۱۴۰۱/۸/۶   1:16  بازدید:679     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


02ربیع الثانی 1444(ھ۔ ق) مطابق با28/10/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

 

قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّکُمْ فُرْقَاناً وَيُکَفِّرْ عَنکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ وَاللَّهُ ذُو الفَضْلِ العَظِيمِ

 

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے

)سورة الانفال، آیة 29(

 

سب سے پہلے تمام صاحب ایمان حضرات کی توجہ تقوی الہی اور پرہیزگاری پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں کہ خدا سے ڈریں اور اپنے آپ میں یہ احساس پیدا کریں کہ خدا کا ارادہ سب ارادوں پر غالب ہے

 

اور زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کے حاضر ہونے کا احساس کریں. جو چیزیں حرام ہیں ان سے پرہیز کریں کہ دین مبین اسلام میں اسی کو تقوٰی کہتے ہیں.

 

 

 

سب سے پہلے میں حالیہ شہدائے مزار احمد بن موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں ،

اللھم صل علی محمد و آل محمد ۔

 ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

نعمتان مجهولتان لا يعرفهما إلَّامَن فقدهما و آن دونعمت الصَّحَةُ وَالْامانُ است

دو نامعلوم نعمتیں جنہیں کوئی نہیں جانتا ، سوائے ان کے جنہوں نے بغیر استفادہ حاصل کیے انہیں کھو دیا  اور وہ دو نعمتیں صحت اور سلامتی ہیں۔

صحت و سلامتی کی نعمتوں کو ضائع ہونے سے پہلے ان کی قدر کرنی چاہیےاور امت اسلامیہ کے نزدیک بے گناہوں کو قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے اور جہنم میں تنہائی کا باعث ہے۔

 

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

اور تم سلام کرنے والے کو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور دنیاوی اغراض اور مقصدیں حاصل کرنے کی وجہ سے سلام کر رہے ہو

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا

اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے (سورۃ النساء ، آیۃ 93 )

تقویٰ حاصل کرنے کے دوسرے طریقوں میں سے ایک تفکر و تدبر کرنا ہے ۔ یہ دونوں ایک جیسے ہی  ہیں لیکن ان میں فرق ہے۔"فکر" کرنے کا مطلب یہ ہے کہ  نامعلوم کو دریافت کرنے کے لیئے انسان پوچھے اور سوال کریں اور اس کے جوابات پیدا کریں ۔

 امام علی علیہ السلام کے مطابق سوچ اور فکر کرنا انسان کو نیکی اور عمل صالح بجا لانے کی طرف دعوت دیتی ہے ۔ سوچ انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتی ہے اور اسے بصیرت اور رائے قا‏ئم کرنے کی صلاحیت  عطا کرتی ہے۔

البتہ تدبر سے مراد دور اندیشی ہیں ۔ لیکن قرآن میں "تدبر" کا مطلب کسی معاملے کے نتائج کے بارے میں سوچنا اور غور کرنا ہیں ۔ یعنی آیات کے نتائج و اثرات اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے نتائج پر توجہ دینا ۔

اسی سوچ سے انسان کے دل و جان کو ہدایت ملتی ہے اور قرآن کی بشارت سے استفادہ کرتا ہے اور اس کی دھمکیاں اس پر کارگر ہوتی ہیں ۔ انسان کو زندگی میں ہمیشہ تفکر اور تدبر دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کے دنیا اور آخرت میں کیا اثرات اور نتائج ہیں؟

 

 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث ہےکہ

مَنْ اَخْلَصَ لِلّهِ اَرْبَعينَ صَباحا، ظَهَرَتْ يَنابيعُ الْحِکْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلى لِسانِهِ

جو شخص چالیس صبح تک خدا کے لیے مخلص ہو گا، اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہوں گے۔

آئیے  دھیان دیں کہ ہمارے فیصلوں اور اعمال کا معیار خود کی رضا یا خدا کی رضا کی تعمیل ہے۔ آئیے اس بات پر توجہ دیں کہ ہم کس چیز پر آزمائے جا رہے ہیں؟ ہم کام کو پہچاننے اور اسے انجام دینے میں کتنی محنت کرتے ہیں؟

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا اور ان کو سیدھے رستہ پر چلاتا ہے

 

اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے طلبگاروں کو سلامتی کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اپنے حکم سے ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور راہ راست پر لاتا ہے ۔

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،

امام مہدی عجل الله فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔ دعا کرتے ہیں کہ ہم سبھی کو مکتبہ قرآن اور چھاردہ معصومین علیہم السلام میں سے قرار دے۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ