۱۴۰۱/۱۱/۲۸   23:27  بازدید:813     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


26 رجب 1444(ھ۔ ق) مطابق با02/17/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

 

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

اَمَا بَعدْ ۔۔۔عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوی ہی ہے۔

دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔

 

ہم پر حق ہے کہ  اُنہیں یاد رکھیں جو الله  کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔

 

 

سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پور نور  کی  مناسبت سے  مبارکباد پیش کرتا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت 570 عیسوی میں سال عام الفیل کو ہوئی، جس سال ابرہہ نے خانہ کعبہ پر ہاتھیوں سے حملہ کیا تاکہ خانہ کعبہ مسمار کر دے۔ کعبہ کے کفیل  اور حضرت عبدالمطلب کے جواب سے شکست کھا گئے، اور کہا ( انا رب الابل و للبت رب)۔  میں اونٹوں کا پالنے والا ہو اور خانہ کعبہ کو پالنے والا کوئی او ر  رب بھی موجود ہے۔

تاریخ کے مطابق یومِ   بعثت  وہ دن ہے جب محمد بن عبداللہ کو 40 سال کی عمر میں نبوت کی مشن کو آغاز کرنے کا امر ہوا تھا۔ جس دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  غارِ حرا میں  غور فکر  اور عبادت کرنے میں مشغول تھے، جبرائیل آمین نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے  سورہ اقرء  نازل کرکے لائیں۔

سورہ علق کی پہلی آیات سے پیغمبر کا مشن شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی سورہ مدثر کی آیات کا سلسلہ جاری رہا، اسی لیے اہل بیت کے پیروکاروں کی ثقافت میں 27 رجب کو "عید مبعثت" کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق، پیغمبر کا مشن  عام الفیل کے چالیس سال بعد شروع ہوا تھا، آپ  کی بیوی خدیجہ اور  آپ  کے چچا زاد بھائی علی وہ پہلے لوگ تھے جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی۔

اور بعثت کے تین سال بعد آپ ص نے آیت انذار (أَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ ) کے نازل ہونے کے ساتھ اپنے تبلغ کو آشکار طور پر شروع کیا۔ اور اسی دن کو علی ع کی خلافت اور جانشین ہونے کا بھی اعلان کیا تاریخ طبری نے لیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے فرمایا: فَأَيُّکُمْ يُؤَازِرُنِي عَلَى هَذَا الأَمْرِ عَلَى أَنْ يَکُونَ أَخِي وَوَصِيِّي وَخَلِيفَتِي فِيکُمْ؟   آپ لوگوں میں جو سب سے پہلے میراساتھ دیگا وہی آپ لوگوں کے درمیان  میرا  بھائی میرا خلیفہ  اور میرا جانشین ہوگا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   اس لیے مبعوث ہوئے تاکہ وہ لوگوں کو سعادت اور کامیابی راستے بتائے۔

اور وہ سب کچھ سکھائیں کہ جس کی وجہ سے انسان شقی بن کر خطروں جھگڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ دنیا سب سے اچھا کریں تو انکو چاہئے کہ وہ کسی کی ھدایت کا سبب بنے۔

ھدایت کرنا اتناضروری امر ہے کہ جس سے کی وجہ انسان اچھائیوں میں چلا جاتا ہے۔

کہ کسی کو بھی حیرت میں ڈال دے ۔ جیسا کہ امام علی نے فرمایا کہ  جب پیغمبر اکرم نے مجھے یمن کی طرف بھیجنا چاہا تو فرمایا :

وَ ايمُ اللّهِ، لَأَن يَهدِيَ اللّهُ عَلى يَدَيکَ رَجُلًا خَيرٌ لَکَ مِمّا طَلَعَت عَلَيهِ الشَّمسُ و غَرَبَت، و لَکَ وِلاؤُهُ يا عَلِيُّ

خدا کی قسم اگر آپ کے ہاتھ سے ایک بھی انسان ہدایت پا لے تو یہ آپ کے لیے ان سب چیزوں سےبہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور اے علی تم اس کے مولا ہو ۔

 

عبد الرحمٰن بن عائذ سے روایت ہے کہ جب بھی پیغمبر اکرم کسی گروہ کے ساتھ جنگ کے لیے بھیجتے تو کہا کرتے تھے کہ ان لوگوں سے محبت پیدا کرو اور انہیں وقت دو اور جب تک ان کو اسلام کی طرف دعوت نہ دے دو ان پر حملہ بھی نہ کرو یہاں تک کہ روئے زمین پر ایسا کوئی خاندان نہ بچے کہ جو مسلمان نہ ہوا ہو ، اور یہ امر میرے نزدیک اس سے کئی گنا بہتر ہے کہ تم ان پر حملہ کر کے ان کے مردوں کو قتل کرو اور عورتوں و بچوں کو قیدی بناؤ ۔

 

کانَ النَّبِيُّ ص إذا بَعَثَ بَعثا یقول:

 

تَأَلَّفُوا النّاسَ، و تَأَنَّوا بِهِم، و لا تُغيروا عَلَيهِم

 

ہدایت کرنے کا منبع قرآن کریم ہے اور وہ ہدایت کرنے کو اس طرح بیان فرماتا ہے ۔۔۔

 

وَإِنَّکَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ

 

اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) اور عظیم   ہیں                          ( سورۃ العلق ، آیت 4  )

 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ

 

(اے محمد) خدا کی  رحمت اور مہربانی سے  آپ  ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے دور چلے جاتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو۔  ( سورۃ آل عمران ، آیت 159 )

ہم اچھے اخلاق سے  یہ بھی کر سکتے ہیں کہ  جس کسی  مقام اور جس حالت میں بھی ہوں انہیں دوسرے  انسانوں کی ہدایت کے لیے استعمال کریں ، اسی کے ذریعے حقیقی اسلام کا خوبصورت چہرہ لوگوں کو دکھائیں تا کہ ہمارے یہ امور امام زمان اور اہل بیت عصمت و طہارت کی خوشنودی کا سبب بنیں ۔

 قرآن اور اہلبیت ایک بہت اہم محور ہے کہ جس کو  ہم وحدت کے لیے بہترین  موضوع  قرار دے سکتے ہیں

  سب امت کا متفقہ  طور پر یہ فیصلہ ہے کہ قرآن اور اہل بیت عظیم مقام کے حامل ہیں۔

 چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اہلبیت کو ہم وزن قرآ ن معرفی کرتے ہے۔ اور  انکو اپنے وجود  کا حصہ مانتے  ہیں۔ ان کے لیے ایسےفضائل اور صفات کرتے  ہیں کہ جو  کسی  اور کے لیے نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہلبیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ میرے محبوب اور میرے جانشین ہے میرے جگر کے ٹکڑے اور میرے روح ہے ۔ اہلبیت علیہم السلام کی وہ فضیلت کہ جس میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ آپ صلی علیہ و آلہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہے۔   صحیح بخاری میں ایک معروف روایت ذکر ہوا ہے۔ کہ آپ   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے آپ پر صلوات پڑھے تو آپ صلی علیہ وآلہ و سلم  نے فرمایا اس طرح : اللهم صلی علی محمد وعلی آل محمد .  اس روایت  میں صلوات پڑھنے کا طریقہ بیان کیاگیا ہے کہ انسان چاہے جمعی صورت میں درود پڑھے یا انفرادی صورت میں ایسی طریقہ کے ساتھ صلوات پڑھے۔ مطلب جب بھی انسان آپ صلی علیہ وآلہ و سلم   کا نام مبارک سنے تو انکو چائے کہ وہ محمد اور آل محمد پر صلوات پڑھے ورنہ وہ شخص کھبی بھی ھدایت نہیں پا سکتا ہے اور جنت نہیں جا سکتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے     مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ فَقَدْ خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ.

جس کے سامنے  میرا نام لیا گیا اور  اس نے مجھے پر صلوات نہیں پڑھا تو وہ جنت کے راستے منحرف ہوا۔

مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيهَا عَلَيَّ وَلَا عَلَى أَهْلِ بَيْتِي لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ.

ابن ماجہ نے ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے: جو شخص نماز پڑھے اور وہ مجھ  محمد  اور  میرے آل پر درود نہ بھیجے، اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔

خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِنَّا أَعْطَيْنَاکَ الْکَوْثَرَ  فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ  إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ

صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم