۱۴۰۳/۴/۸   8:51  بازدید:129     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


21 ذی الحجہ 1445 (ھ۔ ق) مطابق با06/28/2024 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم

 بسم‌الله الرحمن الرحیم «یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ»عِبَادَ اللَّهِ أوصِیکمْ و نَفسِی بِتَقْوَی اللَّه

اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو  جیسا کہ اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اور تم لوگوں کو موت نہ مگر یہ کہ آپ لوگ  مسلم ہوں۔

اے اللہ کے  بندوں میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو  تقوی آپنانے کی وصیت کرتا ہو۔

اس بابرکت مہینے اور آیام میں تمام عبادت گزاروں، معزز بھائیوں اور بہنوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ اللہ کی عبادت اور اطاعت کرنے، گناہوں سے باز رہنے اور زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا  دعوت دیتا ہوں۔

مجھے امید ہے کہ خدا ہم سب پر ہدایت  کے دروازے کھول دے گا۔ اور ہمیں پرہیزگار اور  تقویٰ دار بنائیں گا۔

 

یہ ایام عید غدیر کے آیا م ہے اس مناسبت سے دو موضاعات پر بحث کرنا  مناسب سمجھتا ہوں۔

 

سب سے پہلا یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:  اعوذ بالله من الشيطان الرجيم يا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۖ. وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ. یہ وہ آیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم پر حجت الوداع  کے دوران نازل ہوئی تھی اور اسے آیت تبلیغ  بھی کہا جاتا ہے۔

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے  رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے پیغام رسالت نہیں پہنچایا۔

 

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو خطبہ دیا، یہ خطبہ، خطبہ غدیر  کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حمد اور ثناء   ہےاس خدا کے لیے ،جو اپنی انفرادیت میں بلند ہے اور اپنی تنہائی میں مخلوق کے قریب ہے۔ اس کی سلطنت اس کی تخلیق کے ستونوں میں شان و شوکت سے بھری ہوئی ہے،

وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے بغیر کسی جگہ یا حرکت کیے، اور وہ اپنی طاقت  کے ساتھ تمام مخلوقات پر غلبہ رکھتا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ ہے، ہر مخلوق اس کی عظمت کے سامنے عاجز ہے، اور ہر چیز  اس کی قدرت کے سامنے مطیع اور اس کی عظمت کے سامنے اطاعت کرنے والا ہے۔

اور اب میں اپنی بندگی اور اس کی ربّوبیت کی گواہی دیتا ہوں، اور جو کچھ نازل ہوا ہے اس میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں، تاکہ اس کی طرف سے کوئی عذاب نازل نہ ہو جو پھر کوئی   ہم سے دور کرنے میں مدد نہیں کر پائے گا، حالانکہ وہ بہت طاقتور ہے، اس کا دوستی  میرے ساتھ  خالص ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

 کیونکہ اس نے مجھے تنبیہ کی ہے کہ اگر میں نے تم لوگوں تک وہ بات نہ پہنچائی جو اس نے علی کے بارے میں نازل کی ہے تو میں نے ان کے مشن کا فریضہ ادا نہیں کیا ہے اور خود اس نے مجھے لوگوں کی اذیتوں سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔

 

جبرائیل علیہ السلام میرے رب کی سلامتی سے تین بار مجھ پر نازل ہوئے - جو اکیلا سلامتی والا ہے - اور مجھے حکم دیا کہ میں اس جگہ کھڑا رہوں اور ہر گورے اور کالے کو یہ اعلان کروں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی، ولی اور امت کے لیے میرے جانشین ہے۔ اور وہ میرے بعد میرا جانشین اور امام  ہے اور اس کی حیثیت میرے ساتھ موسیٰ کے ساتھ ہارون  کی  جیسا ہے،

 سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور وہ خدا اور اس کے رسول اور خدائے بزرگ و برتر کے بعد تمہارا حاکم ہے۔اللہ تعالی نے مجھ پر ایک آیت نازل فرمائی کہ "بے شک تمہارا    ولی، صرف خدا، اس کا رسول اور وہ مومنین ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔" (مائدہ: 55) اور یقیناً۔

 علی بن ابی طالب نے  نماز قائم کی  اور اس نے حالت رکوع میں  زکوٰۃ ادا کیا اور ہمیشہ کے لیے اللہ سے محبت کرتے رہے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی:

 

"...اے نبی! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو، ورنہ آپ نے اس کا مشن پورا نہیں کیا، اور یقیناً اللہ آپ کو لوگوں کے آزار اور آذیت سے بچاتا ہے (مائدہ/67)۔

 

خدائے  تعالیٰ تمہارے اختیارات کا مالک اور نگہبان اور تمہارا معبود ہے اور پھر آپ لوگوں تمام اختیارات کا مالک  اسکا ولی، رسول اور پیغمبر ہے کہ جو اب تم سے کلام کر رہا ہے اور میرے بعد اس کے حکم کے مطابق علی تمہارا ولی اور امام ہوں گے۔  امامت میرے علی کے فرزندان  سے چلے گی یہاں تک کہ تم سب قیامت کے دن  خدا اور اس کے رسول سے ملاقات کرو گے۔

پھر فرمایا اے  لوگو! وہ خدا کی طرف سے تم سب پر  امام ہے اور خدا اس سے انکار کرنے والوں کی توبہ کو ہرگز قبول نہیں کرے گا اور ایسے شخص کو معاف نہیں کرے گا جو علی کی امامت کو قبول نہیں کرتا ہو،  اور وہ اسے دائمی دردناک عذاب دے گا۔

 

پھر فرمایا: اے لوگو! تم لوگوں کے نفسوں پر تم لوگوں  سے زیادہ حقدار کون ہے؟ انہوں نے کہا: خدا اور اس کا رسول۔

پھر فرمایا: میں جسکا مولی ہوں، پس یہ علی اس کا مولی  ہے۔ اے اللہ اس کی ولایت ماننے والے سے محبت کر اور اس کے ساتھ دشمنی کرنے والوں  سے دشمنی  رکھ جو  اسکا ساتھ  دے تم بھی اسکا ساتھ دو اورجو  علی  کو تنہا چھوڑیں تم بھی ان لوگوں کو تنہا چھوڑ۔

اے لوگو! میں اللہ کی طرف سے  رسول ہوں اور علی میرے بعد امام اور ولی ہیں اور ان کے بعد ائمہ اطہار علیہم السلام والی اور میرے جانشین ہیں کہ جو علی کے فرزند ہیں۔ آگاہ رہو کہ میں ان کا والد ہوں اور وہ میرے بچیں ہیں۔

 

 

آگاہ رہو کہ آخری امام مہدی ہم میں سے ہیں۔

ہان! وہ تمام مذاہب پر غلبہ حاصل کرے گا۔

آگاہ رہو! وہ ظالموں سے بدلہ لینے والا ہے۔

آگاہ رہو! وہ امام منصور اور  فاتح ہیں۔

آگاہ رہو کہ آخری امام قائم مہدی ہم میں سے ہیں۔

 

اے خدا، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے آپ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا

پھر جبرائیل امین یہ  آیت  شریفہ لے کر آئیں

اليوم أکملت لکم دينکم و أتممت عليکم نعمتي و رضيت لکم الإسلام دينا

اس دن کو میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کیا اور تم لوگوں پر سب نعمتوں کو تمام کیا اور دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کیا۔

 

دوسرا موضوع مولاء  باب الحوائج امام موسی کاظم علیہ السلام کی یوم ولادت ہے، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام 128 ہجری میں "ابواء" میں پیدا ہوئے۔ ابراہیم بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی حجرے (وہ کوٹھڑی کہ جہاں پر وہ قید تھے) میں کچھ درندے لائے گئے تاکہ انہیں نوچ لے،

 اور جب وہ دارندے لائے گئے تو انہوں نے امام کی تعظیم کی اور سر تسلیم خم  کیا،  اور ہارون الرشید کے شر سے اس کے لیے خدا کی پناہ مانگی۔ جب یہ خبر ہارون کو پہنچی تو اس نے امام علیہ السلام کو آزاد کردیا اور کہا: مجھے ڈر ہے کہ میرے اردگرد کے لوگوں، ان سے محبت نہ کر بیٹھیں۔

 

آب میں امام کی ولادت باسعادت کے موقع پر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی چند کرامات  ذکر کرتا ہوں ۔

ابو یوسف اور محمد بن حسن جو کہ ابو حنیفہ کے دو ساتھی تھے سندی بن شہک جیل میں امام ابی الحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی عیادت کے لیے گئے۔ راستے میں ایک دوسرے سے کہا: کہ ہم بھی موسیٰ بن جعفر سے کچھ کم نہیں ہے۔

 ہم یا تو اس کے برابر ہیں، یا اس کے جیسے ہیں۔ جب وہ امام کی خدمت میں پہنچے اور کچھ دیر بیٹھے  تو جیل کا ایک افسر داخل ہوا اور کہا: میری شفٹ ختم ہو گئی ہے اور میں آپ کی خدمت سے رخصت ہو رہا ہوں۔ اگر آپ کو جیل سے باہر کوئی کام ہے تو بتائیے، میں نتیجہ پیش کروں گا جب تک کہ اگلی بار خدمت کرنے کی میری باری آئے اور میں دوبارہ واپس آؤں گا۔

اس نے کہا: مجھے کوئی کام نہیں ہے۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، ابو یوسف کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: عجیب بات ہے، وہ آج رات مرنے والا ہے اور  پھر وہ مجھ سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں کچھ چاہئے  تو مجھے کہ سکتے ہو۔

 

اس کے   بعد ابو یوسف اور محمد بن حسن جیل سے باہر آئے اور ایک دوسرے سے کہا: ہم حلال اور حرام پر بحث کرنے آئے تھیں۔اور  انہوں نے غیب کی خبر  سے ہمیں  آگاہ کیا۔ موت کا وقت تو خدا کا ایک راز ہے۔ اسے کیسے پتہ چلا؟!

 

پھر انہوں نے کسی کو مقرر کیا کہ وہ کل تک جیل کے افسر کی تعقب کرے اور اسے اس کے حالات سے آگاہ کرے۔ وہ شخص بھی اسے کی تعقب کرتا رہا اور رات کو محلے کی مسجد میں سو گیا جو افسر کے گھر کے قریب تھا۔ صبح ہوتے ہی انہوں نے جیل افیسر کے گھر کے اندر سے ماتم کی بلند آوازیں سنی  اور لوگوں کو  آتے جاتے دیکھا۔ اس نے پوچھا: کیا ہوا ہے؟ کہنے لگے: فلاں کا کل رات انتقال ہوگیا۔

 یہ شخص ابو یوسف اور محمد بن حسن کے پاس آیا اور اس افسر کی موت کی خبر دی

 

پھر یہ دونوں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام  سے ملنے آئے اور کہا: ہمیں معلوم تھا، کہ آپ کو خدا کے دین کے حلال و حرام کا علم ہے لیکن آپ کو ان کی موت کا وقت کیسے معلوم ہوا جو کہ خدا کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے۔

 

تو امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے بابوں  میں سے ایک باب ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ السلام و آلہ وسلم نے  حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے پر  کھولا ہے اور پھر یہ علم الہی ایک  امام سے اگلے امام تک منتقل ہوتا آرہا ہے۔

يا أبا الحسن يا موسي ابن جعفر ايهاالکاظم يابن رسول الله يا حجت الله علي خلقه يا سيدنا و مولانا انا تواجهنا و واتشفعنا و توسلنا بک الي الله و قدمناک بين يدي حاجاتنا، يا وجيها عند الله اشفع لنا عند الله