۱۴۰۰/۶/۱۲   2:27  بازدید:973     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


25 محرم الحرام 1443(ھ۔ ق) مطابق با03/9/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینه و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالته سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیة اللہ فی الارضین و صل علی آئمه المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے، امور الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

مالک الموت نے کہا ہے کہ اے بندگان خدا! جانے کیلئے تیار رہو، پس تقویٰ اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوٰی ہی ہے۔

دوران حیات اپنے قلوب میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔

زندگی کے ہر لحظات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔

 

ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں۔

تمام مراجع عظٰام، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں۔

اما بعد۔۔۔

خداوند متعال، قرآن حکیم میں ارشاد فرما رہا ہے:

يُؤْتِي الْحِکْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا وَمَا يَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیر کثیر دیا گیا ہے اور صاحبان عقل ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔

(سورة البقرة، آیه 269)

 

یعنی دراصل حکمت جو کہنے میں کمال اور انجام دینے میں درستگی ہے۔ جیسا کہ خداوند متعال فرماتا ہے:

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَةَ أَنِ اشْکُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْکُرْ فَإِنَّمَا يَشْکُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے. (سورة لقمان، آیة 12)

 

حکمت و دانائی، ہمیں دنیاوی مواقع کا صحیح استعمال فراہم کرتے ہوئے، انسانوں کو پرسکون کرنے کی بنیاد ہے۔ حکمت یعنی جو ہمارے روح و بدن کی صفائی کر سکتی ہے اور سکون قلب و جسم کے آرام کا سبب بھی بنتی ہے۔

 

گزشتہ خطبے میں حضرت لقمان کی حکمت و دانائی کے حوالے سے کچھ مطالب پیش کیے تھے لہٰذا آج ان کو اور پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت لقمان بن عنقا بن سدون اور بیٹے کا نام ناران ہے۔

 ایک شخص حضرت لقمان کے سامنے کھڑا ہوا اور پوچھا کیا تم وہی لقمان ہو جو حسحاسی کا غلام ہوا کرتا تھا۔ حضرت لقمان نے جواب دیا ہاں۔ تو شخص نے کہا! اچھا تو تم وہی کالے چرواہے ہو؟ حضرت لقمان نے کہا کہ میرا سیاہ پوست ہونا تو واضح ہے لیکن تم کیوں میرے بارے میں اتنا تعجب کرتے ہو؟

شخص بولا، یہی کہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور تمہاری باتوں کو مانتے ہیں، حضرت لقمان نے کہا، میرے بھائی جن کاموں کے بارے میں تمہیں کہتا ہوں اس پر عمل کرو گے اور انجام دو گے تو تم بھی اسی طرح بن جاؤ گے۔ شخص نے کہا کون سے کام؟

 حضرت لقمان نے کہا کہ ناجائز حرکات سے آنکھیں بند رکھنا، اپنے زبان کی حفاظت کرنا، سچ بولنا، حلال، طیب و طاہر خوراک کھانا، اپنے آپ کو پلیدگیوں سے دورُرکھنا، اپنے وعدے پر وفا کرنا، امانتدار ہونا، مہمانواز بننا، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا اور جو کچھ تم سے مربوط نہیں ہے اسے چھوڑ دینا۔

پس جس آدمی میں یہ صفات کم ہوں گی وہ مجھ سے کم اور جس میں زیادہ ہوں گی تو وہ مجھ سے بھی بڑھ کر ہوگا اور جس میں میرے جتنا ہوگا وہ میرے جیسا بن جائے گا۔

 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

قسم ہے خدا کی کہ حضرت لقمان کو ان کی خوبصورتی، حسب و نسب اور بدنی طاقت کی وجہ سے حکمت نہیں ملی بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ کے لیئے صاحب ورع، صاحب تقوی اور پرہیز گار تھے۔

وہ بہت نرم، خاموش و بہترین فکر کے مالک، باریک بین اور عبرت سیکھنے و سکھانے والے تھے۔ وہ ہر کام میں گہری نظر اور احتیاط رکھتے تھے تاکہ کبھی بھی کسی قسم کے گناہ میں نہ پڑ جائیں۔

وہ کھبی بھی کسی پر ہنستے نہیں، کھبی غصہ نہیں کیا اور جب امور دنیا میں سے کوئی چیز حاصل ہوئی تو اس پر کھبی خوش نہیں ہوئے،

 اور اگر کبھی کوئی شے ان کے ہاتھوں سے نکل گئی یا حاصل نہیں ہوئی تب بھی ناراض و غمگین نہیں ہوئے۔

جب بھی دو لوگوں کو آپس میں لڑتا دیکھتے تو آپس میں صلح کرواتے اور انہیں واپس دوست بنا دیتے۔

جب کوئی بات سنتے اور اچھی لگتی تو ہمیشہ اس کی تفسیر پوچھتے اور یہ کہ بیان کرنے والے نے اسے کہاں سے سیکھا۔

فقیہ اور حکیم لوگوں کے پاس زیادہ بیٹھتے اور ان سے عبرت لیتے کہ کس وجہ سے وہ نفس پر غالب ہوا اور اپنے علم کے ذریعے اپنے ہوس کے ساتھ مقابلہ کیا،

 اور شیطان سے دوری اختیار کی۔ اچھا سوچنے سے اپنے دل اور اچھی عبرتوں سے اپنی جان کا علاج کیا۔ وہ کبھی کہیں نہیں جاتے مگر یہ کہ وہاں سے کچھ نفع ملے۔ بس انہی خصوصیات تقوی، پرہیز گاری اور خدا سے مخلصی کی وجہ سے انہیں حکمت و عصمت عطا ہوئی۔

خدایا پروردگارا! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔ ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے،

برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے،  امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا۔

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ  وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ  وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ