16 رجب 1443(ھ۔ ق) مطابق با18/02/2022 کو نماز جمعہ کی خطبیں
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین
اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا
اَمَا بَعدْ ۔۔۔
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی
محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔
ممنوعات اور حرام سے بچنا اور فرائض کی ادائیگی جسے دین کی زبان میں تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا و آخرت میں نجات کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
تقویٰ کی برکات میں سے انسان کو صحیح علم و معرفت، صحیح انتخاب، نیکی کی طرف بڑھنا، غیر متوقع رزق ملنا اور خدا کی طرف سے اعمال کی قبولیت شامل ہیں۔
مولائے متقیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں. اس میں کوئی دو رائے یا شک نہیں اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق بھی ہے کہ آپ اہل بیت میں سے ایک ہیں.
اور اللہ تعالی نے آپ کے پاک اور معصوم ہونے پر مہر لگا کر گواہی دی ہے کہ:
إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَکُم تَطهيرًا
رب ذوالجلال نے آپ کو معصوم اور ہدایت کرنے والا بنایا تاکہ تمام انسانوں اور مخلوقات پر حجت تمام ہو اور عقل و نقل کا ان کے حکم کے مطابق پیروی کرنا ضروری قرار دیا جائے. قرآن کریم نے امام کی قربانیوں کا اس طرح ذکر کیا ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ
اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضا جوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے
)سورة البقرة، آیة 207(
جب مشرکین مکہ پیغمبر اکرم محمد مصطفیٰ کے خلاف متحد ہو گئے اور ان کو قتل کرنے کی سازش کی اور جس رات کا تعین کیا اسی رات سب مل کر ان کے گھر پر آئے. لیکن اس سے قبل ہی امام علی علیہ السلام نے اس خطرے کو اپنے اوپر لے لیا،
اپنے آپ کو پیغمبر پر قربان کیا اور ان کی جگہ پر بالکل اس طرح سوئے کہ مشرکین و جاسوس متوجہ نہ ہونے پائیں اور یہ سمجھیں کہ پیغمبر اپنی جگہ پر سو رہے ہیں. اس قربانی سے پیغمبر خدا کو زیادہ وقت ملتا ہے تاکہ مشرکین سے نجات حاصل کر سکیں اور مکہ سے دور چلے جائیں.
پس جب مشرکین کا لشکر تمام ساز و سامان کے ساتھ پیغمبر کے گھر پر قتل کرنے کی نیت سے حملہ کرتا ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر کی جگہ پر علی سوئے ہیں اور پیغمبر یہاں سے نکل چکے ہیں تو اس طرح دشمنان اسلام کی سازشیں خاک میں مل جاتی ہیں.
حاکم نے مستدرک میں اس طرح لکھا ہے
شَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ، وَلَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَ، ثُمَّ نَامَ مَکَانَهُ
کہ علی نے اپنے جان کو بیچ کر پیغمبر کی جان کو بچایا اور پیغمبر کے لباس کو پہن کر پھر ان کی جگہ پر سو گئے.
نسائی اور احمد بن حنبل نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ:
لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَ لَا يَبْغَضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ
مومن کے علاوہ کوئی اور علی سے محبت نہیں کر سکتا اور منافق کے علاوہ کوئی اور علی سے دشمنی نہیں کر سکتا
اسد بن مالک نے روایت نقل کی ہے اور نسائی، ترمذی و حاکم نے اس کی صحت پر تاکید کیا ہے. فرماتے ہیں کہ میں پیغمبر خدا کی خدمت میں حاضر تھا اور دسترخوان پر کھانے میں ایک مرغ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی
اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِي هَذَا الطَّيْرَ
اے خدا اس ہستی کو لے آ کہ جو مخلوقات میں تجھے سب سے زیادہ پیارا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ اس مرغ کو کھالے. انس لکھتا ہے کہ میں انتظار کر رہا تھا کہ انصار میں سے کوئی آ جائے گا لیکن علی آ گئے.
میں نے ان سے کہا کہ پیغمبر اندر مشغول ہیں تو وہ واپس چلے گئے. اس طرح تین مرتبہ علی آئے اور میں نے اسی طرح انہیں واپس کر دیا کیونکہ میں انتظار کر رہا تھا کہ شاید انصار میں سے کوئی آ جائے گا.
لیکن جب آخری مرتبہ بھی علی ہی آئے اور دروازے پر دستک دی تو پیغمبر نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور علی اندر چلے گئے. پیغمبر نے علی سے پوچھا کہ کیوں میرے پاس نہیں آئے تھے تو علی نے جواب دیا کہ میں تین مرتبہ آیا لیکن ان سب نے کہا تھا کہ آپ مشغول ہیں تو میں واپس چلا گیا تھا.
اور اس طرح آخر کار امام علی نے پیغمبر خدا کے ساتھ مل کر وہ طعام کھایا.
حسکانی نے شواہد التنزیل میں جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے علی و آل علی (بیوی اور بیٹوں) کو اپنی مخلوقات پر اپنی حجت بنایا ہے. وہ اس امت میں علم کی ابواب ہیں اور جو بھی ان کی ذریعے سے ہدایت ہوا تو وہ راہ مستقیم پر ہدایت ہو چکا ہے.
إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ عَلِيّاً وَ زَوْجَتَهُ وَ أَبْنَائه حُجَجَ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ هُمْ أَبْوَابُ الْعِلْمِ فِي أُمَّتِي مَنِ اهْتَدَى بِهِمْ هُدِيَ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ
اور اسی طرح فرمایا کے سورج اور چاند زہرہ اور دو ستارے کہ جو قطب شمال میں ہیں اس کے ذریعے تم لوگ ہدایت ہو جاؤ تو پوچھا گیا کہ یہ لوگ کون ہیں، پیغمبر نے فرمایا کے خورشید میں ہوں اور جان علی و فاطمہ ہیں اور وہ دو ستارے جو قطب شمال میں ہیں وہ حسن و حسین ہیں.
خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،
برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔
اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ
|