایک گروہ کے ساتھ متوکل کے گھر گیا تھا۔  اور ہمارا مقصد عباسی خلیفہ  متوکل سے مدد طلب کرنا تھا۔ وہاں ایک بڑا ہجوم کھڑا تھا، اچانک علی بن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو گرفتار کرنے کا حکم جاری ہوا۔

میں نے اپنے ساتھیوں اور کچھ حاضرین سے پوچھا کہ "علی بن محمد" کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ شیعوں کا امام ہے اور غالب امکان یہ  ہے کہ متوکل اسے قتل کر دے گا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: میں اس کا چہرہ دیکھنے اور اس   کام کا نتیجہ جاننے کے لیے یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اسے گھوڑے پر لایا جا رہا ہے اور لوگ اسے دیکھنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔

عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے اس  امام کو دیکھ کر اپنے اندر تبدیلی محسوس کی اور میرا دل محبت سے بھر گیا۔

اس لیے میں نے  دل سے  مقرر دعا کی کہ متوکل سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

اہلکار  امام علیہ السلام  کو مجمع کی صفوں میں لاتے رہے لیکن امام علیہ السلام  پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنے مرکب پر  برجمان تھے اور کسی  کی طرف بھی نگاہ نہیں کرتے تھے یہاں تک  کہ  امام علیہ السلام کی سواری میرے نزدیک پہنچا اور پھر میرے نزدیک آکر مجھ سے کہا کہ اللہ  نے آپکی دعا قبول کی ہے۔  اور ہاں اللہ تعالی آپکو بہت سارے نعمات ، مال دولت اور اولاد سے نوازے گا۔

یہ الفاظ سن کر میں کانپ گیا اور میرے ساتھیوں اور حاضرین نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ اور تم کیا کرتے ہو؟  اور اس  نے آپ سے کیا کہا ؟

میں نے جواب دیا کا کہ کوئی خاص بات نہیں لیکن میں نے وہ   راز  بھی انہیں  بتایا۔  اور جب  میں اصفہان واپس آیا اور اللہ تعالیٰ نے میری زندگی میں  تبدیلی  لائی اور بہت ساری دولت کے علاوہ  میرے  70سال کے باوجود اللہ تعالی نےمجھے  دو بچے  دیے... اس لیے میں  نے ان کی امامت پر ایمان لایا اور ان کے شیعوں میں شامل ہوگیا۔

2) ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں کہ ہم سامرہ شہر سے باہر امام ہادی علیہ السلام کے ساتھ کچھ لوگوں کے استقبال کے لیے گئے تھے۔ امام زمین پر بیٹھے تھے اور میں ان کے سامنے بیٹھا تھا اور میں نے زندگی کی  مشکلات اور غربت کی شکایت کی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے اپنا ہاتھ ریت  پیرایا  اور کچھ ریت کے زارات میرے  مٹھی  میں تما  دیے

اور فرمایا: ان سے اپنی زندگی  کی ضروریات پورا کرو اور  یہ جو کچھ تم  نے دیکھا   اس کا کسی سے ذکر نہ کرو۔

ابو ہاشم کہتے ہیں کہ میں نے ریت کو چھپا دیا اور جب میں شہر واپس آیا تو دیکھا کہ جو کچھ میں نے امام سے لیا تھا وہ ریت نہیں تھی۔ یہ  مکمل طور پر سرخ سونا  تھا جو آگ کی طرح چمکتا  تھا۔ میں سنار کو گھر لے آیا اور اس سے کہا: یہ سونا میرے لیے  ایک قالب میں ڈال دو۔

اس نے مجھ سے کہا: میں نے اس سے بہتر سونا کبھی نہیں دیکھا۔ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ سارا  سونا ریت کے دانے کی شکل میں ہو! آپ کو یہ کہاں سے ملا؟

 

 

3 سونے کی سورج

داؤد بن جعفری کہتے ہیں: سفر حج سے پہلے میں امام ہادی علیہ السلام سے الوداع کے لیے سامرا شہر پہنچا۔ امام مجھے شہر سے باہر لے گئے۔ پھر وہ  اپنے گھوڑے  سے اترے اور اپنے ہاتھوں سے زمین پر ایک دائرہ کھینچ کر کہنے لگے: اے چچا اس دائرے میں جو کچھ ہے وہ اپنے سفر کے اخراجات کے لیے لے لیں۔

میں نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور دو سو مثقال وزنی سونے  کا  سورج  دیکھا۔

دوسرا موضوع غدیر کا قیام ، ہدف اور فلسفے ۔

انسان کی تخلیق کے آغاز سے ہی  انسان اس بارے میں حیرت  میں ڈھوب جاتا ہے  کہ یہ کائنات اور یہ مخلوقات کہاں سے آئیں اور کہاں   جائیں گے  اور یہ تمام مخلوقات خاص طور پر انسان کس لیے پیدا ہوئے اور وجود میں آئے؟ لیکن اس سوال کا جواب خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تمام موجودوں کا خالق ہے۔

 

لیکن جب مقدس کتابوں کے نصوص  کی طرف مراجعہ کریں گے تو معلوم ہو جائیگاکہ  قرآن نے کریم نے فرمایا: وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُون‏

میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا  مگر یہ کہ وہ میری  عبادت کریں )، یعنی وہ اس طرح ترقی کریں گے اور میرے قریب  ہوتے جائیں گے۔

اس لیے تخلیق کا سب سے اہم ہدف توحید اور بندگی خدا تعالیٰ ہے۔

خدا نے بنی نوع انسان کو اپنی عقل اور فطرت  کی متوجہ  کیا اور انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کر کے کمال اور توحید کی طرف رہنمائی فرمائی:

لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْکِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ  (ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ آسمانی کتاب اور میزان (حق اور  باطل کی پہچان) کے ساتھ بھیجاتاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل اور انصاف قائم کریں۔

انبیاء علیہم السلام کو بھیجنے کی ایک  وجہ یہ بھی ہے کہ کسی کے لیے کوئی عذر باقی  نہ رہے  اور ان پر حجت  ختم ہو:

مُبَشِّرينَ وَ مُنْذِرينَ لِئَلاَّ يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّة

وہ (انبیاء جو) بشارت دینے والے اور  ڈرانے  والے تھے، اس لیے کہ (ان انبیاء کے بعد) لوگوں کے لیے خدا پر کوئی  حجت باقی نہ رہے۔

عید غدیر کی موقع پر تخلیق کی مقصد  کو بیان کرنا

وہ عظیم امر جو مقصد اور تخلیق کا سبب ہے، تمام لوگوں تک پہنچا دینا چاہیے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے  رسالت  کے آغاز سے ہی اس مسئلہ کا بار بار تذکرہ کیا تھا، لیکن غدیر کے دن آپ نے اعلان عام کیا اور لوگوں کو بلایا:   اور فرمایا کہ ( من کنت مولاہ فھذ ا علی مولاہ)،  مولاہ ہونے  کا  مطلب ہے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت کو قبول کرنا، امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ