بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین احمدہ علی عواطف کرمه ، سوابغ نعمه حمدا لا منتہی لحمدہ ، و لا حساب لعددہ، و لامبلغ لغایتہ ، و لاانقطاع لامرہ و الصلاہ و السلام علی آمین وحیہ ، خاتم رسلہ و بشیر رحمتہ ، و نذیر نعمتہ سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الطیبین الطاہرین ، صحبہ المنتجبین و الصلاہ علی آئمہ المسلمین سیما بقیتہ اللہ فی الارضین ،
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و اتباع امرہ۔
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
آپ سب مومنین کی توجہ ایک ضروری بات کی طرف بذول کرنا چاہتا ہوں ۔وہ یہ کہ: رمضان المبارک کے اثرات اور برکتوں کو کیسے محفوظ کیا جائے؟
اگر ہم اس مقدس مہینے میں اللہ تعالی کی اس عظیم دسترخوان پر مہمان الہی کی حثیت سے شرف یاب ہو چکے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اس کے اثرات کو دیر تک باقی اور محفوظ کریں۔ یہاں تک کہ ہم اگلے رمضان المبارک میں اسی حالت میں داخل ہو جائیں،
تو سمجھوں کہ ہم نے اس عظیم دسترخوان سے بہتریں فائدہ اٹھایا ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات کو ترک کرنا ایک عظیم حرکت ہے ۔
اور روزہ دار خدا کی مدد سے واجبات کو انجام دینے پر خاص رغبت پیدا کرتا ہے
بلکہ واجبات تو کیا اس سے آگے بڑھ کر وسیع پیمانے پر مستحب کاموں کو انجام دینے کی وادی میں بھی قدم رکھتا ہے۔
بلا شبہ، اس ماہ میں روزے رکھنا اور خواھشات نفسانی کا عملی طور پر مخالفت کرنا اور اسکے مقابل میں جدوجہد کرنے سے انسان کی روح اور دماغ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
اور یوں انسان کا روح بیماریوں سے شفا پا کر سالم اور صحت مند بن جاتا ہے۔
أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ.
فرمایا: اس مہینے میں بہترین عمل محرمات الہی سے پرہیز کرنا ہے ۔
حدیث معراج میں ملتا ہے کہ( ورع) کشتی جیسا ہے کہ جو زھد رکھنے والے لوگوں کو نجات دلاتا ہے۔
یا اَحْمَدُ! عَلَیکَ بِالْوَرَع فَاِنَّ الْوَرَعَ رَاْسُ الدِّینِ وَوَسَطُ الدِّینِ وَآخِرُ الدِّینِ... اِنَّ الْوَرَعَ رَاْسُ الْاِیمانِ وَعِمادُ الدِّینِ اِنَّ الْوَرَعَ مَثَلُهُ کَمَثَلِ السَّفِینَةِ کَما اَنَّ فِى الْبَحْرِ لا ینْجُو اِلَّا مَنْ کانَ فِیها کَذلِکَ لا ینْجُوا الزاهِدُونَ اِلَّا بِالْوَرَعِ؛
ای احمد! اپنے آپ میں ورع پیدا کرو کیونکہ ورع دین کا سر ہے اور دین کا درمیانی حصہ اور آخر حصہ ہے ۔۔۔ ورع ایمان کو ابتداء اور دین کا ستون ہے ورع کی مثال کشتی جیسا ہے جیسا کہ سمندر میں کوئی نہیں بچھتا ہے مگر یہ کہ کشتی میں ہو
اسی طرح زاھدوں کو نجات نہیں ملتا ہے مگر یہ کہ وہ ورع پر فایز ہو ں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ رکھنے اور خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرنے کے بہت گہرے اثرات ہماری روح و بدن پر پڑتے ہیں۔ چاہتا ہوں وہ نکات ذکر کروں جن کی وجہ سے یہ آثار و برکات دیر پا ہو جاتے ہیں۔
اول:
ان تمام چیزوں سے اجتناب کریں جس سے روحانی اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔ تقوٰی اپنائیں، واجبات کے انجام دینے اور محرمات کے ترک کر دینے پر نفس کو مجبور کریں۔
دوم:
کسی بھی شے کے اثرات کو باقی رکھنے کے لیے ہمیں دو مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے:
1۔ پہچان اورمعلومات حاصل کرنا۔
2۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد ان پر عمل کرتے رہنا۔
اگر انسان چاہے کہ کسی شے کو سیکھ لے تو سب سے پہلے اس کی معلومات حاصل کرنا یا جان لینا ضروری ہے تاکہ اس کے انجام دینے کی مہارت کو پیدا کیا جا سکے۔
اب جبکہ مہارت کو سیکھ چکے ہیں تو دوسرے مرحلے میں اس مہارت کو ہمیشہ کے لیے استعمال اور محفوظ رکھنا یہاں تک کہ یہ عادت اور ملکاء بن جائے۔
سوم:
اگر ہم چاہیں کہ اپنی مہارت کو ملکاء میں تبدیل کریں تو بار بار اس کا تکرار کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کیا تو زمانے کے گذرنے کے ساتھ یہ مہارتیں کم ہو جاتی ہیں اور اگر تکرار بالکل ہی نہ ہو تو یہ بالکل مٹ جائیں گی۔
چہارم:
ہمیشہ اور استقامت کے ساتھ کسی بھی عمل پر ثابت قدم رہنا اس بات کا موجب یا سبب بن جاتا ہے کہ اس کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَحَبُّ الأَعمالِ إِلى اللَّهِ تَعالى ما دامَ عَلَيهِ العَبدُ وَ إِن قَلَّ
اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کے لیے مداومت (تسلسل) کے ساتھ انجام دیا جائے اگرچہ کم کیوں نہ ہو۔
پیشوائے متقیان و پرہیز گاران امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں
: قَليلٌ تَدومُ عَلَيهِ أَرجى مِن کَثيرٍ مَملولٍ مِنهُ
وہ قلیل عمل جو ہمیشہ اور مداومت (تسلسل) کے ساتھ انجام دیا جائے کئی گنا بہتر ہے اس زیادہ عمل سے جس میں انسان تھک جائے اور ہمیشہ کے لیے انجام نہ دے پائے۔
اب جبکہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ کسی بھی عمل کو ہمیشہ انجام دینے سے ہی طول زمان میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور کسی بھی شے کو ملکاء بنانا تکرار کرنے کا نتیجہ ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر عمل پر ہمیشہ ثابت قدم اور مداوم رہنا چاہیے۔
اگر ہم ہر دن ایک جز قرآن کو تلاوت کرتے رہیں اور تسلسل سے کریں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک دن میں تو کئی پارے پڑھیں اور اگلے دن ترک کر دیں۔
ارشاد رب العزت ہے : وَ ھوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا﴿62﴾
اور (خدائے) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ آہستہ (فروتنی کے ساتھ) چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم پر سلام۔
عاقل وہ ہےکہ جو اپنے عمر کے ہر حصے کو آچھائی سے بھر دے کیونکہ فرصتیں بہت جلد گزر جاتی ہے
اور انسان خدا کی رضایت حاصل کریں قبل اس کے کہ موت آجائیں۔
روى عن رسول الله ص أنه قال: الکيّسُ مَنْ دانَ نفسَهُ وعَمِلَ لِما بعدَ الموت والعاجِزُ مَن أتْبَعَ نفسهُ هواها وتَمَنَّى على الله وهذه الدنيا تمُرُّ مثل رمضان وتمضي بلذائذها وشهواتها وتعبها ونَصَبِها وينسى الناسُ ذلک ولکنهم يجدون ما قدَّموا مدَّخَرًا لهم إنْ خيرًا فخيرٌ وإنْ شرًّا فشرٌّ فقد قال عزَّوجل فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْملْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو مسخر کرے اور موت کے بعد کے لیے کام کرے اور بے بس وہ ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرے۔ یہ دنیا رمضان کی طرح گزرتی ہے اور اپنی لذتوں، خواہشوں، تھکاوٹوں اور تکالیف کے ساتھ گزر جاتی ہے اور لوگ اسے بھول جاتے ہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے اپنے لیے جمع کیا تھا وہ پاتے ہیں، اگر اچھا تھا تو اچھا پائیں گا اور اگر برا ہے تھا تو برا پائیں گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔
تو انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کریں حتی کہ اپنے رب سے ملاقات کریں۔
قال الله عزّ وجلّ فی سورة الحجر وَاْعبُدْ رَبَّکَ حَتَّى يَأْتِيَکَ الْيَقِينُ
اپنے رب کی عبادت کریں حتی کہ موت اجائیں۔
وقال رسول الله صأَحَبُّ الأَعْمال إلى الله تعالى أدومها وإن َقلَّ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک وہ قلیل عبادت جو ہمیشہ انجام دیا جائیں زیادہ پسند ہے اس عمل کی نسبت کہ جو زیادہ ہو لیکن ہمیشہ نہ ہوں۔
ان میں اچھی بات یہ بھی ہے کہ انسان اپنے روزے کو دوام دیں، اور شوال کے چھ دن کی
ومِن المداومة على الطاعة صوم الست من شوال لما لها من الفضل العظيم، قال رسول الله ص: مَن صام رمضانَ ثم أَتْبَعَهُ سِتًّا مِن شوالٍ کان کصيام الدهر.
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام مہدی عجل الله فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
دعا کرتے ہیں کہ ہم سبھی کو مکتبہ قرآن اور چھاردہ معصومین علیہم السلام میں سے قرار دے۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
|