بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
تقویٰ کی فضیلت اور مقام
تقویٰ کے بارے سب مسلمانوں کی روایات میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ تقویٰ کے بارے میں سختی سے سفارش اور وصیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت علی اور امام صادق علیہما السلام سے روایت ہے کہ: تقویٰ تمام نیکیوں کا مجموعہ ہے۔
دوسرے لفظوں میں اگر ہم تمام اچھی خوبیاں جمع کریں تو اسکا نام تقوا بن جاتا ہے۔
ہر جگہ تقویٰ کی تلقین
اس لیے نہ صرف نماز جمعہ میں ایک دوسرے کو تقویٰ کی دعوت دینے کی سفارش کی گئی ہے بلکہ روایات کے مطابق مومنین کو اپنی زندگی کے ہر لمحے میں ایک دوسرے کو تقویٰ کی دعوت دینا چاہیے۔
امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ تقویٰ "اہل بیت کی وصیت" ہے۔
احادیث میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ تم سب اپنے آپ کو اور پھر اپنی قوم کو تقویٰ کی تلقین کرو۔
تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟
امام صادق نے ایک فصیح اور بلیغ اور سادہ بیان میں تقویٰ کی تعریف اس طرح کی ہے۔
تقوٰی کا مطلب ہے کہ خدا نے جن کاموں کو انجام دینے کاحکم دیا ہے اس میں غیر حاضر نہ ہونا۔ اور خدا کی حرام کردہ چیزوں میں غیرحاضر رہنے کا نام تقوا ہے۔
خدا نے حکم دیا کہ آپ اپنے خاندان کے ساتھ نرمی برتیں، اپنے خاندان کے لیے ایسا ماحول بنائے اور وہ سب کریں کہ جس پر خدا راضی ہوں .
مومن کے لیے ضروری ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا ایمان جتنا کامل ہوتا ہے، وہ اپنی بیوی بچوں سے اتنی ہی زیادہ محبت کا اظہار کرتا ہے۔
آئیے خدا کے ان واضح احکامات کو سنجیدگی سے لیں۔
شیطان کی چال؛
گناہوں کو معمول بنانا۔
بدقسمتی سے شیطان لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے جو حربے استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ گناہوں کو ان کی نظروں میں چھوٹا دکھانا اور ان کے لیے ان گناہوں کا معمول بن جانا ہے۔
وہ گناہیں جو ایمان اور تقویٰ کے لیے وبا، بربادی اور آفت ہیں۔
1: خاندان کے ساتھ بد مزاجی اور برے اخلاق سے پیش آنا۔
ایمان کے خطرات اور نقصانات میں سے ایک خاندان کے افراد کے ساتھ بد مزاجی ہے۔
روایت میں ہے کہ اہل و عیال کے ساتھ سے بد مزاجی کرنے سے فشار قبر بڑھ جاتاہے، خواہ تم مومن ہی کیوں نہ ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ فلاں بہت نیک عورت ہے، دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات کو عبادت کرتی ہے، لیکن بد مزاج ہے اور پڑوسیوں کو اپنی زنان سے تنگ کرتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"لا خَیرَ فیها، هِی مِنْ اهْلِ النَّارِ "
اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنمی عورت ہے۔
انسانوں میں اخلاقی برائیوں کا معمول بننا یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔
2: بعض لوگوں کے لیے غیبت کرنا معمول بن جاتا ہے اگر چہ وہ لوگ مسجد سے بھی تعلق رکھتے ہیں، لیکن غیبت ان کے لیے معمول بن گئی ہے، یہاں تک کہ انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ غیبت کر رہے ہیں، جب کہ روایات کے مطابق ایمان اور تقویٰ کو شدید نقصان پہنچانے والے گناہوں میں سے ایک غیبت کرنا ہے،
اور روایت میں آیا ہے : اَلْغِيبَةُ حَرَامٌ عَلَى کُلِّ مُسْلِمٍ وَ إِنَّهَا لَتَأْکُلُ اَلْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ اَلنَّارُ اَلْحَطَبَ.
غیبت کرنا ہر مسلمان کے لیے حرام ہے۔
اور غیبت بہت بری چیز ہے، کیونکہ یہ نیکوں کو اس طرح کھاتی اور تباہ کردیتی ہے، جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی اور جلاتی ہے۔
شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: روایت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہماری نیکیاں اس شخص کی طرف منتقل ہو جائیں گی کہ جس کی ہم غائب کر چکے ہیں۔
شیخ مرحوم نے اس قول کے گواہ کے طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اور روایت کا ذکر کیا ہے: قیامت کے دن ایسے لوگوں کو لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور پھر اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے گا۔ تو اسے اپنے عمل نامے میں اپنی نیکیاں نہیں دیکھے گا۔
اور وہ کہے گا: خدایا یہ میرا اعمال نامہ نہیں ہے۔ مجھے اس میں اپنی نیکیاں نظر نہیں آتی۔ تو اللہ تعالی اس سے مخاطب کر فرمائے گا کہ : بے شک تیرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ آپکا دوسرے لوگوں کی غیبت کی وجہ سے آپ کا عمل ضائع ہو گیا۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جاتا ہے اور اس کا نامہ اعمال اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اسے اس میں بہت سی نیکیاں اور اطاعتیں نظر آتی ہیں۔ تو وہ کہتا ہے: خدا یا یہ میرا اعمال نامہ نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے یہ اطاعتیں نہیں کیے ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے: فلاں شخص نے تیری غیبت کی تھی، اس لیے اس کی نیکیاں تجھے دے دی گئی ہے۔
دوسری بات یہ کہ غیبت کرنے والے کی چالیس دن کی عبادتیں بے اثر ہو جائے گے،
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مَنِ اِغْتَابَ مُسْلِماً أَوْ مُسْلِمَةً
اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کریں ،
لَمْ يَقْبَلِ اَللَّهُ صَلاَتَهُ وَ لاَ صِيَامَهُ أَرْبَعِينَ يَوْماً وَ لَيْلَةً
اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نمازیں اور روزے قبول نہیں کرے گا
إِلاَّ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ صَاحِبُهُ.
جب تک وہ شحض اسکو معاف نہیں کریں گا کہ جس کی غیبت کی گئ تھی ۔
لیکن ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم مزید نماز یں نہ پڑھیں، ہمیں نماز پڑھنی چاہیے، یہ اپنا حقیقی اثر کھو دیتی ہے، یہاں تک کہ اگر تم توبہ بھی کرو گے تو تم جنت میں داخل ہونے والوں میں سے آخری شخص ہو نگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی کی ۔ اے موسیٰ!: المغتباء إذآ تابَ فھو اخرُ مَنْ يدخُلُ الجَنَّة اگر غیبت کرنے والا توبہ بھی کرے تو وہ جنت میں داخل ہونے والوں میں سے آخری شخص ہوگا۔
وَ إِنْ لَمْ يَتُبْ فَهُوَ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ اَلنَّارَ
اور اگر توبہ نہ کرے تو جہنم میں داخل ہونے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوگا۔
غیبت کی معنی : شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ غیبت کی تعریف میں فرماتے ہیں: کہ غیبت کی تعریف میں فقہاء سےجو کچھ فرمایا ہے اس سے یہ نتیجہ نکل آتا ہے ہے کہ غیبت کا مطلب یہ کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں اسکے پیچھے ایسی بات کرنا، یا ایسے الفاظ الفاظ استعمال کرنا یا ایسے نسبتیں دینا کہ جو اگر وہ سنے تو وہ ناپسند کریں ، اس کو غیبت کہا جاتا ہے۔
دنیا کی محبت: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: أکبَرُ الکبائرِ حُبُّ الدنيا
دنیا کی محبت کبیرا گناہوں میں سے ہے،
البتہ اس کا مطلب دنیا سے لگاؤ ہے، دنیا کو معقول اور مفید طریقے سے استعال کرنا نہ صرف یہ کہ صحیح ہے بلکہ ضروری بھی ہے، لیکن بہت زیادہ لگاؤ اچھا نہیں ہے۔
جیسا کہ بہت زیادہ مال اور دولت کو جمع کرنے کی خواہش رکھنا
ان چار برائیوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی محبت لاتی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس نے صبح کی اور اس کا سب سے بڑا ہم اور غم دنیا ہو تو ایسے شخص کا اللہ کے ہاں کوئی مقام نہیں ہوتا ہے۔ وہ چار خصلتیں کہ جسکی وجہ سے حب دنیا آجاتی ہے اس سے انسان ہوشیار رہے۔
1: وہ ہم اور غم کہ جو کھبی انسان سے جدا نہ ہو هَمّاً لا يَنقَطِعُ عَنـهُ أبداً
2: و شُغلاً لا يَنفَـرِجُ مِنهُ أبداً وہ کام کہ جس سے کھبی چٹکارا نہ پاتا ہو۔
3: و فَقراً لا يَبلُغُ غِناهُ أبداً فقرى وہ فقر اور وہ فقر اور محتاجی کہ جس سےکھبی انسان چٹکارا پا کر انسا ن غنی نہ بنے
4: و أملاً لا يبلُغُ مُنتَهاهُ أبداً
دنیا میں ایسے امید رکھنا کہ جسکا کھبی انتہاء نہ ہو۔
خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ
وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ
وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ
وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
|