۱۴۰۲/۱/۲۵   2:5  بازدید:503     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


23 رمضان المبارک 1444(ھ۔ ق) مطابق با 04/14/2023 کو نماز جمعہ کی خطبیں ​​​​​​​

 



بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، امر الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ مالک الموت نے کہا ہے کہ اے بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقویٰ اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوٰی ہی ہے۔

 

دوران حیات اپنے قلوب میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر لحظات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔

قلت وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند مطالب آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

دین مبین اسلام میں اہم مواقع اور مختلف  مناسبات ہیں جنہیں منانا چاہیے۔ ان میں سے ایک حضرت  امیر المومنین علی علیہ السلام کی یومِ شہادت اور شب قدر کی  عظیم راتیں تھیں  جو کہ  گذشتہ ہفتے میں گزر گئے,اس کی معرفتیں اور تعلیمات اور برکات کو محفوظ رکھا جائے۔

 ایک اور اہم موضوع معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے جو کہ بعض لوگوں کے نزدیک  رمضان المبارک کے 17ویں رات کو ہے۔

  جس کےبارے میں قرآن کریم نے فرمایا: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿1

وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔

یہ دونوں مقامات تمام مسلمانوں کے لیے بہت مقدس اور نہایت اھمیت کے حامل ہیں، بہت سارے انبیاں ان مقامات میں تشریف لاچکے ہیں جس کے باعث تمام مسلمانوں کے لیے ان کی حرمت کا تحفظ ضروری ہے۔

اسی وجہ سے رور قدس کو نہایت اہمیت دینا چاہئے ۔

دین اسلام میں کچھ بہت بڑے عید یں ہے کہ جس میں سے ایک عید قربان ہے کہ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کی یاد دلاتا ہے کہ جسکی وجہ سے حضرت ابراھیم کو امت کا امام بنایا گیا۔

دوسرا عید، عید غدیر ہے کہ جس میں امامت علی علیہ السلام کا اعلان کیا گیا ہے۔

  اور اس پر بہت تا کید کیا گيا ہے

چونکہ انزار کے  دن سے ہی ولایت اور خلافت علی علیہ السلام کا اعلان کیا گيا تھا

اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایام تبیلغ اسلام  اور رسالت کی 23 سالہ طولانی  مدت میں بہت سارے مواقع پر اس موضوع کی طرف لوگوں  کومتوجہ کراتے رہے

  اور یہاں تک کہ عید غدیر کے عظیم اجتماع  کا انعقاد کیا گیا اور اس دن کو باقاعدہ طور پر امامت اور خلافت علی علیہ السلام کا  اعلان کیا۔جو کہ حجہ الوداع کی موقع پر  انجام پایا گيا۔

اور تیسرا عید فطر ہے، کہ یہ عید قیامت کے ساتھ بہت مشابہت رکھتا ہے۔

وہ لوگ کہ جنہو ں نے اپنے وظیفے پر عمل کیا  تو وہ لوگ اسکی جزاء کو پا لینگے ، ہمیں چاہئے کہ ہم اہلبیت علیم السلام کی نجات کی کشتی میں سوار ہو جائیں، تاکہ قیامت کے روز کامیاب ہوجائیں۔

 

حاکم نے اس حدیث کو صحت کے ساتھ بیان کیا ہےکہ:

قَالَ: أَبُوذَرٍّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ص  يَقُولُ:

ابوذر غفاری کہتے ہے کہ میں نے نبی مکرم اسلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ

« أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيکُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مِنْ قَوْمِهِ، مَنْ رَکِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ»

میرے اہلبیت کی مثال آپ لوگوں کے درمیان سفینہ نوح کی جیسی ہے کہ جو اس میں سوار ہوئے تو اس نے نجات پا لیا جن لوگوں نے روگردانی اختیار کی اور  اہلبیت کی مخالفت کی تو وہ لوگ غرق ہو کر ہلاک ہو گئیں۔

 

 

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص : « مَنْ يُرِيدُ أَنْ يَحْيَى حَيَاتِي، وَيَمُوتَ مَوْتِي، وَيَسْکُنَ جَنَّةَ الْخُلْدِ الَّتِي وَعَدَنِي رَبِّي، فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَإِنَّهُ لَنْ يُخْرِجَکُمْ مِنْ هُدًى، وَلَنْ يُدْخِلَکُمْ فِي ضَلَالَةٍ».

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہتے ہیں کہ وہ میرے جیسے زندگی جیئے اور میرے جیسا موت یعنی دار البقاء کی طرف منتقل ہو جائیں

 اور جنت الخلد میں سکونت اختیار کریں کہ جسکا وعدہ میرے رب نے مجھ سے کیا ہے تو اسکو چاہئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیروی کریں کیونکہ وہ تم لوگوں کو ہدایت کی راستے سے گمراہ نہیں کریں گے۔  اور گمراہی میں نہیں  دھکیل دیں  گے۔

 

جسا کہ حسکانی نے شواھد تنزیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

قال رسول الله «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَرْکَبَ سَفِينَةَ النَّجَاةِ وَ يَسْتَمْسِکَ‏ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ وَ يَعْتَصِمَ بِحَبْلِ اللَّهِ الْمَتِينِ فَلْيُوَالِ عَلِيّاً وَ لْيَأْتَمَّ بِالْهُدَاةِ مِنْ وُلْدِهِ۔

 

اگر کوئی چاہتا ہو کہ نجات کی کشتی میں سوار ہو جائیں  اور عروت الوسقی کے ساتھ متمسک ہو جائیں اور اللہ کی  ہدایت کی رسی کو پکڑے تو اسکو چاہئے کہ علی کی پیروی کریں اور پھر اس کے بعد  اسکی اولاد سے ہدایت لیتے رہے۔

 

طبرانی نے معجم کبیر اور ھندی نے کنزل العمال میں روایت ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  اہلیب علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:

فَلَا تَقْدُمُوهُمَا فَتَهْلَکُوا، وَلَا تَقْصُرُوا عَنْهُمَا فَتَهْلَکُوا، وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ »

اہلبیت سے آگے مت جاو ورنہ ہلاک ہو جاوں گے  اور ان سے روگردان ہو کر پیچھے بھی مت رہیے گا ورنہ ہلاک ہو جاوں گے ، اور خبردار تم لوگ انکو مت سکھائیں بلکہ ان سے سیکھتے رہیے کیونکہ وہ تو سب سے زیاد علم رکھنے والے علماء ہیں۔

 

ماہ مبارک رمضان کے کہ جو دن باقی بچے ہے ہمیں اس کا قدر و قیمت سمجھنا چاہئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہے: أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْکُمْ فِی هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ کَانَ لَهُ جَوَازاً عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیهِ الْأَقْدَامُ

 

اے لوگو! تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں اپنا اخلاق بہتر اور نیک کرے گا تو وہ اس دن پل صراط آسانی سے عبور کرے گا جس دن لوگوں کے قدموں میں لغزش ہو گی ۔

وَ مَنْ وَصَلَ فِیهِ رَحِمَهُ، وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِیهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ

اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اسے اپنی رحمت سے متصل کرے گا۔ اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے قطع رحمی کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کرے گا۔

 

اسی طرح فرماتا ہے: أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِی هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُغَلِّقَهَا عَنْکُمْ وَ أَبْوَابَ النِّیرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُفَتِّحَهَا عَلَیْکُمْ وَالشَّیَاطِینَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّکُمْ أَنْ لَا یُسَلِّطَهَا عَلَیْکُمْ.

 

اے لوگو یقینا اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ اس کو تمہارے اوپر بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے اس مہینے میں بند کردئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ تمہارے لئے ان کو نہ کھولے

 اور شیاطین اس مہینے میں باندھے گئے ہیں اپنے رب سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔

ماہ مبارک رمضان کے جمعے میں ایک اور مہم مسئلہ  اپنے مرحومین کو یاد کر کے انکے لیئے خیرات اور صدق دینا ہے۔

روایت میں ملتا ہے کہ ماہ مبارک کے ہر جمعے میں مرحومین گھر  آجاتیں ہے

گھر پر آکر کھڑے ہو جاتے ہے اور پھر غمگین حالت میں آواز دیتے ہے کہ اے میرے گھر والوں اے میرے بیٹوں اے میرے رشتہ داروں کسی اچھے عمل کے ذریع مجھ پر رحم کریں۔ تا کہ اللہ تعالی آپ لوگوں پر رحم کریں۔ آپ لوگ ہمیں یاد کرو

 تا کہ اللہ تعالی آپ لوگوں کو یاد کریں۔ ہمیں آپنے دعاوں میں یاد کیا کرو۔ہم پر اور ہماری غربت پر رحم کرو۔ کیونکہ ہم بہت سارے مشکلات میں ہے۔ ہم پر رحم کرو اور ہم دعا میں یاد رکھنے اور ہمارے نام کا صدقہ دینے میں کوتاہی نہ کریں شاید قبل اس کے اآپ لوگ بھی ہمارے جیسے بنیں اللہ تعالی آپ لوگوں پر رحم کرے ۔

ہم اپنے گزرے ہوئے زمانے پر حسرت کرتے ہیں ، ہم بھی آپ لوگوں کی طرح قدرت مند اور توانا تھے۔ تو اے بندگان خدا، ہماری باتوں کو سنو اور بھول نہ جاؤ کل جب آپ لوگ ہمارے جیسے ہوں گے تو یہ سب کچھ سمجھ سکیں گے۔ وہ سب کچھ جو تمہارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے قبل اس کے کہ وہ سب کچھ جو ابھی آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے یہ سب ہمارے ہاتھ میں بھی تھالیکن ہم نے اللہ کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کیا اور ادائے حق میں رکاوٹ بنے ۔ تو اسی وجہ سے ہم نے زیادہ نقصان کیا اور مشکل میں پڑ گئے اور اس کا فائدہ دوسرے لوگوں کو پہنچا ۔

ایک درہم کے ذریع یا روٹی کے ذریع یا ایک گوشت کی ایک ٹکڑے کے ذریع ہم پر رحم کریں۔

اور پھر وہ لوگ آواز دیتے ہیں کہ آنقریب تم لوگ آپنے اوپر روئیگے لیکن پھر رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

جس طرح ہمارا رونا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے رہا ، اسی وجہ سے پہلے اس کے کہ آپ لوگ بھی ہمارے جیسے ہو جائے ، اللہ کی بندگی اور اللہ کے راہ میں کوشیش کریں اور بندگی کریں

دعا کرتے ہے کہ اللہ ہمارے توفیقات میں اضافہ فرمائیں۔