۱۴۰۱/۶/۲۵   2:11  بازدید:707     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


19 صفر 1444(ھ۔ ق) مطابق با16/09/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

 

ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

اربعین حسینی کی مناسبت سے تسلیت اور تعزیت پیش کرتا ہوں زیارت اربعین کیلئے بہت زیادہ اہمیت بیان ہو چکا ہے یہ صرف اس لئے نہیں ہے کہ یہ مومن کی علامات میں سے ہے بلکہ کچھ روایات کی رو سے زیارت اربعین واجب اور مستحب نمازوں کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔

 مطلب یہ کہ زیارت اربعین بھی نماز کی طرح شریعت اور دین کا ستون ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی حدیث میں زیارت اربعین پڑھنے کو مومن کی علامت و نشانی قرار دیاگیاہے ؛

امام حسن  عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں : عَلَامَاتُ‏ الْمُؤْمِنِ‏ خَمْسٌ‏ صَلَاةُ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم‏"

پانچ چیزیں مومن کی نشانی ہیں : روز و شب میں اکیاون(51)   رکعت نماز پڑھنا؛ زیارت اربعین پڑھنا ؛ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا؛ پیشانی کو مٹی پر رکھنا(خاک پر سجدہ کرنا)؛ بلند آواز سے "بسم اللہ" کہنا"

سب سے پہلے زیارت اربعین کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ زیارت اربعین کی کتنی اہمیت ہے

اربعین امام حسین علیہ السلام دین مبین اسلام کی رفتار کا آئینہ بن چکا ہے اور مدینہ الفاضلہ کا ایک آئیڈیل بن چکا ہے۔

 اور اربعین امام حسین علیہ السلام میں پیروان اہل بیت علیہم السلام کا خوبصورت اور تحسین سے مالا مال چہرہ دیکھایا گیا ہے۔ حتی یہ کہ اربعین امام حسین علیہ السلام کا تعظیم اور تکریم کرنا حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا تعظیم اور تکریم کرنا ہے کہ جو شعایر الہی میں سے ہے ۔

یہ مدینہ الفاضلہ کی پہچان اور اس کے راستے کا تعین کرنا ہے۔ کہ جو سب صاحب عقل لوگو کا اخری امید ہے آج کل اربعین میں امام حسین علیہ السلام کی تعظیم اور تکریم کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا راہپیمایی کرنے والا مجموعہ بن چکا ہے

 اور زائرین امام حسین علیہ السلام کا احترام کرنا اور ان کا خدمت کرنا امت اسلامی کے لیے بہت بڑا مقام فخر سمجھا جا رہا ہے۔ اس حد تک کہ سب کوشش کرتے ہیں کہ اس راستے میں دوسروں سے آگے نکلے اور سب سے زیادہ خدمات انجام دے۔

اربعین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم کا پیروی کرنا ہے اور صراط مستقیم پر حرکت کرنا ہے  یہ وہ راستہ ہے  کہ جو ہر قسم کی کجی سے پاک ہے اور ہمیشہ کے لئے سیدھا راستہ ہے اس راستے کی دو شاخیں ہیں کہ جو دونوں قیامت تک ایک ساتھ رہیں گے۔

 یہ سب مسلمان مانتے ہیں اور سب کا اس پر اتفاق نظر ہے احمد بن حنبل نے حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنِّي تَارِکٌ فِيکُمْ خَلِيفَتَيْنِ: کِتَابُ اللَّهِ وَأَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ‏ جَمِيعًا.

میں تم لوگوں کے درمیان دو خلیفہ چھوڑ کے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسرا میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہونگے حتی کہ قیامت کے دن مجھ سے آملے۔

 اربعین اور چالیس کی عددکا کچھ خاص خصوصیت ضرور ہے کہ جو دوسرے اعداد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث کرنا! حضرت موسی علیہ السلام کی ملاقات کو چالیس دن تک طولانی کرنا!

کہ جس کو پہلے 30 دن کا قرار دیا گیا تھا(ثلاثین لیة و اتممناها به عشر . ) اور پھر اس کے ساتھ دس دن اور اضافہ کیے اور یوں چالیس دن ملاقات ہو گیا! اور اسی طرح سفارش ہوا ہے کہ نماز تہجد میں چالیس مومنوں کے لیے دعا کریں اور اسی طرح چالیس گھروں تک کو ہمسایہ کہا گیا ہے

اور اسی طرح اگر چالیس مومن کسی میت کے لئے اچھائی کی گواہی دے دے تو اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے۔

 

اس سے پتہ چلتا ہے کہ چالیس کا عدد کچھ خاص صفات کا حامل ہے اور اس کا کچھ خاص مقام ہے۔ اسلامی روایات میں اس طرح آیا ہے کہ وہ زمین کہ جس پر انبیاء الہی یا اولیاء الہی یا اللہ کے اچھے بندے عبادت کرتے ہیں

 تو جب وہ لوگ مر جاتے ہیں تو یہ زمین 40 دن تک اس پر رویا کرتی ہے۔

لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین اور آسمان نے چالیس دن تک خون کے ساتھ گریہ کیا۔ کیونکہ کچھ روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر کچھ مٹی کا رنگ خون کی رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا ۔

 طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیا ہیں۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: کَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَلْعَبَانِ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ ص فِي بَيْتِي، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ أُمَّتَکَ تَقْتُلُ ابْنَکَ هَذَا مِنْ بَعْدِکَ. فَأَوْمأَ بِيَدِهِ إِلَى الْحُسَيْنِ، فَبَکَى رَسُولُ اللهِ ص ، وَضَمَّهُ إِلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص: «وَدِيعَةٌ عِنْدَکِ هَذِهِ التُّرْبَةُ» . فَشَمَّهَا رَسُولُ اللهِ ص وَقَالَ: «وَيْحَ کَرْبٍ وَبَلَاءٍ» . قَالَتْ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ص: «يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِذَا تَحَوَّلَتْ هَذِهِ التُّرْبَةُ دَمًا فَاعْلَمِي أَنَّ ابْنِي قَدْ قُتِلَ» قَالَ: فَجَعَلَتْهَا أُمُّ سَلَمَةَ فِي قَارُورَةٍ، ثُمَّ جَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهَا کُلَّ يَوْمٍ، وَتَقُولُ: إِنَّ يَوْمًا تَحَوَّلِينَ دَمًا لَيَوْمٌ عَظِيمٌ

 

 ام سلمہ نے فرمایا: کہ حسن اور حسین علیہما السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے۔ تو جبرئیل امین نازل ہوا اور کہا اے محمد! آپ کے امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کریں گے اور اس نے اپنے ہاتھ کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم بہت زیادہ روئے اور پھر امام حسین علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگایا اور پھر فرمایا اے ام سلمہ یہ مٹی اپنے پاس رکھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مٹی کو بو کیا۔

اور فرمایا وای ہو ای کربلا کی مٹھی!  تو ام سلمہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا جب اس مٹی کا رنگ بدل جائے اور خون کا رنگ اختیار کریں تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین قتل کیا گیا ہے

 ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے اس مٹی کو ایک برتن میں رکھی اور پھر ہردن اس کو دیکھتی رہتی تھی۔ اور کہتی تھی کہ جب اس مٹی کا رنگ بدل جائے گا  تو وہ بہت عظیم دن ہوگا۔

 

ابن حجر هیثمی الصواعق میں ابن احمد سے نقل کرتے ہے ۔

ابْن أَحْمد عن ام سلمة قَالَت:« ثمَّ ناولني کفا من تُرَاب أَحْمَر » وَقَالَ:« إِن هَذَا من تربة الأَرْض الَّتِي يقتل بهَا فَمَتَى صَار دَمًا فاعلمي أَنه قد قتل » قَالَت أم سَلمَة فَوَضَعته فِي قَارُورَة عِنْدِي وَکنت أَقُول إِن يَوْمًا يتَحَوَّل فِيهِ دَمًا

ابن حجر ہیثمی نے صوائق میں نقل کیا ہے ابن احمد نے ام سلمہ کی طرف سے بیان کیا ہے کہ ام سلمہ نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ  مٹی مجھے دی کہ یہ اس زمین کی مٹی ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا جائیگا۔ اور جب اس مٹی کا رنگ خون کے رنگ میں بدل جائے تو سمجھو کہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا گیا ہے

 اور پھر اس مٹی کو ایک برتن میں میرے پاس رکھا اور کہا کرتی تھی کہ ایک  دن یہ خون کا رنگ اختیار کرے گی۔ وہ بہت عظیم دن ہوگا۔

 وَفِي رِوَايَة عَنْهَا« فَأَصَبْته يَوْم قتل الْحُسَيْن وَقد صَار دَمًا

ایک دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا گیا تو وہ مٹی خون کے رنگ  اختیار کر  گئی دوسری روایات میں اس طرح بھی ملتا ہے کہ عاشورا کے دن اور بھی بہت سارے عجیب اور غریب واقعہ اور علامات رونما ہوئے کہ جس میں سے  کچھ یہ ہے کہ وَمِمَّا ظهر يَوْم قَتله من الْآيَات أَيْضا « أَن السَّمَاء اسودت اسودادا عَظِيما حَتَّى رؤيت النُّجُوم نَهَارا وَلم يرفع حجر إِلَّا وجد تَحْتَهُ دم عبيط

 

عاشوراء کے دن آسمان کا رنگ کالا ہو گيا ا اس حد تک کہ دن کو ستارے نظر آ گئے اور اس دن کسی بھی پتھر کو نہیں اٹھایا گیا مگر یہ کہ اس کے نیچے خون کے لوتھڑے ملے۔

 

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ