۱۴۰۱/۲/۱۴   1:27  بازدید:999     مضامین


عید فطر کا 13 نکات پر مشتمل عیدی تحفہ

 


شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد۔ تکبیر کا مفہوم بت شکنی، طاغوت کا انکار اور طاغوت اور طاغوتیوں کی نابود اور مشرکین کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مستحب ہے کہ روزہ دار نماز عید کے آغاز سے پہلے، چار نمازوں کے بعد چار تکبیریں کہیں: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد۔ تکبیر کا مفہوم بت شکنی، طاغوت کا انکار اور طاغوت اور طاغوتیوں کی نابود اور مشرکین کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔

1۔ مغفرت اور فضیلتوں کی عید
عید فطر گناہ اور نافرمانیوں کی زنجیروں سے آزادی کا دن ہے؛ ہر پلیدی اور ناپاکی سے پاک ہونے کا دن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ماہ مبارک رمضان کی فضیلت کے سلسلے میں منقولہ ایک مقصل حدیث کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
"فَإِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ الْفِطْرِ وَهِيَ تُسَمَّى لَيْلَةَ الْجَوَائِزِ أَعْطَى اللَّهُ الْعَالَمِينَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَإِذَا کَانَتْ غَدَاةُ يَوْمِ الْفِطْرِ بَعَثَ اللَّهُ الْمَلَائِکَةَ فِي کُلِّ الْبِلَادِ فَيَهْبِطُونَ إِلَى الْأَرْضِ وَيَقِفُونَ عَلَى أَفْوَاهِ السِّکَکِ فَيَقُولُونَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَى رَبٍّ کَرِيمٍ يُعْطِي الْجَزِيلَ وَيَغْفِرُ الْعَظِيمَ فَإِذَا بَرَزُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَائِکَةِ مَلَائِکَتِي مَا جَزَاءُ الْأَجِيرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ قَالَ فَتَقُولُ الْمَلَائِکَةُ إِلَهَنَا وَسَيِّدَنَا جَزَاؤُهُ أَنْ تُوَفِّيَ أَجْرَهُ قَالَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنِّي أُشْهِدُکُمْ مَلَائِکَتِي أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَهُمْ عَنْ صِيَامِهِمْ شَهْرَ رَمَضَانَ وَقِيَامِهِمْ فِيهِ رِضَايَ وَمَغْفِرَتِي وَيَقُولُ يَا عِبَادِي سَلُونِي فَوَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا تَسْأَلُونِّي الْيَوْمَ فِي جَمْعِکُمْ لِآخِرَتِکُمْ وَدُنْيَاکُمْ إِلَّا أَعْطَيْتُکُمْ‌ وَعِزَّتِي لَأَسْتُرَنَّ عَلَيْکُمْ عَوْرَاتِکُمْ مَا رَاقَبْتُمُونِي وَعِزَّتِي لَآجَرْتُکُمْ وَلَا أَفْضَحُکُمْ‌ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِ الْخُلُودِ انْصَرِفُوا مَغْفُوراً لَکُمْ قَدْ أَرْضَيْتُمُونِي وَرَضِيتُ عَنْکُمْ قَالَ: فَتَفْرَحُ الْمَلَائِکَةُ وَتَسْتَبْشِرُ وَيُهَنِّئُ بَعْضُهَا بَعْضاً بِمَا يُعْطِي اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ إِذَا أَفْطَرُوا؛ (1)
اور جب عید فطر کی شب ہو - جو انعامات کی شب کہلاتی ہے – اللہ تعالی عالمین کو ان کا اجر، بے سان گمان کے (اور بےاندازہ)، عطا کرتا ہے؛
اور جب عید کی صبح ہوجائے، خدائے متعال فرشتوں کو مختلف شہروں میں روانہ کرتا ہے، تو وہ زمین پر اترتے ہیں اور گلیوں اور اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں: اے امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ)! رب کریم کی طرف نکل پڑو جو اجر بکثرت عطا کرتا ہے اور عظیم گناہوں کو بخشتا ہے؛
اور جب نماز عید کے لئے، عیدگاہ کی طرف چلے جاتے ہیں، خدائے بزرگ و برتر فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس اجیر (مزدور یا ملازم) کی جزاء کیا ہے جس نے اپنا کام سرانجام دیا ہے؟ فرمایا: فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے معبود اور اے ہمارے سید و آقا! اس کی جزاء یہ ہے اس کی اجرت کو مکمل طور پر عطا فرما دے۔ تو خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں ان (روزہ داروں) کو ماہ رمضان میں ان کے روزوں اور نمازوں کا اجر اپنی خوشنودی اور مغفرت کی صورت میں عطا کرتا ہوں؛
اور [خدائے متعال اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر] ارشاد فرماتا ہے: [جو بھی چاہو] مجھ سے مانگو، میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ آج تم اپنے اس اجتماع میں دنیا اور آخرت میں سے جو کچھ بھی مانگوگے، میں عطا کروں گا؛
اور اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تمہاری عزت و آبرو کی [دنیا کی نگاہوں سے] مستور رکھوں گا اور میری عزت کی قسم کہ جب تک کہ تم مجھے اپنے اوپر ناظر و نگران سمجھوگے [اور میرے عذاب کے خوف سے گناہوں سے پرہیز کرتے رہوگے] میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں اور ان لوگوں کے سامنے تمہیں خوار و رسوا نہيں کروں گا جو دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والے ہیں؛
پلٹ جاؤ، تمہیں بخش دیا گیا، بلا شبہ تم نے مجھے خوشنود کردیا اور میں تم سے خوشنود ہؤا۔
فرمایا: تو فرشتے - اس لئے کہ اللہ نے اس امت کو عید کے دن اس قدر انعام و اکرام سے نوازا ہے - خوش ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بشارت اور مبارکباد دیتے ہیں"۔

2۔ حقیقی انعام کا دن
امام محمد باقر (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"قَالَ النَّبِيُّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ): إِذَا کَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نَادَى مُنَادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَى جَوَائِزِکُمْ، ثُمَّ قَالَ: يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوکِ، ثُمَّ قَالَ: هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِزِ؛ (2)
جابر جعفی امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "ماہ شوال کے پہلے دن، ایک منادی ندا دیتا ہے: اے مؤمنو! اس صبح کو اپنے انعامات کی طرف لپکو [جو ماہ مبارک رمضان کے روزوں کی پاداش میں دیئے جارہے ہیں]۔ بعدازاں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: اے جابر! اللہ کے عطا کردہ انعامات ان [دنیاوی] بادشاہوں کے انعامات کی طرح نہیں ہیں؛ اور پھر فرمایا: آج کا دن انعامات کا دن ہے"۔

3۔ رمضان المبارک مقابلے کا میدان
"نَظَرَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (عَليهِ السَّلام) إِلَى أُنَاسٍ فِي يَوْمِ فِطْرٍ يَلْعَبُونَ وَيَضْحَکُونَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ وَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ شَهْرَ رَمَضَانَ مِضْمَاراً لِخَلْقِهِ يَسْتَبِقُونَ فِيهِ بِطَاعَتِهِ إِلَى رِضْوَانِهِ فَسَبَقَ فِيهِ قَوْمٌ فَفَازُوا وَتَخَلَّفَ آخَرُونَ فَخَابُوا فَالْعَجَبُ کُلُّ الْعَجَبِ مِنَ الضَّاحِکِ اللَّاعِبِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُثَابُ فِيهِ الْمُحْسِنُونَ وَيَخِيبُ فِيهِ الْمُقَصِّرُونَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ کُشِفَ الْغِطَاءُ لَشُغِلَ مُحْسِنٌ بِإِحْسَانِهِ وَمُسِي‌ءٌ بِإِسَاءَتِهِ؛ (3)
امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے کچھ لوگوں پر نظر ڈالی جو عید فطر کے دن کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے، تو آپ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا: یقینا خدائے بزرگ و برتر نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقے [اور مقابلے] کا میدان قرار دیا جس میں اللہ کی اطاعت کے ذریعے اس کی رضا و خوشنودی کمانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں؛ تو ان میں سے ایک گروہ سبقت لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور باقی لوگ کوتاہی اور خلاف ورزی کرکے گھاٹے سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہے کہ جس میں مخلوقات خدا کی اطاعت کے ذریعہ اس کی مرضی حاصل کرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایک گروہ سبقت لے کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور باقی لوگ کوتاہی اور قصور کرکے گھاٹے میں رہ جاتا ہے۔ تو حیرت ہے، بہت حیرت ہے ہنسے کھیلنے والے سے، اس دن جبکہ نیکوکاروں کو اجر و ثواب دیا جاتا ہے، اور قصور وار لوگ گھاٹا اٹھاتے ہیں، اور اللہ کی قسم! اگر پردے ہٹ جائیں تو بلا شک نیک انسان اپنی نیکیوں میں مصروف ہوجائے گا اور بدکردار شخص اپنی بدکرداریوں میں گرفتار نظر آئے گا"۔

4. جس دن خدا کی نافرمانی نہیں ہوگی، وہ عید ہے
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے کسی ایک عید کے دن فرمایا:
"إِنَّمَا هُوَ عِيدُ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَهُ وَشَکَرَ قِيَامَهُ وَکَّلَ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّهُ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ؛ (4)
یہ عید اس شخص کی جس کا روزہ خدا نے قبول فرمایا ہے، اور [خدا] اس کی نماز کا قدرداں ہے۔ اور جس دن اللہ کی نافرمانی نہیں ہوگی وہ عید کا دن ہے"۔

5۔ خوشی اور نیا لباس عید کا معیار نہیں ہے
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"لَيْسَ الْعِيدِ لِمَنْ لُبْسِ الْجَدِيدِ، إِنَّما الْعِيدِ لِمَنْ سَلِمَ مِنَ الْوَعِيدِ؛ (5)
عید سرور و شادمانی اور نیا لباس زیب تن کرنے والوں کے لئے نہيں ہے بلکہ بےشک عید اس شخص کے لئے ہے جو عذاب کی وعید سے اپنے آپ کو محفوظ کرے"۔

6۔ عیدوں کو تکبیر سے مزین کرو
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"زَيِّنُوا أَعْيَادِکُمْ بِالتَّکْبِيرِ؛ (6)
اپنی [تمام] عیدوں کو تکبیر (اللہ اکبر کہنے) سے زینت دو"۔

7۔ دو عیدوں کو تکبیر، و تسبیح سے مزین کرو
"زَيِّنُوا الْعِيدَيْنِ بِالتَّهْلِيلِ وَالتَّکْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ وَالتَّقْدِيسِ؛ (7)
عید فطر اور عید الضحی کو زینت دو تہلیل (وَلَا إِلَهَ إِلَاَّ اللّهُ)، تکبیر (اللّهُ أَکْبَرْ)، تحمید *(الحَمْدُ للَّهِ)، اور تقدیس (سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الملائکةِ وَالرُّوحِ یا سُبْحَانَ اللّهِ) سے زینت دو"۔

8۔ آخرت کی یاددہانی
امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے عید کے ایک خطبے کے ضمن میں فرمایا:
"أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وَآذَنَتْ بِوَدَاعٍ وَإِنَّ الْآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وَأَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وَإِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وَغَداً السِّبَاقَ وَالسَّبَقَةُ الْجَنَّةُ وَالْغَايَةُ النَّارُ أَ فَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِهِ قَبْلَ مَنِيَّتِهِ أَ لَا عَامِلٌ لِنَفْسِهِ قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِهِ أَلَا وَإِنَّکُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِهِ أَجَلٌ فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ نَفَعَهُ عَمَلُهُ وَلَمْ يَضْرُرْهُ أَجَلُهُ وَمَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهُ وَضَرَّهُ أَجَلُهُ أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ کَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ أَلَا وَإِنِّي لَمْ أَرَ کَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا وَلَا کَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا أَلَا وَإِنَّهُ مَنْ لَا يَنْفَعُهُ الْحَقُّ يَضُرُّهُ الْبَاطِلُ وَمَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِهِ الْهُدَى يَجُرُّ بِهِ الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى أَلَا وَإِنَّکُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ وَدُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وَإِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْکُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَطُولُ الْأَمَلِ فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا مَا تَحْرُزُونَ بِهِ أَنْفُسَکُمْ غَداً؛ (8)
اما بعد، یقینا دنیا اپنے وداع کا اعلان کر چکی ہے اور آخرت نے ہماری طرف رخ کیا ہے اور اس [آخرت] کے ہراول دستے نمایاں ہوچکے ہیں، اور یقینا آج کا دن تمرین، مشق اور تیاری کا دن ہے، اور کل مسابقت (اور مقابلے) کا دن۔ جیتنے والوں کی اجرت جنت ہے اور پیچھے رہنے والوں کی سزا دوزخ ہے۔ کیا کوئی ہے جو موت سے پہلے اپنی خطاؤں سے توبہ کرے؟ کیا ہے کوئی، جو قیامت کے نہایت دشوار دن سے پہلے نیک اعمال انجام دے؟ آگاہ رہو، اس وقت تم آرزؤوں اور خواہشوں کے زمانے سے گذر رہے ہو، جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے، تو جس نے آرزؤوں کے دن اور موت سے پہلے نیک اعمال انجام دیئے، وہ فیض یاب ہوگا اور موت اس کے ضرر نہيں پہنچائے گی، اور جس نے خواہشوں اور آرزؤوں کے دن، اور اجل کے آ پہنچنے سے پہلے، کوتاہی [اور غفلت] کی، گھاٹے میں رہے گا اور اس کی موت ضرر آور ہوگی۔ تو خبردار، خوشی اور کامیابی کے ایام میں ویسا ہی عمل کرو جس طرح کہ خوف اور شدت کے ایام میں عمل کرتے ہو، اور جان لو کہ میں نے جنت کی کی کسی چیز کو نہیں دیکھا جس کے خواہشمند خواب غفلت میں مبتلا ہوں، اور نہ ہی میں نے جہنم کی طرح کی کسی چیز کو دیکھا جس بھاگنے والے خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوں۔ اور یقینا جس کو حق نفع نہ پہنچا سکے، اس کو باطل نقصان پہنچائے گا، اور جس شخص کی راہنما ہدایت نہ ہو، گمراہی اس کو ہلاکت میں ڈال دے گی۔ آگاہ رہو کہ تمہیں کوچ کرنے کا فرمان دیا گیا ہے اور آخرت کا توشہ اکٹھا کرنے کی طرف راہنمائی پا چکے ہو [اور حجت تمام ہوچکی ہے]؛ اور میں تمہارے لئے جن خوفناک ترین چیزوں سے ڈرتا ہوں وہ دو چیزیں ہیں: نفسانی خواہشات کی پیروی اور طویل آرزوئیں۔ تو اس دنیا سے سفر خرچ اٹھا لو تاکہ کل [بروز حشر] اس کے ذریعے تم اپنی حفاظت کرسکو"۔

9۔ استکبار و استعمار کی مخالفت
عید فطر کو طاغوت کے خلاف جہاد کا دن بھی کہا جاسکتا ہے، اور اس روز نماز عید کے عظیم اجتماع کو مسلمانوں کی وحدت و یگانگت کی بےمثال نمونہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مؤمنوں کی باہمی محبت اور نفرتوں کا خاتمہ اس عید [نیز عید الضحی] کی برکتوں میں سے ہے اور ان ایام سے اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بےشک بیدار مسلمانوں کا اجتماع گھات لگائے اسلام دشمنوں کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور شیطان خوار و ذلیل ہوتا ہے۔ نماز عید کی طرف روانہ ہونے والے قافلے، اگر بصیرت اور بیداری کے وصف سے متصف ہوں تو یہ بذات خود استکبار اور طاغوت کے خلاف جدوجہد کے زمرے میں آئیں گے۔ نماز سے پہلے تکبیریں اور تسبیح و تہلیل و تقدیس، طاغوت کے لئے ایک ضرب سے کم نہیں ہے۔ دشمن تکبیر سے خائف ہے اور اگر ہماری تکبیر سے خائف نہ ہو تو ہم پر بےبصیرتی کا بجا الزام لگ سکتا ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب تکبیر سے شروع ہؤا اور تکبیر کی برکت سے کامیابی سے ہمکنار ہؤا اور آج صہیونیوں اور استکبار کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کا نعرہ بھی "اللہ اکبر" ہے جو دشمن کو لرزہ بر اندام کردیتا ہے۔

10۔ تکبیر مستحب ہے
مستحب ہے کہ روزہ دار نماز عید کے آغاز سے پہلے، چار نمازوں کے بعد چار تکبیریں کہے: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد۔ تکبیر کا مفہوم بت شکنی، طاغوت کا انکار اور طاغوت اور طاغوتیوں کی نابود اور مشرکین کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔ نماز سے پہلے تکبیریں اور حمد و شکر مستحبات میں شامل ہیں.
سعید النقاش نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا:
"أَمَا إِنَّ فِي اَلْفِطْرِ تَکْبِيراً وَلَکِنَّهُ مَسْنُونٌ" قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ "فِي لَيْلَةِ اَلْفِطْرِ فِي اَلْمَغْرِبِ وَاَلْعِشَاءِ اَلْآخِرَةِ وَفِي صَلاَةِ اَلْفَجْرِ وَفِي صَلاَةِ اَلْعِيدِ" ... قَالَ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ قَالَ "تَقُولُ: "اللّهُ أَکْبَرْ، اللّهُ أَکْبَرْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَکْبَرُ، اللّهُ أَکْبَرْ وَلِلّهِ الْحَمْدُ، اللَّهُ أَکْبَرُ عَلٰى ما هَدیٰنا وَلَهُ الشُّکْرُ عَلَٰى مَا اَبْلَانَا"، وَ هُوَ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: "وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّةَ (يَعْنِي اَلصِّيَامَ) وَلِتُکَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاکُمْ؛ (9)
فطر میں ایک تکبیر ہے جو کہ مسنون [یعنی مستحب ہے]؛ میں نے عرض کیا: اس کا وقت کونسا ہے؟
فرمایا: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد اور نماز عید (فطر) کے بعد۔ ۔۔۔
نقاش کہتے ہیں: میں نے عرض کیا، میں ان تکبیروں کی کیفیت کیا ہے؟
فرمایا: کہو: "اللّهُ أَکْبَرْ، اللّهُ أَکْبَرْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَکْبَرُ، اللّهُ أَکْبَرْ وَلِلّهِ الْحَمْدُ، اللَّهُ أَکْبَرُ عَلٰى ما هَدیٰنا وَلَهُ الشُّکْرُ عَلَٰى مَا اَبْلَانَا" اور یہ خدائے بزرگ و برتر کے اس قول کے معنی ہیں کہ: "اور یہ بھی کہ تم تعداد پوری کرو (یعنی روزوں کی) اور اللہ کی کبریائی [اور عظمت] کا اقرار کرو اس لئے کہ اس نے تمہیں سچا راستہ دکھایا۔ تم اللہ کی عظمت کے تقاضے کوپورا کرو"۔ (10)

11۔ روزہ داروں کی پاداشِ کا موقع
امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ حدیث:
*"إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ إِنَّ الْمَغْفِرَةَ تَنْزِلُ عَلَى مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ: يَا حَسَنُ إِنَّ الْقَارِيجَارَ (11) إِنَّمَا يُعْطَى أُجْرَتَهُ عِنْدَ فَرَاغِهِ وَذَلِکَ لَيْلَةُ الْعِيدِ، قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاکَ فَمَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْمَلَ فِيهَا؟ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاغْتَسِلْ وَإِذَا صَلَّيْتَ الثَّلَاثَ مِنَ الْمَغْرِبِ فَارْفَعْ يَدَيْکَ وَقُلْ:
حسن بن راشد کہتے ہیں: میں نے امام جعفر (علیہ السلام) سے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے والے پر مغفرت و بخشش شب قدر کو نازل ہوتی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اے حسن! یقینا مزدور کو کام سے فارغ ہونے پر اجرت دی جاتی ہے، اور موقع عید [فطر] کی شب ہے۔
میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں! تو ہمارے لئے اس شب کونسا عمل مناسب ہے؟
فرمایا: جب سورج غروب ہوجائے تو غسل کرو، اور جب مغرب کی تین رکعت نماز پڑھو تو اپنے ہاتھ اٹھاؤ اور کہہ دو:
"يَا ذَا المَنِّ، ذَا الطُّولِ، يَا ذَا الْجُودِ، يَا مُصْطَفِياً مُحَمَّداً وَنَاصِرَهُ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِي کُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتُهُ أَحْصَيْتَهُ عَلَىَّ وَنَسِيتُهُ وَهُوَ عِنْدَکَ فِي کِتَابِکَ"۔
اے صاحبِ احسان و عطا، اے کرم نواز! اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا منتخب کنندہ اور مددگار، درود بھیج محمد اور آپ کے خاندان پاک پر اور بخش دے مجھے ہر وہ گناہ جس کا میں نے ارتکاب کیا، تو نے تو اسے میرے لئے گنوایا مگر میں اسے بھول گیا جبکہ وہ تیرے پاس تیری کتاب میں ہوچکا ہے۔
وَتَخِرُّ سَاجِداً وَتَقُولُ مِائَةَ مَرَّةٍ: "أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ" وَأَنْتَ سَاجِدُ وَتَسْأَلُ حَوَائِجَکَ"۔ (12)
اور پھر سجدہ ریز ہوجاؤ اور 100 مرتبہ کہو: "أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ؛ (میں تیری طرف پلٹتا ہوں)"۔ اور اپنی حاجت روائی کی التجا کرو"۔

12۔ عید فطر، مسلمانوں کی بیداری کا جشن
امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ)، ایک مہینہ روزہ داری کے بعد عید فطر کو مہمانی کا جشن، الہی ضیافت اور وصال رب، نفس اور شیطان پر فتح یابی کا جشن اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں کامیابی حاصل کرنے کا جشن قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اسلام سیاست کا دین ہے، ایسا دین ہے جس کے احکام میں اور اس کے موقف میں سیاست بہ وضوح نمایاں ہے۔ ہر روز اسلامی ممالک کے شہروں سے دیہاتوں، قریوں اور قصبوں تک کی مسجدوں میں کئی مرتبہ جماعت کے لئے اجتماع [ہوتا ہے] ۔۔۔ ہر سال دو عیدیں ہیں، لوگ ان عیدوں میں اجتماع کریں اور ہر عید میں دو خطبے ہیں اور نماز ہے۔ اور ان خطبوں میں حمد اور رسول اکرم اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) پر درود و سلام کے بعد، سیاسہی پہلؤوں کو، معاشرتی پہلؤوں کو، معاشی پہلؤوں کو، ملکی ضروریات کو اور علاقائی ضروریات زیر بحث لانے کی ضڑورت ہے اور خطباء لوگوں کو مسائل سے آگاہ کریں"۔ (13)
"اس عید سعید اور اس مبارک عید فطر کے موقع پر میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو مبارک باد عرض کرتا ہوں۔ مبارک وہ دن ہے جب تمام اسلامی حکومتیں اور مسلم اقوام اکٹھے اور متحد ہوجائیں، یک صدا ہوجائیں اور سب مل کر، ایک ہی مقصد لے کر اسلام کو ہر جگہ زندہ کریں اور تمام اسلامی ممالک متحد ہوجائیں یہاں تک کہ وہ بڑی طاقتوں کے ہاتھ اپنے ممالک سے کاٹ کر رکھ دیں"۔ (14)

13۔ عبادت، بیداری، اتحاد اور یکجہتی کا دن
"عید فطر کا دن ان مواقع میں سے ایک ہے کہ جن سے مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور خوش قسمتی سے اسلام میں اس طرح کے مواقع بکثرت ہیں۔ یہ دن دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے عید ہے؛ ایسا دن ہے کہ مسلمین ایک ماہ روزہ داری، عبادت اور تذکر کے بعد، رحمت و نورانیت کے حصول کے لئے مستعدّ دلوں کے ساتھ، نماز اور مختلف اجتماعات کے واسطے سے، اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہ اسلامی دنیا کے لئے ایک سنہری موقع ہے، تمام اسلامی عیدیں اور اسلامی مواقع کو ہمارے لئے اس خصوصیت کا حامل ہونا چاہئے کہ ہم مسلمانوں کے دلوں کو باہم قریب تر کردیں۔ آج مسلمانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ اپنے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کریں"۔ (15)
...............
بقلم: فرحت حسین مہدوی / عید الفطر 1442۔ [1400ھ ش | 2021ء]
...............
1۔ الشيخ المفيد، الأمالي، ص232۔
2۔ علامہ کلینی، ج4، ص168؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج‏1، ص511، ح1478۔
3۔ شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقیه، ج1، ص512.
4۔ نہج البلاغہ، حکمت شمارہ 428۔
5۔ علامہ محمد تقی تستری، نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ، ج14، ص261۔
6۔ متقی ہندی، کنز العمال، ج8، ص546، ح24094۔
7۔ متقی ہندی، وہی ماخذ، ح24096۔
8۔ نہج البلاغہ، (دشتی) خطبہ نمبر 28۔
9۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص167۔
10۔ سورہ بقرہ، آیت 185۔
11۔ لفظ "قاریجار"، فارسی کے لفظ "کاریگر یا کارگر" کا معرب اور اس کے معنی مزدور کے ہیں۔
12۔ علامہ کلینی، الکافی، ج4، ص167-168؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص167-168؛ علامہ السيد ہاشم البحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج5، ص711۔
13۔ صحیفۂ امام خمینی، ج9، ص334-333۔
14۔ صحیفۂ امام خمینی، ج13، ص93۔
15۔ ملکی کارگزاروں سے رہبر انقلاب کا خطاب؛ مورخہ 6 دسمبر سنہ 2002ء